زلزلہ متاثرین اور علیحدگی پسندوں کے کرتوت

یقین جانیئے کہ اس وقت میں دوہرے تکلیف میں مبتلا ہوں .اور سمجھ میں نہیں آرہا کہ کن الفاظ میں اپنا دکہ بیان کروں.میرا پہلا دکھ توں بلوچستان میں آنے والے تباہ کن اور شدید زلزلے کے حوالے سے ہے جن میں اب تک میرے سینکڑوں ہم وطن جاں بحق ، ہزاروں زخمی جبکہ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں.

میرے وہ ہم وطن جو جاں بحق ہوچکے ہیں ،انکی یاد تو بہت آتی ہے جسکی وجہ سے میں بہت اداس اور غمگین ہوں . لیکن پھر بھی میں اس لحاظ سے خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ کم از کم میں انہیں دعا میں یاد تو کرسکتا ہوں.لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ میں اپنے ان بہنوں،بھائیوں اور بزرگوں کے لیئے بحیثت ایک پاکستانی کچھ بھی نہیں کرسکتا .جی ہاں ! میڈیا میں آنے والی رپورٹوں کے مطابق بحیثت پاکستانی ہم اپنے ان بے کس و مجبور ہم وطنوںکے احوال تک دریافت نہیں کرسکتے اور یہی میرا دوسرا اور سب سے بڑا دکھ بھی ہے.کیونکہ اب تک موسول ہونے والی خبروں اور رپورٹوں سے یہی تلخ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ اگر کسی نے ان مظلوم و مجبور پاکستانی بہن بھائیوں کی داد رسی کرنی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے پاکستانی شناخت سے دستبردار ہونا پڑے گا . بسورت دیگر کوئی بھی ایسا شخص "عسکریت پسندوں،، کا پسندیدہ شکار بن سکتا ہے.

محترم قارئین کو یاد ہوگا کہ زلزلے کے فورا بعد علیحدگی پسند عناصر نے یہ دھمکی دی تھی کہ پاکستان سر کار کو زلزلہ متاثرہ علاقوں میں کام نہیں کرنے دیا جائیگا.اپنے اس دھمکی کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیئے یہ عناصر امدادی اپریشن مین مصروف پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں پر دو دفعہ فائرنگ کرچکے ہیں جبکہ ایف.سی پر تباہ کن حملے اور امدادی قافلوں کو لوٹ لینا اس کے علاوہ ہیں.

مندرجہ بالا تمام واقعات اپنی جگہ لیکن سب سے آفسوس ناک خبر جو کہ پاکستان کے ایک صف اول کے اخبار نے شائع کی ہے یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے والے پاکستانی فلاحی اداروں کو اپنی گاڑیوں پر سے لفظ پاکستان مٹانا پڑرہاہے. کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو علیحدگی پسند ان کو اگلے جہان میں پہنچانے کے کیئے با لکل تیار تھے،لہذااپنے مظلوم ہم وطنوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر انہیں یہ تلخ گھونٹ پینا پڑ رہاہے.

میں نے جب یہ خبر پڑھی تو میرا ذہن اکتوبر 2005 میں چلاگیا .اس وقتجب کشمیر،ہزارہ اور دیگر شمالی علاقات جات میں تباہ کن زلذلہ آیا تھا تو اس وقت نہ تو کسی نے کسی کو کوئی دھمکی دی تھی اور نا ہی کسی پر کوئی حملہ ہوا تھا .حالانکہ اس وقت قبائلی علاقے وزیرستان میں فوجی اپریشن شروع ہوچکا تھا ،لیکن وہاں کے عسکریت پسندوں نے نہ صرف کراچی تا خیبر پھیلے ہوئے دو ہزار کلو میٹر لمبے روٹ پر چلنے والی امدادی قافلوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہین کی بلکہ مصیبت کے اس گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کے لیئے بھاری تعداد میں امدادی سامان بھی روانہ کردیا تھا ،باوجود اس کے کہ وہ خود بھی اس وقت شدید مشکلات سے دوچار تھے.اس کے علاوہ ایک اور خاص بات جو اسوقت سامنے ائی تھی وہ یہ کہ جب 2005 مین زلزلہ ہوا تو بین الاقوامی امدادی ادارے بھی بڑی تعدادمیں ان علاقوں میں آکر مصروف عمل ہوئی. ان اداروں میں کچھ تو واقعی ایسے تھے جنکا کام صرف متاثرین کو امداد پہنچانا اور ان کا علاج و معالجہ کرنا تھا .لیکن بیشتر این.جی.اوز ایسی تھی کہ جن کا کام صرف عیسائیت پھیلانا اور وطن عزیز کی جاسوسی کے سوا کوئی نہ تھا.اور یہ سب حقائق اس وقت اور اس کے فوری بعد میڈیا کی زینت بن چکی ہیں .لیکن پھر بھی ایسا کوئی قابل ذکر واقع کہیں رپورٹ نہیں ہوا کہ کسی جگہ ایسی تنظیمون سے وابسہ افراد پر کسی نے کوئی حملہ کیا ہو.حالانکہ انہی دنوں ان علاقوں میں وہ اسلامی فلاحی تنظیمیں امدای کاموں میں م،صروف عمل تھی جنہیں مغرب ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتا چلا آرہا ہے.اور جن میں بعض پر حکومت وقت اہل مضرب کے کہنے پر پابندیاں عائد کی جبکی بعض کی کھڑی نگرانی کی گئی.ان تنظیموں میں الخدمت فاؤنڈیشن،جماعت الدعوۃ اور الرشید ٹرسٹ نمایاں رہی.اگر یہ تنظیمیں چاہتی تو عوامی قوت کے زور پر ان جاسوس اور عیسائیت کی پرچار کرنے والی تنظیموں کا ناطقہ بند کرسکتے تھے .لیکن انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لینا پسند نا کیا. بلکہ انہون نے اپنی تمام تر توجہ متاثرین کو زیادہ سے زیادہ ریلیف پہنچانے اور انکی دینی اور اخلاقی تربیت کرنے میں صرف کی . نتیجتا عوام کا دینی شعور بیدار ہوا ،اور لادین قوتیں وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئی.

ماضی کو کریدنے کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ آج پھر اہل وطن آزمائش سے دوچار ہے اور بعض قوتیں بجائے ان سے ہمدردی کرنے کی ان کے اپنے ہی ہم وطنوں کو ان سے دور رکھنے کی مذموم کوششون میں مصروف ہے .لہذا میں اس کالم کے ذریعے ان قوتوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ مصی بت کی گھڑی ہے .اور مصیبت کے اس گھڑی میں انسانیت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ آپ لوگ انسانیت پر رحم بھی کرے اور خود انسانیت کا مظاہرہ بھی . کیونکہ اپکے اس ظالمانہ روش سے ایک بڑا انسانی بہران جنم لے سکتا ہے. اور اس کا فائدہ وہ غیر ملکی قوتیں اٹھا ئیں گے جو اس سے پہلے وطن عزیز میں عیسائیت کو پروان چڑھانے کی کوشش کر چکے ہیں .لہذا اپ لوگون کو چاہیئے کہ آپ حکومت پاکستان اور دیگر پاکستانی امدادی اداروں کے راستے میں روڑے نہ اٹکائیں .جہاں تک بات ہے اپکی مطالبات کا تو اگر وطن عزیز کے نظریاتی اور جغرافیائی حدود کے اندر رہتے ہوئے کوئی شکایت یا شکایات ہے .تو وہ سر آنکھوں پر، اور پوری قوم ان مطالبات کے پورے ہونے تک اپکے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی .لیکن اگر آپکا منشور صرف اور صرف پاکستان کو توڑنا ہے ،تو پھر یہ پاکستان کے مسلح افواج کا فرض ہے کہ وہ ایسے کیسی بھی سازش کو پوری قوت سے کچل دے اور اس کام میں پوری قوم اپنے افواج کے پشت پر ہوگی.

آخر میں میڈیا بالخصوص الیکٹرونک میڈیا سے یہ گذارش ہے کہ وطن عزیز کے ہر محروم فرد باالخصوص زلزلہ متاثرین کے لیئے آواز ضرور اٹھائیں .کیونکہ حقوق سے محروم عوام کے لیئے آواز اٹھا ہم سب کی ذمہ داری ہے .لیکن اگر کوئی شخص یا گروہ جو لفظ پاکستان کو بھی سننا گوارہ نہیں کرتے،اور علیحدگی سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوتے تو پھر خدا را اسے بے نقاب کیجیئیے .اور اس کے ہمدرد نا بنیئں .بلکہ ہمدرد بنیئں ان زلزلہ متاثرین کا کہ جنہیں اپنے پیاروں کو کفن پہنانا اور قبر میں اتارنا بھی نصیب نہ ہو سکا ،اور جو خود بھی کھلے آسمان تلے اللہ پاک کے نصرت اور اپنے ہم وطنوں کے محبتوں کے منتظر ہیں.اور ہمدرد بنیئں انکا جو بہرحال اپنے متاثرہ بھائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں بہر صورت.

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 106731 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More