بین الاقوامی امن

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سیکولرازم کے خونین وانسانیت دشمن ہاتھوں سے چکناچورہواعالم انسانیت کاایک خواب
(International Day of Peace)
(21ستمبر،اقوام متحدہ کے عالمی یوم امن کے موقع پر خصوصی تحریر)

امن و امان اس کائنات کی ریت اور اس عالم کی سنت ہے۔پوری کائنات ایک منظم وجکڑے ہوئے نظام کے تحت مکمل امن و سکون سے متحرک ہے،کائنات کے کل اجسام ایک مقررضابطے کے پابند ہیں اور اپنے اپنے طے شدہ وقت کے مطابق طلوع و غروب اور نمودار و پس پردہ آتے جاتے رہتے ہیں۔پوری کائنات میں کوئی بگاڑ دیکھنے کو نہیں ملتا،سورۃ ملک میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ﴿۶۷:۳﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیْرٌ﴿۶۷:۴﴾( جس اﷲتعالی نے تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے ،پھر پلٹ کر دیکھوکہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتاہے ؟؟؟بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کرنامراد پلٹ آئے گی) ۔ اس نظام کے تمام کل پرزے اپنے ذمے لگائے گئے کام سے مکمل آگاہی کے بعد کسی تردد و انتشار کے بغیراپنے مناصب و ذمہ داریوں سے ایک تسلسل کے ساتھ نبرآزما ہوتے چلے جارہے ہیں۔کل کائنات میں بے شمار تضادات کے باوجود کسی طرح کا ٹکراؤ ناپید ہے اورکائنات کے کل اجزا اپنے متضاد سے ایک طرح کی مصالحت کیے ہوئے نظر آتے ہیں،روشنی اور اندھیرا،مشرق اور مغرب،قوت کشش اور قوت دفع،بہت بڑے بڑے اجسام اور بہت چھوٹے چھوٹے جرسومے ،ہریالی و خشک سالی اورنہ جانے ان گنت تضادات ہیں جومل کر اس کائنات کے امن و سکون کو پروان چڑھائے چلے جارہے ہیں۔

انسان کی جائے قرار،اس سیارہ زمین پر بے شمار دیگر مخلوقات بھی اپنا عرصہ حیات پوراکرنے میں مگن ہیں۔ان مخلوقات میں بھی امن و آشتی اور ایک نظم مسلسل نظر آتا ہے،اگرچہ انسان کے پیمانوں کے مطابق دیگرمخلوقات کے ہاں کچھ بگاڑ دیکھنے کو ملتاہے لیکن بنظر غائر مشاہدہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ بگاڑ بھی دراصل زمین کی انتظامیات میں توازن کے قیام کا منبہ و مظہرہے۔قدرت کے پیمانے انسان کی پیمائش سے یک گونہ مختلف پائے گئے ہیں،پس بظاہرنظرآنے والا بگاڑ و انتشار دراصل امن الارض کے بقاکا ضامن ہے اور اب تو مشاہدہ برمبنی انسانی تحقیقات بھی اس رازتک پہنچ چکی ہیں ۔پھر جانوروں کی فطرت پر بنی کتنی ہی کہانیاں انسانوں کے بنیادی اخلاق کے دروس میں ممدومعاون ہیں اور بہت ہی اوائل عمری میں بچوں کواس طرح کی کہاوتیں سناکر انہیں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرایا جاتا ہے۔پس کل کائنات کی طرح س زمین پر بھی غیرانسانی مخلوقات ایک امن کی حامل زندگی گزاررہی ہیں اور ان کی زندگی میں بھی صدیوں سے ایک تسلسل و قراراور توازن پیہم کارفرماہے ۔یہ امن وآشتی ان مخلوقات کی زندگیوں کو ایک باضابطہ اور بامقصدحیات کا عنوان عطاکرتے ہیں جس کے باعث کوئی مخلوق تو زمین پر ہواؤں کی مقدارکو متوازن رکھتی ہے تو کوئی مخلوق پانیوں کو قابل استعمال بناتی ہے تو کچھ زندہ جرثومے سطح آب پر آلودگی کو کناروں پر دھکیلنے کافریضہ سرانجام دیتے ہیں اوراگر نباتات پر نظر ڈالی جائے توانسانی دسترس نے قدرت کے بنے توازن اگر برقرارکھاہے توکچھ حاصل بھی کیاہے بصورت دیگر انسان نے اس توازن کو بگاڑ کر کتنے ہی نقصان اٹھائے ہیں اور اپنی نسلوں کو ہی زہر آلود کر ڈالاہے ،تو یہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔

کل کائنات اور کرہ ارض کی دیگر مخلوقات کے علی الرغم انسان کی زندگی میں بگاڑوانتشارکانہ ختم ہونے والا ایک تسلسل ہے جو ہابیل کے قتل سے آج تک نہ صرف یہ کہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہا بلکہ بڑھتاہی چلاجارہاہے۔وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے ارتقاء میں جہاں جہاں جتنا جتنا اضافہ ہوتاہے تباہی و بربادی میں بھی اسی نسبت سے یا اس سے بھی زیادہ بڑھوتری میں ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ زمین ظلم سے بھرتی چلی جارہی ہے۔زمین کے داخلی اور خارجی ماحول کاانسان کے ساتھ آخر کہاں ٹکراؤ ہے کہ جس کے نتائج ایک دوسرے کے بالکل برعکس نظر آنے لگے ہیں؟؟؟اس کا صاف،واضع اور بہت ہی سادہ سا جواب ہے کہ باقی مخلوقات اپنے مالک کے حکم سے سرموچوں و چرانہیں کرتیں اور اپنے ذمے لگے ہوئے کام کو تندہی سے اداکرتی ہیں اور امن و آشتی کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ انسان کے ساتھ معاملہ یکسر مختلف ہے۔حضرت انسان کی زندگی میں امن کے نابود ہونے کی واحد وجہ ہی یہی ہے کہ اس نے اپنے مقام کو فراموش کر کے تو اپنے مالک کامقام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور عبد کی بجائے معبودبن بیٹھاہے جس کے نتیجے میں انتشار،بگاڑاور ظلم و تعدی نے انسانی بستیوں میں گھرکر لیاہے اور امن عالم ایک سراب بن کر رہ گیاہے۔قرآن مجید نے ہر نبی کے مقابلے میں ایک فرعون کے کردارکو پیش کیاہے اور جس طرح آج تک انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات موجود اور ان کے جانشین متحرک ہیں اسی طرح آج تک فرعون کاکردار بھی موجود ومتحرک ہے اور قرآن نے اس کردارپر سورۃ بقرہ میں تبصرہ کیاہے:وَ اِذَا تَوَلَّی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَ یُہْلِکَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿۲:۲۰۵﴾(ترجمہ:جب اسے اقتدارحاصل ہوجاتاہے توزمین میں اس کی ساری دوڑدوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فسادپھیلائے ،کھیتوں کوغارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالانکہ اﷲتعالی فساد کو ہر گزپسندنہیں کرتا)۔

آج کا سیکولرازم بھی ماضی کے فرعون کا کردار اداکررہاہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے سینکڑوں سال قبل یہ حقیقت طشت ازبام کر دی تھی کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴿۲:۱۱﴾ اَلآَ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ﴿۲:۱۲﴾(ترجمہ:’’جب کبھی ان سے کہاگیا کہ زمین میں فساد برپانہ کرو تو انہں نے یہی کہاکہ ’’ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘۔۔۔خبردارحقیقت میں یہی لوگ فسادی ہیں مگرانہیں شعور نہیں ہے‘‘)۔سیکولرازم کے آغاز سے آج تک انسانوں کے بیوپاری اور خون کی ہولی کھیلنے والوں کی زبان پر انسانیت کے دعوے اور امن عالم کی قراردادیں اس آیت کی حقانیت پردال ہیں۔پوری دنیاپر پر غلامی مسلط کرنے والا،حبشی انسانوں کی منڈیاں لگانے والا،جمہوریت کے نام پر غداروں کا پروردہ ،دنیابھر سے نوادرات لوٹ کر اپنے عجائب گھروں کی زینت بنانے والا ،غریب اقوام عالم پر سود جیسی لعنت کو مسلط کرنے والا،فرد کاطوق غلامی قوموں کی گردنوں میں ڈالنے والااور دو بڑی بڑی جنگوں کی تباہی کے بعد اسلحے کی بدترین دوڑ لگانے والاایٹم بم،نیوٹران بم اور ہائڈروجن بم کا حامل سیکولرازم آ ج کل انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے عالمی یوم امن منانے چلا ہے۔گزشتہ صدی کے آغاز اور وسط اول میں پہلی جنگ عظیم کے دوران دو کروڑ انسان لقمہ اجل بنے،تین کروڑ زخمی ہوئے اور چار کروڑ لاپتہ ہوگئے،دوسری جنگ عظیم کے دوران تین کروڑ انسان موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے،چار کروڑ زخمی ہوئے اور پانچ کروڑ نفوس انسانی کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکااور املاک کی تباہی اورکل زمین پر کاروبار زندگی کی تباہیوں بربادیوں کا تو تو کوئی تخمینہ ہی نہیں اور ان جنگوں کاایک مقصد برطانیہ نے بیان کیا کہ چھوٹے ملکوں کی آزادی مطلوب تھی اور بس۔سیکولرازم کی ’’خدمات انسانی‘‘میں لاکھوں سے کم کاتو کوئی ہندسہ ہی نہیں،انقلاب فرانس ہو یا روسی بالشویک انقلاب یاہندوستان سمیت کسی بھی کل نوآبادیات میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے اعدادوشمار ہوں یا پھر اس سیکولرازم کے ہاتھوں بنی پردہ اسکرین پر دکھائی جانے والی فلمیں ہوں ،سوائے تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کے انسانیت کویہاں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا۔

اس کے مقابلے میں محسن انسانیت ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں کل اٹھارہ جنگوں میں حصہ لیاجو اپنی حیثیت میں مکمل طور پر دفاعی نوعیت کی حامل تھیں اور غزوات و سرایا جن کی کل تعداد اکیاسی(81)ہے ان میں مسلمان اور غیر مسلم کل مقتولین کی تعداد1018ہے،اس کے بعد کم و بیش ایک ہزار سالوں تک مسلمانوں نے تاشرق و غرب پوری دنیاپر حکومت کی ہے،یہ ایک ہزار سالہ دور امن کے حوالے سے انسانیت کا اثاثہ عظیم ہے۔اس پورے دورانیے میں بڑی قوموں نے چھوٹی قوموں پر تہذیبی،تعلیمی،دفاعی یا معاشی غلامی مسلط نہیں کی۔ہرقوم اپنی زبان بولتی تھی اور اپنا مقامی یا قومی لباس پہنتی تھی،ایک ہزار سال طویل دورانیے میں کہیں عرب یا غیرعرب حکمرانوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو عجمی مسلمانوں پر یا غیرمسلموں پر مسلط نہیں کیا۔اس طویل ترین دورانیے میں کوئی جنگ عظیم نہیں ہوئی،اقتدار کی تبدیلی کے لیے اس دوران آسمان نے کہیں لاکھوں انسانوں کے خون سے مستعار انقلابات کی خونین تاریخ رقم نہیں کی،اسلحے کی دوڑاور سود کی نحوست سے اس دورانیے کا مورخ نابلد ہے،ان ایک ہزار سالوں میں حقوق جمہوریت کے نام پر کہیں بھی انسانی طبقوں کو باہم دست و گریبان نہیں دیکھاگیابلکہ اسلامی تہذیب نے فرائض کے نام پر معاشرے کے کل طبقات کو باہم جمع کر دیا۔پس امن عالم کا خواب آج بھی انہیں تعلیمات سے ممکن ہے جو خاتم النبیین ﷺنے پیش کیں اور ان پر عمل کر کے بھی دکھایا،خطبہ حجۃ الوداع وہ قیمتی ترین دستاویز ہے جس کے الفاظ سلسبیل اور کوثرجیسے چشمہ ہائے فردوس کے پانیوں سے گویا لکھے گئے گئے ہیں،اس دستاویزکو ہی منشور انسانیت بنانے سے امن عالم کاخواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا،انشاء اﷲ تعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 578293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.