سقوط حیدرآباد کے اثرات اور تلنگانہ

17 ستمبر 1948ء کو ملک میں سات سو سالہ اسلامی حکومتوں کی آخری نشانی آصفجاہی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح تاریخ کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ تاریخ کے اس عظیم المیہ کو دیکھنے والے بلکہ اس سے دوچار ہونے والے دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں آج بھی موجود ہیں۔ سقوط حیدرآباد کے پس منظر، ظاہر ہونے والے اور کھل کر سامنے نہ آنے والے اسباب و عوامل اور دیگر واقعات سے عام طور پر سب ہی واقف و آگاہ ہیں۔ اس لئے اس کے قطع نظر سقوط حیدرآباد کے اثرات اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تاریخی تبدیلیوں اور ان کے بارے میں ’’تلنگانہ ‘‘ کے حوالے سے چند اہم باتوں کا ذکر مناسب ہے۔

تلنگانہ کا آصف جاہی سلطنت سے ہی نہیں بلکہ اس کی پیشہ و تمام سلطنتوں سے گہرا تعلق رہا ہے اور جب قطب شاہی دور میں (زائد از چار سو سال قبل) شہر حیدرآباد وجود میں آیا تو حیدرآباد نہ صرف تلنگانہ بلکہ صوبہ دکن کا صدر مقام بھی رہا ہے کیونکہ آصف جاہی سلطنت کا تلنگانہ کلیدی حصہ رہا ہے۔ اس لئے آصفجاہی سلطنت کے خاتمے کا اثر سب سے زیادہ تلنگانہ پر پڑا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علاحدہ تلنگانہ کے قیام کی تحریک کی وجوہات میں سقوط حیدرآباد کے اثرات بھی شامل ہیں۔

سقوط حیدرآباد (جس کو پولیس ایکشن) کہنا ایک عظیم غلطی ہے کیونکہ حیدرآباد کو فتح کرنے کے لئے ریاست پر ہندوستانی افواج نے بھر پور جملہ پوری فوجی طاقت سے کیا تھا۔ اس میں پولیس کا کوئی دخل نہ تھا۔ حکومت ہند نے اس کو پولیس ایکشن کہہ کر ایک عالم کو دھوکا دیا تھا اور گمراہ کیا تھا) کا سب سے بڑا سیاسی اثر یہی نہیں تھا کہ ہندوستان کے نقشے سے ایک آزاد وخود مختار مملکت غائب ہوگئی۔ حضور نظام عثمان علی خاں مرحوم کی حکومت کے خاتمہ سے ریاست میں اسلامی تہذیب و تمدن ہی نہیں ہندووں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب جس پر نہ صرف اسلامی تہذیب بلکہ اردو زبان کا رنگ غالب تھا (اسے اردو تہذیب بھی کہا جاسکتا ہے) کا خاتمہ ہوا۔ ریاست کے عوام (مسلمان خاص طور پر اور غیر مسلم عام طور پر) اچانک بااختیار سے بے اختیار یا صاحب اقتدار سے ’’محروم اقتدار‘‘ ہوگئے۔ حیدرآباد کے لئے ’’کچھ نہ رہا باقی‘‘ والی بات صحیح ہوگئی۔ ریاست کی انتظامیہ کو فاتح جنرل جے این چودھری نے معطل یا مفلوج کرکے اعلیٰ عہدوں پر حیدرآبادیوں کی جگہ بیرون ریاست سے عہدیداروں کو بلایا گیا۔ اس عمل نے ہی واضح کردیا کہ حکومت ہند کی انتظامیہ اور افواج نے حیدرآباد کو مفتوحہ علاقہ سمجھ کر اقدامات کئے۔ حیدرآباد سے مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ حیدرآبادیوں کا اقتدار ختم ہوا تھا۔ کم از کم سقوط کے فوری بعد یہی احساس ہوتا تھا۔ 1956ء کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔

حیدرآباد کے سقوط کے بعد ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے حیدرآباد کے مسلمانوں پر جو بیتی وی ایک درد ناک داستان ہے۔ مسلمان شدید مایوسی، ناامیدی، دل شکستگی کا شکار ہوگئے۔ ماحول پر خوف، دہشت اور ہراس طاری تھا۔ لفظ ’’رضاکار‘‘ سب سے بڑی گالی رضاکارہونا سب سے بڑا ناقابل معافی جرم تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رضا کاروں کے خلاف ہندوستان کے اخبارات اور آل انڈیا ریڈیو نے اتنا زبردست جھوٹا پروپنڈہ کیا تھا کہ ’’رضاکار‘‘ کا تصور ہی بھیانک تھا جیسا کہ بعد میں تسلیم کیا گیا کہ رضا کاروں کی وردی میں ملبوس ہوکر ریاستی کانگریس کے غنڈہ عناصر اور دہشت گرد کمیونسٹوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ریاست میں قتل ، لوٹ مار، آتش زنی، تخریب کاری کا بازار گرم کیا گیا اور سارے الزامات رضاکاروں پر لگائے گئے۔ اس کا بدلہ مسلمانوں سے دل کھول کر لیا گیا جس کو چاہا رضاکار کہہ کر گرفتار کرلیا، ملازمت سے الگ کردیا مال و جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کرلیا گیا۔ سقوط کے کئی سال بعد بھی مسلمان عہدیداروں پر رضا کاروں کا ہمدرد اور مدد گار ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا تھا۔

مسلمانوں کی معیشت کی تباہی سقوط حیدرآباد کا سب سے اہم اور تباہ کن اثر تھا۔ بے شمار اردو داں (مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی) بے روزگار ہوگئے کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت ملازم پیشہ (وہ بھی ملازمت سرکاری) اس لئے ملازمتوں سے محروم ہوکر مسلمانوں میں بیروزگاری عام ہوگئی۔ دیہاتوں اور اضلاع کے قصبات او ر تعلقوں میں مسلمان کا ذریعہ روزگار سرکاری ملازمت کے علاوہ معمولی سی کھیتی باڑی یا معمولی تجارت تھا۔ زمینات اور جائیدادوں پر ناجائز اورغاصبانہ قبضوں ، گھریلو صنعتوں کے کارخانوں بلکہ ورکشاپس اور دکانوں کی لوٹ مار سے تباہی آتشزنی یا غاصبانہ قبضوں کی وجہ سے بے روزگاری عام ہوگئی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آلوین فیکٹری یعقوب سیٹھ کی گلوکوز بسکٹ پر حکومت نے قبضہ کرکے سرمایہ دار مسلمانوں کو تک بھاری نقصانات پہنچائے گئے۔ پاکستان جانے والے کی جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لے کر پاکستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو الاٹ کرنے کا کام محکمہ ’’کسٹوڈین‘‘ کرتا تھا جو اصحاب اپنی جائیدادیں مکانات اور دکانات اپنے رشتہ داروں کے حوالے کر گئے تھے ان کی جائیدادیں محکمہ کسٹوڈین نے ضبط کرلیں۔ ظلم کی انتہاء تو یہ تھی کہ موروثی جائیداد کے مالک پانچ بھائیوں میں کوئی ایک پاکستان گیا اور اپنا حصہ بھائیوں کو باقاعدہ قانونی تقاضوں کے مطابق منتقل کرکے جانے کے باوجود ان کی جائیداد پر کسٹوڈین نے قبضہ کرلیا اس طرح بے شمار مسلمان یہاں رہتے ہوئے بھی اپنی ہی جائیدادوں سے محروم ہوگئے۔ ان سب دھاندلیوں اور مظالم کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی معیشت تباہ ہوگئی کئی لوگوں نے جائیدادیں اونے پونے بیچ کر مستقبل کی غربت و افلاس مول لیا۔

مسلمانوں کی معیشت کی تباہی کی ایک وجہ جاگیرداروں اور منصب داروں کی جاگیرات اور منصبوں کا خاتمہ تھا۔ اس کی وجہ سے بقول شاعر واقعی ’’کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے‘‘ ۔ صرف جاگیر داروں اور منصب داروں کی تباہی نہیں ہوئی بلکہ کئی بڑے جاگیردار کئی خاندانوں کو ملازم رکھتے تھے وہ عام طور پر ملازم کے سارے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ ایسے سارے خاندان بھی بے روزگار و بے سہارا ہوگئے اور جاگیر داروں اور منصب داروں میں ہندو بھی تھے۔ ان کی تعداد کم تھی۔ لیکن حضور نظام کی جانب سے انعامات و مراعات پانے والے ہندو مسلمان سب ہی یکساں متاثر ہوئے یہ سب کچھ جس تیزی سے ہوا وہ قطعی نامناسب بلکہ ظلم تھا۔

روزگار و آمدنی سے محروم طبقے کے بچے ترک تعلیم پر مجبور ہوتے ہیں ان کے بچے اسکول نہیں جاسکتے ہیں اس طرح تعلیمی پسماندگی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج بھی کم ہی سہی برقرار ہے۔

مسلمانوں میں تعلیم سے عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ عام خیال تھا کہ جو ملازم تھے ان کو ہی نکال دیا گیا تو نئی ملازمت مسلمانوں کو کہاں سے ملے گی؟ تعلیمی پسماندگی، معاشی بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا زیادہ شکار تو مسلمان ہی ہوئے تھے۔ لیکن تلنگانہ میں مسلم آبادی قابل لحاظ تھی۔ اس کا اثر تلنگانہ کی مجموعی صورت حال پربھی پڑا خاص طور پر مسلمانوں پر جو آج بھی پسماندہ ہیں۔

حضور نظام کی ریاست حیدرآباد (جس کو اس زمانے میں ’’ممالک محروسہ سرکار عالی‘‘ کہا جاتا تھا) اور حیدرآباد دکن اردو کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ریاست کے دوچھوٹے شہر اورنگ آباد دکن اور گلبرگہ بھی اردو کے مرکز تھے۔ جامعہ عثمانیہ اپنے اردو ذریعہ تعلیم کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ معیار کی وجہ سے بھی برصغیر کی عمدہ جامعات میں سے ایک تھی۔ سقوط حیدرآباد کے بعد سب سے زیادہ نقصان اردو کا ہوا۔ اردو سرکاری زبان نہیں رہی۔ جامعہ عثمانیہ سے ہی نہیں کئی کالجوں اور مدرسوں سے اردو ذریعہ تعلیم ہی نہیں اردو زبان کی تعلیم بھی ختم ہوئی۔ اردو کی سرپرستی کرنے والی حکومتوں، امرأ اور ادارے سب ختم ہوگئے ۔ اردو زبان یتیم، بے سہارا اور بیکس ہوگئی ۔ اردو کی کئی نادر کتابیں عمداً تباہ کردی گئیں اردو کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ناممکن ہے۔ اس کا اثر اردو پر نہ جانے کب تک رہے؟

مسلمانوں پر مذہبی لحاظ سے بھی متضاد اثرات مرتب ہوئے ۔ زیادہ تر لوگ مذہبی ہونے لگے لیکن بعض لوگ مایوس اور غم و غصہ کی وجہ سے مذہب سے دور ہوگئے۔ آصف جاہی دور میں مساجد کا انتظام محکمہ امور مذہبی (عام طور پر) کرتا تھا۔ لیکن محکمہ ہی ختم ہوگیا تو مسلمانوں نے اپنے طور پر مساجد کا انتظام بڑی حدتک سنبھال لیا۔ سقوط کے بعد عورتوں کی بے پردگی میں اضافہ ہوا بعض بڑے گھرانوں کی خواتین نے پردہ ترک کیا تو ان کی دیکھا دیکھی بعض متوسط گھرانوں کی بھی عورتوں میں بھی بے پردگی کو فروغ ہوا۔ ضرورت یا شوق میں خواتین سرکاری اور خانگی دفاتر میں ملازمت کرنے لگیں۔ آصف سابع کے دور میں عورتوں کی ملازمت کا دائرہ زنانہ کالجوں، اسکولوں اور دواخانوں تک عام طر پر محدود تھا مسلمان لڑکیوں میں ملازمت کی خاطرہی جامعاتی تعلیم کے حصول کا رواج سقوط کے چند سال بعد عام ہوا معاشی مجبوریوں کے علاوہ ایک پہلو لڑکیوں میں تعلیم کے رجحان کا یہ بھی تھا کہ جوڑے جہیز کے مطالبوں میں شدت سے قبل شادی کے لئے تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔

سقوط کے بعد مایوس اور حالات سے دل برداشتہ بلکہ حالات اور مجبوریوں کا شکار لوگوں نے پاکستان کا رخ کرنا شروع کردیا۔ کئی تعلیمیافتہ اصحاب، اعلیٰ عہدیداروں، ڈاکٹروں، انجینئروں، پروفیسروں اور ادیبوں و دانشوروں نے حیدرآباد سے پاکستان ہجرت کی۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ ایک خلاء پیدا ہوگیا بلکہ مسلم معاشرہ اپنے بہترین فرزندوں سے محروم ہوگیا۔ یہ خلاء صرف مسلمانوں میں ہی نہیں تلنگانہ میں پیدا ہوا۔ تلنگانہ کے ہندووں میں بھی پاکستان جانے والوں سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے والے لوگ نہیں تھے۔ اس لئے ہندوستان کے دوسرے حصوں سے جو لوگ آئے وہ نہ مسلمانوں کے دوست تھے اور نہ ہی تلنگانہ والوں کے اس طرح جب مسلمان یا تلنگانہ والوں کی نئی نسل ان جگہوں کو سنبھالنے کے قابل ہوئی تو باہر والوں نے اس کو موقع نہ دیا اور تلنگانہ والے محرومی اور استحصال کا شکار ہوتے رہے ہیں۔

سقوط کے بعد آصف جاہی حکمرانوں کی اقتدار سے محرومی کے باوجود ریاست حیدرآباد کے وجود کو اس کی سابقہ سرحدوں کے ساتھ برقرار رکھنا پسندنہ تھا۔ چنانچہ لسانی بنیادوں پر 1956ء میں جب ریاستوں کی تنظیم جدید کی تجاویز سامنے آئیں تو ریاست حیدرآباد کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا سوال تو دور رہا تلنگانہ کا حیدرآباد کوصدر مقام بناکر تلنگانہ کی علاحدہ ریاست کو بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ تلنگانہ کی تہذیب پر اسلامی تہذیب کا ہی نہیں تلنگانہ کی تلگو پر بھی اردو کا بڑا اثر ہے۔ حیدرآباد شہر اور تلنگانہ ’’شیروانی بریانی‘‘ تہذیب کے مرکز ہیں جو فرقہ پرستی یا نرم ہندوتوا کے پرستار کانگریسیوں کو بھی پسند نہیں ہے اس لئے اب تک علاحدہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے مطالبہ کو ٹالا جاتا رہا اور اب قیام تلنگانہ کا فیصلہ ہوگیا ہے تو شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کے تاریخی اور اٹوٹ رشتے و تعلق کو برقرار نہ رہنے دینے کی باتیں ہورہی ہیں تاکہ تلنگانہ اپنے تہذیبی مرکز سے دور رہے تلنگانہ اور آندھرا کی تہذیب بھی مختلف ہے۔ سقوط حیدرآباد کے بعد تلنگانہ کے غیر مسلموں کی تہذیب پر بھی (1956ء میں قیام آندھراپردیش کے بعد) خاصہ اثر پڑا۔ تلنگانہ والے تروپتی بہت کم جاتے تھے ان کا کھانا پینا بھی مختلف تھا۔ حیدرآباد میں 1956ء تک دوسہ واڈلی کا رواج کم تھا۔ تلنگانہ کی تہذیب اور زبان پر سقوط کے بعد جو اثرات پڑے تھے وہ علاحدہ تلنگانہ کے بعد ختم ہوسکتے ہیں اس لئے سقوط حیدرآباد کے اثرات کو باقی رکھنے کے لئے حیدرآباد کو تلنگانہ سے الگ رکھنے کے لئے سازشوں کا بازار گرم ہے اگر ایسا ہوا تو یہ بھی سقوط حیدرآباد کے المیوں کی ایک کڑی ہوگی۔

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.