شاعری کے بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہا
ہے ۔۔ عالمی شاعری کی طرح اردو شاعری میں بھی نت نئے تجربات ہو رہے ہیں اور
یہ یقینا قابل ستائش عمل ہے۔۔۔ اس موضوع پر آگے چل کر بہت باریکی سے بھی
بحث ہو گی۔۔۔یہ چونکہ اس سلسلے کا پپہلا مضمون ہے اسلئے ہم شاعری کی
ابتدائی اشکال پر بات کریں گے تاکہ نئے لکھاریوں اور پڑھنے والوں کو دقت
پیش نہ آئے جو کہ عموما اس سلسلے میں پیش آتی ہے۔۔۔
مضامین کے اس سلسلے میں بہت ساری کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے اور ساتھ
ساتھ جو چیزیں زندگی میں اس موضوع پر حاصل مطالعہ رہی ہیں وہ بھی شامل
ہونگی اور آپکی آرا بھی اس سلسلے میں بہت معاون ہو گی۔۔۔
مندرجہ ذیل کتابوں اور مجلوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔۔
مقدمہ شعر و شاعری (الطاف حسین حالی)
راز عروض (سیماب اکبر آبادی)
خضر عروض (احسان دانش)
شعر اور فن شعر (نثار اکبر آبادی)
جدید شعری روایات (الیاس میراں پوری)
مجلہ ادبیات
مجلہ ماہ نو
مجلہ اساطیر
مجلہ بیاض
مجلہ فنون
مجلہ نقوش
مجلہ قرطاس
مجلہ زرنگار
مجلہ تسطیر
اسکے علاوہ ظفر اقبال،میرا جی،ن م راشد، کی روایت شکن شاعری کے متعلق لکھے
گئے مختلف مقالات کا حوالہ دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔۔ڈاکٹر سلیم اختر
کی کتاب اردو زبان کی تاریخ سے بھی اختصارات حاصل کئے جائیں گے۔۔۔اور عام
فہم لہجے میں شاعری اور شعر پر گفتگو کی جائے گی۔۔حتی الامکان کوشش کروں گا
کہ عام قاری بھی اس سے استفادہ حاصل کر سکیں اور روایتی مشکل گوئی سے
اکتاہٹ محسوس نہ کریں۔۔۔
شعر کیا ہے؟
شعر کا لفظ تاریخی طور پہ شعور سے نکلا ہے یعنی کسی چیز کو جاننا اور جدید
اصطلاح میں ایسا کلام جو کسی واقعے یا موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہو۔۔۔اور
اسکے کہنے کا کوئی مقصد بھی ہو۔۔۔بے مقصد شاعری وقتی لطف کے سوا کچھ بھی
نہیں۔۔با مقصد شاعری میں بہت طاقت ہوتی ہے اور ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔۔۔
شاعری کی شرائط کیا ہیں؟
شاعری کا جوہر لکھنے والے کا تخیل ہوتا ہے۔۔خیالات کی وسعت اور کسی واقعے
یا چیذ کے متعلق اسکی سوچ کا پھیلاؤ۔۔۔
یہ ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے شاعر ایسے واقعات بھی جو اس
نے دیکھے نہیں ہوتے بلکہ صرف پڑھے یا سنے ہوتے ہیں انکو اس طرح بیان کر
جاتا ہے جیسے اسکے سامنے وقوع پذیر ہو رہے ہوں،،،،یہ تخیل ہی اسے زمانے کی
قید سے آزاد کر دیتا ہے ۔۔ عام آدمی کیلیئے صبح کا وقت صرف طلوع آفتاب ہے
لیکن شاعر کیلئے یہ وقت بہت سی گرہوں
کی گتھی سلجھاتا نظر آتا ہے۔۔۔۔۔ جیسا کہ جوش نے کہا
ہم ایسے اہل نظر کو قبول حق کیلئے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی۔۔۔
تخیل کے ساتھ ساتھ دوسری شرط مطالعہ کائنات ہے یعنی اپنے ارد گرد اور آفاقی
سچائوں کو باریکی سے جاننا۔۔ یہ صلاحیت تخیل کی طرح خداداد بھی ہوتی ہے اور
انساں کی اپنی خواہش پہ بھی منحصر ہوتی ہے۔۔۔ تاریخ کا مطالعہ،کتابوں سے
دوستی
اور اہل دانش کی صحبت بھی اس سلسلے میں راہنمائی کرتی ہیں ۔۔جنرل نالج جہاں
سے بھی حاصل ہو اسے حاصل کرنا کامیاب ادیب کیلئے ضروری ہے اور ہر چیز کے
مثبت کو چاننے کیلئے اسکی منفی کا بھی پتہ ہونا ضروری ہے۔۔۔ مثال کے طور پہ
مذہب کے مطالعہ کیلئے ادیان کے تقابلی جائزے کا بھی علم ہونا چاہئے۔۔۔
تخیل کے بعد الفاظ کا چناؤ اور اظہار کا طریقہ معلوم ہونا چاہئے۔۔۔یعنی کہ
اپنے خیالات کو دوسرے کے سامنے کیسے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔۔۔۔شاعر
اگر اپنے مشاہدے یا تخیل کو مناسب الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا تو ایسے
شعر سے شعر نہ کہنا بہتر ہے۔۔۔مناسب الفاظ اور اظہار کیا ہے اس پر آگے جا
کر تفصیل سے بات ہو گی۔۔۔
آمد اور اورد
آمد کا شعر عموما ایسے شعر کو کہتے ہیں جو شاعر کی ذہن میں بے ساختہ آئے
اور اسی طرح لکھ لیا جائے۔۔۔آورد سے مراد وہ شعر جو بہت غور و فکر سے مرتب
ہو۔۔۔۔ دونوں کا اپنا اپنا حسن ہے اور اگر بعض اوقات بے ساختیہ اشعار بہت
خوبصورت ہوتے ہیں تو ایسے اشعار بھی اس سے کم نہیں ہوتے جو بہت غور و فکر
کے بعد لکھے جاتے ہیں۔۔۔۔
شعر میں کیا باتیں بیان ہوں؟
شعر کا اصل حسن خیال کی پختگی اور بلندی ہے۔۔۔۔ حسن کو بہت زیادہ میک اپ کی
ضرورت نہیں ہوتی ہاں یہ ہے کہ ہلکے پھلکے میک اپ سے حسن کا رنگ دوبالا ہو
جاتا ہے۔۔ بہت زیادہ میک اپ سے حسن اپنی فطری دلکشی کھو دیتا ہے۔۔۔ بدصورتی
میک اپ اور غازوں کی تہوں میں بھی بدصورتی ہی رہتی ہے۔۔۔۔ لہذا پہلی ضرورت
خیال کا ارفع ہونا ہے۔۔۔ لفظیات کی باریکیاں اور انشا پردازی بھی بہت ضروری
ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی خیال اور الفاظ کا چناؤ مل کر پائدار شعر کی
بنیاد رکھتی ہیں۔۔۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بحروں اور قافیہ ردیف کی
بندشیں خیال کے حسن کو مقید کر دیتی ہیں اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت
زیادہ بندشوں اور لفظی میک اپ کے باوجود بھی خیال کا سطحی پن نہیں
چھپتا۔۔۔۔کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خیال بہت اعلی ہوتا ہے لیکن شاعر کے پاس
مناسب الفاظ نہیں ہوتے اس طرح اچھا بھلا خیال نامناسب الفاظ کی ذد میں آ
کتر اپنی تاثیر سے محروم ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ لہذا انشا پردازی اور خیال کا
موازن ملن ہی اچھے شعر کی بنیاد ہوتا ہے۔۔۔۔
شعری تاریخ کا مطالعہ۔۔۔۔۔
شاعر کو نہ صرف اپنی زبان بلکہ عالمی اور علاقائی زبانوں کی تارریخ کا بھی
پتہ ہونا چاہئے۔۔۔عالمی معلومات اگر نہ ہوں تو کم از کم جس زبان میں وہ
شاعری کر رہا ہے اسکی تاریخ کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ یہاں چونکہ ہم
زیادہ تر اردو کے حوالے سے بات کریں گے تو اردو کی تاریخ اور شاعری کے سفر
کے بارے میں معلومات اور مطالعہ بہت ضروری ہے۔۔۔کلاسیکی شعرا کے مطالعے کے
بغیر جدید شاعری کی بھی سمجھ نہیں آ سکتی۔۔۔ نہ صرف ان شعرا کا کلام بلکہ
انکے ادوار اور ان ادوار کے معاشی معاشرتی اور سیاسی حالات کا بھی پتہ ہونا
ضروری ہے کہ ان کے خیالات کے پس منظر میں کیا چیزیں موجزن تھیں۔۔۔
مثال کے طور پر غالب شناسی کیلئے مغلیہ خاندان کے آخری ادوار اور زوال کا
مطالعہ بے حد ضروری ہے۔۔۔۔
آج کی نشست میں اتنا ہی بیان کر پاؤں گا۔۔۔ اگلی نشست میں شعر کے بنیادی
اجزا، اردو شاعری کی اقسام، شعری لوازمات و محاسن وغیرہ پر گفتگو ہو گی۔۔۔۔
اس سلسلے مٰیں آپکی آرا میری بہت راہنمائی کرے گی۔۔۔۔ یہ سلسلہ کافی اقساط
میں ہو گا اور جیسے جیسے آگے بڑھے گا شاعری کی نئی نئی پرتوں پر گفتگو ہوتی
جائے گی۔۔۔اور آکر میں اردو شاعری کے مستقبل پر بھی بات ہو گی اور جدید
شعری اصلاحات و رجحانات پر بھی۔۔۔۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔والسلام |