آج ہمارا معاشرہ ایک افراتفری،
انتشار، اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔ ہر فرد پریشان ہے، معاشرے میں
برائیاں اور شیطانی افعال بڑھتے جارہے ہیں۔ چوری، ڈکیتی، زنا، قتل، اغواء،
کمزوروں پر ظلم، اور زور آوروں اور بالا دستوں کو ہر بات میں چھوٹ دی جاتی
ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ اس کا حل کیا ہے۔ آئیں دیکھیں کہ
قرآن کریم ان مسائل کی بنیاد کن چیزوں کو قرار دیتا ہے۔ سورہ عصر کا مطالعہ
ہمارے کئی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ ہم یہاں اس کی تشریح آپ کے سامنے رکھتے
ہیں۔
ترجمہ : زمانے کی قسم، انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے
جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور
صبر کی تلقین کرتے رہے۔
اس سورہ میں پہلی آیت کے لفظ العصر کو اس کا نام قرار دیا دیا گیا۔ مفسرین
کی اکثریت نے اسے مکی قرار دیا ہے اور اسکا موضوع اور مضمون بھی یہی ظاہر
کرتا ہے کہ یہ مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اسلام کی
تعلیم کو مختصر، جامع اور دلنشین جملوں میں بیان کیا جاتا تھا۔ یہ سورہ
جامع اور مختصر کلام کا بے نظیر نمونہ ہے۔ اس میں بالکل دو ٹوک طریقہ سے
بتا دیا گیا ہے کہ انسان کی فلاح کا راستہ کونسا ہے اور اس کی تباہی و
بربادی کا راستہ کونسا ہے۔ امام شافعی کے مطابق اگر لوگ اس پر غور کریں تو
انکی ہدایت کے لیے یہی سورہ کافی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نگاہ
میں اس کی اتنی اہمیت تھی کہ جب دو صحابہ آپس میں ملتے تھے دو رخصت ہونے سے
پہلے ایک دوسرے کو سورہ عصر سناتے تھے۔
اس سورہ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں
ہے اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفات پائی
جاتی ہیں ١) ایمان ٢) عمل صالح ٣) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت ٤) ایک دوسرے
کو صبر کی تلقین کرنا۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات
میں کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں
کھائی ہے بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس چیز پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت
کرنا ہو۔ یعنی زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہوا کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے
کہ انسان برے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں جن کے اندر یہ چار صفات پائی
جاتی ہوں۔
زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور گزرتے ہوئے
زمانے کے لیے بھی، یہاں چونکہ مطلقاً زمانےکی قسم کھائی گئی ہے اس لیے اس
میں دونوں طرح کے زمانے کے مٍہوم شامل ہیں۔ گزرے زمانے کی قسم کھانے کا
مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان
صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے، اور گزرتے زمانے کی قسم
کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ جو زمانہ گزر رہا ہے
وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے
کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں ایک طالب
علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو
کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں مشغول رہتے ہیں یہ سب
کچھ اسی محدود عمر میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے
لیے دی گئی ہے، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہ وقت ہے جو
تیزی سے گزر رہا ہے۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ “میں نے
سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ
رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے، رحم کرو اس شخص پر جس کا
سرمایہ گھلا جارہا ہے۔ اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا کہ یہ ہے والعصر ان
الانسان لفی خسر کا مطلب۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے
گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے اس کو اگر ضائع کیا جائے یا غلط کاموں میں
صرف کر ڈال جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے “یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ہم
اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی
اور کام میں گزار رہا ہو کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے
کہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بتا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو۔ نفع میں
صرف وہی طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا
ہے“۔
اب دیکھئے کہ خسارے کا لفظ قرآن مجید کس معنی میں استمال کرتا ہے۔ لغت کے
اعتبار سے خسسارہ نفع کی ضد ہے اور تجارت میں اس لفظ کا استعمال اس حالت
میں بھی ہوتا ہے کہ جب کسی سودے میں گھاٹا آئے اور اس حالت میں بھی جب سارا
کاروبار گھاٹے میں جارہا ہو اور اس حالت میں بھی جب آدمی اپنا سارا سرمایہ
کھو کر دیوالیہ ہوجائے۔ قرآن مجید اسی لفظ کو اپنی خاص اصطلاح بنا کر فلاح
کے مقابلے میں استعامل کرتا ہے۔ جس طرح اس کا تصور فلاح محض دنیوی خوشحالی
کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لیکر آخرت تک انسان کی حقیقی کامیابی پر
حاوی ہے، اسی طرح اس کا تصور خسران بھی محض دنیوی ناکامی یا خستہ حالی کا
ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لیکر آخرت تک کی انسان کی حقیقی ناکامی و
نامرادی پر حاوی ہے۔ جب قرآن کہتا ہے کہ “ درحقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے
“ اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے، اور جب کہتا ہے کہ “اس
خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی
ہیں“ تو اس کا مطلب دونوں جہاں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے۔
ان میں پہلی صفت ایمان ہے۔ اگرچہ یہ لفظ قرآن مجید میں بعض مقامات پر زبانی
اقرارِ ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے لیکن اس کا اصل استعمال
سچے دل سے ماننے یقین کرنے کے معنی میں ہی لیا گیا ہے۔ قرآن درحقیقت جس کو
حقیقی ایمان قرار دیتا ہے اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے۔
مومن تو درحقیقت وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک
میں نہ پڑے ( الحجرات ١٥)
مومن تو حقیقت میں وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز جاتے
ہیں ( الانفال ٢ )
اور جو لوگ ایمان لائے وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں ( البقرہ
١٠٥ )
زبانی اقرارِ ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ “ اے
لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر ( النساء ١٣٦)
اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے تو قرآن
مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کر بیان کیا گیا ہے- اس سے مراد
اولاً اللہ کو ماننا ہے محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے
ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے، خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اس
بات کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت، بندگی، اور اطاعت بجا لائے- وہی
قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے، بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہئے اور اسی
پر توکل کرنا چاہئے۔ وہی حکم دینے والا ہے وہی منع کرنے والا ہے، بندے کا
فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک
جائے
ثانیاً رسول کو ماننا، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مامور کیا ہوا
ہادی و رہنما ہے، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی
طرف سے ہے، برحق ہے اور واجب التسلیم ہے۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائیکہ،
انبیاء اور کتب الہیہٰ پر اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے۔ کیوں کہ
یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں
تیسرا آخرت کو ماننا،اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری
زندگی نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا ہے اپنے
ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی زندگی میں کیے ہیں خدا کو حساب دینا ہے اور
اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزا اور جو بد قرار پائیں انکو
سزا ملنی ہے- ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم
کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے
سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں
نہ ہو، اس کا حال ایک بے لنگر جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا
چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑسکتا۔
ایمان کے بعد دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ
صالحات نیک کاموں) پر عمل کرنا ہے۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے
جس سے نیکی اور بھلائی کی کوئی قسم چھُوٹی نہیں رہ جاتی - لیکن قرآن کی رو
سے کوئی بھی عمل اس وقت تک عمل صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان
موجود نہ ہو اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے
رسول نے دی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا
ذکر کیا گیا اور اس سورہ میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے، کسی
بھی جگہ ایمان کے بغیر عمل کو صالح نہیں کہا گیا ہے اور نہ ہی عمل بلا
ایمان پر کسی اجرت کی امید دلائی گئی ہے- دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ
ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے
پیش کرے- ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعویٰ ہے جس کی تردید آدمی خود
ہی کردیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باجود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ قرآن میں جتنی بھی
بشارتیں دی گئیں ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان لاکر عمل صالح کریں
اور یہی بات اس سرہ میں بھی کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے
جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے۔ یعنی عمل
صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا ہے۔
انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے دوسری جو چیزیں ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ
ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر
کی تلقین کریں- اس کے معنی اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو
فرد فرد بن کر نہیں سوچنا چاہیے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن و صالح
معاشرہ وجود میں آنا چاہیے- دوسرے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری
محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے اس لیے اس کے تمام افراد پر
یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔
حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک
صحیح اور سچی مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات، خواہ وہ عقیدے و
ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے- دوسرے وہ حق جس کا ادا کرنا
انسان پر واجب ہو خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا
حق، پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ
معاشرہ ایسا بے حس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام
کیے جارہے ہوں، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشہ دیکھتے رہیں، بلکہ اس
معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے،
کلمہء حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور معاشرے کا ہر فرد
صرف خود ہی حق پرستی، اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق
داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی
نصیحت کرے۔ یہی وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی
ضامن ہے۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ معاشرہ خسران (
خسارے ) سے نہیں بچ سکتا اور اس خسارے میں آخر کار وہ لوگ بھی مبتلا ہوکر
رہے جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے
دیکھتے رہیں۔ یہی بات سورہ مائدہ میں فرمائی گئی کہ جب بنی اسرائیل پر حضرت
داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کی زبان سے لعنت کی
گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ اس معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا
ارتکاب عام ہوگیا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ
دیا تھا۔ اور یہی بات سورہ انفال آیت نمبر ٢٥ میں یوں بیان کی گئی کہ “ بچو
اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی
جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو“ اور اسی لیے سورہ آل عمران آیت نمبر ١٠٤
میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے
حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری جو چیز اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے
بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک
دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں -یعنی حق کی ہیروی اور اس کی حمایت میں جو
مشکلات پیش آتی ہیں اور اس راہ میں جن تکالیف سے، جن مشقتوں سے، جن مصائب
سے، اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے
مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنےکی تلقین کرتے ہیں ان کا ہر فرد
دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر ساتھ برداشت کرے۔
یہ ہم نے سورہ عصر کی تشریح آپ کے سامنے پیش کی ہے اور دیکھا جائے تو اس
میں ہمارے لیے بہت اسباق ہیں اور ہمارے مسائل کا حل بھی ہے۔ ضرورت اس بات
کی ہے کہ ہم قرآن کے پیغام پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس پر
عمل کی تلقین کریں اور قرآن کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔
(مضمون کی تیاری میں مولانا سید ابولاعلیٰ مودوی کی تفھیم القرآن سے مدد لی
گئی ہے ) |