شاھینہ فلک صدیقی صاحبہ کا شعری مجموعہ’تتلی کی پہلی
بارش‘سیدمعراج جامی صاحب نے ارسال کیا۔اس شعری مجموعے کو ’بزم تخلیق
ادب‘کراچی نے شایع کیا ہے۔کتاب کا گیٹ اپ اور سرورق واقعی شاعرانہ
ہیں۔ترتیب خوب ہے یعنی دعائیہ،نعتیہ،غزلیں اور نظمیں۔پنجابی بھی آخرپر برکت
کے لیے شامل کردی ہے۔دعائیہ کا انداز عام سا ہے مثلاً یہ شعر
نہ مدینے سے لوٹ کر آؤں
بس تمنا ہے یہ مری یا رب
لیکن نعت کا یہ شعر منفردلگا
ترے خیال سے بڑھ کر کوئی خیال نہیں
توشہرِعلم ہے تری کوئی مثال نہیں
فلکؔ کی شاعری کے اوصاف کو میں نے موضوعات میں تقسیم کیا ہے اور مختصر
الفاظ میں ان خوبیوں کو بیان کیا ہے۔فلکؔ کی شاعری کے بیشماررنگ ہیں اور
میں ان تمام رنگوں کو گن نہیں پایا۔تاہم ان کو بیان کرنے کی اپنی سی کوشش
کی ہے۔فلکؔ شاعرہ ہیں اور اس کا ادراک رکھتی ہیں۔ان کو اپنے عورت ہونے کا
بھرپوراحساس ہے اور یہی چیزہماری شاعری کو چاہیے۔یہاں پروین شاکر،فہمیدہ
ریاض ،کشورناہید،شبنم شکیل،منصورہ احمداورنوشی گیلانی پرجاکرنسوانی شاعری
اور احساس دم توڑجاتے ہیں۔ہم ویسے بھی اکابرپرست ہیں۔ان ناموں کے سائے میں
آج کے دورکے نئے تخلیق کاروں کو تلاشتے ہیں اور ان کے موضوعات کو ماضی کی
آوازسمجھتے رہتے ہیں۔آئیے اکیسویں صدی کی ایک توانا نسوانی آوازکوسنتے
اورسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے تمام رنگ اپنے ہیں اور کسی سے مستعار
نہیں۔
ا۔نسوانیت اور نسائیت کا بیانیہ:یاران نکتہ داں اکثراس طرح کے موضوعات کو
فہمیدہ ریاض کی شاعری میں تلاش کرتے ہیں لیکن فلکؔ نے اس رنگ کو خوب برتا
ہے۔ان کے ہاں نسوانیت کا بیان تو ہے لیکن نسائی وقارکے ساتھ۔یہ انداز
فہمیدہ کی عریاں نسوانیت میں کہاں
کھلی جو آنکھ تو پہلو میں اس کی خوش بو تھی
وہ میرے ساتھ رہا خواب کے سفر میں بھی
۲۔فطری نسوانی رنگ:فلکؔ کے ہاں فطری رنگ نمایاں ہیں۔یہ رنگ وہ ہیں جو
ہرعورت محسوس کرسکتی ہے۔عورت چاہے جانے کے خواب دیکھتی ہے اور ان خوابوں کو
فطرت کے مختلف رنگوں میں تلاش کرتی ہے۔وہ وفاکا تقاضابھی بشری کمزوری میں
اپنے آپ سے ہی کرتی ہے۔لیکن فلکؔ کے ہاں یہ کمزورپہلو نمایاں نہیں۔وہ آج کے
دورکی طاقتورعورت کے محسوسات کو بیان کرتی ہے جو وفاکرنا اورترک کرنا جانتی
ہے۔
میں جب کبھی تری چاہت کے خواب بنتی ہوں
تو چھیڑتی ہے ہوا باربار آکے مجھے
نویدہویہ اسے،ترک کی وفا میں نے
وہ شرمسارنہ ہواب کے آزمائے مجھے
۳۔کم مائیگی کا احساس:کم مایہ ہونے کا احساس ہربڑے فنکار میں ہونا چاہیے
اور فلکؔ کے ہاں یہ اندازپایاجاتا ہے۔وہ طاقت جس نے ہم کو پیداکیا
اورپھرزبان دی اوراس زبان کو بیان کا سلیقہ عطاکیا تو اس کے احسان کو بیان
کرتے رہنا ہی آدمیت ہے۔اس قادرمطلق سے اس ہنر میں اضافے کے لیے دعاگورہنا
چاہیے
ہوسخن کا ہنرعطا مجھ کو
معتبر کر میرے خدا مجھ کو
۴۔چھوٹی بحروں کا خوب صورت استعمال:فلکؔ نے اپنی شاعری میں خوب صورت
اندازمیں چھوٹی بحروں کا استعمال کیا ہے اور یہ اندازکم شاعرات کے ہاں ملتا
ہے۔اس مجموعہ کلام میں ایسی غزلوں کی بھرمار ہے جو چھوٹی بحرکی ہیں۔مشت
نمونہ ازخروارے
حسرتوں کا شمار کیا کرتے
آپ کو شرمسار کیا کرتے
ہو سخن کا ہنر عطا مجھ کو
معتبر کر میرے خدا مجھ کو
جس کا خودانتساب ہوتی ہیں
لڑکیاں وہ کتاب ہوتی ہیں
ہرمنطق لا یعنی ہے
کیسا عہدِ جوانی ہے
سنگ ترا دوگام بہت ہے
میرے لیے ایک شام بہت ہے
۵۔احساسِ تنہائی:ہرتخلیق کارکے ہاں تنہائی کا اظہارملتا ہے ۔فلکؔ کے ہاں
بھی یہ احساس موجودہے لیکن ان کی تنہائی چاندراتوں جیسی ہے ۔انھوں نے اپنی
تنہائی اور چاند کی تنہائی کا موازنہ کیا ہے اور اس میں رمزیہ پوشیدہ ہے کہ
چاندراتوں میں تنہاہونے کے باوجودبھی روشنی دیتا ہے۔ان کی تنہائی بھی ایسی
ہی ہے۔
جن میں چاند اورہم رہیں تنہا
ایسی راتیں عذاب ہوتی ہیں
۶۔لمس،جنس اور رومانویت کا خوب صورت اظہار:فلکؔ نے کچھ مشکل باتیں بھی اتنی
آسانی سے کہی ہیں کہ قاری دانت انگلیوں میں دباتارہ جاتا ہے جیسے جنس کا یہ
انداز جو سب سے جدا اور منفردلگتا ہے۔
خوب صورت خطائیں بھی تو فلکؔ
باعثِ اضطراب ہوتی ہیں
۷۔تراکیب کا استعمال:فلکؔ نے غزلوں میں تراکیب کا خوب استعمال کیا ہے اور
یہ تراکیب مرکب بھی ہیں۔جیسے جیبِ ہنر،خیالِ یار،زادِ راہ،پیشِ نظر،چشمِ
تر،ارتکابِ جرمِ الفت،اشکِ خوں،سرِ مژگاں،برنگِ نور،عرضِ تمنا،کارِ
محال،شامِ انتظار،جانِ آرزو،سروِ جمال۔یہ تراکیب اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو
لکھنے کے لیے صفحات کی ضرورت ہے۔کچھ پرہی اکتفا کیا ہے۔
۸۔ذومعنی الفاظ کا استعمال:ذراان الفاظ پر غورکریں۔ارتکابِ جرمِ الفت،متاعِ
غمِ ہستی،تری جاگیر،شبنمی لمس،کلی بیدار،کہیں کا نہ چھوڑازمانے میں،اپنے
جوبن پر ہے بہارکاموسم۔یہ اور اس طرح کے لاتعدادذومعنی الفاظ فلکؔ کے ہاں
ملتے ہیں اور آپ کی مرضی ہے کہ ان سے جو چاہے معانی اور مطالب اخذکریں
وہ کرکے ارتکابِ جرمِ الفت
زمانے سے چھپانا چاہتا ہے
وہ لے گئے ہیں مجھ سے متاعِ غمِ ہستی
اورپوچھتے ہیں اب تری جاگیرمیں کیا ہے
شبنمی لمس اسے اوربھی مہکائے گا
ہورہی ہے کلی بیدار ذرا دیکھو تو
چاہت میں جس کی خودسے ہوئے بے خبرفلکؔ
اس نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑازمانے میں
آنے والے موسم میں پھرملن کا وعدہ تھا
آ! کہ اپنے جوبن پرہے بہارکا موسم
۹۔متضادالفاظ کا استعمال:فلکؔ کے ہاں کلاسیکی شعراکی طرح متضادالفاظ کا
استعمال بھی ملتا ہے جیسے تدبیر،تقدیر۔اندھیرے،روشنی وغیرہ۔اس سے یہ بھی
معلوم ہوتا ہے کہ فلکؔ کی کلاسیکی شاعری پر گہری نظرہے اوروہ الفاظ کا
استعمال سوچ سمجھ کرکرتی ہیں۔ان دواشعارکی بنت دیکھیے اور سرکودھنیے۔
تجدیدِ ملاقات کی کرتے تو ہیں تدبیر
یہ کس کوخبردونوں کی تقدیرمیں کیا ہے
میں نے دل کو جلاکے دیکھ لیا
ان اندھیروں میں روشنی نہ ہوئی
۰ا۔جنس کا گہرااظہار:فلکؔ کے ہاں عورت اپنے اصل روپ میں نظرآتی ہے اور جنس
کا فطری اظہار بار بار ملتا ہے۔میں نے تین اشعار کا انتخاب کیا ہے۔ان اشعار
کے ان الفاظ پر غورکریں۔اک بات، ان کہی،خمار آگیں،خیالِ یار،زندگی دیتا
ہے،وہ پیارکا لمحہ،رنگ چہرے سے،چنر سر سے،بے باک،وصلِ یار کا لمحہ۔ان الفاظ
کو آپ کیسے ملفوف کرسکتے ہیں۔ان میں بولنے والے جذبات کا تعلق جسم کی پکار
سے ہے جو فطری ہے اور عورت اور مردکے قدرتی تعلق کی تصویرکشی بھی۔یہ
اظہارکہیں کہیں پروین شاکر کے ہاں بھی ملتاہے لیکن اتنا بھرپور نہیں
بیاں ہوتی نہیں لفظوں میں اکثر
وہی اک بات جوہے ان کہی میں
ہے خمارآگیں خیالِ یارکا لمحہ
زندگی دیتا ہواوہ پیارکا لمحہ
رنگ چہرے سے اڑائے اورچنرسرسے
تھابہت بے باک وصلِ یارکا لمحہ
اا۔سماجی حقائق کا شعور:ہمارے سماج کی یہ ایک بڑی تلخ سچائی ہے کہ اس سماج
میں عورت پہلے والدین،پھرشوہراورآخرمیں بچوں کی داسی ہوتی ہے ۔وہ خدمت کرتے
کرتے ٹوٹ جاتی ہے لیکن اس تپسیاکا اسے وردان نہیں ملتا۔جدیدسوسائٹی بھی اس
کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔شادی کے ساتھ ہی بیٹی کا امتحان شروع ہوجاتاہے۔اس نے
والدین کی توقعات پرپورااترناہے۔اس نے شوہرکی توقعات پرپورااترناہے۔اس شعر
کی تلخی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
وہیں ہے اب تمھار اجینا مرنا
کہا ماں نے بٹھاکر پالکی میں
اس کے ساتھ ساتھ فلکؔ کو اس بات کا بھی شعورہے کہ مادیت نے عالی نسبوں کو
کمی اور کمیوں کو عالی نسب بنادیا ہے۔آج کا معاشرہ اس پر دال ہے کہ
’جولچااواچااے‘۔قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ویسے سوال
اپنی جگہ ہے کہ اگرتقویٰ ہی سب کچھ ہے تو نام ونسب کیوں؟
مسمار کیا وقت نے اعلیٰ نسبوں کو
اب پوچھتاکوئی نہیں کیا نام ونسب ہے
۲ا۔انسانیت سے محبت:انسانیت سے محبت عبادت ہے اور تخلیق کار کو حساسیت کی
وجہ سے اس پر زیادہ عامل ہونا چاہیے لیکن یہ مسلک بہت کم تخلیق کاروں کا
ہوتا ہے۔فلکؔ کے ہاں یہ سوچ پختہ ہے کہ جب جدائی ہماری قسمت ہے تو کسی سے
رنجش کیوں رکھی جائے۔یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ موت برحق ہے ۔اس
شعورکے ادراک کی ضرورت ہے۔اس دنیا میں فساد بھی تو اسی وجہ سے ہے۔
کیوں کر اس دل میں کوئی رنجشِ بے جا رکھیے
جانے کب،کون،کہاں،کس سے جدا ہو جائے
۳ا۔اپنے ہونے کا احساس:یہ بات شک وشبہ سے بالا ہے کہ عورت کے وجودہی سے اس
کائنات میں رنگ ہیں اوراس کے بغیرمردکی زندگی ایک ویرانہ ہے۔فلکؔ کو اپنے
ہونے کا احساس ہے اور ہونا بھی چاہیے۔وہ ایک عورت ہیں اور تخلیق کار
ہیں۔ایک تو کائنات کی تخلیق اور پھر شاعری۔دوتخلیقات۔مردکہاں ان سے مقابلہ
کرسکتاہے۔جو صرف ایک کیٹالسٹcatalyst ہے۔تخلیق کا ساراکرب عورت ہی تو
برداشت کرتی ہے۔
مرے وجودسے قائم ہے زندگی کی نمود
یہ رنگ مجھ سے ہی تصویرِ کائنات میں ہے
۴ا۔بے لگام آزادی پر صدائے احتجاج:انسانی آزادی پر مذہب،فلسفہ اورشاعری میں
الگ الگ نقطہ ہائے نظرملتے ہیں۔مذہب کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے تو فلسفہ
اور شعرااس کی مخالفت کرتے نظرآتے ہیں لیکن فلکؔ انسان کی بے لگام آزادی کی
مخالف ہیں۔اس طرح وہ مذہب کے قریب نظرآتی ہیں کہ جب کائنات کی ہرچیزمیں
توازن ہے تو انسان کی زندگی میں کیوں نہیں۔قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر چیزمیں
ایک نظم ملتا ہے۔کائنات کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں لیکن انسانی زندگی میں
حدودوقیودنظرنہیں آتیں۔مذہب نے تو عائد کی ہیں لیکن آج کا انسان ان احکامات
کو جبرسے تعبیرکرتا ہے۔لیکن شایداس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جبرکے ساتھ صرف
انسان کو اختیاردیا گیا ہے کسی حد تک۔
فضائے عالمِ امکاں میں آدمی کے سوا
ہرایک چیزحدودِ تعینات میں ہے
۵ا۔تضمینات اور سہل ممتنع کا استعمال:ہربڑے شاعرنے اپنی شاعری کے اندرخوب
صورت تضمینات کا استعمال کیا ہے۔فلکؔ کے ہاں بھی تضمین ملتی ہیں۔اس کے
علاوہ سہل ممتنع کا استعمال بھی کیا خوب کیا ہے کہ غالبؔ کی یادتازہ ہوگئی
کہ آدمی کو بھی میسرنہیں انساں ہونا اور یہ شعردیکھیں جو مختصربحرمیں ہے
لیکن کتنا پراثر
پھر آزما کے دیکھ اگر آزما سکے
’میراہی دل ہے وہ جہاں تو سما سکے‘
آسانی میں ہے مشکل
مشکل میں آسانی ہے
۶ا۔عورت کا احساسِ عدم تحفظ: عورت ہمیشہ سے عدم تحفظ کا شکاررہی ہے اور
ہے۔وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ اس سے مرد محبت صرف رنگ وروپ کی وجہ سے ہی نہ کرے
بلکہ اس کی صلاحیتوں اور سیرت سے کرے۔آج کے دورکا یہ ایک اورالمیہ ہے کہ آج
کا مردعورت کے روپ کا رسیاہے اور وہ وہ بھنوراہے جو رس چوس کراڑجانا
چاہتاہے۔اس کی منزلِ شوق عورت کا جسم ہے اس کی روح نہیں۔وہ اس کی روح کی
گہرائیوں میں اترنا ہی نہیں چاہتا۔تاہم فلکؔ کے ہاں یہ تمنا پائی جاتی ہے
کہ مردعورت کی سیرت کی وجہ سے اس کی عزت وتوقیراور محبت کرے نہ کہ صورت کی
وجہ سے۔
پھرسے کہناکہ تری منزلِ شوق
مرادل ہے مری صورت تو نہیں
۷ا۔ منافقت ،ریاکاری اوربے حسی پرصدائے احتجاج:ہمارے معاشرے کو ریاکاری
اورمنافقت گھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس تک نہیں ہوتے۔یہ
رویہ سیاست سے لے کر مذہب تک چھاچکا ہے۔مولوی ہے تو ریا کار اور سیاست دان
ہے تو منافق۔شایداسی لیے اس ملک کے عوام نہ سیاست دان پر اعتمادکرتے ہیں
اور نہ مولوی پر۔طبقہ علما میں اس بیماری کا شعوروادراک بھی نہیں جس نے
معاشرے کا چہرہ گہنا دیا ہے۔فلکؔ کے ہاں اس کے خلاف صدائے احتجاج ملتی
ہے۔وہ شعوررکھتی ہیں کہ عبادت کو بے ریا ہونا چاہیے۔نمازمیں صرف خداکے
حضورکھڑاہوناہی کافی نہیں کہ دل ونگاہ دونوں کو مسلمان کرنا ضروری ہے۔اس کے
علاوہ معاشرتی بے حسی وہ ناسورہے جس نے معاشرے کے ہرفردکو اپنے اپنے
حصارمیں بندکردیاہے۔ہرکوئی جب یہ سوچے کہ میرے احتجاج کرنے سے کیا ہوگا تو
معاشرتی اورسماجی مسائل بڑھتے رہیں گے۔آدمی تو نام ہے آدمیت کا اور جب
آدمیت کا گلہ گھونٹاجارہا ہو تو بے حسی ترک کردینی چاہیے کہ ایمان کی
کمزورترین علامت دل میں برا جاننا ہے۔
دل میں بھی چاہیے کچھ سوزِ دروں
سر جھکانا ہی عبادت تو نہیں
کیسے ہرظلم پر خاموش رہے
آدمی ہے کوئی مورت تو نہیں
۸ا۔محبت میں ثابت قدمی:مردکا اندازتو یہ ہے کہ ’توہے ہرجائی تواپنابھی یہ
طور سہی‘۔’تونہیں اورسہی اورنہیں اورسہی‘لیکن فلکؔ تو وفاکرنا جانتی ہیں
اور یہ جان کربھی کہ مردکے پاس وفاکا صلہ نہیں۔ان کی ریاضت تو عمربھرچاہنا
ہے۔اور مردکے ہرجائی پن کے باوجوداسے بھولنا نہیں جانتیں۔ان کے ہاں ثابت
قدمی ہے اور یہ آپ کے مضبوط کردارکی بھی دلیل ہوتی ہے۔فلکؔ کے ہاں متلون
مزاجی نہیں ایک ٹھہراؤ ہے ایک دھیرج ہے اور ایک سکون ہے۔ویسے عمرکے ساتھ
ساتھ سکون تو آہی جاتا ہے(کسی کی بے وفائی کا)
ہم نے اک عمرتمھیں چاہاہے
کوئی کم اپنی ریاضت تو نہیں
ترکِ عہدِ الفت پر ہم نہ ہوسکے مائل
گرچہ بارہا ہم نے تم کو بے وفاپایا
تم مجھ کو بھول جاؤ تو کوئی عجب نہیں
میں تم کو بھول جاؤں مری کیا مجال ہے
۹ا۔مومن خان مومنؔ کی طرح تخلص کو ذومعنی استعمال کرنا:یہ کمال مومنؔ کا ہے
کہ وہ اپنے تخلص کو ذومعنی استعمال کرتے تھے اور کلاسیک سے رابطہ فلکؔ کا
بھی ہے۔انھوں نے اپنے نام کو غزل کے مقطع میں کمال مہارت سے یوں سمودیا ہے
کہ وہ تخلص کا تخلص ہے اور مطلب کو بھی بیان کرگیا ہے
مجھ پہ بیدادِ فلک ؔہے پیہم
کیااسے مجھ سے عداوت تونہیں
۲۰:جذبوں کی انتہا:عورت کے ہاں جذبوں کی انتہا پائی جاتی ہے اور شاید اس کی
وجہ اس کا مردکی نسبت زیادہ جذباتی ہونا بھی ہے۔فطرت نے اس کے اندرایک
ماں،بہن،بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے جذبات کا ایک سمندربندکردیا ہے۔آج کے
دورنے اس کی دو اور حالتیں مزیدسامنے لائی ہیں۔کبھی یہ دو رشتے یورپ میں
تھے۔اب ہمارے ہاں درآئے ہیں۔دوست اور گرل فرینڈ۔آج کے دورکی جدیدنسل کے پاس
اکثر یہی دورشتے ملتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ ان دوتعلقات میں بھی نقصان
عورت ہی کا ہوتا ہے کہ وہ جذباتی ہوتی ہے۔عورت بہرحال وفاکرنا جانتی ہے اور
اس کی ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ حدوں کو نہ پھلانگے لیکن جب وہ طے کرلے تو
زمانے کی رسموں کی پرواہ کم ہی کرتی ہے۔اسی لیے فلکؔ مردسے توقع رکھتی ہے
کہ وہ دنیاسے پہلے بغاوت کرے اور پھر اس سے زمانے کی رسموں کو توڑنے کی
توقع رکھے۔
رقص کرتاہے پہن کرجووفاکی زنجیر
خوف رہتا ہے کہاں پھراسے رسوائی کا
توڑتی میں بھی پرانی رسمیں
وہ بھی دنیاسے بغاوت کرتا
ا۲۔قنوطیت:فلکؔ کی شاعری میں قنوطیت بھی نظر آتی ہے اور وہ حالات سے مایوس
بھی نظر آتی ہیں۔اپنوں اور غیروں سے وہ شکایت اس لیے بھی نہیں کرنا چاہتیں
کہ ان کو یہ دنیا دھوکوں سے بھری نظرآتی ہے۔جانے یہ ان کے اپنے تجربات ہیں
یا لوگوں سے سنے ہوئے۔ایسابھی نہیں کہ دنیا غموں سے بھری ہوئی ہو اس میں
سکھ بھی ہیں۔بہارکے بعدخزاں آتی ہے۔ہاں کسی کے لیے خزاں دیرسے آتی ہے۔دوش
زمانے کو نہیں دیا جاسکتا۔
نہیں ہے رنج بہاروں کے روٹھ جانے کا
ہمیں بھی موسمِ گل اب کے سازگارنہیں
کیاگلہ اپنوں سے کیجیے،کیاشکایت غیرسے
کچھ بھری دنیامیں دھوکے کے سوا باقی نہیں
۲۲۔فطرتِ نسواں:یہ حقیقت ہے کہ عورت وصل کی خواہش کرتی ہے لیکن اسے فراق
پسندہے۔شایداس کی وجہ یہ ہے کہ مردx اورy فنااوربقاکے چکرمیں پھنسارہتا ہے
لیکن عورت مردسے بچہ لے کر علیحدہ ہو جاتی ہے۔اسے وہ سب مل جاتا ہے جس کی
وہ تمنا کرتی ہے۔وہ بچے کی صورت میں بقاکا سفرجاری رکھتی ہے لیکن
مردسرگرداں ہی رہتا ہے۔مردعورت کو مل جائے تب بھی اس کے لیے ’باعثِ آزار‘ہی
رہتا ہے۔فلک نے اس کیفیت کو کمال مہارت سے بیان کیا ہے
عشرتِ وصل سے بڑھ کر ہے ترے ہجرکا غم
تیرے ملنے کی خوشی باعثِ آزارتوہے
۲۳۔غزل کا روایتی انداز:ہرجدیدشاعرنے غزل کا قدیم روایتی اندازضروراپنانے
کی کوشش کی ہے۔یہ اندازفلکؔ کے ہاں بھی ملتا ہے ۔ان کے ہاں بھی
ناصحو،سرِمقتلِ جاں،شورِ ماتم اورقلبِ عزادارکے تذکرے ہیں جو ان کو غزل کے
کلاسیکی رنگ سے ملاتا ہے۔
ناصحو ! یہ بھی بہت ہے کہ سرِمقتل جاں
شورِ ماتم نہ سہی قلبِ عزادارتو ہے
۲۴۔مقدرکارونا:مقدرکا رونا فلکؔ نے بھی رویا ہے اور روایتی عورت کی طرح اس
کو صرف مردکی ذات تک محدود کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ پسندیدہ مردکا مل جانا خوش
قسمتی اور نہ ملنا بدقسمتی ہے اور بس؟فلکؔ صاحبہ مقدرصرف اس کا نام نہیں کہ
کسی کا وصال نصیب ہوجائے۔ا س کا دائرہ وسیع ہے اور اس میں ساری انسانی
زندگی شامل ہے۔تاہم اندازخوب ہے اورعورت کی اس بے بسی کو بیان کرتا ہے جس
میں کل اور آج کی عورت جکڑی ہوئی ہے اور اس سے فلکؔ بھی آزاد نہیں
رہتاہے وہ کیوں میرے خیالوں میں شب وروز
ہاتھوں کی لکیروں میں جوپہلے تھا نہ اب ہے
ہیں غیرکوحاصل تیری چاہت کے اجالے
اور میرامقدر وہی تاریکئی شب ہے
۲۵۔اظہار:عورت اظہارمانگتی ہے۔اسی طرح کی کیفیت فلکؔ کی شاعری میں بھی ملتی
ہے۔انھوں نے عورت کی اس کیفیت کو بیان کیا ہے جس میں سے کچھ خواتین گزرتی
ہیں۔تاہم دوسرے شعرمیں عورت کی فطری ضدبھی جھلکتی ہے۔جبکہ تیسرے شعرمیں ایک
حقیقت کا ادراک ہے کہ جس سے دوررہنے کی کوشش کی جائے وہی یاد بھی بہت آتا
ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جس سے گریزاختیارکیا جائے اسی سے محبت بھی ہوتی
ہے
جان تم یاد بہت آتی ہو
تم نے یہ کیوں نہیں لکھااب کے
میں نے ہربار منایا ہے اسے
پہل وہ کیوں نہیں کرتا اب کے
وہ جس نے مجھ کو تڑپایابہت ہے
وہی دل کو مرے بھایابہت ہے
۲۶۔ہندی الفاظ کا استعمال:فلک ؔ کے ہاں مختلف تجربات ملتے ہیں اور ان میں
سے ایک غزلوں میں ہندی الفاظ کا استعمال بھی ہے۔انھوں نے ہندی کے الفاظ
چابک دستی سے استعمال کیے ہیں اگرچہ اردومیں ہندی کا استعمال کچھ اتنابھی
اچھا نہیں اور یہاں واضح طورپرگیت کا اندازجھلکتا ہے جیسے
جب جیون ہم نے ہار دیا
پھرحاصل کیا لاحاصل کیا
جب ناؤکا کھیون ہار نہ ہو
پھرموجیں کیااورساحل کیا
دربندہوادھنوان کا جب
پھرمانگ رہا ہے سائل کیا
۲۷۔محبت اعتبارکا نام ہے:یہ قدیم بحث ہے کہ محبت اعتبارمانگتی ہے لیکن اس
کی توقع عام طورپرعورت سے ہی کی جاتی ہے اور پوترتاکی توقع بھی اسی سے کی
جاتی ہے۔تاہم اس دورمیں اعتبار اور موسم سب رنگ بدلتے ہیں۔عورت کو بہرحال
مردپراعتبارکرنا ہی پڑتا ہے کہ ہمارا معاشرہ پدرسری ہے اور سربراہ مردہی
ہے۔فلک کی شاعری میں یہ کسک موجودہے کہ اعتباراورموسم اوررت میں فرق ہونا
چاہیے۔ اعتبارفلک کے نزدیک موسم یا رت کی طرح نہیں کہ جس کے جانے یا آنے کی
امیدکی جائے بلکہ اس کو تو دائمی رہنا چاہیے۔اسے تبدیل نہیں ہونا چاہیے
لیکن اس دورمیں ہرچیزرنگ بدل رہی ہے اور اعتباربھی اب گرگٹ کے رنگ بدلتا ہے
تاہم اعتبارعورت کے ساتھ ساتھ مردبھی کھوتا ہے کہ جب قدریں بدلیں تو کیا
عورت اور کیا مردسب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ثابت ہوتے ہیں۔
موسموں،رتوں کاکیایہ توآتی جاتی ہیں
لوٹ کر نہیں آتا ، اعتبار کا موسم
۲۸۔ہمدمِ دیرینہ کی تمنا:عورت مردسے طویل رفاقت کی تمنا اور خواہش کرتی ہے
اور اپنے مردہی کے لیے بناؤسنگھاربھی کرتی ہے۔شایدمرداس کے من کا دیوتا
ہوتا ہے اور دیوتاکوخوش دیوی سنگھارکا وردان دے کرہی کرسکتی ہے۔یہ اندازخوب
ہے کہ
کوئی غنچہ تو سرِشاخِ تمنا مہکے
جس کی خوشبوسے مرے پیارکا انگنامہکے
جب بھی وہ ساتھ ہوبیلے کی مہکتی رت میں
کان میں بالی،کبھی ہاتھ میں کنگنا مہکے
۲۹۔فکرِ چمن: تخلیق کار کا اپنی زمین سے رشتہ ماں اور اولادجیساہونا چاہیے
لیکن ہمارے ملک کے تخلیق کار وں کا حال یہ ہے کہ دنیا جہان کا دردتو ان کے
جگرمیں ہے اور اگرنہیں تو اپنی مٹی کا نہیں۔ایک عام تاثرہے کہ اس ملک کو
تباہ پڑھے لکھوں نے زیادہ کیا ہے اور یہ درست بھی ہے۔قوموں کی تربیت میں
اہل قلم کا بنیادی کردار ہوتا ہے اور اس بات کا احساس فلک ؔ کے ہاں موجود
ہے اور وہ اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ اس ملک اور اس کے شہروں کی حفاظت
کے لیے تخلیق کاروں کو مل کر کام کرنا پڑے کا ورنہ امن اورسکون کا خواب
تشنہ ہی رہے گا۔ان کا یہ شعراپنے اندروہ سارے دردرکھتا ہے جووہ تخلیق کاروں
سے مانگ کرتی ہیں۔
اٹھواے ساکنانِ دشتِ جنوں
ہو چکا شہر پائمال بہت
۳۰۔اظہارِ محبت کا منفردانداز:عورت محبوب کی شکل میں ایک محبت کا قیدی
چاہتی ہے۔شایداس میں عدم تحفظ کا اظہاربھی ہے کہ مردبھنوراہے۔عورت کی
تمناہوتی ہے کہ اس کا مردصرف اس کا رہے۔یہ شعرذومعنی بھی ہے۔جبکہ دوسرا شعر
ایک تمنا کا اظہار ہے اور وہی کہ عورت مردسے دیرینہ تعلق کی تمنائی
ہے۔تیسراشعرعورت کی اس روایتی کیفیت کا غکاس ہے جس میں عورت کو صدیوں سے
جکڑدیا گیا ہے کہ مرداس کا مجازی خدا ہے۔آخری شعرمیں کسی ہم دم دیرینہ کی
تمنا ہے۔
سونپ دوں سرمایہء ہستی اسے
وہ مرے دل میں اگرپیہم رہے
رہوں میں حرف کی صورت کتابِ الفت میں
پڑھے مگروہ مجھے داستان کی صورت
ترے ہی درپہ جبیں میری سجدہ ریزرہے
خداکے بعد میں اپنا خدا بناؤں تجھے
ہے فلکؔ راہ کٹھن اور مسافت ہے بہت
میں نہ بھٹکوں گی کوئی ساتھ توہولے اپنا
ا۳۔انسانی اقدارکی تلاش:ہرشاعر نے اپنے اندازمیں انسانیت سے محبت کے نعرے
لکھے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم مادی اعتبارسے آسودہ اور روحانی
اعتبارسے ناآسودہ ہوتے جارہے ہیں۔ان ناآسودگیوں نے انسانیت کا مستقبل مخدوش
کردیا ہے۔اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا۔روایات دم توڑچکیں لیکن ہم اپنے آپ کو
پھر بھی آدمی ہی کہتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ آدمی آدمیت کا نام ہے ۔فلکؔ کا
یہ شعران تمام دکھوں کو بیان کررہا ہے جو دم توڑتی انسانیت کو لاحق ہیں
اوران کا علاج ممکن نہیں۔کیونکہ انسان ہی انسان کا بیری ہے اور انسانیت کی
بلندیوں سے گرچکا ہے۔
ہرگلی ہرموڑپردم توڑتی انسانیت
شہرمیں اب آدمی انساں نماباقی نہیں
۳۲۔استغنا:انسانی زندگی میں آسائشوں اور سہولتوں نے بڑے مسائل پیدا کیے
ہیں۔سادہ زندگی بسرکرنے والا ان تمام آلام وافکارسے دورہے جو آج کے شہری کو
لاحق ہیں۔اوراوراورزیادہ کی تمنا نے انسان کو نفس کا کتا بنادیاہے جو نفس
کی خواہشات کے لیے زندگی کے ماہ وسال ضائع کرتا چلا جارہا ہے۔فلکؔ کے ہاں
قناعت زندگی کی اساس کے طورپرسامنے آتا ہے۔شایدعمربڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ
افرادمیں یہ خوبی آجاتی ہے اوروہ کم کھانے کے علاوہ کم حریص بھی ہو جاتے
ہیں۔
بڑی پرمسرت ہے یہ زندگی
قناعت سے اس کو بسرکیجیے
۳۳۔مقصد حیات:انسانوں اور چوپایوں میں ایک فرق شعورذات اور شعورحیات کا بھی
ہے۔انسان کو اپنی حیات اور اس کے مقاصدکا ادراک ہونا چاہیے اورعلم سیکھنے
اورسکھانے سے بڑھ کراورکیا مقصدحیات ہوسکتا ہے۔نبی ؐ امی کا فرمان ہے کہ
علم کا حصول ہر مسلمان مرداورعورت پر فرض ہے اوراس کا ادراک فلکؔ کو ہے۔ان
کی شاعری میں اس بات کا شدیداحساس پایا جاتا ہے کہ علم اورہنرکی تبلیغ سے
بڑھ کر کوئی بھلائی نہیں۔مثلاً یہ شعر دیکھیے
نہیں اس سے بڑھ کربھلائی کوئی
کہ تبلیغِ علم وہنر کیجیے
۳۴۔امن،سکون،محبت،رواداری کا شاعرانہ خواب:شاعرہمیشہ دنیامیں
امن،سکون،محبت،رواداری،عدم تشدد کے خواب دیکھتا ہے اور ان پر ہی لکھتا
ہے۔یہ دنیا میں پھیلی انتہاپسندی،دہشت گردی،عدم برداشت ہی تو ہے جوانسانوں
کو انسانوں سے دورکررہی ہے۔دنیاگلوبل ویلج بن چکی لیکن پوری دنیا میں انسان
اپنے ہمسائے تک کے دکھوں سے تو واقف نہیں۔قرآن کچھ گمانوں کو گناہ قراردیتا
ہے اوران سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے۔دنیا میں فساد بھی تو گمانوں کے
پیداکردہ ہیں۔انسان انسان سے بدگمان ہے وہ اخوت اور محبت کے نام سے آشنا
لیکن ان کی اہمیت سے ناآشنا ہو رہا ہے۔تاہم انسانیت سے محبت کے دعویداروں
کو بہرحال انسانوں کے درمیان پیارومحبت کو ہی عام کرنے کی سعی جاری رکھنا
چاہیے۔
بدگمانی بورہے ہیں جو فلکؔ
ان سے کہہ دو پیارکی باتیں کریں
۳۵۔شعورزیستن:زندگی بہت کٹھن ہے اور پرسکون زندگی کے لیے بڑے کشٹ اٹھانے
پڑتے ہیں۔انسان زیست کا سفرطے کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور یہ محنت اس سے
جانے کتنے روپ تبدیل کرواتی ہے۔یہ شعرشایدفلک ؔ کی اپنی زندگی کی داستان ہے
زندگی کی تلاش میں یارب
میں نے کیاکیا نہ روپ دھاراتھا
فلکؔ کی نظموں کی بات کریں تو’نذرِ غالب‘،’نذرِاقبال‘خوب ہیں کیونکہ
کلاسیکی اندازلیے ہیں۔’چاندکوچھونے کی خواہش رکھنے والو‘خوب صورت نظم
ہے۔آئیڈیل،آدرش کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔عارضی پڑاؤکومنزل سمجھنے والے کسی
بڑے مقصدکو نہیں پاسکتے۔چاہے جانے کی خواہش ہر انسان اور خاص طورپرعورت میں
ہوتی ہے اور ’خواہش‘اس کا بہترین اظہاریہ ہے۔یہ اور بات کہ ہر خواہش پوری
بھی نہیں ہوتی۔’یاد‘ماں کے لیے خوب صورت نظم ہے اور آپ نے انتساب بھی یہی
کیا ہے۔جس سے آپ کی ماں کے لیے محبت کا پتاچلتا ہے۔’آرزو‘میں ہرعورت کی
گھرکی خواہش جھلکتی ہے۔’تبدیلی‘خاصے کی چیزلگی۔وہ راہیں/جن راہوں پہ تم/آتے
ہوئے گھبراتے تھے/وہ پتھریلی راہیں اب تو/سنورگئی ہیں/نکھرگئی ہیں/تم اک
بار/آکرتودیکھو۔یہ نظم ایک خوب صورت نسوانی اظہاریہ ہے۔اور نظم ’کتنا
اچھاہو‘قربت کی فطری تمنا ہے۔’مقدرکادکھ‘عورت کا وہ دکھ ہے جس کا علاج کسی
کے پاس نہیں ۔تاہم اس کے بغیرچارہ بھی نہیں کہ یہی فطرت ہے۔میرے غم میرے
ہیں/میرے ہی رہیں گے/اوراگرتم بانٹ بھی لوگے/توبس/دوچارپل کو۔ایک مجموعے
میں اتنے سارے رنگ دیکھ اور پڑھ کر دل سے دعا نکلی کہ خدا آپ کو صحت اور
مزیدتخلیقات کے لیے صلاحیتوں میں برکت دے- |