سانس لینے کا ٹیکس؟

گورنمنٹ ہسپتالوں میں ٣٠٠ روپے یوزر ٹیکس لگا کر موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے عوام دشمن ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی میں ٩٨٪ عوام کی حمایت حاصل کرنے کی دعوے دار جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی اس کارنامہ میں پیش پیش ہے اور عوام میں بھی اتنا دم نہیں رہا کہ کسی قسم کا کوئی احتجاج ریکارڈ کرواسکے، بیچاری عوام بھی کیا کرے مہنگائی بے روزگاری اور طرح طرح کے ٹیکس نے عوام کا دم نکال دیا ہے۔

پرانے زمانے کی ایک مثال ہے کہ ایک بادشاہ تھا وہ اپنی رعایا پر بہت ظلم کیا کرتا تھا عوام پر ٹیکس کی بھرمار تھی عوام مردار ہو چکی تھی نا کسی قسم کا کوئی احتجاج تھا اور نا ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے لئے تیار تھا، بادشاہ بھی حیران تھا کہ میری عوام کسی قسم کا کوئی احتجاج کیوں نہیں کرتی؟ بادشاہ نے اپنے وزیر کو بلایا اور اس سے دریافت کیا کہ میں عوام پر اتنا ظلم کرتا ہوں اتنے ٹیکس لگاتا ہوں عوام احتجاج کیوں نہیں کرتی ؟ وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت عوام اپنی زندگی میں مگن ہے اس کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت ہمارے ساتھ کیا کر رہی ہے بس یوں کہئے کہ عوام مردار ہو چکی ہے۔

یہ سن کر بادشاہ سلامت نے کہا کہ چلو عوام کے لیے کوئی اچھا کام کرتا ہوں بادشاہ نے حکم دیا کہ دریا پر ایک پل بنایا جائے جو کہ عوام کے لئے بھلائی کا کام تھا عوام کو دریا عبور کرنے کے لیے کشتی کا استعمال کرنا پڑتا تھا جو کہ خطرناک بھی تھا۔

جب پل بن گیا تو بادشاہ نے وزیر سے دریافت کیا کہ عوام کا کیا رد عمل ہے تو وزیر نے کہا کہ کوئی رد عمل نہیں بس لوگ اس پل سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کو حیرانی ہوئی پھر بادشاہ نے کہا کہ ایسا کرو کہ اس پل پر سے گزرنے والے ہر شخص سے ٹیکس وصول کرو۔

وہاں کی انتظامیہ نے ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے دریافت کیا کہ عوام کا کیا رد عمل ہے؟ وزیر نے کہا کہ کوئی رد عمل نہیں بادشاہ نے حکم دیا کہ پل پر دو آدمیوں کی ڈیوٹی لگا دو کہ جب بھی کوئی شخص پل کو پار کرنے آئے اس کو دو ڈنڈے مارے حکم کی تکمیل ہوئی اور دو آدمیوں کی ڈیوٹی کگا دی گئی۔

کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے وزیر سے دریافت کیا کہ عوام کا کیا رد عمل ہے تو وزیر نے وہی جواب دیا جو پہلے دیتا آ ریا تھا۔

کچھ عرصہ بعد بادشاہ اس پل کے دورے پر گیا تو اس نے دیکھا کہ لوگ آپس میں کچھ بحث کر رہے ہیں اور انتظامیہ سے شکایت کر رہے ہیں بادشاہ نے دریافت کیا کہ ان لوگوں کو کیا پریشانی ہے تو وزیر نے کہا کہ لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ آپ نے ڈنڈے مارنے کے لیے جو دو آدمی مقرر کیے ہیں ان کی تعداد کم ہے ان کی تعداد بڑھائی جائے ہمارا وقت بہت ضائع ہوتا ہے ہمیں لمبی لمبی قطار لگانی پڑتی ہے۔

معزز قائرین موجودہ حکومت کا رویہ عوام کے ساتھ اور عوام کا رویہ حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے ہم پر ٹیکسوں کی بھر مار ہے اور ہم ہیں کہ نکو بنے ہوئے ہیں، اور کراچی کے ساتھ تو ایک الگ ہی طریقے کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے پانی کا ٹیکس٬ سیلز ٹیکس٬ کے ای اس سی کا ہولڈنگ ٹیکس٬ پی ٹی سی ایل کا ہولڈنگ ٹیکس٬ سٹی گورنمنٹ کا انفرا اسٹریکچر ٹیکس٬ پراپرٹی ٹیکس٬ یو سی ٹیکس٬ اور اب ہسپتال کا یوزر ٹیکس۔

اللہ کا شکر ہے کہ سانس لینے کا ٹیکس نہیں ہے۔؟