طالبان سے مذاکرات ضرور کریں مگر

تحریر : محمد اسلم لودھی

اے پی سی کے مشترکہ اعلان کے مطابق موجودہ حکومت نے پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے طالبان کی جانب سے بھی مثبت پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر دونوں جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیاگیا تو شاید پاکستان مفلوج کردینے والی دہشت گردی کی اس جنگ سے باہر نکل آئے ۔ مذاکرات کب ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس بارے میں تو وقت ہی بتائے گا لیکن حکومت کو جہاں مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کرنی چاہیئے وہاں سیکورٹی پلان کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا ۔سب سے پہلے تو امریکی سفارت کاروں اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کو محدود کرتے ہوئے ملکی قوانین کا پابند بنا نا ہوگا کیونکہ ملک میں اسلحے کی جتنی فراوانی ہے وہ امریکیوں کو کھلی چھٹی دینے کی وجہ سے ہے پھر بھارتی ٗ روسی اور افغانی خفیہ ایجنسیوں کے نٹ ورک کو بھی ختم کرنا ہوگا ۔پاکستانی سیکورٹی کے اداروں کی اوورہالنگ کے ساتھ ساتھ FBI طرز کی جدید فورس بنانی ہوگی نئی بھرتی کرنے کی بجائے فوری طور پر فوج سے 10 ہزار افسر اورجوان لے لیے جائیں ۔ اس فورس کے پاس جرائم کے خاتمے کی جدید ترین ٹیکنالوجی ٗ نادرا ٗ موبائل سموں ٗ اسلحہ لائسنسوں ٗ کرایہ داروں کا مکمل ڈیٹا کے ساتھ ساتھ جدید ترین خودکار اسلحہ اور پانچ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی ہونے چاہیں جبکہ ہر شہرمیں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے راستوں پر ایسے جدید سیکنر لگاکر وہاں نئی جدید فورس کے مستعد اہلکار تعینات کیے جائیں تاکہ اسلحے کی آزادانہ نقل و حرکت کو کامیابی سے روکا جاسکے ۔ وقتی طور پر تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کردیئے جائیں۔تمام کچی آبادیوں اور افغان بستیوں میں نئی فورس کے جوان فزیکلی چیکنگ کریں کیونکہ جرائم پیشہ افراد ایسی ہی آبادیوں میں پناہ لیتے ہیں ۔ FBIطرز پر بنائی جانے والی فورس کے ہر اہلکار کے پاس ایسے تیز رفتار رابطے کے لیے جدید موبائل ہوں جن میں نادرا سمیت دیگر ریکارڈ موجود ہو۔اگر موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے ایک جانب مذاکرات کیے جائیں اور دوسری جانب سیکورٹی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرلیا جائے تو دہشت گردی اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو کامیابی سے روکاجاسکتا ہے۔ جہاں تک کراچی کا معاملہ ہے وہاں رینجر کے ساتھ ساتھ نئی کمانڈوفورس کو ٹارگٹ کلنگ ٗ بھتہ خوری ٗ اغوا کی وارداتوں کو روکنے کا ٹاسک دیاجائے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ دہشت گردوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے مسلح گروپ بھی کراچی میں موجود ہیں جونہی متحدہ کے سابق ایم پی اے ندیم ہاشمی کو پولیس اہلکاروں کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو ایم کیو ایم نے نہ صرف کراچی سمیت کئی شہروں زندگی معطل کردی ۔ معیشت کو 4ارب کا نقصان پہنچا کر پریس کے ذریعے شور مچاکر آسمان سر پر اٹھالیااگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ سب سے زیادہ قاتل ٗ بھتہ خور ٗ اغواکار ایم کیو ایم کی سیاسی چھتری تلے ہی پناہ لیے ہوئے ہیں اگر اب بھی ایم کیوایم کے دباؤ میں آکر آپریشن کو ادھورا چھوڑ دیاگیا تو کراچی میں امن ہمیشہ کے لیے خواب بن جائے گا ۔ بہتر یہی ہوگا کہ سیاسی اثر و رسوخ اور چیخ و پکار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپریشن کو مکمل کامیابی تک جاری رکھا جائے اسی میں ہم سب کی بقا ہے ۔

قومی بقا کے لیے جہاں کراچی میں امن بہت ضروری ہے وہاں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے راستے بلوچستان میں کھلتے ہیں اس مقصد کے لیے وزیر اعظم کو ایک دو ہفتوں کے لیے اپنی کابینہ کے ساتھ کوئٹہ میں بیٹھ کر تمام بلوچی سرداروں ٗ سیاست دانوں اور اراکین پارلیمنٹ کی مشاورت سے نہ صرف بھرپور اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ بلوچستان میں انٹر سٹی سڑکوں کی تعمیر ٗ نئے تعلیمی اور ٹیکنیکل اداروں کی تعمیر کے لیے وفاق کی جانب سے کم سے کم 50 ارب روپے کا پیکج بھی دینا ہوگا ۔بلوچی پولیس کو جدید اسلحے اور تربیت سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی سطح پر بننے والی فورس کا دائرہ کار بلوچستان تک بڑھانا ہوگا ۔ نئے صوبوں کی بات ایک بار پھر چل نکلی ہے وزیر اعظم بھی گوادر کو ہانگ کانگ اور سنگاپور کی طرح بلوچستان سے الگ تھلگ علاقہ قرار دینے کا عندیہ دے چکے ہیں اس مقصد کے لیے نہ صرف بلوچستان کو گوادر ٗ قلات ٗ مکران اور لسبیلہ کے نام سے نئے صوبے بنانے کے لیے منتخب بلوچ نمائندوں کو اعتماد میں لینا ہوگا بلکہ سندھ میں کراچی ٗ خیرپور اور سانگھڑ نام کے تین صوبے بنانے ہوں گے جبکہ پنجاب میں بہاولپور ٗ سرائیکی کے نام سے دو مزید نئے صوبے پہلے ہی پیش نظر ہیں اسی طرح خیبر پختوانخواہ میں ہزارہ ٗ چترال ٗ بنوں کوہاٹ کے نام سے صوبے بنا ئے جائیں تو مضائقہ نہیں ہے جبکہ تمام قبائلی ایجنسیوں کو الگ صوبے کا درجہ دے کر وہاں انتظامی اداروں کا قیام اشد ضروری ہے ۔ وزیر اعظم لاہور سے کراچی موٹروے اور بلٹ ٹرین کی تعمیر میں خاصے پرجوش ہیں اور چینی کمپنیوں پر زور دے رہے ہیں کہ اڑھائی سال میں یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں اس کے ساتھ ساتھ اگر بین الاقوامی کمپنیوں کے تعاون سے ملک کے صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں تیل گیس اور دیگر قیمتی معدنیات دریافت کرنے کے معاہدے بھی کرلیے جائیں تو چند سالوں میں تیل گیس کی قلت کا مسئلہ ہوجائے گا چین کی طرح پاکستان میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایے کے تحفظ اورمنافع کی یقین دہانی کروا کر سرمایہ کاری ماحول فراہم کیا تو پاکستان اقتصادی بحرانوں سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے ملائیشیا کے مرد آہن مہاتیر محمد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے حکومتی اداروں میں رشوت کا خاتمہ اسلام کی کڑی سزائیں دے کر کیا تھا جس کی وجہ سے آج ملائیشیا معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے ۔ مہاتیر محمد کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے کرپشن ٗ رشوت خوری ٗ ٹیکس چوری ٗ جعلی شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ بنوانا ٗ فرائض سے غفلت برتنے کی سخت سزائیں دے کر ہی پاکستان کو کرپشن سے پاک ٗ ترقی یافتہ ملک بنایا جاسکتا ہے ۔حکومت کے حالیہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے چند سالوں میں بجلی کا بحران شاید ختم ہوجائے لیکن معاشی ترقی کے لیے سستی بجلی اور سستے پٹرول کی بھی ضرورت ہے اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب حکومت عوامی خواہشات اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیل گیس کی تلاش کے ساتھ ساتھ ٗ پانی اور سورج کی روشنی سے سستی بجلی بنانے پر توجہ مرکوز کرے ۔اﷲ کرے طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوں اور تمام قبائلی ایجنسیوں سمیت پاکستان ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنے ۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.