’’سامعہ ‘‘کا منفرد شاعر……ناصر ملک

’’وڈا آ یا تُوں شا عر! ملن کیو ں نیں آندا؟‘‘
یہ و ہ الفا ظ تھے جو مجھے فیس بک کے پرا ئیوٹ اَن بکس میں مو صول ہو ئے تھے۔الفاظ پڑھ کر دما غ میں اچا نک حیرت کی بجلی گر ی۔ پھر جب پیغا م بھیجنے وا لے کا نا م پڑ ھا تو میرے چہر ے پر مسکرا ہٹ پھیلتی چلی گئی۔مو صوف کا شرا رت کا اندا ز ِبے تکلفی کو ئی پہلی با ر نہ تھا ۔میں نے جو ا ب میں لکھا ’’جنا ب! جلد ہی ملنے آ ئیں گے۔ چا ئے بھی نو ش فر ما ئی جا ئے گی اور آ پ کو نئی کتا ب’’سا معہ ‘‘ کی مبا رکبا د بھی دی جا ئے گی۔جو ابی پیغا م مو صو ل ہو ا ،’’جلد آ یئے گا۔ کہیں میں بو ڑھا نہ ہو جا ؤں۔‘‘میں نے کہا،’’ جلدی آ ؤ ں گا۔اﷲ آ پ کو سدا جو اں رکھے۔‘‘

یہ پیغا ما ت تھے جو درجن بھر سے زیادہ کتا بو ں کے مصنف نا صر ملک صا حب نے مجھے بھیجے تھے۔بلا شبہ نا صر ملک کی شخصیت ادبی دنیا میں کسی تعا ر ف کی محتا ج نہیں ۔نثر نگا ر ی میں ان کے پاس او جِ کما ل حا صل کر نے کی معتبر اسناد بہ عنوان زادِسفر، تما شا ئے عشق، پتھر، جنت اورآتش زادجیسے زبان زدِ عام ناول ہیں جبکہ شعر ی میدان میں ان کی چھ تخلیقات داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ مجمو عی طو ر پر وہ 14کتا بو ں کی اد بی مالا دنیا ئے اد ب کو دے چکے ہیں۔’’سا معہ‘‘ اُن کی شا عر ی کی چھٹی اور مجمو عی طو ر پر چودھویں کتا ب ہے جو کہ اُن کے اٹھائیس سا لہ تخلیقی سفر کازادِ راہ ہے۔
 

image

’’سامعہ‘‘بصد شوق و تجسس ان سے وصو ل کی۔ گھر آ کر پڑھنا شرو ع کی ورطہءِ حیرت میں مبتلا ہو گیا ۔پو ر ی کتا ب میں مجھے ایک نیا نا صر ملک نظر آ یا۔جوان ،جذبا تی ،پُر جو ش اور محبو ب سے شکو ہ کنا ں۔ان کا یہ منفر د اور نیا رنگ پہلی با ر اَس آ ہنی لہجے وا لے شخص میں نظر آیا تھا جس سے ملتے ہوئے مجھے طویل عرصہ بیت چکا تھا۔اپنے آپ سے سوال کیا ،’’کیا نا صر ملک میں کوئی اور نا صر ملک سانسیں لیتا ہے؟‘‘……جواب ملا،’’ہاں! یقینا کوئی اور پرت موجود ہے۔‘‘

سامعہ !میں ’سا معہ‘ کو اگر اُن کی زندگی کا ایک مخصوص حصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ’یہ سوچ لینا‘ سے ’سامعہ‘ تک کا کربناک ،جاں گسل اور تھکا دینے والا سفرناصر ملک کو درپیش ہوا۔جب اس مسلسل اور طویل سفر کی بازگشت گونجتی ہے توان کی یہ نابغہ روزگار تخلیق قارئین کو دکھ،حیرت،کرب ،بے چینی ،بے قراری اور اذیت کے صحرا میں دھکیل دیتی ہے۔جو دکھ،حیرت ،تشنگی اوراحسا س نا صر ملک کی شا عر ی سے چھلکتا ہے، وہ قا ری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ سامعہ کا داخلی اور خارجی تاثر قا ر ی کے دل و دما غ میں رچ بس کر آنکھو ں کو نمناک اور بدن کو لرزہ بر اندام کر دیتا ہے۔وہ جنگ جیت کر بھی تنہا ہے۔ اپنی آ رزؤں ،جستجوؤں،خو ا ہشوں ،اور تمنا ؤں کی لا شوں کے بو جھ کو اپنے کندھو ں پر اُٹھا ئے ہو ئے ہے ۔سنسان ہتھیلیو ں سے ہو ا میں دو نو ں با زو ں پھیلا کر جب ’’سا معہ ‘‘ کو پکا ر تا ہے تو انا کا افتخا ر دھو اں دھواں ہو جا تاہے۔
اس تعفن میں تو سا نسیں بھی ہو ئی ہیں نا گو ار
آرزو کی لا ش آ نگن میں پڑ ی ہے لو ٹ آ
جیتے کے بعد بھی تنہا کھڑ ا ہو ں شہر میں
سا معہ! یہ بخت کی تیر ہ شبی ہے لو ٹ آ
پھر کہتے ہیں:
سنو ! اے سا معہ مجھ کو
تمہی نے آ بکھیر اتھا
تمہی آ کر سمیٹو گی

ان کے لہجے کی بے ساختگی اور داخلی بے بسی ان دو مصرعوں میں کتنی عیاں اور دل فگار ہے، دیکھیے:
سامعہ! لازم نہیں ہے تم مجھے سنتی رہو
میں تو مجبوری کے بولتا ہوں کیا کروں

نا صر ملک نے اپنے اندر صد یو ں سے مدفن نامراد اور نا مکمل در د اور لاچارگی کے زخم کو جو اندر ہی اندر نا سور کی شکل اختیا ر کر چکا تھا،کوبے دریغ صفحہءِ قرطاس پر اُتا ر دیا۔ بالکل ایسے ہی، جیسے صدیو ں سے سلگتی زمین بارش کے بعد اپنی آ غو ش سے بھڑا س نکا ل دیتی ہے۔
تہمتِ عشق نے مجبور کر دیا ورنہ
دا ستاں خو ن سے تحریر کہا ں تک ہو تی
شہر کا شہر امڈ آیا ہے پُر سا دینے
اور مرے درد کی تشہیر کہا ں تک ہو تی

ناصر ملک اپنے فطری بے تکلف لہجے میں معا شر تی افکار و اقدار کو گر یبا ن سے پکڑ کر جھنجھو ڑ تے ہیں اور اپنے تیکھے مزاج اور تُند و تیز لہجے میں معا شر ے کے مسخ شدہ بھیانک چہرے پر اپنے افکار کی انگلیوں کی چھا پ داغ دیتے ہیں۔وہ اندھی تقلید میں پڑے ہوئے پڑھے لکھے جا ہل طبقے کی روح بیداری کے کٹھن عمل میں بر سر بیکار نظر آتے ہیں۔روح کو جگا تے ہیں کہ جا گنے کا عمل زندگی ہے اور شعو ر ہے
زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ
موت کے سا تھ چلتا رہا مقبرہ
گھر گرے تو سبھی لو گ خا مو ش تھے
کتنے طوفاں اٹھے جب گرِا مقبرہ

جب رو ح میں بد نیتی کا زہر گھل جا ئے اور ضمیر سو جا ئے تو ڈھو ل بجانے سے بھی بیدار نہیں ہو تا ۔ ہاں مگر شعور کی تحریرو تقریر کی ہلکی سی سرگوشی اُسے بلبلا کر جاگنے پر مجبو ر کر دیتی ہے۔شعو رِ آ گہی کا جام پی جا نے کے بعد نا صر کے ہا ں شعر ی محا سن میں اتنی طا قت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اشعا ر کی پھو نک سے دوسروں کے مردہ ضمیروں میں زندگی کی طلب پیدا کر دیتے ہیں۔لا کھو ں کرو ڑوں اذہا ں کی زنگ آ لو د سوچوں کے زنگ کو کھر چ کھرچ کر اتا رنے کے عمل کو وہ بڑجانفشانی اور پُر عزم طر یقے سے کر تے ہیں۔وہ مسندِ اقتدار پر بیٹھے مصنو عی روشن چہر و ں کے پیچھے چھپے مکر وہ اور سیا ہ چہرو ں کی پہچان کرانے کی سعی کر تے ہیں۔
منظر پہ کو ئی ، زیرِ زمیں اور کوئی ہے
اس دیس میں اب تخت نشیں اور کو ئی ہے
دستار سجائی تو گئی ہے مر سر پر
مقتل میں مگر فتح مبیں اور کوئی ہے
سدا دھرتی لہو پیتی رہی ہے ہم غریبوں کا
مگر رہبر بھی اب خوں میں نہائیں گے ، یہی ضد ہے

زندگی اور غر یب کا آ سیب زدہ چہر ہ بھیا نک خو ا ب بن کر اکژ نا صر ملک کو ما ضی کے دھندلکوں میں دھکیل دیتا ہے۔جہاں وہ معصو م بچے کی طر ح اندھیرے کمر ے کی نکڑ میں دم سا دھے بیٹھ جا تا ہے۔زندگی کی خو ش خرامی کے ہاتھ میں چھپے ہوئے زہرآ لو د خنجرکو اُس کی آ نکھ دیکھ سکتی ہے۔زندگی چیز ہی ایسی ہے۔ دینے پر آ ئے تو بے حساب دیتی ہے اور جب چھیننے پر آ ئے تو انگلیاں تک کا ٹ لیتی ہے۔
میں غلط کہہ گیا روانی میں
زندگی خوش خرام ہوتی ہے
٭
کیو ں تو کہتی تھی مجھے خاک بسر
زندگی تیرا بھی گھر بار نہ تھا
٭
زندگی کیوں اجاڑ دی ناصر
باپ ترکے میں دے گیا تھا کیا

اس میں کو ئی شک نہیں کہ پو ری کتا ب شا عر ی کے نئے تجر با ت سے ما لا ما ل ہے ۔بحو ر کی با ت کر یں یا قوا فی کی، اوزا ن کی با ت کر یں یا ردیف کی، ہر نوع کے لحاظ سے ’’سا معہ ‘‘سے سو چ کے نئے زاویے پھو ٹتے دکھائی دیتے ہیں۔نا صر ملک نے مستعمل اوزا ن، قوافی، ردیفیں اور بحو ر سے ہٹ کر نئے تجر با ت کر نے کی کو شش کی گئی ہے جو میر ی نا قص رائے کے مطا بق کامیا بی سے ہمکنا ر ہو ئی ہے۔مثلاً چا ئے پیجئے، نہیں بھی ہے، بچھڑ جا ؤ،مجھے دیکھ، مقبرہ، ختم کیجئے،ہجر کو…… یہ ایسی ردیفیں ہیں جو دا د حا صل کیے بنا قاری کو کتا ب کا صفحہ پلٹنے نہیں دیتیں۔اس کے علا وہ سا معہ کے نا م خطوط بھی اپنے اندر بہت معنو یت رکھتے ہیں۔ بلا شبہ یہ فنی اعتبا ر سے اعلیٰ ادبی فن پا رے ہیں۔نا صر ملک نے شعر ی محا سن کو نئے اندا زِفکر سے رو شنا س کراتے ہوئے اپنے آ پ کو نقا د اور تنگ نظر معا شر ے کے حوا لے کر دیا ہے ۔ یہ جا نتے ہو ئے بھی کہ ایسے تجر با ت کا خراج کبھی کبھار تلخ تجزیا ت کے سا تھ دینا پڑتا ہے مگر اُن کا ارا دہ مضبو ط ہے۔ وہ اپنے آ پ کو آ زما ئش کی کٹھا لی سے گزا رنے کے لیے تیا رہیں۔اپنے وسیب کی محبت اوراس کی نیک نامی کیلئے نا صر ملک رو اں دواں رہتا ہے اور کبھی نہیں تھکتا ۔

میں ہمیشہ کی طر ح اُن کے لئے دعا گو ہو ں اور میری دعائیں سدا اس کے ہنر کا احاطہ کرتی رہیں گی۔نا صر ملک کے انہی اشعار کے سا تھ اختتا م چاہو ں گا۔
یہ جسم دہکتے ہو ئے سو رج کے حوا لے
یہ پیڑ پر ندوں کے لئے چھوڑ رہا ہو ں
٭
دھرتی سے تعلق پہ ندامت نہیں ناصر
اس خا ک میں اترا ہو ں تو اوپر کو اٹھا ہو ں
Imran Ashir
About the Author: Imran Ashir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.