شاملی اور مظفرنگر اضلاع کے
دیہات میں حالیہ مسلم کش فسادات کے بعدیو پی کے ناکام وزیر اعلا اکھلیش
یادونے 15ستمبر کو اور اس کے دوسرے دن وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے چند
متاثرہ مقامات کا دورہ کیا ۔ وزیراعظم نے خطاکاروں کے خلاف سخت کاروائی کی
یقین دہانی کرائی۔ وزیر اعلا نے بھی کچھ یقین دہانیاں کرائیں۔مگر عوام سب
جانتے ہیں کہ یہ محض رسم کی ادائیگی ہے۔ایسی یقین دہانیوں پر آج تک کبھی
عمل نہیں ہوا۔یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی اور کانگریس کے نائب صدر راہل
گاندھی بھی وزیراعظم کے ساتھ گئے۔ ان کا کوئی ردعمل معلوم نہ ہوسکا۔
فساد کے خطاکاروں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول وہ افسران جو
صورتحال کو بگڑتا ہوا دیکھتے رہے اور کوئی کاروائی نہیں۔ اسی کا ذیلی زمرہ
ان افسران کا ہوگا جنہوں نے فتنہ فساد میں معاونت کی۔ دوسرا زمرہ سیاست
دانوں کاہے۔ ان کے بھی دو ذیلی زمرے ہونگے۔ اول وہ سیاستداں جنہوں نے اپنا
فرض منصبی ادا کرنے میں غفلت برتی۔ا ن میں سرفہرست ریاست کے وزیراعلا ہیں۔
دوسرے وہ جنہوں نے سیاسی فائدہ کے لئے فساد کو ہوا دی اور فضا کو بگاڑا۔
وزیر اعظم صاحب بتائیں ان میں کس کو کیا سزا وہ دے سکتے ہیں؟خاطی پولیس
افسران کے خلاف توکاروائی اس لئے نہیں کی جاتی کہ فورس کی حوصلہ شکنی ہوگی
۔چنانچہ قانون شکنی گوارہ ہے، قانون شکنوں کی حوصلہ شکنی کا حوصلہ نہیں۔رہے
سیاست داں تو ان کے خلاف قانونی کاروائی کارگر نہیں ہوا کرتی اور سیاسی سطح
میں ان شاطروں سے مقابلہ شکست خوردہ سیاست داں کیا کریں گے؟ لے دے کر عوام
میں سے ہی کچھ لوگوں کو جائز اور کچھ کو ناجائز طور سے شکنجے میں کس دیا
جائیگا اس کا سلسلہ جاری ہے۔
مظفرنگر سے واپسی پر وزیراعظم نے نئی دہلی میں مسلم نمائندوں سے ملاقات کی۔
ان کو ایک میمورنڈم بھی سونپا گیا، مگر رپورٹ یہ ہے کہ یہ ملاقات رسمی رہی۔
چنانچہ وفد کے ارکان نے واپسی پر مایوسی کا اظہار کیا ۔مظفرنگر کے اس فساد
کو حکام نے اس طرح پیش کیا ،جس سے یہ لگے کہ آغاز اقلیت کی طرف سے ہوا۔ ایک
مسلم لڑکے کا قتل ہوا اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس نے غیر فرقہ کی ایک
لڑکی کو چھیڑ ا تھا۔اس واردات کے بعد پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ملزمان
آزاد گھومتے رہے۔چنانچہ چند روزبعدہی دونوں ملزمان کا قتل ہوگیا۔ اس کے بعد
بھی پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ آخر کیوں؟ مبینہ طور سے ایک سنگھی لیڈر
نے یو ٹیوب سے پاکستان کی ایک کلپنگ ڈاؤن لوڈ کرکے موبائل فون پرپھیلائی
اور اس کی سی ڈی بنواکر گاؤں گاؤں بھجوائی جس میں یہ ظاہر کیا گیا گویا وہ
مقامی قتل کی واردات کی ویڈیو ہے۔اس کانڈکے کسی کارندے کے خلاف ابھی تک
کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ کیوں؟
علاقے میں دفعہ 144کے باوجود اس ماحول میں مہا پنچایت ہونے دی گئی ،جس میں
پڑوسی ریاست تک سے بڑی تعداد میں ایک برادری کے لوگ شریک ہوئے۔ ذہنوں میں
زہر گھولا جاتا رہا، مواد پکتا رہا اورافسران آنکھیں بند کئے رہے اور
وزیراعلا صورتحال سے بے پروا موج مستی میں مصروف رہے۔ قصبہ بڈھانہ سے شاملی
کو ملانے والی سڑک کے دونوں طرف کے دیہات کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا۔
شکایت یہ بھی ملی ہے کہ پھگانہ کے تھانیدار نے شرارتیوں کا ساتھ دیا۔ مسلح
غنڈوں نے مسلمانوں کو انکی بستیوں سے بھاگ جانے پر مجبور کیا اور پھر جس
مہارت سے خالی مکانوں کو جلایا گیا وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ باقاعدہ
تربیت یافتہ افراد کا اس میں ہاتھ تھا۔یہ افراد اتنے ہی پختہ کار تھے جتنے
بابری مسجد کو شہید کرنے والے۔ جو رول اس وقت کلیان سنگھ کی پولیس نے ادا
کیا تھا وہی یادو سرکار کی پولیس نے ادا کیا۔ افسوس کہ مسلمان حوصلہ ہار
گئے اوراپنی جگہ جم کر مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کی ۔ حالانکہ
اگرڈٹ جاتے تو دیکھتے کہ جو مارنے آئے تھے وہ خود مرنا نہیں جانتے۔
سرکار نے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جو جانچ کمیٹی بنائی ہے، اس کا
کوئی نتیجہ نکلنے کی امید کیسے کی جائے کہ ماضی میں نہ جانے کتنے کمیشن بنے
، انکوائریاں ہوئیں مگرسب بے نتیجہ۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ متاثرہ اضلاع میں
بڑی تعداد میں نوجوانوں کو قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے،
جبکہ ان سیاسی لیڈروں کو چھوا تک نہیں گیا جن کے خلاف ایف آئی آر درج ہے۔وہ
اسمبلی کے اجلاس میں موجود تھے حالانکہ پولیس کہتی ہے ، لاپتہ ہیں۔ اس
دھاندلی کے خلاف بطور احتجاج ڈاکٹر سومپال سنگھ نے،جو مرکز میں وزیر زراعت
رہ چکے ہیں اور جن کو ایس پی نے باغپت سے اجیت سنگھ کے خلاف اپنا امیدوار
نامزد کیا تھا، پارٹی سے استعفا دیدیا ہے۔مسٹر سوم پال بھاجپا کے ٹکٹ پر
اجیت سنگھ کو شکست دے کر وزیر بنے تھے۔
سازش کا پہلو
یہ کہنا مشکل ہے کہ ریاست میں فرقہ ورانہ صف بندی کی سازش میں یادوپارٹی
بھی شریک ہے۔ ان فسادات نے اس مصنوعی سیکولر پارٹی کے پیروں تلے کی زمین
کھسکا دی ہے ۔ اس کے لئے اب یہ ممکن نہیں کہ 2014کے الیکشن میں وہ اپنی
موجودہ 22سیٹوں کو بھی بچالے جائے جبکہ ملائم سنگھ یادواپنی طاقت بڑھا کر
وزیراعظم بن جانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اب انہوں کہا ہے کہ وہ وزیراعظم کا
خواب نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ان کو مظفرنگر کے فساد کے بعد یقینا سہاونے خوابوں
کے بجائے ڈراؤنے خواب آنے لگے ہونگے۔ انہوں نے سیاسی اور انتظامی طور پر
قطعی ناتجربہ کار اپنے بیٹے کو وزیراعلا بناکر، اور اس پر اپنے دو بھائیوں
کو مسلط کرکے اپنے خاندان کی سرکار بنانے کی جو غلطی کی ہے، یہ اسی کا
انجام سامنے آیاہے۔مگر فوری طور سے اس کی سزا بدقسمتی سے اس طبقہ کوبھی مل
رہی ہے جو آنکھیں بند کرکے ان کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھا تھا۔
ریاست کی سابقہ حکومت نے مشرقی اضلاع سے تعلق رکھنے والے افسران کو مغربی
اضلاع میں اور مغربی خطے کے افسران کو مشرقی خطے میں تعینات کیا تھا تاکہ
وہ اپنی برادریوں کے موہ سے آزار دہیں۔ اکھلیش نے اقتدار سنبھالتے ہی اس
پالیسی کو الٹ دیاجس کابدانجام سامنے آگیا ہے۔ ریاست میں غنڈہ راج شباب پر
ہے۔یادو سرکار اس مکڑجال میں پوری طرح پھنس گئی ہے، جو سنگھیوں نے بنا ہے۔
سرکار 84 کوسی پریکرما میں الجھ کر رہ گئی،اور فرقہ پرستوں کو پوری ریاست
میں اپنی سازش کو بروئے کار لانے کا موقع دے دیا۔ ریاست کی مسلم اقلیت
حیران ہے کہ اب کدھر جائے؟ ایک طرف مودی نام کی سنامی ہے، دوسری طرف نام
نہاد سیکولر پارٹیوں کی ناکامی ہے۔ مسلمانوں نے ملائم سنگھ پر اسی طرح
اعتماد کیا تھاجس طرح نرسمہا راؤ پر کیا تھا اورویسا ہی شدید دھوکا کھایا ۔اقلیت
سے کیا گیا ایک بھی انتخابی وعدہ انہوں نے پورا نہیں کیا۔اس پر یہ فسادات
مار شروع ہوگئی، جس سے اقلیت یادو سرکار سے پوری طرح بدظن ہوگئی ہے۔
مسلم قیادت کا حال
بریلی میں فرقہ ورانہ کشیدگی کے بعد گرفتاری ، اس پرمقامی سطح پر احتجاج
اور پھر غیر مشروط رہائی کی بدولت جناب توقیر رضاخان کی شخصیت خاصی نمایاں
ہوگئی ۔ ریاست کے سینئر وزیر مسٹراعظم خاں ان کے مداح ہیں۔ چنانچہ یادو
سرکار نے ان کوریاستی وزیر کا درجہ دیکر ہنڈلوم مشاورتی بورڈ کا ممبر نامزد
کردیا اوران کی گاڑی پر لال بتی لگ گئی۔ مظفرنگر کے واقعات کے بعد انہوں نے
ریاستی حکومت کی کارکردگی پر بے اطمنانی کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ بورڈ سے
استعفے کا اعلان کردیا تھا۔مظفرنگر کے جس علاقے میں یہ فساد ہوا ،وہ
دیوبندی مکتبہ فکر کی اکثریت کا علاقہ ہے ،اس لئے رضاخان سے استعفے کو ملّی
اتحاد کا اقدام قرار دیا گیا اور خیر مقدم کیا گیا۔ لیکن ایک ہفتہ بھی نہ
گزرا تھا کہ موصوف نے مظفرنگر جاتے ہوئے مرادآباد میں صحافیوں سے بات چیت
دوران یادو حکومت کو کلین چٹ دیدی اور کہا کہ ریاستی سرکار نے بروقت اور
موثر کاروائی کی ہے۔ خطا صرف مقامی حکام کی ہے۔(انقلاب، دہلی، 15ستمبر) ۔یہ
بات اگر وہ مظفرنگر سے واپسی پر کہتے توالگ بات تھی۔ انہوں نے یہ کلین چٹ
دیکر اعظم خان کی بھی کرکری کردی جنہوں نے ریاستی حکومت کی کارکردگی پر
کھلے عام اظہار بیزاری کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ’’ جس طرح صورت حال سے
نمٹا جارہا ہے اس سے لگتا ہے کہ نہ ریاستی حکومت کام کررہی ہے اور نہ ضلع
انتظامیہ‘‘ ۔ چنانچہ انہوں نے پارٹی کی قومی مجلس عاملہ میں بھی شرکت نہیں
کی۔ اس سے دوسوال اٹھتے ہیں ۔ اول یہ کہ ریاست کے اقلیتی امور کے وزیر اور
متاثرہ اضلاع کے انچارج اعظم خان کی بات کو درست گردانا جائے یا توقیر رضا
صاحب کی بات کو؟ دوسرا سوال یہ کہ اگر توقیرصاحب کی نظر میں ریاستی حکومت
پوری طرح مستعد تھی، تو انہوں نے استعفے کی پیش کش کیوں کی تھی؟دریں اثنا
ضلع مظفر نگر سے تعلق رکھنے والے وزیر چترنجن سروپ نے کہا ہے کہ ہم نے
(حالات بگڑنے سے پہلے ہی) بات ’اوپر‘ تک پہنچادی تھی، مگر جو کاروائی ہونی
چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی۔‘
امام بخاری اور آر ایل ڈی
ایمرجنسی کے دوران جب پورے ملک میں سناٹا چھایا ہواتھا، مولانا سید عبداﷲ
بخاری ؒ نے کمال جرأت سے جامع مسجد کے ممبر سے جمہوریت کشی کے خلاف آواز
بلند کی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی یہ آواز پورے ملک کی آواز بن گئی
تھی۔ آج ملک میں جمہوریت کی جو بہار نظرآرہی ہے اس میں مولانا بخاریؒ کا
اہم کردار ہے۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے امام سید احمد بخاری بڑی بیباکی سے
ملّی اورقومی مسائل پرآواز اٹھاتے رہتے ہیں۔مظفرنگر کے واقعات پر بھی انہوں
نے شدومد سے آواز اٹھائی ہے۔ ان کے بھائی سید یحیٰ بخاری کا مذمتی بیان بھی
نمایاں طور پر اخباروں میں شائع ہوا۔ اب ایک خبر یہ آئی ہے کہ آرایل ڈی
لیڈر اجیت سنگھ کے بیٹے جینت چودھری، ایم پی، نے سید احمد بخاری سے ملاقات
کرکے اپنی پارٹی کے لئے تائید اور ہندو مسلم اتحاد کی بحالی کے لئے تعاو ن
مانگا ہے۔ ہمارے ملک میں ماضی میں کسی بھی سیاسی پارٹی پر بھروسہ کرکے اس
کی تائید کا تجربہ کامیاب نہیں ہوا ہے ۔اس لئے اس سے بچنا لازم ہے۔ البتہ
دو فرقوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا کو ختم کرانے میں تعاون سے گریز نہیں
کرنا چاہئے۔
خالد مجاہد اور سی بی آئی
ایک سال سے زیادہ مدت گزرجانے کے بعد یوپی کی یادو سرکار نے نمیش کمیشن کی
رپورٹ اسمبلی میں پیش کردی ہے۔ اس میں صاف طور سے کہا گیا ہے طارق قاسمی
اور خالدمجاہد کی گرفتاری کی جو کہانی یوپی پولیس نے بتائی ہے ،وہ فرضی
ہے۔مگر سرکار نے اس رپورٹ پر کوئی کاروائی نہیں کی۔ یوپی پولیس کی تحویل
میں 18مئی کوخالد مجاہد کی مشتبہ حالت میں اسوقت موت ہوگئی جب عدالت میں
پیشی کے بعدان کو لکھنؤ جیل لیجایا جارہا تھا۔ ان کے لواحقین کے مطالبہ پر
ریاستی حکومت نے اس کی جانچ سی بی آئی کے حوالے کرانے کا اعلان کیا
تھا۔لیکن جس دن نمیش کمیشن کی رپورٹ پیش ہوئی، اسی دن یہ خبر آئی کہ سی بی
آئی ڈائرکٹر رنجیت سنہا نے کہا ہے کہ سی بی آئی اس کیس کی جانچ نہیں کررہی
ہے۔ گمان یہ ہے کہ سی بی آئی نے پہلے ہی جانچ کرنا قبول نہیں کیا، مگر یادو
سرکار نے اس کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ بارہ بنکی پولیس نے اپنی جانچ میں کہہ
دیا ہے موت میں پولیس کا کوئی کردار نہیں۔حالانکہ بادی النظر میں شواہد کچھ
اور کہتے ہیں۔
آخری بات
جیسا کہ توقع تھی بھاجپا نے مودی کو وزیراعظم کے منصب کے لئے اپنا امیدوار
بناکر پیش کردیا ہے۔ آئندہ چند ماہ میں چارریاستی اسمبلیوں کے چناؤ ہونے
والے میں ، جن میں عوام کے موڈ کا تھوڑا بہت پتہ تو چلے گا مگر یہ چناؤ
مقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں ،اس لئے ضروری نہیں کہ ان کے نتائج کاعکس لوک
سبھا چناؤ میں بھی نظرآئے۔ ہرچند کہ آثار یہی ہیں کہ 2014کے چناؤ میں مودی
کو وزیر اعظم بنانے کا آر ایس ایس کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا، لیکن سیاسی
صورتحال بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ملک کے سیکولر عناصر کو اور خاص طور سے
اقلیتوں کو اس صورتحال کے مقابلے کے لئے حکمت عملی پر ابھی سے غورو خوض
شروع کردینا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایک پہل سید شہاب الدین صاحب نے کی تھی۔
دوسرا سنجیدہ قدم ڈاکٹر سیدظفرمحمود نے اس وقت اٹھایا جب مودی کو بھاجپا کی
مسلم دشمنی والی پالیسیاں گنوائیں۔ مودی کو کو ستے رہنا اور ان کے کالے
کارناموں کا ذکر کرتے رہنا کافی نہیں۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ اسی سرشت میں
ڈوبا ہوا ہے جس کی نمائندگی مودی کرتے ہیں۔ اس لئے ملّت کو ابھی سے آنے
والے متوقع خطرے کے لئے تیارہوجانا چاہئے۔جس کا پہلا قدم یہ ہوگا کہ
جذباتیت سے کنارہ کش ہوکر اتحاد کے جذبہ کے ساتھ ملک کے سیکولر کردار کی
آبیاری کی جائے۔(ختم) |