قرب قیامت اور پاکستان

آج میں نے اپنے قائرین کیلئے قرب قیامت اور پاکستان کا عنوان منتخب کیا ہے ، آج کے کالم میں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی کے اپنے اندر اور باہر منسلک ماحول اور حالات پر نظر رکھ کر بات کرنی ہے اور قرب قیامت کی نشانیوں کا تقابلہ جائزہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو پہنچانا ہے کہ مین اور آپ کہاں کھڑے ہیں کیا اب بھی اپنا احتساب نہیں کرنا کہیں دیر نہ ہوجائے اور زندگی کا چراغ گل نہ ہوجائے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ قیامت کے متعلق اللہ اور اس کے حبیب ﷺ نے کیا فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تقریبا تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے۔(دجال کے معنی ہیں مکار، فریبی اور دھوکے باز) ان مین سے ہر ایک یہی گمان (ظاہر) کرے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (مسلم شریف۔ ص ۶۹۳ ج۲،ابوداو ¿د ص ۷۴۲)۔۔۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم لوگ آپس میں (قیامت کا)ذکر کررہے تھے کہ نبی کریم ﷺ ہماری طرف آنکلے اور پوچھا تم لوگ کس چیز کا ذکر کررہے ہو ؟ ہم نے عرض کیا قیامت کا ذکر کررہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا۔۔ یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں کا ذکر فریایا (۱)دہواں(۲)دجال(۳)زمین کا جانور(۴)سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا(۵) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول
(۶) یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا(۷تا ۹) زمین کا تین جگہ سے دھنسنا ،ایک مشرق مین،دوسرے مغرب میں اور تیسرے جزیرہ عرب میں اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ ہیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور ہانگتی ہوئی زمین حشر(یعنی شام) کی طرف لے جائے گی۔(مسلم شریف) ۔۔۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا بہترچیزیں قرب قیامت کی علامت ہیں جب تم دیکھو کہ : لوگ نمازیں غارت کرنے لگیں گے یعنی نمازوں کا اہتمام رخصت ہوجائے گا،امانت ضائع کرنے لگیں گے یعنی جو امانت ان کے پاس رکھی جائے گی اس میں خیانت کرنے لگیں گے،سود کھانے لگیں گے،جھوٹ کو حلال سمجھنے لگے گے یعنی جھوٹ ایک فن اور ہنر بن جائے گا، معمولی معمولی باتوں پر خونریزی کریں گے، ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی جان لیں گے،اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے، دین بیچ کر دنیا جمع کریں گے، قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے بد سلوکی کریں گے، انصاف نایاب ہو جائیگا،جھوٹ سچ بن جائیگا،لباس ریشم کا پہنا جائیگا،ظلم عام ہوجائیگا،طلاقوں کی کثرت ہوگی، ناگہانی موت عام ہوجائیگی یعنی ایسی موت جس کا پہلے سے پتا نہیں ہوگا، امانتدار کو خائن سمجھا جائیگا یعنی امانتدار پر تہمت لگائی جائیگی کہ خیانتی ہے، جھوٹے انسان کو سچا سمجھا جائیگا، سچے انسان کو جھوٹا سمجھا جائیگا، تہمت درازی عام ہوگی یعنی لوگ دوسروں پر جھوٹی تہمتیں لگائیں گے، بارش کے باوجود گرمی ہوگی،لوگ اولاد کی خواہش کرنے کے بجائے اولاد سے کراہت محسوس کریں گے یعنی لوگ یہ دعا کرنے لگیں گے کہ اولاد نہ ہو، کمینے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے، شریفوں کا ناک میں دم ہوجائیگا یعنی شریف لوگ شرافت لیکر بیٹھیں گے تو دنیا سے کٹ جائیں گے، امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے،امین خیانت کرنے لگیں گے، سردار ظلم پیشہ ہونگے، عالم اور قاری بد کردار ہونگے یعنی عالم بھی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی کررہے ہیں مگر بد کردارہیں، لوگ جانوروں کی کھالوں کے لباس پہنےں گے، لوگ جانوروں کی کھالوں سے بنے اعلیٰ درجے کے لباس زیب تن کریں گے لیکن ان کے دل مردار سے بھی زیادہ بدبودار ہونگے اور ایلوے سے بھی زیادہ کڑوے ہونگے،سونا عام ہوجائیگا،چاندی کی مانگ بڑھ جائیگی، گناہ زہادہ ہوجائیں گے، امن کم ہوجائیگا، قرآن کریم کے نسخوں کو آراستہ کیا جائیگا اور اس پر نقش و نگاری کی جائیگی۔ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ۔۔اللہ تعالی کی جانب سے یہ قیامت کے قریب ہونے پر تنبیہ ہے اور لوگ پھر بھی اس سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں یعنی انہیں اس کا علم نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے وہ تیاری کر رہے ہیں۔قرب قیامت کے متعلق فرمان باری تعالی ہے۔ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آچکا ہے اور وہ پھر بھی غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں (سورةالانبیائ1)۔ ارشاد باری تعالی ہے ۔اللہ تعالی کا حکم آ پہنچا اب اس کے لئے جلدی نہ کرو تمام قسم کی پاکی اسی کے لئے ہے اور ان سے جنہیں یہ شریک بناتے ہیں وہ بلند وبالا ہے( النحل 1)۔قیامت قریب آگءاور چاند پھٹ گیا (سورة القمر1)ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔اللہ تعالی قیامت کے قریب آجانے کی خبر دے رہے ہیں اور صیغہ ماضی کا استعمال کیا ہے جو کہ تحقیق اور اس کے لازمی وقوع پر دلالت کرتا ہے۔تفسیر القرآن العظیم ( 2/ 560)۔ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔اللہ تعالی دنیا کے ختم اور خالی ہو جانے اور قیامت کے قریب ہونے کی خبر دے رہا ہے ۔تفسیر القرآن العظیم ( 4/ 360)۔اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے۔۔ترجمہ ©۔ اللہ وہ ہے جس نے کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے اور عدل وانصاف بھی اتارا ہے اور آپ کو کیا خبر کہ قیامت قریب ہی ہو (الشوری / 17)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے۔۔ میں کیسے آسودہ حال رہوں حالانکہ صور پھونکنے والے نے صور کو پکڑ لیا ہے اور کان لگا رکھے ہیں کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ اس میں پھونک مارے ؟ تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر بہت بھاری ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا ۔ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے ہم نے اللہ تعالی پر توکل کیا ۔(صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 1980)اور احمد اور مسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت صرف برے اور شریر لوگوں پر ہی قائم ہو گی۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 5243 مسند احمد حدیث نمبر 3548)اور احمد اور بخاری نے مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صالح اور نیک لوگ پہلے چلے جائیں گے اور گھٹیا لوگ رہ جائیں گے جس طرح کہ گھٹیا جو یا کھجور ہوتی ہیں اللہ تعالی ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔(صحیح الجامع حدیث نمبر 7934)اور احمد اور بخاری مسلم اور ترمذی نے انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے سامنے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا جو کہ میرے بعد کوئی نہیں بیان کرے گا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ۔ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم کم ہو جائے گی اور جہالت عام اور ظاہر ہو جائے گی اور زنا عام ہو گا اور عورتیں زیادہ اور مرد کم ہو جائیں گے حتیٰ کہ پچاس عورتوں پر ایک آدمی نگران ہو گا۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 79 صحیح مسلم حدیث نمبر 4825 یہ الفاظ مسلم کے ہیں مسند احمد حدیث نمبر 12735 سنن ترمذی حدیث نمبر 2131) اور طبرانی میں ہے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ آخری زمانے میں زمین کا دھنسنا اور بہتان بازی اور مسخ ہو گا جب گانے بجانے اور موسیقی کے آلات زیادہ ہو جائیں گے اور شراب کو حلال کر لیا جائے گا۔( صحیح الجامع 3665) یہ سب نصوص اپنے صریح منطوق کے اعتبار سے قرب قیامت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ گناہوں کی کثرت قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں اور کفار قیامت کو دور سمجھتے اور اس کے آنے میں دیر سمجھتے ہیں لیکن معاملہ اس طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے ۔ بیشک وہ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے نزدیک دیکھ رہے ہیں ۔ہم اللہ تعالی سے دنیا وآخرت میں نجات اور سلامتی کا سوال کرتا ہے۔

قیامت کی بڑی بڑی نشانیاں جن کے ظاہر ہونے کے بعد قیامت کے آنے میں زیادہ دیر نہیں ہوگی، وہ یہ ہیں:
۱:…حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظاہر ہونا اور بیت اللہ شریف کے سامنے رکن اور مقام کے درمیان لوگوں کا ان کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کرنا۔
۲:…ان کے زمانے میں کانے دجال کا نکلنا اور چالیس دن تک زمین میں فساد مچانا۔
۳:…اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا۔
۴:…یاجوج ماجوج کا نکلنا۔
۵:…دابة الارض کا صفا پہاڑی سے نکلنا۔
۶:…سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور یہ قیامت کی سب سے بڑی نشانی ہوگی، جس سے ہر شخص کو نظر آئے گا
۴
کہ اب زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوا چاہتا ہے اور اب اس نظام کے توڑ دینے اور قیامت کے برپا ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ اس نشانی کو دیکھ کر لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہوجائے گا مگر یہ اس عالم کی نزع کا وقت ہوگا، جس طرح نزع کی حالت میں توبہ قبول نہیں ہوتی، اسی طرح جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اس قسم کی کچھ بڑی بڑی نشانیاں اور بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔۔حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا۔ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ ل ±دّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ایک خلیفہ کی موت پر (ان کی جانشینی کے مسئلہ پر) اختلاف ہوگا، تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ مکرمہ آجائے گا (یہ مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے اور اس اندیشہ سے بھاگ کر مکہ آجائیں گے کہ کہیں ان کو خلیفہ نہ بنادیا جائے) مگر لوگ ان کے انکار کے باوجود ان کو خلافت کے لئے منتخب کریں گے، چنانچہ حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان (بیت اللہ شریف کے سامنے) ان کے ہاتھ پر لوگ بیعت کریں گے۔پھر ملک شام سے ایک لشکر ان کے مقابلے میں بھیجا جائے گا، لیکن یہ لشکربیداءنامی جگہ میں جو کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، زمین میں دھنسادیا جائے گا، پس جب لوگ یہ دیکھیں گے تو (ہر خاص و عام کو دور دور تک معلوم ہوجائے گا کہ یہ مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں) چنانچہ ملک شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے بیعت کریں گی۔ پھر قریش کا ایک آدمی جس کی ننھیال قبیلہ بنوکلب میں ہوگی آپ کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ آپ بنوکلب کے مقابلے میں ایک لشکر بھیجیں گے وہ ان پر غالب آئے گا اور بڑی محرومی ہے اس شخص کے لئے جو بنوکلب کے مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو۔ پس حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوب مال تقسیم کریں گے اور لوگوں میں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق عمل کریں گے اور اسلام اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (یعنی اسلام کو استقرار نصیب ہوگا)۔ حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سات سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (یہ حدیث مشکوٰة شریف ص:۴۷۱ میں ابوداود کے حوالے سے درج ہے، اور امام سیوطی نے العرف الوردی فی آثار المہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ص:۵۹ میں اس کو ابن ابی شیبہ، احمد ابوداود، ابویعلیٰ اور طبری کے حوالے سے نقل کیا ہے)۔دجال کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں اس کے حلیہ، اس کے دعویٰ اور اس کے فتنہ و فساد پھیلانے کی تفصیل ذکر کی گئی ہے، چند احادیث کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱:…رنگ سرخ، جسم بھاری بھرکم، قد پستہ، سر کے بال نہایت خمیدہ الجھے ہوئے، ایک آنکھ بالکل سپاٹ، دوسری عیب دار، پیشانی پر “ک، ف، ر” یعنی “کافر” کا لفظ لکھا ہوگا جسے ہر خواندہ و ناخواندہ مومن پڑھ سکے گا۔
۲:…پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر ترقی کرکے خدائی کا مدعی ہوگا۔
۳:…اس کا ابتدائی خروج اصفہان خراسان سے ہوگا اور عراق و شام کے درمیان راستہ میں اعلانیہ دعوت دے گا۔
۴:…گدھے پر سوار ہوگا، ستر ہزار یہودی اس کی فوج میں ہوں گے۔
۵:…آندھی کی طرح چلے گا اور مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور بیت المقدس کے علاوہ ساری زمین میں گھومے پھرے گا۔
۶:…مدینہ میں جانے کی غرض سے احد پہاڑ کے پیچھے ڈیرہ ڈالے گا، مگر خدا کے فرشتے اسے مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، وہاں سے ملک شام کا رخ کرے گا اور وہاں جاکر ہلاک ہوگا۔
۷:…اس دوران مدینہ طیبہ میں تین زلزلے آئیں گے اور مدینہ طیبہ میں جتنے منافق ہوں گے وہ گھبراکر باہر نکلیں گے اور دجال سے جاملیں گے۔
۸:…جب بیت المقدس کے قریب پہنچے گا تو اہل اسلام اس کے مقابلہ میں نکلیں گے اور دجال کی فوج ان کا محاصرہ کرلے گی۔
۹:…مسلمان بیت المقدس میں محصور ہوجائیں گے اور اس محاصرہ میں ان کو سخت ابتلا پیش آئے گا۔
۰۱:…ایک دن صبح کے وقت آواز آئے گی۔تمہارے پاس مدد آپہنچی! مسلمان یہ آواز سن کر کہیں گے کہ مدد کہاں سے آسکتی ہے؟ یہ کسی پیٹ بھرے کی آواز ہے۔
۱۱:…عین اس وقت جبکہ فجر کی نماز کی اقامت ہوچکی ہوگی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس کے شرقی منارہ کے پاس نزول فرمائیں گے۔
۱۲:…ان کی تشریف آوری پر امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو مصلّے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لئے ہوئی ہے۔
۱۳:…نماز سے فارغ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دروازہ کھولنے کا حکم دیں گے، آپ کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھوٹا سا نیزہ ہوگا، دجال آپ کو دیکھتے ہی اس طرح پگھلنے لگے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ آپ اس سے فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ایک ضرب تیرے لئے لکھ رکھی ہے، جس سے تو بچ نہیں سکتا! دجال بھاگنے لگے گا، مگر آپ بابِ ل ±د کے پاس اس کو جا پکڑیں گے اور نیزے سے اس کو ہلاک کردیں گے اور اس کا نیزے پر لگا ہوا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔
۱۴:…اس وقت اہل اسلام اور دجال کی فوج میں مقابلہ ہوگا، دجالی فوج تہہ تیغ ہوجائے گی اور شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ اے مومن! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اس کو قتل کر۔یہ دجال کا مختصر سا احوال ہے، احادیث شریفہ میں اس کی بہت سی تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں۔یاجوج ماجوج کے خروج کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے، ایک سورة انبیاءکی آیت:۹۶ میں جس میں فرمایا گیا ہے۔۔یہاں تک کہ جب کھول دئیے جائیں گے یاجوج ماجوج اور وہ ہر اونچان سے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور قریب آن لگا سچا وعدہ (یعنی وعدہ قیامت) پس اچانک پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی آنکھیں منکروں کی ہائے افسوس! ہم تو اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔۔اور دوسرے سورة کہف کے آخری سے پہلے رکوع میں جہاں ذو القرنین کی خدمت میں یاجوج ماجوج کے فتنہ و فساد برپا کرنے اور ان کے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کا ذکر آتا ہے، وہاں فرمایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نے دیوار کی تعمیر کے بعد فرمایا۔یہ میرے رب کی رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ (وعدہ قیامت) آئے گا تو اس کو چور چور کردے گا، اور میرے رب کا وعدہ سچ ہے۔ (آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اور ہم اس دن ان کو اس حال میں چھوڑ دیں گے کہ ان میں سے بعض بعض میں ٹھاٹھیں مارتے ہوں گے۔ان آیاتِ کریمہ سے واضح ہے کہ یاجوج ماجوج کا آخری زمانے میں نکلنا علمِ الٰہی میں طے شدہ ہے اور یہ کہ ان کا خروج قیامت کی نشانی کے طور پر قربِ قیامت میں ہوگا۔ اسی بنا پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے خروج کو قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں شمار کیا گیا ہے، اور بہت سی احادیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کا خروج سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دجال کو قتل کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہے۔۔

پھر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس جائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے فتنے سے محفوظ رکھا ہوگا اور گرد و غبار سے ان کے چہرے صاف کریں گے اور جنت میں ان کے جو درجات ہیں وہ ان کو بتائیں گے۔ ابھی وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو خروج کی اجازت دی ہے جن کے مقابلے کی کسی کو طاقت نہیں، پس آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیے۔اور اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر بلندی سے تیزی سے پھسلتے ہوئے اتریں گے، پس ان کے دستے بحیرہ طبریہ پر گزریں گے تو اس کا سارا پانی صاف کردیں گے اور ان کے پچھلے لوگ آئیں گے تو کہیں گے کہ کسی زمانے میں اس میں پانی ہوتا تھا۔ اور وہ چلیں گے یہاں تک کہ جب جبل خمر تک جو بیت المقدس کا پہاڑ ہے پہنچیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو ہم قتل کرچکے اب آسمان والوں کو قتل کریں۔ پس وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے تیر خون سے رنگے ہوئے واپس لوٹادے گا۔اور اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاءکوہِ طور پر محصور ہوں گے اور اس محاصرہ کی وجہ سے ان کو ایسی تنگی پیش آئے گی کہ ان کے لئے گائے کا سر تمہارے آج کے سو درہم سے بہتر ہوگا۔ پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاءاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں کیڑا پیدا کردے گا، جس سے وہ ایک آن میں ہلاک ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاءکوہِ طور سے زمین پر اتریں گے تو ایک بالشت زمین بھی خالی نہیں ملے گی جو ان کی لاشوں اور بدبو سے بھری ہوئی نہ ہو، پس اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاءاللہ سے دعا کریں گے، تب اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل پرندے بھیجے گا، جو ان کی لاشوں کو اٹھاکر جہاں اللہ کو منظور ہوگا پھینک دیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا کہ اس سے کوئی خیمہ اور کوئی مکان چھپا نہیں رہے گا، پس وہ بارش زمین کو دھوکر شیشے کی طرح صاف کردے گی ۔(صحیح مسلم، مسند احمد، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، کنز العمال)۔۔ترمذی کی حدیث میں ہے کہ وہ پرندے یاجوج ماجوج کی لاشوں کو نہبل میں لے جاکر پھینکیں گے اور مسلمان ان کے تیر کمان اور ترکشوں کو سات برس بطور ایندھن استعمال کریں گے۔مشکوٰة ص:۴۷۴میں حدیث میں ارشاد ہے کہ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ آیا، تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ: مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوا، انہوں نے فرمایا: قیامت کے وقوع کا وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ میرے رب عزوجل کا مجھ سے ایک وعدہ ہے اور وہ یہ کہ دجالِ اکبر خروج کرے گا تو اس کو قتل کرنے کے لئے میں اتروں گا، وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ کی طرح پگھلنا شروع ہوگا، پس اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھ سے ہلاک کردے گا۔ یہاں تک کہ شجر و حجر پکار اٹھیں گے کہ اے مومن! میرے پیچھے کافر چھپا ہوا ہے اسے قتل کر! پس میں دجال کو قتل کردوں گا اور دجال کی فوج کو اللہ تعالیٰ ہلاک کردے گا۔پھر لوگ اپنے علاقوں اور وطنوں کو لوٹ جائیں گے۔ تب یاجوج ماجوج نکلیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑے ہوئے آئیں گے، وہ مسلمانوں کے علاقوں کو روند ڈالیں گے، جس چیز پر سے گزریں گے اسے تباہ کردیں گے، جس پانی پر سے گزریں گے اسے صاف کردیں گے، لوگ مجھ سے ان کے فتنہ و فساد کی شکایت کریں گے، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا، پس اللہ تعالیٰ انہیں موت سے ہلاک کردے گا، یہاں تک کہ ان کی بدبو سے زمین میں تعفن پھیل جائے گا، پس اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جو ان کو بہاکر سمندر میں ڈال دے گی۔بس میرے رَبّ عزوجل کا مجھ سے جو وعدہ ہے اس میں فرمایا کہ جب یہ واقعات ہوں گے تو قیامت کی مثال اس پورے دنوں کی حاملہ کی ہوگی جس کے بارے میں اس کے مالکوں کو کچھ خبر نہیں ہوگی کہ رات یا دن کب، اچانک اس کے وضع حمل کا وقت آجائے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ابن جریر، مستدرک حاکم، فتح الباری، درمنثور، التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص:۱۵۸، ۱۵۹)۔ دابة الارض! اس کا ذکر قرآن کریم کی سورة النمل آیت:۸۲ میں آیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے۔اور جب آن پڑے گی ان پر بات (یعنی وعدہ قیامت کے پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا) تو ہم نکالیں گے ان کے لئے ایک چوپایہ زمین سے جو ان سے باتیں کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں لاتے تھے۔ دابة الارض کا خروج بھی قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ہے اور ارشاداتِ نبویہ میں بھی اس کو علاماتِ کبریٰ میں شامل کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرو، دخان، دجال، دابة الارض، مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونا، عام فتنہ اور ہر شخص سے متعلق خاص فتنہ (مشکوٰة ص:۴۷۲)

ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کی پہلی علامت جو لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگی، وہ آفتاب کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے دابة الارض کا نکلنا ہے، ان میں سے جو پہلے ہو دوسری اس کے بعد متصل ہوگی (مشکوٰة، صحیح مسلم)۔۔ایک اور حدیث میں ہے کہ تین چیزیں جب ظہور پذیر ہوجائیں گی تو کسی نفس کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو، یا اس نے ایمان کی حالت میں کوئی نیکی نہ کی ہو، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا ظاہر ہونا اور دابة الارض کا نکلنا۔ (مشکوٰة، صحیح مسلم)۔۔ حدیث میں ہے کہ آفتاب کو ہر دن مشرق سے طلوع ہونے کا اذن ملتا ہے، ایک دن اسے مشرق کے بجائے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کا حکم ہوگا۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔۔جس طرح نزع کی حالت میں ایمان قبول نہیں ہوتا، اسی طرح آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد (جو اس عالم کی نزع کا وقت ہوگا) توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا، نہ ایسے ایمان کا اعتبار ہوگا، اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کے بعد بے ایمانوں کو رسوا کرنے اور ان کے غلط دعوی ایمان کا راستہ بند کرنے کے لئے مومن و کافر پر الگ الگ نشان لگادیا جائے گا۔دابة الارض جب نکلے گا تو اس کے پاس موسیٰ علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی انگشتری ہوگی، وہ انگشتری سے مومن کے چہرے پرمہر لگادے گا جس سے اس کا چہرہ چمک اٹھے گا، اور کافر کی ناک پر موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے مہر لگادے گا۔ (جس کی وجہ سے دل کے کفر کی سیاہی اس کے منہ پر چھاجائے گی) جس سے مومن و کافر کے درمیان ایسا امتیاز ہوجائے گا کہ مجلس میں مومن و کافر الگ الگ پہچانے جائیں گے۔دابة الارض کے تھوڑے عرصہ بعد ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جس سے تمام اہل ایمان کا انتقال ہوجائے گا اور صرف شریر لوگ رہ جائیں گے، چوپاو ¿ں کی طرح سڑکوں پر شہوت رانی کریں گے، ان پر قیامت واقع ہوگی۔ (مشکوٰة)۔۔قرب قیامت میں ایک گمراہ فرقہ پیدا ہوگا جس کا نعرہ یکفینا القرآن ہوگا، یعنی ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔۔ اگرایک طرف "یکفینا القرآن" کا خوبصورت اور دلکش نعرہ لگایا جائے اور دوسری طرف حدیث رسول کا انکار کیا جائے توپھرقرآن مجید میں جہاں بیسیوں مقامات پر ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ ایمان بالرسول، اطاعت رسول اور اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے، ان سب کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں گی، نتیجتاً ان سب آیات کا انکار بھی لازم آئیگا، جب کہ خود قرآن پاک بیشتر مقامات پر احادیث رسول کی حجیت ثابت کررہا ہے اور یہ قرآن کا ایسا لازمی جزو ہے کہ اس کے بغیرنہ کوئی ہدایت پاسکتا ہے اور نہ ایمان کی تکمیل ممکن ہے۔۔قرآن پاک کی سورة النساء: ۱۳۶ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔اے ایمان والو! ایمان لاؤ (یعنی ایمان پر مضبوطی سے قائم رہو) اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے اتاری (یاد رکھو!) جوانکار کرے گا اللہ کا اور ملائکہ کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا تو وہ دور کی گمراہی میں پڑےگا۔ سورةالنسائ:۱۷۰ ۔اے لوگو! تمہارے پاس حق کے ساتھ رسول آیا؛ پس اس پر ایمان لاؤ کیونکہ تمہارے لیے اسی میں بھلائی ہے۔ سورة الفتح:۱۳ ۔۔اور جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو ہم نے منکروں کے لیے دہکتی آگ تیار رکھی ہے۔سورة محمد: ۳۳ ۔۔اے ایمان والو! اللہ کا حکم مانو اور اپنے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔سورة انفال:۱۔۔اگرتم ایمان والے ہو تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو۔سورةالنساء:۰۸۔۔جس نے رسول کا حکم مانا تو بلاشبہ اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔سورة العمران:۲۳۔آپ فرمادیجئے کہ تم اطاعت کیا کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی؛ پھراگر وہ لوگ اعراض کریں ،سو اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتے۔۔سورة العمران :۲۳۱۔اور خوشی سے کہنا مانو اللہ تعالیٰ کا اور رسول کا امید ہے کہ تم رحم کئے جاؤ گے۔سورة المائدہ:۳۹۔اور تم اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو۔سورة انفال :۰۲۔اے ایمان والو! اللہ کا کہنا مانو اور اس کے رسول کا اور اس سے روگردانی مت کرنا اور تم سن تو لیتے ہی ہو۔سورة انفال:۶۴۔اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اور نزاع مت کرو ورنہ کم ہمت ہوجاؤ گے۔سورة النور :۴۵ ۔آپ کہیے اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو؛ پھراگر تم لوگ روگردانی کروگے تو سمجھ رکھو رسول کے ذمہ وہی ہے جس کا ان پر بار رکھا گیا ہے اور تمہارے ذمہ وہ ہے جس کا بار تم پر رکھا گیا ہے؛ اگرتم نے ان کی اطاعت کرلی راہ پر جا لگو گے۔ سورةالمجادلہ:۱۳۔تم نماز کے پابند رہو اور زکوٰة دیا کرو اللہ اور اس کے رسول کا کہنا ماناکرو۔سورةالمائدہ:۹۲۔اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو؛ اگرتم اعراض کروگے تو ہمارے رسول کے ذمہ تو صاف صاف پہنچادینا ہے۔سورةالنساء:۵۹۔اے ایمان والو! حکم مانو اللہ تعالیٰ کا اور حکم مانو رسول کا اور اپنے میں سے حاکموں کا؛ پس اگرجھگڑو تم کسی بات میں تو رجوع کرو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف۔۔۔ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر ایمان لانا ضروری ہے؛ اسی طرح اس کے رسول اور اس پر اتاری گئی کتاب پر ایمان لانا اور تصدیق کرنا لازم وضروری ہے، جو لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے رسول کی تصدیق نہیں کرتے دائمی نقصان اٹھائیں گے۔معزز قارئین میں نے قرب قیامت کی نشانیاں قرآن و احادیث سے رہنمائی لیتے ہوئے کچھ بیان کی ہیں اصل علم اللہ اور اس کے حبیب ﷺجانتے ہیں مگر جس قدر اللہ اور اس کے حبیب نے بیان کیا ہے اسے یہاں بحوالہ پیش کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان جو خالصتا اسلامی نظریہ پر وجود میں آیا آج وطن عزیز پاکستان کہاں کھڑا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ پاکستان کو سیکیولر ازم میں ڈھالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، کچھ لسانیت تو کچھ فرقہ ورائیت لیکن کوئی دھیان نہیں دے رہا کہ پاکستانی معاشرہ اور سیاست، نظام ریاست کہاں جارہا ہے ، قرب قیامت کی نشیانیوں میں بیشتر نشانیاں اس ریاست میں پائی جارہی ہیں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس قوم کو دین سے دور کرکے دجالوں کے فتنوں میں گھسیٹا جارہا ہے ، القاعدہ، طالبان اور دیگر تمام جہادی تنظیمیں انہیں دجالوں کا پیش خیمہ بنی ہوئی ہیں اور ریاست کے حکمران ہوں یا سیاستدان اُن لوگوں کی تقلید کرتے تھکتے نہیں جو کھلے آخری نبی کریم ﷺ کے دشمن ہیں ،ان میںعیسائی، یہودی، بت پرست حکومتوں کے ساتھ ساتھ قادیانی،احمدی اور وہ گروہ یا جماعتیں جو نبی کریم ﷺ کی آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ ریاست پاکستان میں شراب، شباب ،زناکاری، ظلمو تشدد، اقربہ پروری، طاقت کا نشہ، مظلوم کی بے بسی، انصاف کا نہ ہونا، انصاف کا فروخت، پولیس گردی، کرپشن، جرائم و کرائم، طوائفوں کی خدمات، عالموں کی تذلیل، جاہلوں کی عزت، جھوٹ کا پروان، سچ کی کمی، ریاکاریاں، منافقت، دوغلہ پن، جھوٹی شان، دولت کی ہوس، سود کا بھرمال،حرام کی کثرت،ایوانوں میں بندربانٹ، وزارتوں کی خواہشیں، عورت کا تقدس پامال، جاہلیت کا فروغ، بے راہ روی کا فیشن، میڈیا کا منفی کردار، مہنگائی آسمان تلے، رشوت سر عام گو کہ ہر پہلو میں دین اسلام ، اخلاقیات سے بہت دور کردیا گیا ہے ، ناخداؤں کی پرستش یعنی لیڈران ہی سب کچھ وہی زندہ ہیں اور وہی زندگی کے مالک!! ہم کہاں جارہے ہیں ہماری افواج کے جرنیل کیا سوچ رہے ہیں ؟ اندرون خانہ جنگی پر کیوں خاموش ہیں ؟یہ ملک برائیوں ،بد کاریوں ،لوٹ کھسوٹ، ظلم و شدد کی آگ سے مکمل خاکستر ہوجائیگا تب کیا کہیں کسی لیڈر یا پھر جرنیل کو خیال آئے گا کہیں دیر نہ ہوجائے۔جمہوریت کے علمبردار کہتے ہیں کہ جمہوریت سب سے مقدس ہے کیا یہی جمہوریت ہے اگر جمہوریت اور ریاست کا نظام سیکھنا ،جاننا ہے تو خدارا حبیب ﷺ اور انکے خلفائے راشدین کا نظام ریاست اپناؤ جو انتہائی معتدل اور اعتدال میں تھا حتیٰ کہ غیر مسلم بھی انتہائی پر امن زندگی بسر کرتا تھا یہاں تو مسلمان تو مسلمان ،انسان کا انسان دشمن بنا بیٹھا ہے ۔۔ ریاست پاکستان میں انسانیت کیوں ختم کی جارہی ہے وہ کون سے محرکات و اسباب ہیں جو اس جانب تیزی سے لے کر جارہا ہے ،اگر امریکہ،برطانیہ سے جان نہ چھڑائی گئی تویہ چند قرض کے بدلے تمام پاکستانیوں کے ایمان کی کھال اتار لیں گے ، جو لوگ پرہیز گار ،متقی اور ایماندار ہیں خدارا انہیں بخش دیں ان پر ظلم نہ کریں ورنہ قہر خداندوی ظالموں کو لے ڈوبے گی ۔وقت ابھی زیادہ نہیں گزرا ہے ہماری پوری قوم کو اس وطن عزیز پاکستان کی بھلائی، ترقی و تمدنی کیلئے ایک جان ہونا پڑیگا اور بیرونی وقتوں کی سازشوں کو خود بے نقاب کرنا پڑیگا کیونکہ بیرونی ممالک کی طاقتیں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں ،اس وطن میں امن قائم کرکے اپنی اقتصادی ،صنعتی طاقت کو بڑھانا پڑھے گا تاکہ جب یہ قوم معاشی و اقتصادی صورت میں مضبوط ہوجائے گی تب نفسہ نفسی کا عمل بھی رک جائے گا۔ معاشرے میں معاشی موت بہت خطرناک ہوتی ہے اس سے بہرہ روی، کرپشن، ظلم و ستم جنم لیتے ہیں اور پورے ریاست کو نا پید کردیتے ہیں ۔ پاکستان کے تمام جمہوریت پسند لوگ جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں وہ لوگ جو عہدوں، وزراتوں پر فائز رہے ہوں اور ہیں یہ تمام اپنی املاک سے صرف پچیس فیصد قومی خذانے میں جمع کرادیں تو یقینا پاکستان قرض لینے کے بجائے قرض دینے والے ممالک میں شامل ہوجائے گا اور اس وطن عزیز کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام تر بنیادی ضرورتوں کا حصول بھی انتہائی آسان ہوسکے گا ۔اگر دنیا میں باعزت جینا ہے تو پوری قوم کو یکجا ہوکر تبدیل ہونا پڑیگا تاکہ اصل اور حقیقی لیڈران کا بہتر انداز یعنی جدید کمپیوٹرائز ووٹنگ سسٹم جس میں انگوٹھے کا اسکینگ بھی شامل ہو سے انتخابات کا عمل جاری کیا جائے پھر ہوگی اور صحیح دعویٰ کہ بھاری عوامی مینڈیٹ سے کامیابی ورنہ یہ حقیقت ہے کہ علاقے بٹے ہوئے ہیں اپنے علاقوں کے علاوہ کامیابی کیونکر ممکن؟؟ آخر ووٹنگ سسٹم کا جدید خطوط انگوٹھے اسکینگ کے ساتھ کیوں نہیں مروج کیا جاتا اس میں کیا قباحت ہے ؟؟ اس نظام سے تمام سیاسی جماعتوں کی شکایت کا زالہ بھی ہوجائیگا کہ جدید اور بہتر نظام سے انتخابات درست ہوئے ہیں۔کیا کبھی ایسا ممکن ہوسکے گا ؟؟ اس کیلئے الیکشن کمیشن، عدلیہ عظمیٰ، سیاسی لیڈران اور افواج پاکستان کے جرنیل صاحبان کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔برائی کا خاتمہ قانون پر سخت عمل درآمد سے ہوتا ہے اور بہتر قانون بہترین قابل لوگوں کے ایوان میں پہنچ کر سوچ و بچار کے ساتھ قانون سازی کی جاتی ہے جس مین اپنی پارٹی کے بجائے پوری قوم کیلئے یکسوئی اور انصاف کے ساتھ قوانین بنائیں جائیں ، انتظامیہ اور عدلیہ کو مکمل سیاست سے آزاد کردیا جائے۔قرب قیامت کی پیش گوئیاں ہمارے ساتھ ہیں مگر ہم نیک لوگوں ،نیک گروہوں کے بجائے دوسری جانب پلٹ گئے ہیں ، حالیہ دور میں پاکستان بھر میں جس قدر مظلوم بچیوں اور لڑکیوں کی عصمت دری کی گئیں ، بے دردی سے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنی، طالبات کے اغوا کے واقعات کی بھر مار رہی، وزراءاور چوہدری، وڈیروں، پولیس افسران کے بگڑے بیٹوں کی قانون شکنی اک عام سی بات بن گئی ہیں ، ریاست پاکستان میں کئی ایسے صوبے ہیں جہاں خودساختہ ریاستیں کارفرما ہیں ، بڑے شہروں میںفیملیز کا گھر سے نکلنا اور گاو ¿ں دیہات میں عورتوں کے ساتھ زیادتی اور طاقتور چوہدری، خان، وڈیروں کا ظلم کوئی نئی بات نہیں ، کیا پاکستان اسی لیئے بنایا گیا تھا کہ یہاں ظلم و تشدد کا بازار گرم کردیا جائے ، طاقتور اپنی طاقت کے بل بوتے مظلوم کو پیستا چلا جائے، عدالتوں میں پیشکار سے لیکر ججز تک کیس کی نوعیت کے تحت رقوم مختص کیا جائے اور قاتل و ظالم آزاد مگر بے قصور و مجبور قید سلاسل ،یہ کیسی ریاست ہے جہاں نہ قائدین پاکستان کی حرمت کا خیال ہے اور نہ وطن عزیز کے مخلص لوگوں کا احساس!! یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر محکمہ میں نیک ،شریف، ایماندار، سچے ملازمین ہیں مگر ان کی تقرری، تبادلے، پروموشن میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے گئے ہیں ، ان ہی کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو سیاسی و شفارشی یا رشورتی انداز کو اپنائے بیٹھے ہیں ۔ بیوروکریٹس ہوں یا ادنیٰ ملازمین ان میں انصاف و احساس کا معاملہ موت کی نزر ہوگیا ہے۔ یہ کیسا پاکستان ہے جس میں کھلے عام مہنگائی اشیاءفروخت ہوتی ہیں اور حکومتی ادروں کی جانب سے پیش نرخ کردہ لسٹوں کو صرف ٹشو پیپرز سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ، ٹیکسوں کی بھرمار مگر سہولتوں کا فقدان۔بجلی کے نرخ ہو یا پیٹرول میں اضافہ پھر بھی عوام کع محروم کیوں رکھا جاتا؟ جھوٹے ،مکار، دھوکے باز ہیں یہ سیاستدان، کبھی چہرے بدل کر تو کبھی پارٹی بدل کر لیکن پھر کیوں ہوجاتے ہیں کامیاب حقیقت تو یہ ہے کہ کارکنان کرتے ہیں بے ایمان ۔ایٹم بم رکھ کر کیا پیﺅ گے اے حکمران، تم نے تو اک روٹی کو ترسادیااے ظالم انسان، حق کی بات سننے کو گوارہ نہیں ،اپنے بات سے ہٹتے تم نہیں۔نہ تمہیں خوف ہے خدا کا اور نہ تمہیں احساس ہے انسانیت کا، کب تلگ برباد کرو گے اپنی قوم کو، گر ایمان جاگ گیااس قوم میں تو بڑی مشکل ہوگی۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران۔ اے پاکستانیوں سوچ لو کب تک کرو گے بے ایمانیاں۔اے قوم کے لوگوں روز اٹھاو ¿گے کیا لاشیں اپنوں کی ، خودی کو بدل ڈالو بہتر معاشرے کیلئے۔۔ صبح کا بھولا گر شام کو آئے تو بھولا نہیں کہتے۔ وہ رب بڑا غفور الرحیم ہے وہ معاف کرنے ، بخشنے اور بڑا رحم کرنے والا ہے ، سیاست پاکستان میں وہی نظام بہتر چل سکتا ہے جس میں اعتدال اور انصاف یقینی ہو ،ناانصافی بھی بہت بیماریاں پیدا کردیتی ہیں ۔ اللہ پاکستانی قوم اور پاکستان کو یہود یوں، بت پرستوں اور غیر مسلموں کے شر سے ہمیشہ محفوظ فرمائے آمین ۔۔۔٭٭٭٭٭٭ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد ٭٭٭٭٭٭٭٭
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 245985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.