تصویرکھنچوانے کی شوقین نوکرشاہی اور منفعت بخش کاروبار

ٹی وی سکرینوں پر آنا یا اخبارات میں تصاویرشائع کرانا کسی زمانے میں سیاستدانوں کی ضرورت اور مجبوری ہوا کرتی تھی جس میں وہ کرینگے،یہ ہوجائے گا اوروہ ہو جائیگا جیسے بیان دیکر لوگوں سے داد سمیٹی جاتی تھی لیکن جب سے خیبر پختونخواہ میں تبدیلی والی سرکار کی حکومت آئی ہے یہاں پر سسٹم الٹا چلنا شروع ہوگیا ہے سیاستدان اور نام نہاد لیڈر اب کیمروں کے سامنے آنے سے گھبراتے ہیں جیسے یہ کوئی کھاجانے والی بلاہے اصل بات یہ ہے کہ ان لوگو ں کے پاس کہنے اور بولنے کیلئے کچھ نہیں ہوتا اسی لئے کیمروں سے دور بھاگتے ہیں،لیکن کیمروں سے دور بھاگنے والے بیوروکریٹس کو اب کیمرہوں کا چسکا لگ گیا ہے جہاں منسٹر صاحبات نہیں ہوتے وہاں ان کی جگہ بیوروکریٹس پہنچ جاتے ہیںاب انہوں نے اندازے گفتگو بھی سیاستدانوں جیسا اپنالیا ہے ، کچھ پارٹیوںسے تعلق رکھنے والی خواتین جنہیں اپنے محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا 1000 روپے دیکر اپنی تصاویر کھنچوا کر اخبارات میں شائع کروالیتی ہیں صرف یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال پشاور میں ہونے والے یکے بعددیگرے دھماکوں کے بعد ہے جہاں پر ہسپتال میں ہر کوئی اپنی تصاویر چھپوانے کیلئے پہنچ رہا ہے نام نہاد لیڈروں کے آنے سے قبل ان کے پبلک ریلیشن آفیسر فون کرکے اخبارات ٹی وی چینل کے نمائندوں کو بلواتے ہیں کہ ہمارے صاحب عیادت کرنے پہنچ رہے ہیں بھئی اس میں کونسی بڑی بات ہے عیادت کرنا اچھی بات ہے لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ مریضوں کی حالت زار دیکھی جائے کہ انہیں سہولیات مل رہی ہیںیانہیں صرف مریض کے سرپردست شفقت پھیر کرتصاویر نکلوانے سے کچھ نہیں ہوگا ایک ہفتے کے دوران غیر ملکی ملکی اور مقامی لیڈروں کی ایک بڑی تعدادہسپتال میں تصاویر اتارنے پہنچی لیکن کسی کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ پوچھ لیتا کہ ہسپتال میں مریضوں کی حالت کیسی ہے کیا انہیں مفت ادویات مل رہی ہیں کیا انہیں بیڈ میسر بھی ہیں کہ نہیں یا بازار سے بیڈ کرائے پر لاکراپنے مریض ہسپتال میں داخل کروا رہے ہیںیہ ایسی صورتحال ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے مریضوں کی موت کی دعا ہی مانگتے ہیںکہ انسان مرنے سے بہت سارے غموںسے نجات پالیتا ہے-

انسان مر جائے تو قرارآہی جاتا ہے کہ چلو مٹی تلے دفن کردیا ہے اسی وجہ سے بڑے سے بڑا صدمہ بھی وقت کے تھپیڑوں میں انسان بھول ہی جاتا ہے لیکن اگر کوئی پیارا زندہ ہی غائب ہوجائے اور پھر پتہ نہیں چل رہا ہو اور لواحقین تڑپ رہے ہوں اور انہیں غائب کرنے والے آرام سے زندگی گزار رہے ہوں تو ایسے میں دل کیا چاہتا ہے یہ کوئی ا ن سے پوچھے جن کے پیارے زندہ ہی غائب ہوگئے ہیں ایسا ہی دکھ اٹھارہ سالہ طالب علم یونس کی والدہ اور ماموں کو بھی ہے یونس کودو اگست کو سیفن کے علاقے سے پولیس نے اٹھالیا فرسٹ ایئر کے طالب علم یونس کواس کے والدحبیب نے جو کویت میںمزدوری کرتے ہیں موٹر سائیکل کی خریداری کیلئے پیسے دئیے تھے جس پر اس نے اپنے لئے موٹر سائیکل خریدی اور وہ نئی موٹرسائیکل خریدنے کی خوشی منا رہاتھا کہ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا بڑی آسامی سمجھ کرپولیس نے اس کے ماموں کواس کی گرفتاری کی اطلاع دی اوربتایاکہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اسے گھر واپس بھیج دیا جائیگا، لیکن ان کا بھانجاگھرنہ پہنچا مقامی پولیس کے مطابق اس طالب علم کو ایجنسی والے اٹھا کرلے گئے اس کا بھی مہینہ گزر گیا لیکن اب وہ طالب علم غائب ہے اسکے گھر والوں کو روزانہ نت نئے ڈرامے سننے کو ملتے ہیںلیکن طالب علم یونس کا پتہ نہیں چل رہا یہ یہ کیسی ایجنسی ہے جو ایک ماہ سے طالب علم سے تحقیقات ہی نہیں کرسکی کہ اس پر کیا الزام ہے اور اس کا کریمنل ریکارڈ کیسا ہے گرفتار کرنے والوں نے آگے کسی اور کو دیدیاان کیلئے تو شائد یہ معمول کی بات ہے لیکن اٹھارہ سال کا طالب علم ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہا ہے اورپولیس کی حوالا ت سے غائب ہے -

یہ ہے نیا پاکستان جس کیلئے یونس جیسے طالب علموں نے گیارہ مئی کو ہونیوالے انتخابات میں بڑا زور لگایا تھا کہ نیا پاکستان بنے گا اورشائد نیا پاکستان بھی بن گیا لیکن ان کیلئے جن کی پہلے سے عیاشی تھی یہ ہے ہمارا نیا پاکستان جس میں اغواء برائے تاوان بھتہ خوری بدمعاشی پیداگیری کا ذریعہ تھا ہے اور رہے گا لیکن اب سرکار کے تعاون سے نیا کاروبار شروع ہوگیا جسے باقاعدہ وردی والوں کا تحفظ حاصل ہے اس کاروبار میں روڈ پر چلنے والے کسی بھی شخص کو بلاوجہ گرفتار کرکے رکھا جاتا ہے اور پھر اس کے گھر والوں رشتہ داروں سے پیسوں کی وصولی کی جاتی ہے اس کاروبار میں بڑے بڑے نامی گرامی لوگ شامل ہیں جنہیں باقاعدگی سے اپنا حصہ ملتا ہے پکڑا جانیوالا اس وقت تک مجرم ہے جب تک یاتو پیسے دے کر اپنی جان نہ چھڑالے یا پھرمسلسل گمشدگی کے باعث اس کے عزیز واقارب رودھوکرصبرکرلیں-عدالت بھی زیادہ سے زیادہ قریبی رشتہ دارہی جائیں گے جہاں وردی والے حلف اٹھا کر کہہ دینگے کہ ہمیں نہیں پتہ بس قصہ ختم -

قصہ توخیبر ایجنسی کی علاقہ جمرودکی رہائشی مسماة زیبا بیوہ محمود بھی نہیں بھولی بقول اس کے خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ نے جمرود ہسپتال کے پولیو آفس میں ہونیوالے بم دھماکے کے بعد دس سال سے محکمہ صحت میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے والے اس کے ڈرائیور شوہر کو گرفتار کرکے پشاور منتقل کردیا اور بعد میں اسے قتل کرکے اس کی قتل کو خودکشی کا رنگ دیا گیا پولٹیکل انتظامیہ کی جان تو چھوٹ گئی کیونکہ واقعے کے بعد اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ تحصیلدار کو معطل کیا گیاتھا اسی طرح مسماة زیبا بیوہ کی شوہر کی جان بھی چھٹ گئی کیونکہ منوں مٹی تلے دب کر ہر غم سے نجات پاگیا لیکن اپنے پیچھے چھ معصوم بچیاں ضعیف والدین کو چھوڑ گیا اور بیوہ اپنی معصوم بچیوں کے سرپر سوال کررہی ہے کہ کہاں ہے کہ انصاف اسکے شوہر کو قتل کردیاگیا لیکن اسکی تحقیقات نہیں ہورہی وہ اور ان کے معصوم بچے یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں ایک کے بعددوسرا آکر انصاف کے بھاشن تو دے جاتا ہے اور انصاف کے نعرے بھی بہت لگتے ہیں لیکن جمرود کے رہائشی بیوہ زیبا کیلئے کوئی انصاف نہیں شائد اسکی وجہ اس کا غریب اور قبائلی ہونا ہے جس کی آواز کو اٹھانے کیلئے بہت زیادہ زور لگانا پڑتا ہے اس لئے ہمارے کچھ نام نہادتاجر جو اپنے آپ کو صحافی لکھتے ہوئے بھی نہیں شرماتے نے معصوم لوگوں کے خبروں میں ڈنڈی ماردی کیونکہ پولٹیکل انتظامیہ سے نوٹ ملتے ہیں جبکہ غریب خاندان سے انہیں کچھ ملنے کی امیدنہیںتھی سو مطلب کاروبار اور پیسے کی اس دنیا میں اس غریب خاتون کا کون پوچھے گا شائد کوئی بھی نہیں!
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498044 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More