پشاور میں گزشتہ اتوارجب عیسائی دعا و عبادت کے بعدتاریخی
آل سینٹس چرچ سے باہر نکل رہے تھے، ایک خود کش حملہ ہوا جس میں حملہ آور
سمیت ۸۰ ؍سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ بات زیادہ اہم نہیں کہ مرنے
والوں کی صحیح تعداد کیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ ملک کے اقلیتی فرقہ پر یہ
حملہ شرف انسانیت،تعلیمات اسلام اورپاکستان کے مروجہ قانون کی سخت اہانت ہے۔
اس سانحہ پرمعروف صحافی عزیزی تحسین منور نے ایک برجستہ قطعہ فیس بک پر
پوسٹ کیا ہے:
یہ موت کا کہرام تو اسلام نہیں ہے
دہشت کی صبح و شام تو اسلام نہیں ہے
یہ کینیا اور پاک میں دہشت کا برہنہ رقص
القاعدہ کا کام تو اسلام نہیں ہے
پشاور میں یہ پہلا قاتلانہ حملہ نہیں بلکہ اس سے قبل شیعہ زائرین کی اک بس
پر حملہ ہوا تھا جس میں ۳۰ افراد مارے گئے تھے یہ زائرین ایران جارہے تھے۔
ایک صوفی شاعر رحمان بابا کا مزار اور ایک بارگاہ کو بھی نشانہ بنایا جا
چکا تھا وغیرہ۔ عیسائی اورشیعہ مسلم اقلیتی فرقوں پر یہ حملے انتہائی
ظالمانہ اور تاریک ذہنی کی علامت ہیں۔ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
لیکن یہ کہنا محال ہے کہ ان کے پس پشت کام سرگرم سفاک سازشی ذہنوں کا کوئی
تعلق اسلام سے بھی ہے۔ میڈیا نے حسب معمول پشاور اور نیروبی کے حملوں کو
’’اسلامی سنگٹھن القاعدہ‘‘ سے منسوب کردیا ہے۔ تاہم ابھی چند روز قبل اسی
میڈیا نے خبر دی تھی کہ القاعدہ کے مبینہ نظریاتی رہنما ایمن الظواہری نے
ایک ہدایت جاری کی ہے کہ کہیں بھی اقلیت پر حملہ نہ کیا جائے۔ یہ بھی کہا
گیا کہ الظواہری پاکستان میں ہی روپوش ہیں۔ یہ سارے دعوے متضاد ہیں اور ایک
ساتھ سچ نہیں ہوسکتے۔اگر القاعدہ کے مرشد عام پاکستان میں ہیں اور انہوں نے
یہ عام ہدایت جاری کی ہے کہ غیر مسلم اقلیت پر حملہ نہ کیا جائے توپشاور
میں یہ حملہ القاعدہ کیسے کرسکتا ہے؟ اور اگر القاعدہ نے کیا ہے تو یہ کیسے
مسلمان ہیں، جو اپنے مرشد عام کو بھی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں؟ لگتا ہے کہ’
کوئی اور ہے اس پردہ زنگاری میں‘۔ ابھی چند روزمیں ظاہر ہوجائیگا کہ اس
حملے کو بہانا بناکر پاکستان پرعیسائی جگت کی طرف سے کیسا کیسا دباؤ بنایا
جاتاہے؟غور طلب یہ پہلو بھی ہے کہ امریکا نے پاکستانی سرزمین پر پھر ڈرون
حملہ کیا ہے ،جس میں کم از کم پانچ شہری مارے گئے۔ کہیں پشا ور کا یہ حملہ
ڈرون حملے سے توجہ ہٹانے کے لئے تو نہیں کرایا گیا؟
ایک نکتہ یہ بھی غور طلب ہے کہ القاعدہ نام کی اگر کسی فکر یا تنظیم کا
واقعی دنیا میں حقیقی وجود ہے، تو اس کے نام پر ہونے والے کالے کرتوتوں سے
فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ یہ بات توصاف ہے کہ اس کا کوئی تعلق دین رحمت اسلام
سے نہیں ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ القاعدہ کا ہوّا کس نے کھڑا کیااورکس نے اس
سے فائدہ اٹھا یاہے؟ زیادہ پرانی بات نہیں صدام حسین کے بھی دو قصور بتائے
گئے تھے۔ اول اجتماعی ہلاکت کے اسلحہ کا ذخیرہ اوردوسرے القاعدہ سے تعلق ۔
یہ دونوں الزام جھوٹ نکلے ۔اب خبر یہ ہے کہ شام میں جو ناقاقبت اندیش عدم
استحکام پھیلارہے ہیں ان میں القاعدہ کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ ان سرپھرے
باغیوں کی سخنے ، دامے ، درمے اور اسلحہ وغیرہ سے کون مدد کررہا ہے؟
تاریخ شاہد ہے کہ جن اسلام دشمن طاقتوں نے اقتدار کے بھوکے اپنے ایجنٹوں کی
مدد سے خلافت اسلامیہ کوپارہ پارہ کیا اورعالم اسلام میں کہیں دوستی کے
بہانے اور کہیں زور زبردستی سے مغربی سامراجی طاقتوں کے لئے مداخلت کی
راہیں کھولیں وہ، طاقتیں اور ان کے ہم نوا کون ہیں؟ یہ طاقتیں آج بھی عالم
اسلام میں انتشار کی پالیسیوں پرچل رہی ہیں،مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ
الٹنے والوں کی مدد کررہی ہیں، پرامن ممالک کو جنگ کی دھمکیاں دے رہی
ہیں،ہرجگہ اپنی پسند کی سرکاریں مسلط کرنے کے لئے خانہ جنگیاں کرارہی ہیں،
یہ’ القاعدہ‘ باقاعدہ ان کی ہی پیدا کردہ اورپروردہ شیطنیت ہے۔اس کا فکر
اسلامی سے کوئی تعلق نہیں۔ تحسین منور نے بجا کہا ہے کہ یہ دہشت کی صبح و
شام تواسلام نہیں ہے۔
نیروبی میں حملہ: اسی دوران نیروبی کے ایک شاپنگ کمپلکس پرکچھ عسکریت
پسندوں نے قبضہ جمالیا جو تین دن جاری رہا۔ وہاں بھی کچھ لوگوں کی موت ہوئی
ہے۔ دعوا کیا گیا ہے کہ یہ عسکریت پسند الشباب تنظیم کے کارکن ہیں۔ ان میں
کچھ برطانوی اور امریکی شہری بھی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک زمانے میں الشباب نے اسامہ بن لادن کو تعاون کی پیش
کش کی تھی جس کو مستردکردیا گیا تھا۔ اس تنظیم نے صومالیہ میں کینیائی
فوجیوں کی موجودگی کو اس حملے کی وجہ بتایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی سازش
صومالیہ میں رچی گئی ہے اور صومالیہ میں لاقانونیت کا عالم یہ ہے، اس کا
ساحل سمندری قزاقوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے، جہاں وہ پھروتی وصول کرنے کے
لئے بڑے بڑے بحری جہازوں کو اغوا کر لے جاتے ہیں اور مہینوں یرغمال بنائے
رکھتے ہیں۔ ان قزاقوں کا کوئی دین دھرم نہیں۔ملک میں کینیا کی فوج کی
موجودگی سے یہی قانون شکن سفاک پریشان ہیں۔ اس لئے الشباب کی حرکتوں کو
اسلام سے منسوب کرنا، اسلام کو بدنام کرنے کی بین اقوامی سازش کے سوا کچھ
نہیں۔بنگلور سے ایک خبر یہ پھیلائی جارہی ہے کہ ایک ہندستانی تاجرسدرشن
کوالشباب کے اغواکاروں نے اس لئے گولی ماردی کہ وہ رسو ل اﷲ ؐ کے والدہ
ماجدہ کا نام نہیں جانتا تھا۔یہ بات کسی کو کیسے معلوم ہوگئی؟ یہ بھی سازشی
ذہن کی اختراع ہے ۔ پشاور اور نیروبی میں جو جانی نقصان ہوا ہے ،وہ نہایت
افسوسناک ہے۔ ہم خصوصاً پشاور کے اپنے عیسائی بھائیوں کو تعزیت پیش کرتے
ہیں۔ یہ حملہ عیسائی ممالک میں آباد مسلم اقلیت کو پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔
ایران اور امریکا: ایران کے نو منتخب صدرحسن روحانی نے امریکا کے ساتھ محاذ
آرائی ختم کرنے کے جو پہل کی ہے اس کا صدر اوبامہ نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔
صدر روحانی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے نیویارک میں
ہیں۔مگر ایران نے اس موقع پر صدر اوبامہ سے ملاقات کی امریکی تجویز کو یہ
کہہ کر ملائمیت کے ساتھ نامنظور کردیا کہ ابھی راست ملاقات کا مناسب وقت
نہیں آیا۔ ان کی روانگی سے قبل ایران کی خودساختہ ڈھائی ہزار کلومیٹر تک
مار کرنے والی تیس مزائلوں کودنیا کے سامنے لاکر تہران نے یہ بھی جتا دیا
کہ صدر روحانی کی امن پیش کش کو ایران کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔یہ ڈپلومیسی
تنازعات پرامن حل کی خواہش کے اظہار کے ساتھ ایران کی خودداری و خودمختاری
کی حفاظت اورصدر روحانی کی دوراندیشی اور بیدار مغزی کی مظہر ہے۔
جیل میں استقبال: مظفرنگر فساد کے اصل ملزم ،بھاجپا رکن اسمبلی سنگیت سوم
گرفتار کرکے جس وقت جیل لیجائے گئے، جیلر نے باہر نکل کر ان کا ہاتھ جوڑ کر
استقبال کیا ۔ ان کو جیل کا معائنہ کرایا۔اس سے جیلر کی ذہنی وابستگی ظاہر
ہوتی ہے۔ فساد کے دوران بھی یہ خبریں آئی تھیں کہ پولیس نے کھل کر جابنداری
برتی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پچھلے پچاس سالوں میں پولیس اور انتظامیہ میں
سنگھی ذہنیت چھاگئی ہے۔ فوج میں بھی یہ ذہنیت سرایت کرچکی ہے جس کا اندازہ
سابق فوجیوں کی اس ریلی سے ہوتا ہے جس میں مودی کے ساتھ جنرل وی کے سنگھ
بھی موجود تھے۔ لیکن سرکار اس خطرے سے بے خبر ہے۔
فساد کے موقع پر پولیس کی جانبداری کی روش اس زمانے سے چلی آتی ہے، جب ہر
طرف کانگریس کا پرچم لہراتا تھا۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو کی تازہ رپورٹ
بھی پولیس میں اس رجحان کی تائید ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جیلوں میں قید
مسلم ملزموں کا تناسب فی ہزار۲۱۰ ہے، جب کہ ملک میں مسلم آبادی کا تناسب فی
ہزار ۱۴۴ ہے۔ جن ملزموں کے خلاف ذیلی عدالت میں جرم ثابت ہوتا ہے ان کی
تعداد فی ہزار قیدیوں میں صرف ۱۷۵ ہے۔ اپیل میں مزید ملزم بری ہو جاتے ہیں۔
اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بہت سے مسلم ملزمان ایسے ہوتے ہیں جو پولیس عملے
کے تعصب کا شکار ہوکر جیلوں میں پہنچا دئے جاتے ہیں۔ خاص طور سے دہشت گردی
کے معاملوں میں یہ ثابت ہوچکا ہے پولیس کا رویہ سراسر ظالمانہ ہے۔ مگر جیسا
کہ ڈی جی ونزارا نے انکشاف کیا ہے ، پولیس یہ ظلم اپنے طور پر نہیں کرتی
بلکہ حکمرانوں کی چاکری ان کو مجبور کرتی ہے۔چھوٹے موٹے کیسوں میں جیل جانے
کا ایک سبب غربت بھی ہے۔ جن کے پاس گنجائش ہوتی ہے ،وہ رعایت حاصل کرلیتے
ہیں۔
یوپی میں گجرات: بھاجپا رکن لوک سبھا یوگی آدتیہ ناتھ نے ۸۴ کوسی پریکرما
کے پس منظر میں فیض آباد میں اعلان کیا تھا، ’’یو پی اب گجرات بنے گا، فیض
آباد شروعات کریگا۔ـ ـ‘‘ اس کے بعد کئی سیاستداں کہہ چکے ہیں کے سنگھی یوپی
کو شمالی ہند کا گجرات بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ۲۳ تاریخ کو دہلی میں
منعقدہ قومی یک جہتی کونسل کے اجلاس میں وزیراعلا اکھلیش یادو اور ملائم
سنگھ یادو نے بھی یہی شکوہ کیاتھا۔حیرت کی بات ہے اپنی ناکامی اور نااہلی
کا سبب غیروں کی سازشوں میں تلاش کیا جاتا ہے۔ اجلاس کے بعد لالو یادو نے
بھی کہا کہ یوپی ہی نہیں بہار کو بھی گجرات بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ دراصل
ہمارے یہ سیاستداں دورتک نہیں دیکھتے۔ کوشش صرف یوپی اور بہار کو گجرات
بنانے کی نہیں ہے، بلکہ پورے ملک کو گجرات کے سانچے میں ڈھالنے کی ہے۔ اسی
لئے مودی کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ درایں اثنا سید احمد بخاری صاحب نے کہا
ہے کہ اعظم خان یوپی کے مودی بن رہے ہیں۔ بھلا کہاں بیچارے اعظم خان اور
کہاں نریندرمودی؟ دونوں کی صلاحیتوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔اعظم خاں
صرف اپنوں کو ڈس سکتے ہیں، مودی اپنوں اور پرایوں، سب کو ڈسنے کا فن جانتے
ہیں اور ان کا ڈسا ہوا ان کے گن بھی گاتا ہے۔ جیسے آڈوانی جی۔لیکن ہندستانی
مسلمان ایسے نادان نہیں کہ کسی مودی نما لیڈر کو سر پر بٹھالیں ؟
آخری بات: پشو پتی ناتھ مندر کے بڑے مہنت مہا بلیشور بھٹ مہاراج نے اپنے
منصب سے استعفا دیدیا ہے۔ ان کو پوجا پاٹھ کرانے کے لئے ساڑھے تین لاکھ
روپیہ ماہانہ تنحواہ ملتی ہے۔ مگر ان کویہ کافی نہیں لگتی۔ مطالبہ ہے کہ
پوجا کے سیزن میں پانچ کروڑ روپیہ جو بطور چڑھاوا آیا ہے، اس میں بیس
فیصدیعنی ایک کروڑان کو دیا جائے ،جو کمیٹی کو منظور نہیں۔ سچی بات یہ ہے
اکثر مندروں، مٹھوں، درگاہوں کا یہی حال ہے۔ درگاہ حضرت خواجہ معین الدین
چستی اجمیری ؒ کے خدام و سجادہ نشینیوں کے منی آرڈرپہنچانے پر جوپوسٹ مین
مامور ہوتا ہے ، سنا ہے وہ بھی چند ماہ میں غنی ہوجاتا ہے۔چنانچہ موٹی رشوت
دیکر بھی پوسٹ مین اس سرکل میں تبادلہ کے خواہاں رہتے ہیں۔
دراصل مذہب کے نام پر دوکانیں سجی ہوئی ہیں اور اندھے عقیدت مند چڑھاوے
چڑھاتے رہتے ہیں اور ان نام نہاد سنتوں، مہاتماؤں اور باباؤں اور خدام کی
ہوس زر ہے کہ پوری نہیں ہوتی۔ کاش یہ پیسہ رفاہی کاموں میں لگایا جائے،
جیسا کہ گلبرگہ میں ہوتا ہے۔ اس پیسہ سے اسکول ،کالج اور اسپتال کھولے
جائیں اور بلاتفریق مذہب وملت عوام کی خدمت کی جائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ
بغیر محنت کی اس اندھی آمدنی پر کوئی ٹیکس بھی نہیں وصول کیا جاتا ،جس سے
دین دھرم کے نام پر جاری اس بدعنوانی کو اور توانائی ملتی ہے۔اس کے برخلاف
گلبرگہ کی خانقاہ نے اچھی روایت قایم کی ہے۔ سیدنا حضرت خواجہ بندہ نواز
گیسوداز ؒ کی خانقاہ کئی تعلیمی، تربیتی اور رفاہی ادارے چلارہی ہے۔(ختم) |