کھر صاحب کی شگفتہ بیانی

چند ماہ پہلے تک صحافی اور کالم نویس منتظر رہا کرتے تھے کہ رحمٰن ملک، مولانا فضل الرحمٰن، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، حافظ حسین احمد اور شرجیل میمن کچھ کہیں تو بات سے بات نکال کر خبر بنائی جائے، بلکہ بات کو بتنگڑ میں تبدیل کرکے اُسے کالم نویسی کے گھاٹ پر دھوبی پٹخا مارا جائے! رحمٰن ملک تو وزیر داخلہ کے منصب سے ہٹنے کے بعد مُہر بہ لب ہیں، حالانکہ میڈیا والے تو چاہتے ہیں کہ وہ ’’مِہر بہ لب‘‘ ہوں! ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی، بہ وجوہ، دَم سادھنے کے ساتھ ساتھ چُپ بھی سادھ لی ہے۔ کیا پتا حقیقت یہ ہو کہ جتنا بولنے کا حکم ملا تھا اُتنا وہ بول چکے! حافظ حسین احمد کے لیے وہ سیاق و سباق رہا نہیں جو اُن کی باتوں کو بامعنی، بلکہ معنی خیز بنایا کرتا تھا۔ ’’کالم خیز‘‘ مُوشگافیوں کا فریضہ خاصے طویل عرصے سے مولانا فضل الرحمٰن خود انجام دے رہے ہیں۔ ایک ذرا سی مشکل یہ ہے کہ مولانا آج کل جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ عمران خان کے لیے تو باعثِ تشویش، بلکہ توہین آمیز یا ’’شرمناک‘‘ ہوسکتا ہے مگر اُس میں میڈیا والوں کے لیے مسالا کم کم پایا جاتا ہے۔

صحافی اور کالم نویس وہ شکر خورے ہیں جن پر قدرت ہمیشہ مہربان رہتی ہے یعنی کہیں سے کہیں سے اُنہیں شَکر مل ہی جاتی ہے۔ شَکر اور شُکر کا مقام ہے کہ وزیر داخلہ کے منصب پر چوہدری نثار علی خان فائز ہیں جو (سوچے اور سمجھے بغیر) بولنے کے شوق میں خبروں اور کالموں کا سامان کرتے رہتے ہیں! رحمٰن ملک نے چُپ کا روزہ رکھ کر جو قہر ڈھایا اُس کی تھوڑی بہت تلافی چوہدری نثار اب تک بخوبی کی ہے۔ سکندر جتوئی کے معاملے میں اُن کی وضاحتوں نے کالموں کی زمین میں عجب گُل بُوٹے کِھلائے ہیں
!
ایک زمانہ تھا جب صحافی اور کالم نویس غلام مصطفٰی کھر کی لب کُشائی کے منتظر رہا کرتے تھے۔ سیاسی اعتبار سے جتنے سخت جان وہ خود تھے اُس سے کہیں زیادہ سخت جان اُن کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ جن کے بارے میں وہ لب کُشائی فرمایا کرتے تھے اُن پر ’’وخت‘‘ پڑ جایا کرتا تھا۔ دوسری طرف خبروں اور کالموں کی ہنڈیا میں مسالا تیز ہو جایا کرتا تھا۔ مگر خیر ع
یہ تب کی بات ہے کہ جب آتشؔ جوان تھا

ملک غلام مصطفٰی کھر میں اب وہ پہلی سی بات نہیں۔ پھر بھی چند ایک چنگاریاں ضرور باقی ہیں۔ خبروں میں رہنے اور کسی ایک پارٹی میں تادیر نہ رہنے کا ہنر وہ خوب جانتے ہیں! پیپلز پارٹی سے نکلنے اور پھر اُس میں شامل ہونے کے ہنر میں بھی جیسے وہ طاق ہیں ویسا شاید ہی کوئی اور ہو!

دُنیا نیوز کے پروگرام ’’مذاق رات‘‘ میں کھر صاحب کی شگفتہ بیانی سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملا۔ کھر صاحب سے گفتگو ہو اور معاملہ اُن کی شادیوں تک نہ پہنچے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ شادیوں کی ٹَکّر پر اُنہوں نے صرف ایک کام کیا ہے، پارٹی بدلنے کا۔

کھر صاحب بھرپور مُوڈ میں ہوں تو جوابی جُملہ زبان سے صرف ادا نہیں کرتے، کیل کی طرح ٹھونکتے ہیں! خاصی ڈھلی ہوئی عمر میں بھی وہ شادی کا موقع ضائع کرتے ہیں نہ جُملہ داغنے کا!

کھر صاحب کسی زمانے میں شیرِ پنجاب بھی کہلاتے تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب سیاست میں ایسے لوگ کم تھے جنہیں جنگل کی کِسی مخلوق سے تشبیہ دی جائے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ تشبیہ دینے کا سوچیے تو جانور نہیں مِلتے! ویسے تو خیر کئی معصوم جانور جنگل میں پائے جاتے ہیں مگر سیاست دانوں کو اُن جیسا قرار دینے کے لیے بندے کا بے عقل اور بے حِس ہونا لازم ہے!

سیاست دانوں کو شیر جیسا قرار دینے پر ہم ہمیشہ معترض رہے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ کالم نویس ہونے کے ناطے ہر معاملے میں اختلاف کرنا اور الگ راہ نکالنا ہمارا وتیرہ ہے۔ یہ چلن نوابزادہ نصراﷲ خان مرحوم پر ختم تھا۔ اُن کے بعد اب فضل الرحمٰن ہیں جن کے ہوتے ہم ہر معاملے میں الگ راہ نکالنے کا چلن اپنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ احباب کہتے ہیں کہ شیر سے مشابہ قرار دیے جانے پر جب سیاست دانوں کو کوئی اعتراض نہیں اور خود شیر بھی راضی بہ رضا ہے تو پھر آپ کیوں معترض ہوتے ہیں۔ ہم نے بارہا وضاحت کی ہے کہ اِس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم سیاست دانوں کے بارے میں سُوئے ظن رکھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ سیاست دان خود شکار کرکے کھاتے ہیں جبکہ شیر کو ہم نے نیشنل جیو گرافک کی ڈاکومینٹریز میں بیشتر اوقات شیرنیوں کا کیا ہوا شکار کھاتے دیکھا ہے! اِس اعتبار سے دیکھیے تو شاید معدودے چند سیاست دان ہی ’’شیریت‘‘ کے معیار پر پورے اُتریں گے!

کھر صاحب کو شیر سے تشبیہ دینا بہرحال کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ بیگمات کی تعداد کے اعتبار سے اُنہوں نے lion's share والی بات کو درست ثابت کر دکھایا ہے۔ شادیوں کی عادت ہی سے متعلق پوچھے جانے پر کھر صاحب نے بتایا کہ عورتیں تو اُن سے نہیں ڈرتی تھیں، ہاں اُن کے شوہر ضرور خوفزدہ رہا کرتے تھے۔ ہمارے خیال میں شوہروں والی کیفیت سیاسی جماعتوں کے قائدین کی بھی ہوا کرتی تھی جو یہ سوچ کر کانپتے رہتے تھے کہ پتا نہیں کب کھر صاحب اُن کی طرف آنکلیں!

کھر صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پیپلز پارٹی میں ایک بار پھر جائیں گے تو اُن کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی فیصلہ حتمی نہیں ہوتا۔ نہ دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کھر صاحب پیپلز پارٹی کے کِواڑ صرف بھیڑ کر نکلتے ہیں۔ یعنی کنڈی نہیں لگاتے، کچھ حصہ اٹکا رہتا ہے۔ گویا جب ضرورت محسوس ہوئی، واپس چلے گئے۔

’’مذاق رات‘‘ میں کھر صاحب سے پوچھا گیا کہ الطاف حسین، شہباز شریف اور نواز شریف میں سب سے سُریلا کون ہے تو اُنہوں نے نواز شریف کو سب سے سُریلا قرار دیا۔ اِس جواب سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اُن کی حِسِ مزاح ہی نہیں، حِسِ موقع شناسی بھی اب تک پورے جوبن پر ہے! الطاف حسین تک رسائی مشکل ہے۔ ویسے بھی وہ خود کہتے ہیں کہ برقع میں رہنے دو، برقع نہ اُٹھاؤ۔ زمینی حقیقت کا احترام کرتے ہوئے کھر صاحب نے اُن کے سُریلے پن پر برقع یا پردہ پڑا رہنے دیا! شہباز شریف لے دے کر بس وزیر اعلیٰ ہیں۔ اُن کا وہی معاملہ ہے کہ سگ باش، برادرِ خورد مباش! ’’اوریجنل‘‘ بننے کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ اب تک صرف ’’کاپی‘‘ ہیں! رہے نواز شریف تو وہ خیر سے وزیر اعظم ہیں اِس لیے ظاہر ہے کہ اِس وقت اُن سے سُریلا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا! اِس ایک تیر بہ ہدف جواب سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت کھر صاحب کی اگلی منزل ن لیگ ہوسکتی ہے! ن لیگ میں وہ کب تک رہیں گے، اِس کا مدار اِس بات پر ہے کہ میاں نواز شریف اپنا سُریلا پن اُن کے لیے کب تک برقرار رکھتے ہیں!

کھر صاحب نے اپنے معمولات کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کھانے پینے اور فٹنس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ جس نے آٹھ دس شادیاں کی ہوں اُس کا یہ کہنا قدرے غیر ضروری ہے کہ وہ فٹنس کا خاص خیال رکھتا ہے! شادی تو دُور کی بات ہے، فٹنس کے بغیر تو آدمی ڈیٹنگ کا بھی نہیں سوچ سکتا۔ آپ ہی سوچیے، ساحل پر کسی حسین کے ساتھ انسان گہرے سانس لیتا، کھانستا اچھا لگے گا؟

’’مذاق رات‘‘ میں مجاہد عباس، امان اﷲ، سخاوت ناز اور افتخار ٹھاکر جیسے منجھے ہوئے کامیڈینز پر مشتمل ٹیم نے کھر صاحب کو مختلف حوالوں سے گھیرنے کی کوشش کی۔ کہیں یہ ٹیم جیتی، کہیں وہ بالا دست رہے۔ سامنے غلام مصطفٰی کھر جیسی شخصیت ہو تو ’’وخت‘‘ آتا جاتا رہتا ہے۔ جب شادی پر بات ہوچکی تو عشق کا ذِکر نکلا۔ سوال داغا گیا کہ کبھی عشق میں ناکامی ہوئی؟ ہمارے خیال میں تو یہ سوال پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ناکام عشق کا غم غلط کرنے ہی کے لیے تو شادیوں کا میلہ سجایا گیا ہے! خیر، کھر صاحب نے بتایا کہ جس نے ناکامی نہیں دیکھی اُس نے کچھ نہیں سیکھا۔ اُن کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اب دیکھ لیجیے، شادی پر شادی کرکے وہ مستقل سیکھتے رہنے کے مرحلے میں رہے ہیں!

کھر صاحب کا کہنا استدلال ہے کہ عشق کی تمام داستانیں ناکامی کے بطن سے ہویدا ہوئی ہیں۔ شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں، سوہنی مہیوال، ہیر رانجھا، مرزا صاحباں کوئی بھی جوڑا مِلن کی منزل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ اِن کی ناکامی نے عشقیہ داستانوں کے بازار کی رونق بڑھائی۔ ہم اِس نکتے سے بھی پوری طرح متفق ہیں۔ سیاست کے میدان میں بھی ناکام ہونے والوں نے طرح طرح کی داستانوں کو جنم دیا ہے۔ میڈیا والے بھی دنگ اور تنگ ہیں کہ کس کس اسٹوری پر کتنا کام کریں! ہم سیاست دانوں کی ناکامی کو روتے ہیں اور وہ بضد ہیں کہ کھر صاحب کے فارمولے کے مطابق وہ سیاسی داستانوں کے بازار کی رونق بڑھا رہے ہیں، یعنی ناکام ہوتے رہنے کے معاملے میں بھرپور کامیاب ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483892 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More