4۔ رمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم کے اَندازِ طواف کی یاد منانا ہے:-
کعبۃ اللہ کا طواف مناسکِ حج کا اہم حصہ ہے۔ حجاج کرام کو یہ حکم ہے کہ وہ
طواف کے پہلے تین چکروں میں اکڑ اکڑ کر چلیں۔ اسے اِصطلاحاً رمل کہا جاتا
ہے۔ عام حالات میں اکڑ اکڑ کر چلنا غرور و تکبر کی علامت ہے اور اللہ کے
ہاں انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے، (1) جب کہ حج میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس
کی حکمت یہ ہے کہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد مسلسل ریاضت و مشقت کی وجہ
سے مسلمان دبلے پتلے اور کمزور ہوگئے تھے۔ صلح حدیبیہ کے اگلے سال جب وہ
عمرہ کرنے کے لیے مکہ پہنچے تو ان کی حالت سے نقاہت کا اظہار ہوتا تھا۔
طوافِ کعبہ کرتے ہوئے انہیں آہستہ آہستہ چلتے دیکھ کر کفارِ مکہ طعنہ زنی
کرنے لگے کہ مسلمان مکہ میں تو خوش حال تھے، مدینہ جا کر ان کی حالت اتنی
اَبتر ہو گئی ہے کہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے۔
(1) حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
ألا أخبرکم بأهل الجنة؟ کل ضعيف متضعف، لو أقسم علي اﷲ لأبره. ألا أخبرکم
بأهل النار؟ کل عتل، جواظ، مستکبر.
’’کیا میں تمہیں اہلِ جنت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ (خود ہی فرمایا :) ہر
کمزور اور حقیر سمجھا جانے والا، لیکن اگر وہ اﷲ کے بھروسے پر کوئی قسم
کھالے تو اﷲ اُسے سچا کردیتا ہے۔ اور کیا میں تمہیں دوزخیوں کے بارے میں نہ
بتاؤں؟ (پھر خود ہی فرمایا : ) ہر درشت خو، جھگڑالو اور تکبر کرنے والا
دوزخی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب سورة ن والقلم، 4 : 1870، رقم : 4634
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب الکبر، 5 : 2255، رقم : 5723
3. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة و صفة نعيمها وأهلها، باب النار يدخلها
الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، 4 : 2190، رقم، 2853
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا :
يقول اﷲ عزوجل : العظمة إزاري، والکبرياء ردائي، فمن نازعني واحدا منهما
ألقيته في النار.
’’اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : عظمت میری اِزار ہے، اور بڑائی میری چادر ہے۔ پس
جو کوئی اِن دونوں میں سے کوئی ایک بھی مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا تو
میں اُسے دوزخ میں ڈال دوں گا۔‘‘
1. ابن أبي شيبة، المصنف، 5 : 329، رقم : 26579
2۔ طبرانی نے ’’المعجم الاوسط (3 : 352، رقم : 3380)‘‘ میں اسے حضرت علی
رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
3. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 331، رقم : 1464
4. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 380، رقم : 8157
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافروں کی اس طعنہ زنی اور استہزاء کی خبر
ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم
دیا کہ کافروں کی بات غلط ثابت کرنے کے لیے طواف کے دوران میں اَکڑ اَکڑ کر
اور کندھے مٹکا مٹکا کر چلیں۔ اس وقت سے یہ انداز مناسکِ حج میں شامل
ہوگیا۔ اگرچہ اس کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی اور سرزمینِ حرم کفار و
مشرکین کے وجود سے خالی ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اب تک طواف کی ادائیگی
کا معمول وہی ہے۔
امام مسلم نے ’’الصحیح‘‘ میں کتاب الحج کے تحت باب استحباب الرمل فی الطواف
والعمرۃ وفی الطواف الاول من الحج میں اس موضوع پر کئی احادیثِ مبارکہ مفصل
روایت کی ہیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
1۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یثرب (مدینہ منورہ)
کے بخار سے کمزور ہو جانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ (واقعۂ حدیبیہ کے اگلے سال عمرہ
کے لیے) مکہ تشریف لائے تو ان کے آنے کی خبر پاکر مشرکین مکہ (کے سرداروں)
نے (اپنی قوم سے) کہا : کل تمہارے پاس ایک ایسی قوم آئے گی جسے شدید بخار
نے کمزور کر دیا ہے، پس وہ (اس خبر پر) حجر اسود کے پاس بیٹھ گئے۔ جب حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب کی
تشریف آوری ہوئی تو :
أمرهم النبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يرملوا ثلاثة أشواط، ويمشوا ما بين
الرکنين لِيَرَي المشرکون جَلدهم. فقال المشرکون : هؤلاء الذين زعمتم أن
الحمي قد وهنتهم، هؤلاء أجلد من کذا وکذا.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو دونوں رکنوں (یمانی) کے درمیان
تین چکروں میں اکڑ کر اور (باقی میں) آرام سے چلنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین
ان کی قوت کا مشاہدہ کر لیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) مشرکین نے کہا : کیا ان کے
بارے میں تم کہتے تھے کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا؟ یہ تو اتنے طاقت ور
ہیں، یہ تو اتنے جری ہیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب الرمل في الطواف والعمرة وفي
الطواف الأول من الحج، 2 : 923، رقم : 1266
2. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب کيف کان بدء الرمل، 2 : 581، رقم : 1525
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 294
4. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 82، رقم : 9056
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے ایک روایت میں بالصراحت فرمایا :
إنما سعي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بالبيت، وبين الصفا والمروة،
لِيُرِيَ المشرکين قوته.
’’بیت اللہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
صرف مشرکین کو اپنی قوت دکھانے کے لیے کی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في السعي بين الصفا والمروة، 2 :
594، رقم : 1562
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب الرمل في الطواف والعمرة وفي
الطواف الأول من الحج، 2 : 923، رقم : 1266
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في السعي بين الصفا
والمروة، 3 : 217، رقم : 863
4. نسائي، السنن الکبري، 2 : 405، رقم : 3941
5. حميدي، المسند، 1 : 232، رقم : 497
6. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 82، رقم : 9057، 9058
3۔ اسی طرح حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قدم مکة، فقال المشرکون : إن محمدا
وأصحابه لا يستطيعون أن يطوفوا بالبيت من الهُزل، وکانوا يحسدونه، قال :
فأمرهم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يرمُلوا ثلاثاً ويمشوا أربعا.
’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے
لگے : بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے صحابہ کمزوری کے
باعث بیت اللہ کا طواف کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ درحقیقت وہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے حسد کرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ (اسی طعنہ کی وجہ سے) حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنے) صحابہ کو تین چکروں میں رمل کرنے اور
چار میں چلنے کا حکم دیا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب إستحباب الرمل في الطواف وفي الطواف الأول
من الحج والعمرة، 2 : 921، 922، رقم : 1264
2. ابن حبان، الصحيح، 9 : 154، رقم : 3845
3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 100، رقم : 9161
جاری ہے۔۔۔ |