یہ ہیں اسرار احمد المعروف ابن صفی ۔اپنی زندگی میں ان پر
یہ الزام لگتا رہا کہ انہوں نے ایک ایسی صنف منتخب کی ہے جو سرے سے ادب کے
زمرے میں آتی ہی نہیں، جاسوسی ناول بھلا کبھی ادب میں شامل ہوسکتے ہیں ؟۔لیکن
یہ کہنے والے کون تھے ؟ ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو بیان اس نوعیت کا
دیتے تھے اور پھر ان کے تکیوں کے نیچے سے ابن صفی ہی کا کوئی ناول برآمد
ہوتا تھا۔ یہ عجب تضاد تھا۔ابن صفی جو ایک درویش صفت انسان تھے، بالآخر ایک
انٹرویو میں اپنے دل کی بات کہہ اٹھے، ملاحظہ تو کیجیے:
’’مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علمبردار مجھ سے کہتے
ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں۔ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا
ہوں۔ حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی
کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریقِ کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا
ہے۔ میں بہت زیادہ اونچی باتوں اور ایک ہزار کے ایڈیشن تک محدود رہ جانے کا
قائل نہیں ہوں۔ میرے احباب کا اعلیٰ و ارفع ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے
اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کس قسم کا انقلاب لاتا ہے۔افسانوی ادب
خواہ کسی پائے کا ہو محض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی
تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی شطرنج سے
نہیں بہل سکتا۔ اسی طرح ہماری سوسائٹی کے ایک بہتبرے حصّے کے لئے اعلیٰ
ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے۔ تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لئے
کیوں لکھوں؟ میں اسی انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی باتیں بھی پہنچ جائیں۔بہت ہی بھیانک قسم
کے ذہنی ادوار سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہوں۔ ورنہ میں نے بھی آفاقیت کے
گیت گائے ہیں۔ عالمی بھائی چارے کی باتیں کی ہیں۔ لیکن ۱۹۴۷میں جو کچھ ہوا
اُس نے میری پوری شخصیت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ سڑکوں پر خون بہہ رہا
تھا اور عالمی بھائی چارے کی باتیں کرنے والے سوکھے سہمے اپنی پناہ گاہوں
میں دبکے ہوئے تھے۔ ہنگامہ فرو ہوتے ہی پھر پناہ گاہوں سے باہر آ گئے اور
چیخنا شروع کر دیا۔ ’’یہ نہ ہونا چاہیئے تھا۔ یہ بہت برا ہوا۔‘‘ لیکن ہوا
کیوں؟ تم تو بہت پہلے سے یہی چیختے رہے تھے۔ تمہارے گیت دیوانگی کے اِس
طوفان کو کیوں نہ روک سکے۔
میں سوچتا․․․ سوچتا رہا۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی میں جب تک قانون
کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہو گا یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن
ہے کہ آدمی قانون کا احترام سیکھے۔ اور جاسوسی ناول کی راہ میں نے اِسی لئے
منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور انہیں
قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں۔ فریدی میرا آئیڈیل ہے جو خود بھی
قانون کا احترام کرتا ہے۔ اور دوسروں سے قانون کا احترام کرانے کے لئے اپنی
زندگی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ‘‘
کہتے ہیں کہ ’ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام سیکھے‘۔دنیا نے
دیکھا کہ انہوں نے مشن کو ایسا نبھایا کہ لاکھوں پڑھنے والوں کی ذہنی تربیت
کر گزرے۔زیر نظر مضمون کے عنوان سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے اس کا لکھنے
والا ابن صفی کا قریبی دوست تھا،لیکن وہ صفی صاحب کے انتقال کے وقت نہایت
کم عمر تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ابن صفی کے تحریر کردہ ۲۴۵ جاسوسی ناولوں اور
ان پر لکھے گئے سینکڑوں مضامین کو بحیثیت ایک محقق پڑھنے کے بعد اس کے
سامنے اس عظیم انسان کی فکر و فن اور سوچ کا ہر پہلو نمایاں ہو کر سامنے
آگیا ہے جس کی اہمیت کو اب ہر سطح پر تسلیم کیے جانے کا عمل نہایت زور و
شور سے شروع ہوچکا ہے۔ وہ خود کو ابن صفی کے فن اور شخصیت کے پہلوؤں کو
اجاگر کرنے والا پہلا شخص نہیں سمجھتا کہ اس سے قبل بھی کئی دوانے یہ کوشش
بہ احسن طریق کرچکے ہیں۔
یادش بخیر ایک ہوتے تھے محمد بدر منیر۔ابن صفی کے ایک سچے عاشق۔ ستر کی
دہائی میں نیشنل بک کونسل کے تعاون سے ابن صفی پر تحقیق کام کا آغاز کیا
تھا لیکن پھر کسی وجہ سے وہ سلسلہ درمیان ہی میں رک گیا۔ ابن صفی سے
ملاقاتیں بھی کیں اور انٹرویو بھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہجرت کرکے کراچی چلے
آئے تھے۔ اپنی مختلف تحریروں میں ابن صفی سے متعلق دلچسپ اور حیران کن
انکشافات کیے ۔ اٹامک انرجی کے آئی یو عثمانی، پیر علی محمد راشدی، بنگلہ
دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی ضعیف والدہ او ر لاہور کے شاعر استاد دامن
، ابن صفی کے پرستار تھے، یہ بتانے والے بدر منیر تھے۔ شیخ مجیب کی والدہ
کو تو وہ ابن صفی کے ناول سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی اسپتال میں جا جا کر سناتے
رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب وہاں اردو میں بات کرنے کا مطلب تھا اپنی جان
گنوانا ۔بدر منیر آخری وقت میں جنرل اعظم کے پرسنل اسسٹنٹ ہو کر لاہور چلے
گئے تھے۔ ۱۹۹۰ کے وسط میں لاہور میں انتقال کیا۔محمد بدر منیر نے ایک
ملاقات میں ابن صفی سے دریافت کیا:
’’آپ کے خیال میں اردو میں جاسوسی ناولوں کا مستقبل کیا ہے؟
ابن صفی کا جواب ملاحظہ ہو:
’’بہت شاندار۔اردو ہی کیا دنیا کی ہر زبان کے ادب میں اگر کوئی ادب زندہ
رہے گا تو وہ جاسوسی ادب۔ حالانکہ میں ادب کو خانوں میں تقسیم کرنے کا حامی
نہیں ہوں لیکن جو بزعم خود ’’سکہ بند‘‘ادیب بنے ہوئے ہیں انہوں نے اسے
خانوں میں تقسیم کر دیا ہے اور میں فی الحال اس تقسیم کو قبول کرتے ہوئے
دعویٰ کرتا ہوں کہ جاسوسی ادب کے سوا کسی اور ’’ادب‘‘کا مستقبل کہر آلود
ہے۔ اور اردو ہی کیا،ہندی بنگلہ ،سنسکرت،مراٹھی ،انگریزی یہاں تک کے
فرانسیسی اور عربی و فارسی میں بھی جاسوسی ادب کا بول بالا ہے ۔اس کی ایک
وجہ تو یہ ہے کہ یہ انسانی فطرت کی عکاسی کرتاہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس
میں لکھنے والے کے لئے ایک کائنات آباد ہے ۔چنانچہ مجھے لکھنے میں کبھی
دشواری پیش نہیں آئی۔ نہ مجھے ذہنی بحران کا سامنا کرنا پڑا نہ ذہنی تعطل
کا اور نہ مجھے کسی اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
ابن صفی اپریل ۱۹۲۸ میں قصبہ نارہ ، ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے اور ۲۶
جولائی ۱۹۸۰ میں ناظم آباد، کراچی میں اپنے واقع اپنی قیام گاہ پر انتقال
کیا۔اس درمیانی وقفے میں ابن صفی کے قلم سے اردو زبان کے سری ادب نے اپنی
معراج کی وہ منزلیں طے کیں کہ آج کیا ، رہتی دنیا تک ابن صفی کے مقام کا
تعین ہوگیا۔ اب تو یہ روایت بھی پرانی ہوچلی ہے کہ ادھر کوئی دنیا سے رخصت
ہوا اور ادھر یہ اخباری بیان داغ دیا جاتا ہے کہ موصوف کا خلا پر ہونا مشکل
ہے۔سچ تو یہ ہے کہ راقم الحروف نے اپنی زندگی میں صرف ابن صفی کے انتقال پر
یہ روایتی جملہ من و عن سچ ہوتے دیکھا۔ یاروں نے ان کی زندگی ہی میں بہت
زور مارا لیکن وہ بات کہاں ؟ ایسے لوگوں کو ابن صفی پیار سے یاران طریقت
کہا کرتے تھے ۔درویش صفت تھے ، لہذا اپنے ناولوں کے پیشرسوں میں اپنے
نقالوں کے خلاف کاروائی کا عندیہ تو زور و شور سے دیتے تھے لیکن کبھی ایسا
کرنہ سکے۔ صرف ایک معاملہ تھا جو عدالت تک پہنچا، یہ ابنّ صفی کے نام سے
لکھنے والا ایک شخص تھا ، مقدمہ کچھ ہی روز تک چلا پھر ابن صفی نے اس میں
مزید دلچسپی نہ لی۔ ابن صفی کے ایک پرستار تھے، پروفیسر مرزا حیدر عباس۔کسی
کا نام لیے بغیر بیان کرتے ہیں " ایک آدمی نے ان کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی
نے مقدمہ کردیا۔ اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کہ اس کے بیوی بچوں کا
کوئی سہارا نہیں ہے تو اس کو اپنے پاس سے وظیفہ دینا شروع کردیا۔‘‘ ۔۔کیا
خبر یہ نامعقول وہی ابنّ صفی ہی رہا ہو۔
ناول نگاری کے فن کے بارے میں احمد صغیر صدیقی کہتے ہیں ’’ ناول ا صطلاحاً
دراصل ان قصوں کو کہا جاتا ہے جن میں داستانوں کی طرح فرضی واقعات پیش کرنے
کے بجائے انسانی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور معاملات کو دلچسپ انداز
میں پیش کیا جائے۔ اس میں دلچسپی پلاٹ، کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے
ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔‘‘
جاسوسی ناول نگار کے لیے درج بالا مراحل پر پورا اترنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جاسوسی ناول میں پلاٹ ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتا
ہے۔بقول شخصے اس میں ریاض جیسی تکنیک ہوتی ہے۔ناول نگار کی ذرا سی کوتاہی
اسے قاری کی نظر میں مضحکہ خیز بنا سکتی ہے۔جاسوسی ناول نگاری ایک بالغ و
باشعور انسان کا کام ہے، اس میں بچپنے کی گنجائش سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ ابن
صفی کے لکھے ۲۴۵ ناولوں میں کسی کو بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے، پلاٹ پر ان کی
گرفت، زبان و بیان کی نزاکتوں، طنز و مزاح کی باریکیوں اور آخر میں قانون
کی بالا دستی جیسے پیغام ومعاملات پر ان کی دسترس حیران کن حد تک مضبوط نظر
آتی ہے۔ ابن صفی کی منظر نگاری کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:
’’ مرنے والے چیخ رہے تھے ……بلبلارہے تھے۔ رورہے تھے لیکن انھیں قتل کرنے
والوں کے ہاتھ کسی طرح نہ رکے۔ اور پھر انہوں نے ان کی لاشیں بھی گھوڑوں کی
ٹاپوں سے روند ڈالیں۔ انھیں ایسا معلوم ہورہاتھا جیسے وہ زندگی کی آخری
حدوں پر کھڑے سامنے پھیلی ہوئی بیکراں تاریکی میں اپنے لئے جگہ تلاش کررہے
ہوں___ حالانکہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا مگر انھیں ایسا محسوس ہوریا
تھا جیسے یہ دُنیا کا آخری دن ہو، زمین کسی سیارے سے ٹکرا گئی ہو۔ سورج کے
پرخچے اُڑ گئے ہوں!شکرالی وحشی بھی گھوڑوں پردم بخود بیٹھے اپنی ہمیشہ
اُداس رہنے والی آنکھوں سے کچلی ہوئی لاشوں کو دیکھ رہے تھے۔ اور پھریک بیک
ہوا تیز ہوگئی۔ ‘‘ (درندوں کی بستی۔عمران سیریز نمبر ۱۸۔سن اشاعت:۲۷ مارچ
۱۹۵۷)
ادبی چاشنی لیے یہ ٹکڑا دیکھیے، لکھتے ہیں:
’’ مومی شمعوں کی ٹھنڈی روشنی، مہاتما بدھ کی پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ اس کی
روح کی گہرئیوں میں اتری جارہی تھی۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ وہ کسی کا قیدی
ہے۔ کچھ اجنبی اسے کسی نامعلوم منزل کی طرف لے جارہے ہیں۔ معلوم نہیں وہ
کون ہیں اور اس سے کیا چاہتے ہیں۔ اسے اپنے انجام کا بھی اندیشہ نہیں تھا۔
اس کی روح اب سے ہزاروں سال پہلے کی دنیا میں بھٹکنے لگی تھی۔ اسے ایسا
محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اس غار میں تنہا ہو۔ جیسے وہ بھی مومی شمعوں کی
طرح پگھلا جارہا ہو ․․․ تنہائی ․․․ ہلکی سرخ روشنی، بدھ کا ملکوتی تبسم، ان
کے علاوہ وہاں
کچھ نہیں تھا ۔ اس کی ہمسفر کا چہرہ ہلکی سرخ روشنی میں چمک رہاتھا۔ حمید
کے ذہن میں قدیم مندروں اور مٹھوں کی دیو داسیوں کا تصور ابھرا․․․ اور وہ
اسے اس تقدس آمیز روشنی میں کوئی مقدس کنواری معلوم ہونے لگی۔‘‘ (برف کے
بھوت۔جاسوسی دنیانمبر ۳۳۔سن اشاعت: ۱۵ اکتوبر ۱۹۵۵۔)
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وہ لوگ انتظار کی کن کیفیات سے گزرتے ہوں گے جو
ابن صفی کے نئے ناول کے حصول کی خاطر لائنوں میں لگا کرتے تھے، یہ لائنیں
پاک و ہند کے ہر بڑے شہر میں لگا کرتی تھیں۔ایسے لوگ ابھی زندہ ہیں اور
راقم ان سے رابطے میں ہے جو ایسی لائنوں میں لگ کر ابن صفی کا نیا ناول
خریدا کرتے تھے۔ ہم تو ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے نئے ناول کی اشاعت
کے انتظار کی صعوبتیں اٹھائے بغیر صفی صاحب کے انتقال کے بعد ایک ساتھ ہی
ان کے ناول پڑھنا شروع کیے اور پھر اسی رو میں پڑھتے چلے گئے۔ ایسا کرنے سے
ہم نے ابن صفی کے کرداروں کے ذہنی ارتقاء کا خوب مشاہدہ کیا۔علی عمران جو
’خوفناک عمارت‘ (پہلا ناول۔اگست ۱۹۵۵۔کراچی) میں ایک کھلنڈرا انسان تھا ،
دھیرے دھیرے سنجیدہ ہوتا چلا گیا، بالخصوص ابن صفی کی زندگی کے آخری سالوں
میں جب وہ ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہوچکے تھے، علی عمران کی سنجیدگی سے
خوف سا آنے لگا تھا ۔ کم و بیش یہی حال جاسوسی دنیا کے لازوال کردار کیپٹن
حمید کا بھی ہوا۔ بقول پیر حسام الدین راشدی،’’یہ ابن صفی کی ذہانت کا کمال
ہے کہ اس نے فریدی کی خشکی کو رفع کرنے کے لیے کیپٹن حمید کو روغن بادام کی
طرح استعمال کیا ہے او راگر کیپٹن حمید نہ ہوتا تو فریدی اپنی تمام شجاعت
اور بہادری کے باوجود ’’ بور‘‘ کردار ہوجاتا۔
یہ وہ وقت تھا جب ابن صفی اپنی بیماری سے نبرد آزما تھے۔ ان کا قاری ان کے
ان کرداروں کے بدلتے رویے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
علی عمران کہ لاکھوں کا آئیڈیل ہے، ایک جگہ اس کا مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’گلزار نام تھا‘‘
’’ کیا داڑھی گلاب کے پھول کی سی تھی ؟ ‘‘
’’ نہیں تو ‘‘
’’ ابے! تو پھر گلزار نام کیوں تھا ؟‘‘
یہی علی عمران ۲۳ مئی ۱۹۷۹ کو لکھے گئے ناول لرزتی لکیریں میں ایک جگہ کہتا
ہے:
’’میرا نظریہ حیات یہ ہے کہ جب مرنا ہوگا مرجاؤں گا۔ پہلے سے بور ہوتے رہنے
کی کیا ضرورت ہے۔ نہ اپنی کوشش سے پیدا ہوا ہوں اور نہ اپنے ارادے سے
مرسکوں گا۔ لہٰذا عیش کرو۔‘‘
یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ابن صفی پر بیماری اپنا تسلط جما نے کی
تیاریوں میں مصروف تھی،احمد صفی کے بیان کے مطابق ان پر درد کا پہلا اور
شدید حملہ ۱۷ ستمبر ۱۹۷۹ کی رات کو ہوا تھا۔اس کے بعد ان کی صحت مسلسل خراب
ہی رہی تھی۔
۲۶ جولائی ۱۹۸۰ کو بلبل ہزار داستان اپنی نغمہ سرائی ختم کرکے خاموش ہوئی۔
سری ادب کی محفل ویران ہوگئی، وہ دنیا سے کیا گئے،گویا چمن ہی اجڑ گیا۔ علی
عمران، کرنل فریدی،کیپٹن حمید ، قاسم،سر سلطان، رحمان صاحب،سنگ ہی، جولیا،
صفدر۔۔۔ سبھی دوڑتے دوڑتے یک دم رک گئے۔۔جیسے کسی نے طنابیں ہی کھینچ لی
ہوں۔۔۔۔جیسے انہیں خود بھی یقین نہ آرہا ہو کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہوا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
مانگ کیا مانگتا ہے ؟ ایک کڑک دار آواز آئی۔اس مضمون کے لکھنے والے نے
نظریں نیچی کر، ہاتھ باندھ،گڑگڑا کر کہا : ’’ کچھ دیر کے لیے سہی لیکن ایک
ایسی جگہ ہو جہاں فریدی، عمران، حمید، قاسم ۔۔سبھی مجسم حالت میں موجود ہوں
۔۔زندہ و جاوید، باتیں کرتے ہوئے، جواب دیتے ہوئے۔۔۔۔اور ایک جانب بیٹھے
ہوں نارہ کے اسرار احمد المعروف ابن صفی !۔۔میرے ابن صفی! |