سنگھ پریوار:راہ زن کو قافلے کا رہنما کس نے کیا؟

امن و سلامتی کا قیام مرکزی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اس کیلئے وزیراعظم نے سونیا کے ساتھ فساد زدہ مظفر نگر کا دورہ کیا۔ مگرمچھ کے آنسو بہائے اور قومی یکجہتی کونسل کا اجلاسطلب کرلیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان نمائشی اقدامات سے فسادات رک سکتے ہیں ؟جبکہ وزیر داخلہ سوشیل کمار شندے اعتراف کر چکے ہیں جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے ہم مزید فرقہ وارانہ تشدد دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے گیارہ ریاستوں کو چوکنا کردیا ہے ۔ تو کیا مرکزی حکومت کی ذمہ داری بس ریاستی حکومتوں کو خبردار کردینے تک محدود ہے ؟ کونسل کے اجلاس میں وزیرداخلہ نے کہا گزشتہ چند ماہ کے اندر( فرقہ وارانہ تشددکے)واقعات میں ہونے والا اضافہ اس بات کا غماز ہے کہ اس کے پسِ پشت ناپاک ارادے کارفرماہیں ۔ فرقہ وارانہ طاقتیں دلیر ہو گئی ہیں اور معاشرے میں فرقہ واریت کو بڑھا رہی ہیں۔

وزیر داخلہ نے یہ تو بتلا دیا کہ فرقہ وارانہ قوتیں کیا کررہی ہیں لیکن یہ نہ بتا سکے کہ وہ خود کیا کررہے ہیں؟ اس لئے کہ کانگریس پارٹی فی الحال نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ بلاواسطہ فرقہ پرستوں کا تعاون کررہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں فرقہ واریت کی لہرکا جس قدر فائدہ بی جے پی کو ہورہا ہے اس سے زیادہ کانگریس پارٹی اس سے مستفید ہورہی ہے۔ فسطائیت کے ہون کنڈ میں اس کی ساری نااہلی اور بدعنونی جل کر راکھ ہوچکی ہے ۔ مہنگائی کا آسیب کافور بن کر اڑ چکاہے ۔بی جے پی نے مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنا کر کانگریس کا کام آسان کردیا ہے ۔اب اس کو یہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر یرغمال بنائے رکھا جائے اوراعتدال پسندہندوؤں کے سامنے مودی کے مجرمانہ کردار کو بے نقاب کردیا جائے۔

اس حکمت عملی کے پیش نظر کانگریس کے زیرِ اثر سی بی آئی نریندر مودی کو گھیرنے کیلئےایک طرف تو عشرت جہاں فرضی مڈبھیڑ کی تفتیش کررہی ہے تاکہ مسلمان خوش ہوجائیں اور دوسری جانب ہرین پنڈیا کا معاملہ طشت ازبام کرنے جارہی ہے تاکہ مودی کی ہندو دوستی بے نقاب ہوجائے۔ یہ کام نہایت صبر و سکون کے ساتھ دھیمی آنچ پر کیا جارہا ہے تاکہ بدلے کی کارروائی کا گمان نہ گزرے۔ اس حکمت عملی کا ایک پیادہ فی الحال ڈی جی ونجارہ ہے جس نے سابرمتی جیل میں ہرین پنڈیا کے قتل کو سیاسی سازش قراردےدیا۔ ہرین مرڈر کیس میں ونجارہ کو اس لئےنظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ۲۶ مارچ ؁۲۰۰۳ کو جب ہرین پنڈیا کا قتل ہوا ونجارہ احمدآباد کرائم برانچ کا سربراہ تھا۔ دودن کی ابتدائی تفتیش کے بعد یہ معاملہ سی بی آئی کے حوالے کیا گیا اوراس دوران شواہد کو جس طرح مٹایا گیا اس سےونجارہ سے زیادہ کوئی اورواقف نہیں ہے ۔ مرکز میں اس وقت چونکہ این ڈی اے کی حکومت تھی اس لئے اڈوانی جی کے تحت کام کرنے والی سی بی آئی نریندر مودی کی ہمنوا تھی۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے اڈوانی اور سی بی آئی دونوں ہی مودی کے خلاف ہیں۔ گزشتہ ہفتہ پھر ایک بارہرین پنڈیا کی بیوہ جاگرتی نے دہلی میں سی بی آئی سے رابطہ کرکے درخواست کی ہے ونجارہ کے ذریعہ ازسرِ نو تفتیش کر کے اصل مجرم تک پہنچاجائے ۔

عوام کی ایک بڑی اکثریت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ نریندر مودی صرف مسلمانوں کیلئے خطرناک ہے یا کم از کم سنگھ پریوار کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اس خوش فہمی کا شکار لوگوں کو چاہئے کہ وہ گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پنڈیا کا عبرتناک انجام دیکھ لیں ۔ ہرین براہمن تھا اس کا گہرہ تعلق نہ صرف ہندو سماج بلکہ سنگھ پریوار سے تھا ۔ وہ کیشو بھائی کی بی جے پی سرکارمیں وزیرداخلہ رہ چکاتھا مگر نریندرمودی کی مخالفت اسے لے ڈوبی ۔ ہرین پنڈیا چونکہ مودی کے لئے خطرہ بن گیا تھا اس لیے سویم سیوک ہونااس کے کسی کام نہ آیا ۔ نریندر مودی نے اقتدار کی باگ ڈورسنبھالنےکے بعد ہرین پنڈیا کو وزارت سے محروم کرکے سب کو چونکا دیا تھا ۔ سنگھ پریوار کے اور اعلیٰ کمان کے دباؤ میں توسیع کے وقت اسے وزیر محصول بنایا گیا ۔

نریندر مودی نے اس سے قبل انتخاب نہیں لڑا تھا اس لئے اس کی نگاہِ بد ایلس برج کے حلقے پر پڑی جہاں سے ہرین پنڈیا نے مسلسل تین بار کامیابی حاصل کی تھی اور آخری مرتبہ ۵۵۰۰۰ہزار کے فرق سے جیتا تھا۔ ہرین پنڈیا نے جب مودی کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کردیاتو ان کی ان بن کئی گنا بڑھ گئی۔ ہرین پنڈیا نے گودھرا ٹرین میں جلنے والے کارسیوکوں کی لاشوں کو احمدآبادلانے کی مخالفت اس بنیاد پر کی تھی کہ اس سے فرقہ وارانہ آگ پھیلے گی لیکن اسے ڈانٹ کر خاموش کردیا گیا۔ اس کا اندیشہ درست ثابت ہوا گجرات فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا گیا لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی سابق چیف جسٹس کرشنا ائیر کی سربراہی میں تفتیش کرنے والے آزاد عوامی ٹریبونل کے سامنے ہرین پنڈیا نے مودی انتظامیہ کو فساد کیلئے قصوروار ٹھہرا دیا ۔ اس بیان کی آڈیو کیسٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی ہے ۔

ہرین پنڈیا کی حق گوئی کا انعام اسےیہ ملا کہ پارٹی ہائی کمان کے دباؤ کے باوجود ایلس برج سے ہرین پنڈیا کے بجائے بھاوین شاہ کوٹکٹ دیا گیا ۔ بی جے پی کے اندر اس حوالے سےکافی بےچینی تھی۔ گجرات بی جے پی کا نگراں سنجیو جوشی ہرین نے ہرین کو قومی سکریٹری بنانے کی سفارش کی جو منظور ہوگئی مگر اس سے پہلے کہ ہرین پنڈیا اپنی نئی ذمہ داری کو سنبھالنے کیلئے دہلی جاتا احمدآباد میں اس کو قتل کردیا گیا ۔ ہرین پنڈیا قتل کی بابت سی بی آئی نے یہ جھوٹ گھڑا کہ اسے لاء گارڈنس کے باہرماروتی گاڑی کے اندر جیش اور لشکر کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے ہلاک کردیا۔ اس پر عزیز بگھروی مرحوم کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
گمراہ کن ہیں سارے بیانات ان دنوں
خبریں فریب، جائزے نامعتبر تمام

اس گمراہ کن فریب کے خلاف کئی ثبوت موجود تھے مثلاً قتل سے ایک ہفتہ قبل احمدآباد میونسپلٹی کے ذریعہ پھیری والوں پر پابندی جسے بعد میں اٹھا لیا گیا۔گاڑی کے اندر یا باہر خون کے نشان کا ندارد ہونا۔ آس پاس سے گولی کا چھرا ّبرآمد نہ ہونا۔پنڈیا کو ٹانگوں کے درمیان فوطے میں گولی ماری گئی تھی جو اوپر کی طرف چلتی چلی گئی۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے فرد کو اس طرح نہیں مارا جاسکتا۔ گجرات ڈی جی پی شری کمارکی تصدیق کہ ہرین پنڈیا دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں شامل ہی نہیں تھا ۔ مودی کے پرنسپل سکریٹری پی کے مشرا کا ۷ جون ؁۲۰۰۲ کو شری کمار سے پوچھنا کہ عوامی کمیشن کے سامنے کس وزیر نے بیان دیا ۔ ۱۲ جون ؁۲۰۰۲ کوشری کمار نے ہرین پنڈیا کا نام بتایا اس طرح گویا پنڈیا کانام مودی کی ہٹ لسٹ میں چڑھ گیا ۔ان شواہد کے باوجود مودی کےدباؤ میں پوٹاعدالت نےفورنسک رپورٹ مسترد کرکےسی بی آئی کے جھوٹ کو تسلیم کرلیا ۔ ہرین پنڈیا کے والد کا اسے سیاسی قتل قرار دیا لیکن مودی کے راج میں اس سویم سیوک کی حالتِ زار پرعزیز بگھروی کے اس شعر کے مصداق تھی ؎
فریاد لے کے جائیں بھی تو جائیں کس کے پاس ہیں بے ضمیر مسندِ انصاف پر تمام

مودی کا پنڈیا کے قتل میں ملوث ہونا اس وقت اس قدر عام بات تھی کہ جب مودی اسپتال پہنچا تووہاں موجودبی جے پی کارکنان نے نریندرمودی ہائے ہائے کےنعرے لگائے اور ہرین کے والد اور بہن نے دھکے دے کر اسے بھگا دیا ۔ ہرین کے جنازے میں عوام کی غیر معمولی تعداد نے شرکت کی مگر اس کے تیسرے دن جب تعزیت کے لئے لوگوں کا آنا تھا مودی نے ایک پارٹی میٹنگ رکھ کر لوگوں کو روکا۔ ہرین کا مجسمہ نصب کرنے کی مخالفت کی بلکہ اس کی صفائی کیلئے زینہ تک نہ دیا۔ ڈاکٹر یونس بھاونگری کے ذریعہ پنڈیا پر فساد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا جسے پنڈیا کے والد نے مودی کی مذموم حرکت قرار دیتے ہوئےاس قتل میں مودی کےملوث ہونے کا الزام دوہرایا اورکہا سی بی آئی عوام کو گمراہ کررہی ہےاس کے باوجود سی بی آئی نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اور ایک مسجد کے امام سمیت ۱۲ افراد کو آندھرا پردیش سے گرفتارکرلیا۔

سی بی آئی کے افسر شرما نے اصغرعلی کو اصل مجرم قراردیا اور اعلان کیا کہ اس کے کشمیری دہشت گرد تنظیم سے تعلقات ہیں ۔ اس نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے اور پاکستان بھاگنے کی تیاری کررہا تھا کہ گرفتار کرلیا گیا۔اس کے پاس سے اسلحہ برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ ؁۲۰۰۷ کے اندر ایک مفرورملزم جنید نے اپنے آپ کوپراسرار انداز میں پولس کے سپرد کیا جبکہ اسے ایک مرتبہ گرفتار کرکے رہا کیا جاچکاتھا ۔ اس کی شہادت پر پوٹا عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ قتل ؁۲۰۰۲ کے فسادات کا بدلہ لینے کی خاطر کیا گیا تھااس لئے بارہ میں سے نو کو عمر قید کی سزادو کو سات اور ایک کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔؁۲۰۰۹ میں عدالت نے ان میں سے تین کی ضمانت کردی اس لئے کہ ان پرصرف یہ الزام تھا کہ اصغر علی نے ان کے گھر پر قیام کیا تھا۔اس جرم کی سزاسات سال تھی جس میں پانچ سال وہ جیل میں گزار چکے ہیں انہیں ضمانت نہ دینا بلامقدمہ ے سزا دینے کے مترادف ہے۔

اگست ؁۲۰۱۱میں سب کے سب بارہ ملزمین کو گجرات ہائی کورٹ نے بری کردیا لیکن اس وقت تک ان میں سے کئی آٹھ سال کی سزا بھگت چکے تھے۔ عدالت کے مطابق سائنسی شواہداور عینی گواہوں کے درمیان تفاوت تھا۔جسٹس واگھیلا اور اپادھیائے نے تفتیش کو لاپرواہی سے کی گئی پیوندکاری اور اندھیر نگری قرار دیا ۔اس طرح کی تفتیش پر عوامی فنڈ کے ضیاء کا الزام بھی لگایا لیکن جن بے گناہوں کی زندگی تباہ کردی گئی اس پر کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا ۔ گجرات کی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اس نے ایک سال بعد اس مقدمے سے رہا ہونے والے اشرف ناگوری کو اسلحہ سمیت گرفتار کرنے کا دعویٰ کردیا۔ کیا کوئی ذی شعور انسان اس طرح کی غلطی کرسکتا ہے لیکن مودی کی بے شعور حکومت یہ کرگزری ۔بقول حفیظ الرحمن احسن رہزن کو رہنما بنانےکا یہی نتیجہ ہوتا ہے
اس دورِ زیاں کار نے کیا کچھ نہ دکھایا
رہ زن تھے جو وہ راہنما ہو گئے کیسے؟

حیرت کی بات یہ ہے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف گجرات کی ریاستی حکومت بلکہ سی بی آئی نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا حالانکہ اب وہ کانگریس کے تحت تھی لیکن جب سپریم کورٹ نے سی بی آئی کوناقص تفتیش پر پھٹکار لگائی تو اس نے ہرین پنڈیا کے معاملے پر ازسرنو تفتیش کے لئے اپنےصدر دفتر سے اجازت طلب کی۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے اندر معطل آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ کا حلفیہ بیان موجود ہے جس کے مطابق سہراب الدین کے ساتھی پرجا پتی تلسی رام نے پنڈیا پر گولی چلائی۔ ؁۲۰۰۳میں جب اصغر علی سابرمتی جیل میں تھاتو اس نےجیل سپرانٹینڈنٹ سنجیو بھٹ کو بتایا کہ سہراب الدین نے اس سے پنڈیا کے قتل کیلئے رابطہ کیا اور ابھے چڈسامہ اسے قتل کیلئے پستول دینے والا تھا لیکن وہ خوفزدہ ہوگیا اور حیدرآباد واپس چلا گیا۔اس کے بعد اسے پتہ چلا کہ تلسی رام نے ہرین کاکام تمام کردیا ۔ بھٹ نے اس کی تحریری اطلاع امیت شاہ کو دی تو وہ گھبرا گیا اور اس نے بھٹ کو رازداری برتنے کی تاکید کی۔ آگے چل کر سنجیو بھٹ کا تبادلہ کردیا گیا۔

سنجیو بھٹ کے بیان کی تصدیق ؁۲۰۱۰ میں سہراب الدین کے ساتھی اعظم خان نے بھی کی ۔ اعظم خان کا نام سی بی آئی کی فردِ جرم میں چوتھے نمبر کے گواہ کی حیثیت موجود ہے۔اعظم خان نے سی بی آئی کو بتایا کہ خود چڈسامہ نے اس سے کہاتھاکہ میں سہراب الدین کا بہت اچھا دوست تھا اور میں نے اس کو ہرین پنڈیا کے مرڈر کیس میں الجھنے سے اسے بچایا تھا۔ یہ بات چڈسامہ نے ؁۲۰۰۹ میں ہمت نگر کے اندرایک مشترک دوست احمد جابر کے گھر پر بتلائی تھی۔ اصغرعلی ، اعظم خان کے بیانات اور بھٹ و ونجارہ کی تصدیق بقول سابق وزیر قانون بھارت بھوشن آسمان میں اڑنے والے نریندر مودی کو زمین پر لانے کیلئے کافی ہیں ۔ کانگریس نے اس چال کی مہارت سے کھیلا تو نریندر مودی کی حالت ڈاکٹر انورسدیدکے اس شعر کی مانند ہو جائیگی ؎
جوکل تک اڑ رہا تھا آسمانوں کی بلندی پر
وہ چلتا ہے زمیں پر اب مگر آہستہ آہستہ

ہرین پنڈیا کے قتل کواس کے والد ولبھ پنڈیا اور بیوی جاگرتی کے علاوہ سابق وزیر داخلہ گوردھن زڑاپیا و سابق وزیراعلیٰ کیشو بھائی پٹیل نے بھی سیاسی سازش قراردیا ہے ۔ ان سب کا تعلق سنگھ پریوار کے ساتھ ہے۔ مودی کے راج میں ایلس برج سے منتخب ہونے والے ہرین پنڈیا کے دوست بھاوین شاہ پر بھی ؁۲۰۰۵ میں قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے جس میں وہ بال بال بچ گیا ۔ مودی کے مخالف سنجے جوشی کوذلیل کرکے بن باس میں بھیج دیا گیاہے۔ اسے بھی جان سے مارنے دھمکیاں ملیں اور اس سویم سیوک کو کانگریس سرکارکے آگے تحفظ کی جھولی پھیلانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ مودی اپنے سنگھی مخالفین کے ساتھ اس طرح کا حسنِ سلوک روا رکھتاہے۔

اڈوانی جی کیلئے اس میں پیامِ ِ عبرت ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب کیلئےوہ کوئی محفوظ حلقۂ انتخاب تلاش کرلیں ورنہ گاندھی نگرتو کجا گجرات کی کسی بھی سیٹ سے ان کی ناکامی مشکوک ہی نہیں بلکہ یقینی ہو جائیگی۔ آرایس ایس سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مودی کے عتاب کا شکار ہونے والے مذکورہ بالا لوگ مسلمان نہیں بلکہ سنگھ پریوار کے ارکان ہیں ۔ جب تک ان لوگوں نے مودی کی حمایت کی وہ ان کی پشت پناہی کرتا رہا لیکن جب مخالف ہوئےتووہ ان کی جان کا دشمن ہوگیا۔اس لئے اگر مستقبل میں اگرانہوں نے اس عفریت کو آنکھ دکھانے کی جرأت کی تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جوہرین پنڈیا کا ہوا ہے لیکن اس صورتحال کیلئے وہ خود ذمہ دار ہوں گے لوگ ان سے سوال کریں گے ؎
لٹ کے راہِ آرزو میں دل سے کہتی ہے نظر
راہ زن کو قافلے کا رہنما کس نے کیا ؟
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2130 Articles with 1501449 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.