جنسی بے راہ روی

جو حکمران معاشرہ میں پھیلنے والی جنسی بے راہ روی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو نہ روک سکیں انہیں حق حکمرانی کا بھی کوئی احتیار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم مجموعی طور پر ایسے معاشرہ میں رہ رہے ہیں جہاں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ کسی کا مال یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور چور بازاری کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے ہم آج بھی اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ایک تھانیدار کے ساتھ تعلق پورے گاؤں میں عزت واحترام کی وجہ بن جاتا ہے جبکہ کسی اعلی منصب دار کے ساتھ کھڑے ہو کر کھنچوائی جانے والی تصویر تو ہمیں زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیتی ہے جسے ہم ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں اور پھر اکثر بہانے بہانے سے اپنے ملنے والوں کو دکھا کر اپنا جھوٹا وقار قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہم بطور قوم نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ہم خود کوئی اچھا کام کر نہیں سکتے اور دوسرے کے اچھے کام کیے ہوئے ہم اپنی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر بڑے آدمی کے ساتھ بنوائی گئی تصویر ہم دوسروں کو دکھا کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بندہ آج میری وجہ سے یہاں تک پہنچا ہے خاص کر دیہات ،قصبہ جات اور چھوٹے شہروں میں یہ بیماری اتنی عام ہوچکی ہے کہ اب اسکا علاج نہ ممکن ہو چکا ہے ہمارے اندر پیدا ہونے والی خامیاں آج اتنی مضبوط نہ ہوپاتی اگر ہمارے حکمران اچھے ہوتے کمیشن کے چکر میں ملک کا بیڑہ غرق نہ کرتے مفاہمت کی سیاست کی آڑ میں ملک کو کنگال نہ کرتے اور دہشت گردی کی آڑ میں ملک کو گروی نہ رکھتے تو آج ہم بھی اخلاقی اور مالی طور پر ایک مضبوط قوم بن چکے ہوتے مگر اس ملک پر جاگیر داروں اور سیاسی وڈیروں کے قبضہ سے قوم سیاسی اور ذہنی پسماندگی کی گہرائیوں میں گرتی چلی گئی انہی حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہماری بیوروکریسی نے بھی عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے آج اگر کوئی غریب خاندان کا بچہ کسی اعلی عہدے پر پہنچتا ہے تو وہ بھی انہی کا حصہ بن کر نہ جانے اپنی کن محرومیوں کا بدلہ لینا شروع کردیتا ہے اور پیسہ کمانے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اس کا وہ بھی حصہ بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہواہوتا ہے آجکل ملک میں جنسی بے راہ روی کے حوالے سے بہت سی خبریں سننے کو مل رہی ہیں اور شائد ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہوگا جب یہ واقعہ رونما نہ ہو ا ہو سرکاری عداد شمار کے مطابق پچھلے سال ملک بھر میں تقریبا ساڑھے 12 ہزار سے زائد بچے اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی جن میں سے تقریبا ایک ہزار معصوم جانیں اس بہیمانہ اور مکروہ کام کے دوران ضائع ہوگئی اور یہ بیماری ہمارے معاشرہ میں اس قدر تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے جتنی تیزی سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور اس برائی کے پھیلنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ آج انکے ہی اہلکاروں کی بدولت فحاشی بڑے بڑے علاقوں سے نکل کر گلی محلوں میں پہنچ چکی ہے اور تو اور سکول کالج کے بچوں کی جیبوں میں موجود ہے اور یہ سب کچھ چھپ چھپا کر نہیں بلکہ سرے عام ہو رہا ہے اب تو گلی محلوں،بازاروں میں موجود موبائل کی دوکانوں میں فحش سی ڈی اور موبائل کلپس عام دستیاب ہیں اور یہ اتنے سستے ہیں کہ ایک بہت ہی غریب بچہ بھی اسے اپنے موبائل میں رکھ سکتا ہے جبکہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی آمد کے ساتھ ہی فحش سی ڈی کے کاروبار میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے ایک محدود اندازے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ہر روز لاکھوں فحش سی ڈیز فروخت ہورہی ہیں اور ان سب کی فروخت کے بعد جو رزلٹ آئے گا وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور انہی فحش موبائل ٹوٹے اور سی ڈی کو دیکھ کر ایک اچھے بھلے انسان وحشی درندے بن کر اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے معصوم بچوں سے زیادتی کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر حکومت ان ملزمان کو پکڑنے کے لیے کاروائیاں شروع کردیتی ہے جبکہ اصل ملزمان ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں اگر حکومت نے ایسے کاموں کی روک تھام کرنی ہے سب سے پہلے کرپٹ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کروائیں جائیں جن کی موجودگی سے ایسے کام ہورہے ہیں اب تو سرعام فحش سی ڈی 15روپے سے لیکر 50روپے تک فروخت ہورہی ہیں اور بیچنے والے بغیر کسی خوف وخطرہ کے یہ کام کررہے ہیں اگر کسی کو کوئی شک ہو تو وہ کسی بھی سی ڈی کی دوکان سے جاکر طلب کرسکتا ہے جب تک یہ کام نہیں رکے گا اس وقت تک جنسی زیادتی کے یہ کام بھی نہیں رکیں گے اور پھر ہم بعد میں ان واقعات پر لکیر کے فقیر بن کر کاروائیاں ڈالتے رہتے ہیں حکومت کوچاہیے کہ جس علاقہ میں فحش سی ڈی یا کوئی جنسی زیادتی کاواقعہ رونما ہو وہاں کے ایس ایچ او پر مقدمہ درج کر ے اور اگر اس سے بھی بڑھکر کوئی جرئات و بہادری کا کام کرنا ہو تو پھر حکومت خود اپنے خلاف کاروائی کا سوچے کیونکہ انہی کی نااہلی کی وجہ سے آج معاشرہ میں بے راہ روی عام ہوچکی ہے ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 803 Articles with 532039 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.