گزشتہ دنوں اسلام آبادمیں ایک ٹی وی چینل پر ہمیں مدعو
کیا گیا،موضوع تھا’’کیا معاشرے کی اصلاح میں علماء اپنا رول پلے کر رہے
ہیں؟‘‘اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے ہم نے کہاکہ عالم اسلام عمومی طور پر
معاشرتی حوالے سے چونکہ عرصۂ دراز سے تہذیبوں کی جنگ کا شکار ہے،خلافت
عباسیہ کے زمانے سے صلیبی حملے،ترک خلافت عثمانیہ کے دور میں عجمی اسلام
اور بعد کے ادوار میں سوویت دھریت،مغربی الحاد وزندقہ، اور اندرونی فرقہ
واریت نے پوری امت کو تہس نہس کر دیا ہے،گویا ہم سے نظریاتی قبلہ کھو گیا
ہے،عالم گیریت میں ہم کدھر کا رخ کریں، کس کا ساتھ دیں،کس سے لڑیں،حقیقت یہ
ہے کہ ہمیں نہیں معلوم،ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے،کچھ طبقات امریکہ و مغربی
قوتوں کو دشمن ِاو ل قرار ا دے رہے ہیں، کچھ کی گردنوں پر یہودیوں کے پیر
ہیں،کچھ ملحدین اور زنادقہ سے نبرد آزما ہیں،کچھ لادینیت و دھریت سے برسر
پیکار ہیں،اورکچھ دیگراقلیات کی صورت میں اپنے اپنے اندرونی مسائل کی وجہ
سے اکثریات کے ظلم وستم کا واویلا کر رہے ہیں،یا پھر فرمن حیث المجموع قہ
واریت،لسانیت اور علاقائیت جیسے ناسور،کینسر اور جذام میں مبتلا ہیں،اس
صورتحال کا اگر صحیح تجزیہ کیا جائے، تو حقیقت واشگاف ہو کر سامنے آجائے گی،
کہ یہ سب ہمارے نااہل حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔علماء اس میں اپنا رول اس
وقت ادا کرتے تھے، جب ان کو صحیح مقام دیا جاتا تھا،ان سے مشاورت ہوتی
تھی،لیکن آج کی صورت حال میں جہاں پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ شبیر
احمد عثمانی مرحوم جیسے اساطینِ علم وعرفان کو شناختی کارڈ فارم کے تعلیمی
خانے میں عصری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے’’ان پڑھ‘‘ لکھا اور سمجھا جاتا
ہو،وہ تعلیم جس سے ابن رشد،ابن سینا،امام غزالی،مجددالف ثانی،شاہ ولی اﷲ ،ابوالحسن
علی ندوی جیسے جبالِ علم پیدا ہوئے ہوں،اسے اتنا نظر انداز کر دیا جائے کہ
اس کے سند یافتہ کو سرکاری’’ چوکیداری ‘‘بھی نہ ملتی ہو،امام کے طور پر اگر
کہیں تعینات ہوتے ہوں تو سکیل ’’نائب قاصد‘‘ کا دیا جائے،سرکار سے
آزادمساجد میں بغداد کے مدرسہ نظامیہ کی طرف منسوب یہ فضلاء مسجد کمیٹیوں
کے چھوٹے چھوٹے چودھریوں کے ماتحت ہوں،اپنے ادارے چلانے کے لیے وہ دربدر
چندے مانگ رہے ہوں،کشمیر وافغانستان ہو ،یاکوئی بھی مسئلہ، انہیں صرف ٹشو
پیپر کی طر ح ستعمال کر کے پھر ان کے ڈھیر کودہشتگردقراردے کر آگ لگا دی
جاتی ہو،جہاں پولیس،فوج،عدلیہ،میڈیا،درسگاہوں اور اسٹبلیشمنٹ میں استعماری
دور کے قوانین،اصطلاحات اور الفاظ رٹے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہوں ،کہ
جس کا ہماری معاشرت یا دینی اصطلاحات والفاظ سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو،
انہی اداروں میں براجمان حضرات اپنی ظاہری شکل وشباہت میں خونخوار استعماری
کارندوں کے وضع قطع اور لباس میں ملبوس ہوں ،وہاں بیچارے علماء کیا کردار
ادا کر سکیں گے،نہ الفاظ میں یکسانیت،نہ لباس میں،نہ بود باش میں، نہ وضع
قطع میں،نہ فکرونظر میں۔ جس مسلم ملک میں بارایسوسی ایشن، وزارت تعلیم
اورداخلہ ایسے لوگوں کے پاس ہوں جن کو سورۂ اخلاص تک نہ آتی ہو،وہاں حفاظ
کرام اور علمائے عظام کی کتنی قدر دانی ہو گی، اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔
جہاں کے شہری کلبوں میں اپنے ہی قومی لباس میں ملبوس بغیر سوٹ بوٹ داخلہ
ممنوع ہو، جہاں کے کلیدی اداروں میں اپنی ہی قومی زبان نا پید ہو، وہاں
قومی لباس اور زبان استعمال کرنے کرانے، رغبت رکھنے اور ترغیب دلانے والوں
کی کیا توقیر ہو گی، آپ خود ہی نظر دوڑائیے۔
رہی خالص عوام میں اصلاح کی بات تو جب بالا دست مذکورہ ادارے اورا س کے
کرتادھرتا شخصیات،آفیسر، بوس،خان ، وڈیرے،چوھدری اور سردار خود اور ان کے
اہل خانہ واہل تعلق ملکی معاشرے کا ستیاناس کر رہے ہوں،دنیا جہاں کی خرافات
کو فروغ دے رہے ہوں،ونی،سوارہ اور کاروکاری کی پنچائیتوں کے یہی لوگ فیصلے
سناتے ہوں،ان ہی کے بچے استعماری ملکوں یا ان کے طرز پر قائم کردہ اداروں
میں تعلیم پا رہے ہوں، لائف سٹائل میں وہ خود اور ان کی اولادیں اغیار کی
پیروکار ہوں،اسلام،اسلامیات،اسلامی تاریخ اور فلسفے سے یکدم نا بلد ہوں،
انہوں نے خود اور ان کے متعلقین نے بڑی بڑی سفارشوں ،رشوتوں اور زبردستیوں
سے اعلیٰ مناصب واعزازات تک رسائی حاصل کی ہو،اور اب بھی اس روش پر قائم
ہوں،ملکی منصوبوں میں رقوم پھر انہی کے توسط سے آتی ہوں،اور ان واہیات میں
ملکی وبین الاقوامی پرنٹ ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیا بھرپورطاقت کے ساتھ ان
کے صرف شانہ بشانہ نہیں،ان سے دو چارقدم آگے ہو،ایسے میں ایک فقیر اور
لاچار مولوی آخر کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔کیا آپ نے سنجیدگی سے کبھی ان کو
حقیقی کردار ادا کرنے کا مشن سونپا ہے۔
ایک بات رہ گئی تھی کہ قرآن و سنت کی تشریحات وتشریعات میں ان کی مانی
جائے، لیکن یہاں بھی ایک طرف مولوی ہو ،دوسری طرف غامدی ،شیخ الہند اور
مودودی ،تبلیغی جماعت اور این جی اوز ،دل یا شکم،روح یا مادہ، آپ نے ہمیشہ
اس میں صنف ثانی اور غیر مستند ہی کو ترجیح دی ہے،پھر ان اہل اﷲ و اہل
الفقر سے شکایت کیسی؟؟۔
ہاں،ان تمام تر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود انہوں نے اپنی مدد آپ کے
تحت25ہزار سے زائد رفاہی ادارے،دینی سکولز،مدارس وجامعات اور کئی لاکھ
مساجد کا انتظام وانصرام سنبھالاہے،حکومت سے کبھی کچھ مانگا ،نہ ہی حکومتوں
نے دست شفقت ان کی طرف دراز کیا، آپ حساب لگا لیں ،کروڑوں نہیں کھربوں میں
ان مساجد ومدارس کا حساب کتا ب ہو گا، کیا ہماری مفلوک الحال حکومتیں یہ
کبھی برداشت کر سکتی ہیں، ان پراعتراض سے قبل ان کا جائزہ لیا جائے،علم
وادب ،دعوت و تبلیغ،تعلیم وتدریس،لکھائی پڑھائی،تہذیب وتربیت،تصنیف و
تالیف،سیاست وقیادت،وعظ و نصیحت، جہاد وقتال اور تصوف و سلوک میں ان کے
کردار سے اغیا ر کے بڑے بڑے قلعے لرزہ براندم ہیں،آپ ان کے پاس اور ان کے
ازلی مخالفین کے پاس چل کر تو دیکھیں اور پھر اپنے گریبان میں جھانکیں،پوری
دنیا میں ان کے کردار نے ہلچل مچا دی ہے، مگر متنبی نے کیا خوب کہا تھا :
اگر کسی غبی پر میرا مقام ومرتبہ پوشیدہ ہو جائے ،تو میں اسے معذور سمجھتا
ہوں،کہ اندھی آنکھ مجھے نہیں دیکھ سکتی۔
واذا خفیت علی الغبی فعاذر۔أن لاترانی مقلۃ عمیاء |