مزاحمتی شاعری کا امام :جوشؔ ملیح آبادی

جوش ملیح آبادی کا اصلی نام شبیر حسن خاں 5؍دسمبر1898ملیح آباد کے محلہ مرزاگنج میں پیدا ہوئے۔ 1920سے 1955تک وہ محکمہ اطلاعات ونشریات دہلی کے ماہنامہ ’آجکل‘ کے مدیرکے عہدے پرفائزرہے۔ 1955میں دہلی سے ماہنامہ’’کلیم‘‘ جاری کیا جوچارسال تک کامیابی کے ساتھ جاری رہا اس کے بعد مالی دشواریوں کے سبب ماہنامہ’’نیا ادب‘‘ میں ضم ہوگیا۔ اس دوران ان کے شعری مجموعے نقش ونگار، شعلہ وشبنم، فکر ونشاط، جنون وحکمت، حرف وحکایت اورآیات ونغمات شائع ہوکر شہرت پائے۔ ان کے دوسرے شعری مجموعے ترک سکونت سے قبل عرش وفرش، رامش ورنگ، سنبل وسلاسل، سیف وسبو، سرودوخروش، سموم وصبا اورطلوع فکر اہمیت کے حامل ہیں یکم جنوری 1957میں ترک سکونت کرکے پاکستان جانے کے بعد دومجموعے ابہام وافکار اورنجوم وجواہر کے علاوہ یادوں کی بارات شائع ہوئے۔

جوش کی سب سے پہلی نظم ’ہلال محرم‘ تھی، اس سے پہلے ان کا رجحان غزل کی طرف تھا۔ جوش اپنے بارے میں کہتے ہیں:
’’ایک کافی مدت تک میں نماز کا بھی نہایت سختی سے پابندہوگیا تھا۔ نماز کے وقت خوشبوئیں جلایا کرتا اورکمرہ بند کرلیتا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجوددہشت اوراضطراب کے ساتھ کبھی بھی یہ محسوس ہوتا جیسے میرے دماغ کے اندر کوئی خطرناک کمانی کھل رہی ہے…… کچھ مدت بعد مجھ میں ایک قسم کا ہلکا باغیانہ میلان پیداہوگیا…… اوراب اس منزل میں آگیا جہاں ہرقدیم اعتقاد، ہرپارینہ روایت پر اعتراض کرنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘

جوش کے خیالات وافکارمیں یہ تبدیلی ان کی شاعری کے رنگ وآہنگ کو بدل دینے کے لیے کافی تھی۔جوش کے اندر یہ خیال محض رومانی بغاوت کے سبب وجودمیں نہیں آیاتھا کہ اس وقت اس طرح کا اعلان کرکے حکومت سے ٹکرلینے کی بات تھی۔ آج کی سیاست پرتنقید کرتے رہنے جیسا کام نہیں تھا۔ وطن، ذاکر سے خطاب، شکست رنداں کا خواب، شریک زندگی سے خطاب، غلاموں سے خطاب، حیف اے ہندوستان، مردانقلاب کی آواز، دردِ مشرق، زندہ مردے، قتل کانپور، وفاداران ازل کا پیام شہنشاہ ہندوستان کے نام، وقت کی آواز، ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے ا ورتلاش وغیرہ میں جوش کے احتجاجی فکر کا مطالعہ درجہ بدرجہ کیا جاسکتا ہے۔
سنو اے بستگان گیتی
ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے

سیدمحمدعقیل رضوی لکھتے ہیں کہ ایسی باتیں 1940کے بعد توکہنا آسان تھا مگر1920-21 میں یا 1930تک بھی اس طرح کی باتیں حکومت کو مخاطب کرکے یا عوام سے کہنا بہت مشکل تھا۔ ان سالوں کے درمیان شمالی ہندوستان کے مشہور اخباروں کی فائلوں میں بہت سے بیانات سیاسی مفکرین اورقائدین کے بھی ہیں مگرکسی میں اتنا واضح بیان شاید ہی ہے۔

1920میں احمد آباد کے کانگریس کے اجلاس میں جب حسرت موہانی نے آزادی کا مل رزولیوشن سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا تو گاندھی جی گھبراگئے اوراس طرح کی مانگ کو قبل از وقت قرار دے کر انہوں نے رزیولیشن واپس کرادیا۔ جوش ملیح آبادی بغیر کسی مصلحت پسندی کے شکست زنداں کا خواب یا حیف اے ہندوستان لکھیں۔

1930میں ایک نظم ’’خریدار توبن‘‘ میں آزادی کامل کی مانگ سے حسرت موہانی اورکروڑوں عوام کی ناراضگی کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
اے دل آزادی کامل کا سزاوارتو بن
پہلے اس کا کل پیچاں کا گرفتارتوبن
یوں بھڑکنے سے رہا شعلۂ عزم منصور
پہلے پروانۂ شمع رسن ودارتو بن
پست سے پست ہوچیزو بن جا لیکن
مرکے بھی جنس غلامی کا خریدارتوبن

کانپور کے 1931کے ہندومسلم فسادات میں تقریباً سترہ سو افراد ہلاک ہوئے۔ جوش کے تجزئے کے مطابق انگریزی حکومت ایسے فسادات کرارہی ہے اوردونوں قومیں جوآزادی کا خواب دیکھ رہی ہیں ان کو دوبارہ غلام بنائے رکھنے کا یہ حربہ ہاتھ آگیا ہے۔ 1931میں ’’قتل کانپور‘‘ میں جوش نے طیش اورطنز کے انداز میں اس نظم کے ذریعہ اپنی آواز بلندکی۔
اس طرح انسان اورشدت کرے انساں پر
تف ہے تیرے دین پر لعنت تیرے ایمان پر
رکنے ہی والا ہے، آزادی کا جاں پرورجہاں
اے فرنگی! شادماں باس وغلامی زندہ باد
غیرکی خدمت گزاری، باہمی خوں ریزیاں
دوپہر کی دھوپ سرپر اوریہ خواب گراں
حیف اے ہندوستان ، صدحیف اے ہندوستان

دوسری جگہ لکھتے ہیں:
گردن کا طوق پاؤں کی زنجیر کاٹ دے
اتنی غلام قوم میں ہمت کہاں ہے جوش

جوش کے خیالات ذہن کو اکساتے رہے ہندوستانیوں کو بغات کی دعوت دیتے رہے۔ اس وقت تک اصل انقلاب لانے والا طبقہ یعنی مزدوربیدارنہیں ہواتھا۔ جوشؔ نے 1934میں جو نظم لکھی وہ ان کی ملک کے تمام حالات سے باخبری کی دلیل ہے نظم کسان سے مثال دیکھیں:
جس کے ماتھے کے پسینے سے یہ عزووقار
کرتی ہے دریوزہ تابش کلاہ تاجدار
جس کی محنت سے بھبکتا ہے تن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتھیلی پرتمدن کا چراغ
دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پرمشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے رخ، گھرکی جانب ہے رواں
اپنی دولت کو، جگر پرتیرغم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملک دشمن کی طرف جاتے ہوئے

1928میں شائمن کمیشن آیا تواس نے ہندوستانیوں سے مفاہمت چاہی توملک میں سیاسی سرگرمیاں رکھنے والے دوگروہوں میں بٹ گئے کچھ مفاہمت کے حق میں تھے توکچھ اسے انگریزوں کی ایک چال سمجھ رہے تھے جوجنگ آزادی کی تیزی کو کند کرکے اس اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے چلی جارہی تھی۔ اس واقعہ سے متاثر ہوکر جوش نے ’’زوال جہاں بانی‘‘ جیسی نظم لکھی:
اٹھائے گا کہاں تک جوتیاں سرمایہ داروں کی
جوغیرت ہے توبنیادیں ہلادے شہریاروں کی
ازل سے نوع انسانی کے حق میں طوق لعنت ہے
کسی ہم جنس کی چوکھٹ پہ عادت سرجھکانے کی
نہ ہومغرور، اگرمائل یہ نرمی بھی ہو سلطانی
کہ یہ بھی ایک صورت ہے تجھے غافل بنانے کی

سائمن کمیشن کے سلسلے کی دوسری نظم ’’دام فریب‘‘ اورزنداں کا گیت‘‘ ہے جوش کی اس طرح کی نظم نگاری کا سلسلہ برابر قومی سیاست کے پیچ وخم کے ساتھ چلتارہا ہے۔ وہ سائمن کمیشن، گول میز کانفرنس اورکسانوں کی دوسری تحریکوں سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ متاثر نظرآتے ہیں۔ ’’دام فریب‘‘ سے مثال ملاحظہ ہو:
کہیں ہے دھوپ سے ناداں، بدتر
غلامی کی گھٹا کا شامیانہ
لگی ہے گھات میں مدت سے تیری
فرنگی کی نگاہ جاودانہ
عدو، تیری گرفتاری کی خاطر
مہیا کررہا ہے آب ودانہ
اگر جینا ہے آزادی سے تجھ کو
سنا دشمن کو پڑھ کر یہ ترانہ
برو ایں دام برمرغ دگرنہہ
کہ عنقارا، بلند دست آشیانہ

اس طرح کا ا ظہار ان کی نظم ’’ہوشیار‘‘میں ہے اس نظم میں بھی انتباہ وآگہی کی باتیں ہیں اورمزدوروں کے مسائل پرنظررکھتے ہیں۔
رحم کی درخواست سے پہلے یہ دل میں سوچ لے
خون ہے خادم کا، آقا کے گلستاں کی بہار
تن سے رخصت ہورہی ہے روح مزدورِ ضعیف
حلق پر رکھا ہوا ہے، خنجر سرمایہ دار
دیکھتا ہوں عصر حاضر کی نگاہ مہرمیں
وہ دہکتی آگ کا نپیں جس سے دوزخ کے شرار

1939میں ’’ایسٹ انڈیاکمپنی کے فرزندوں سے‘‘ والی نظم کے لیے جوش کے گھر کی تلاشی ہوئی تو جوشؔ نے ’’تلاش‘‘ عنوان سے ایک نظم لکھی جسے پریس نے چھاپنے سے انکار کردیا اس سے چند اشعارملاحظہ ہوں:
گھرمیں درویشوں کے کیا رکھا ہوا ہے بدنہاد
آ، میرے دل کی تلاشی لے کہ برآئے مراد
جس کے اندر دہشتیں پرہول طوفانوں کی ہیں
رزہ آفگن، آندھیاں، تیرہ، بیابانوں کی ہیں
جس کے اندر ناگ ہیں اے دشمن ہندوستاں
شیرجس میں ہونکتے ہیں، کوندتی ہیں بجلیاں
چھوٹتی ہیں جس سے نبض، افسرواژرنگ کی
جس میں ہے گونجی ہوئی آواز طبل جنگ کی

جوش نے اپنی شاعری میں اتنی تندی برتی ہے کہ اگران کے پاس تغزل اورشعریت کا فن نہ ہوتا تو ان کے موضوعات وقتی اورلمحاتی ہونے کی وجہ سے بے حد ناپائیدارہوئے۔ 1934میں دلی سے جوش نے ’’کلیم‘‘ نامی رسالہ کا اجراکیا تھا۔ اس رسالے کے 1937کے ایک شمارے میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ’’اردوادبیات میں انقلاب کی ضرورت‘‘ تھا ۔ اس سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’میں حیران ہوں، کیا آپ واقعی نہیں دیکھتے کہ ہندوستان ننگا اوربھوکا ہے دانے دانے کو ترس رہا ہے۔ کیا آپ کے علم میں اب تک یہ نہیں آیا کہ اکثر وبیشتر ہندوستانی مائیں، بھوک سے تنگ آکر اپنے کلیجے کے ٹکڑے کوخود اپنے ہی ہاتھوں زبح کرڈالتی ہیں کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ہرسال آپ کے کتنے گریجویٹ بے روزگاری سے گھبرا کر زہر کھالیتے ہیں۔‘‘

جوشؔ جنگ عظیم اول سے لے کر جنگ عظیم دوم اورملک کی آ زادی تک تمام سیاسی، معاشی اوراخلاقی بدحالی کے عینی شاہد تھے وہ جوکچھ دیکھتے اسے محسوت کرتے اوراس کو بیان کردیتے۔ ان کے یہاں اقبال کی طرح بتدریج سیاسی فہم وبصیرت کو تلاش کرنا فضول ہے۔ عقیل رضوی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سلسلہ خیال کو ربط دے کر کوئی فلسفہ فکر بنانا ہی چاہے تو جوش کے یہاں انسانی محبت، بھائی چارہ اورعام آدمیوں کے ساتھ خلوص مجسم ایک سلسلہ فکر بن سکتا ہے۔

جوشؔ نے ہٹ دھرمی اورمذہبی بے راہ روی پرمتعدد نظمیں لکھی ہیں ان میں سے بعض نظمیں بڑی اہم ہیں۔ ’مولوی‘، ’خداسے ایک سوال‘ ’فتنہ خانقاہ‘ وغیرہ ان کی مشہورنظمیں ہیں۔ انہوں نے جہاں ایک طرح اسلام سے متعلق اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے تحسین پیش کیا ہے وہیں اسلام کی ایسی فروعی باتوں سے اختلاف اوربغاوت بھی کیا ہے جومحض روایتی طور پر اوہام کے سہارے اسلام میں داخل ہوگئی ہیں اور جن کو اسلام کی اصلی روح سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس طرح کی چند نظمیں مثلاً پیغمبر اسلام، ذاکرسے خطاب، متولیان وقت حسین آباد جیسی نظمیں مذہبی بے راہ روی اورکٹھملائیت پرکاری ضرب لگاتی ہیں۔ جوش اپنی ایک نظم ’’نیا میلاد‘‘ میں ایک ایسی دنیا کی بشارت دیتے ہیں جوتوہمات سے پاک ہوگی اورجہاں اخوت، مساوات اورحریت کا دوردورہ ہوگا اورجوعنقریب وجود میں آنے والی ہے۔ ایک دوسری نظم ’’باغی روحوں کا کورس‘‘ میں کچھ اس اندازہ سے گویا ہیں:
آفریں باد اس جبر شریعت پہ بھی ہے
آفریں باد کہ اس رعب نبوت پہ بھی ہے
آفریں باد کہ اس خوف عقوبت پہ بھی ہے
آفریں باد کہ اس دعوت جنت پہ بھی ہے
دست انساں میں بغاوت کی عناں کیا کہنا

مذہبی اوہام پرستی اوردین کے نام پر بدعات وخرافات کے چلن کے خلاف اپنی ایک اہم نظم ’’مردوں کی دھوم‘‘ میں کہتے ہیں:
مخلوق کو دیوانہ بنائے ہوئے مردے
یاروں کو دماغوں کو چرائے ہوئے مردے
اوہام کے طوفان اٹھائے ہوئے مردے
عقلوں کو، مزاروں پہ، چڑھائے ہوئے مردے
آفاق کو سرپرہیں اٹھائے ہوئے مردے
دیکھو کہ کیا دھوم مچائے ہوئے مردے
لیلائے تفکر کوسنورنے نہیں دیں گے
دریائے توہم کو اترنے نہیں دیں گے
تحقیق کی نبضوں کو ابھرنے نہیں دیں گے
تقلید کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیں گے
اس بات کا بیڑا ہیں اٹھائے ہوئے مردے
دیکھو کہ ہیں کیا دھوم مچائے ہوئے مردے

جوشؔ کی اسی طرح سماجی برائیوں کی طرف گہری تھی جوملک اور سماج کواندر سے کھوکھلا کررہی تھیں اپنی ایک نظم ’’رشوت‘‘ میں ان تمام بدعنوانیوں اوربرائیوں کی ترجمانی کی ہے۔ اوراس کے علاوہ ان لوگوں کا بھی پردہ فاش کیا ہے جواس کے ذمیدارتھے۔ اس طویل نظم کے چند بند ملاحظہ ہوں:
لوگ ہم سے روزکہتے ہیں یہ عادت چھوڑیئے
یہ تجارت ہے خلاف آدمیت چھوڑیئے
اس سے بدتر لت نہیں ہے کوئی یہ لت چھوڑیئے
روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ روشت چھوڑیئے
بھول کر بھی کو جوئی لیتا ہے رشوت چورہے
آج قومی پاگلوں میں رات دن یہ شورہے
کس کو سمجھائیں اسے کھودیں تو پھر پائیں گے کیا
ہم اگررشوت نہیں لیں گے تو پھر کھائیں گے کیا
قید بھی کردیں توہم کوراہ پرلائیں گے کیا
یہ ’’جنون عشق‘‘ کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
ملک بھر کو قید کردے کس کے بس کی بات ہے
خیر سے سب ہیں، کوئی دوچار دس کی بات ہے

جوش کی نگاہیں ہر اس بددیانتی اوربدعنوانی کو دیکھ لیتی ہیں جن سے ملک اورقوم کو ضرر پہنچ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
یہ ہے مل والا، وہ بنیا ہے، یہ ساہو کارہے
یہ ہے دوکان دار، وہ ہے وید، یہ عطارہے
وہ اگر ٹھگ ہے تویہ ڈاکو ہے وہ بٹ مارہے
آج ہرگردن میں’’کاش جیت‘‘ کارک ہارہے

ان کی ایک نظم ’’بھوکا ہندوستان‘‘ سے مثال ملاحظہ ہو:
آہ اے ہندوستاں اے کشورزارونزار
تیرے بچے بھی بلکتے ہیں جواں بھی بے قرار
تیرے مردوں کا کفن تک لے گئے چالاک چور
شق ہوا تاریک جیتے جاگتے مردوں کی گور!
تیرے اوپر آکے ٹھہرا ہے ٹھگوں کا قافلہ
جھو م کر، پیٹ، اے بھیانک دیو! پیٹ اپنی ہلا
اے بھڑکتی آگ! ٹھنڈی راکھ کی تہ سے نکل
اے رگ غیرت! ابھراے خون کے چشمے ابل

’’شریک رندگی سے خطاب‘‘ میں جوش کس انداز سے اخلاقی اورسماجی بگاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں تن آسانی او رنسوانی عادات واطوار ٭پنپنے پرکاری ضرب لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
اے شریک زندگی اس بات پرروتی ہے تو
کیوں میرا ذوق ادب ہے مائل جام وسبو
کس لئے اس پرنہیں روتی کہ اہل خانقاہ
ڈاڑھیوں سے ہندیوں کو کررہے ہیں روسیاہ
کس لئے اس پرنہیں روتی کہ تیرے نونہال
بن رہے ہیں مغربی تہذیب سے رنگ جمال
کس لئے اس پرنہیں روتی کہ تھے جوشہسوار
آج ان لڑکوں میں ہے لیلیٰ و سلمیٰ کا نکھار

جوش کے اس باغیانہ تیورکے سلسلے میں عصمت ملیح آبادی کا قول کافی اہم ہے:
’’جوش کی زندگی ہمیشہ اختلافی رہی ہے، کبھی ہمعصروں سے ان بن، کبھی مولویوں سے جنگ، کبھی حکمرانوں سے چیقلش، کبھی ناقدین سے نوک سے جھونک لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود جوشؔ کو سبھی ایک عظیم شاعر اورالفاظ کی دنیا کا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اوران کا احترام کرتے ہیں۔‘‘

جوشؔ ملیح آبادی کے یہاں اس وقت برطانوی سامراج اوربالخصوص ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرنے کا خیال پایا جاتاہے۔ اس سلسلے میں ان کی نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘‘ قابل ذکرہے۔ دوسری عالمی جنگ کے موقع پرحکومت نے ہندوستان کے عوام کا تعاون حاصل کرنا چاہا۔ جوشؔ نے حکومت کے اس مطالبے پرطنز کیا ہے۔ جس سے وہ انگریزی سرکار کے عتاب کاشکارہوئے۔ نظم ضبط کرلی گئی اورخانہ تلاشی ہوئی۔ اس طرح جوش ہٹلر کی فسطائی اورانگریزوں کی سامراجی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دونوں ذہنتیں عالمی امن وامان اورانسانیت کی بقاکے لیے مضرہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج اے سوداگرو
دہرمیں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے بھیڑیا
بھیڑے کو مار دو گولی بنے امن وبقا
………………
آج کشتی امن کی امو اج پرکھیتے ہوتم
سخت حیراں ہوں کہ اب تم درس حق دیتے ہوکیوں
لیکن آج اخلاق کی تلقین فرماتے ہوتم
ہونہ ہو اپنے میں اب قوت نہیں پاتے ہوتم
خیر اب سوداگرو اب ہے توبس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دوگردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کو سرخی کی ضرورت ہے تمہارہے خون کی

جوشؔ غریبوں اورمزدوروں کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ان کے ہونٹوں سے چپی کے تالے ٹوٹ چکے ہیں ان کی بغاوت واحتجاج سے جاگیر داروں کی غلامی کی بیڑیاں اتارپھینکی ہیں اورحکمرانوں نے جوقید خانے بنوائے ہیں ان کی دیواریں بیٹھنے لگی ہیں۔ ’’شکست زنداں کا خواب‘‘ سے نظم ملاحظہ ہو:
کیا ان کو خبرتھی سینوں سے جوخون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی کسے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبرتھی ہونٹوں پرجوقفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی ہمکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ رنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھی دیواریں، دوڑوکہ وہ ٹوٹی زنجیریں

بعض حضرات کاخیال ہے کہ جوش کی شاعری بالخصوص انقلابی آہنگ والی نظموں کو پیش کرنے میں بے پناہ صلاحیتیوں کا استعمال کیاگیا ہے مگران سے کسی گہری سیاسی بصیرت کااحساس نہیں ہوتا ہے حالانکہ ان کی ایسی شاعری میں وقتی ہنگامیت ضرور ہے لیکن جب جذبات میں ٹھہراؤ، فکر میں بصیرت اورایک عالمی اخوت کی دھیمی لہریں جوش کے طریق نظم میں پیدا ہوتی ہیں توالفاظ کی یہی دنیا ان کے تاثرات کو مشکل کردیتی ہے ایسی نظموں میں ماتم آزادی، سرودوخروش، سموم وصبا وغیرہ اہم ہیں جس میں اپنے موضوع کے اعتبار سے بغاوت کا لہجہ واضح ہے۔ مثالیں ملاحظہ ہوں:
فٹ پاتھ، کارخانے، ملیں، کھیت بھٹیاں
گرتے ہوئے درخت، سلگتے ہوئے مکاں
بجھتے ہوئے یقین، بھڑکتے ہوئے مکاں
ان سب سے اٹھ رہا ہے، بغاوت کا پھردھواں
……………………
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لُی کی دعا مانگتے ہیں لوگ

آزادی کے بعدبھی ملک کو حقیقی معنوں میں آزادی نصیب نہیں ہوئی جہاں ایک طرف کچھ لوگ انگریزوں سے برسرپیکار تھے وہیں بعض لوگ اقتدار اورسیاسی باگ ڈور کس طرح انہیں کے ہاتھ میں آئے۔ اس کے لیے متفکر تھے۔ اس طرح ملک کے غداروں کا پردہ چاک کیا ہے اوران سے نفرت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
غدارتھے جوکل وہ محب وطن ہیں آج
بدخواہ باغ، ہمدم سروسمن ہیں آج
کل تک تھے جو سموم، نسیم چمن میں آج
خسرو کے جوغلام تھے وہ کوہکن تھے آج
لچھمن کا دل ہے شدت غم سے پھٹا ہوا
درپرہے رام چندرکے راون ڈٹا ہوا

یہ بات صحیح ہے کہ جوشؔ کی شاعری اقبالؔ جیسے ہم عصر شعراء کے برابرنہیں لیکن جوشؔ کی نظموں کا احتجاجی اورباغیانہ لب ولہجہ کچھ کم نہیں اردوشاعری کے احتجاجی رنگ کو پیش کرنے کے لیے جوشؔ کا کلام معتبرہے۔

Arif Ishtiyaque
About the Author: Arif Ishtiyaque Read More Articles by Arif Ishtiyaque : 2 Articles with 10073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.