سڑک پر کسی کوئلے سے وہ شخص کچھ لکھ رہا تھا جب میں اس کے
قریب آیا تو وہ اپنی جگہ ڈر سا گیا جبکہ میں اپنی جگہ میرے ڈرنے کی وجہ تو
اس کا وہ حلیہ تھا جو بہت حد تک ڈراونا تھا مگر وہ مجھ سے کیوں ڈرا اس بارے
میں کچھ اندازہ نہیں لگا سکا پہلے تو میں نے سوچا ہو سکتا ہے یہ کوئی پاگل
ہو مگر اس کی آکھوں میں غور سے دیکھا تو مجھے وہاں کئی الجھے ہوئے سوالات
نظر آئے جس کی شاید اس شخص کو تلاش تھی وہ بار بار نظریں چرا چرا کر مجھے
دیکھ رہا تھا میں ناجانے کیا سوچتے ہوئے وہاں کھڑا ہو گیا اور نہ چاہتے
ہوئے بھی اس شحص کی جانب بڑھ گیا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اسے سلام کیا جس
کے جواب سے مجھے محسوس ہوا کہ اس کی آواز بڑی بھاری سی ہے اور اس نے مجھے
اپنے قریب پا کر شاید کچھ اچھا محسوس کیا ہو وہ مجھ سے باتیں کرنے کا ارادہ
رکھا تھا مجھے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے جگہ صاف کرنے لگا اس کے اس رویے سے
مجھے لگا کہ وہ کوئی پاگل نہیں بلکہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے ولا شحص ہے میں نے
اس کے پاس بیٹھتے ہی پہلا سوال کیا کہ بابا کیسے ہو کہاں سے آئے ہو اور یہ
اپنا حال کیا بنایا ہو اہے اتنے سارے سوال اکھٹے سن کر وہ چونک سا گیا اور
میری طرف نگاہ اٹھائی اتنے قریب سے اس کی انکھوں میں چھپے ہوئے بہت سے
سوالات مجھے تجسس میں ڈالنے لگے کہ میں اس سے اور معلومات حاصل کروں اور
اپنے قلم سے اسے اپنے قاریوں تک پہنچاؤں ایک عجیب سی تمنا ء میرے دل میں سر
اٹھانے لگی اس کی وجہ سے مجھے محسوس ہو اکہ بہت عرصہ ہوا کسی نے اس سے بات
نہیں کی نہ اس کی کوئی بات سنی اسے معاشرے کی بے حسی ہی کہہ لیں کہ ہم ایسے
لوگوں سے کوئی کلام وغیرہ نہیں کرتے اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں
کہ ان کو اس حال تک کس نے پہنچایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے لوگ
اتنہائی کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں اور اسی میں گھٹ گھٹ کر اپنی جان جان
آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں اس نے جو کہانی مجھے سنائی وہ آپ کے گوش گزار
کرتا ہوں اس کا کہنا تھاکہ میں جوانی میں بہت مالدار ہوا کرتا تھا مجھے کسی
چیز کی کوئی پروا نہ تھی عیش و عشرت کی زندگی تھی مجھے نہیں تھا معلوم کے
آکر کو مجھے بوڑھا بھی ہونا ہے اور اس دنیا کا قانون ہے جسے عرف عام میں
مکافات عمل کہتے ہیں سو میں نے اپنے ماں باپ کی کوئی خاص خدمت نہ کی ہر وقت
ان سے اپنی غیر ضروری فرمائشیں پوری کرواتا رہتا اور جب ان کے سکھ کے دن
آئے تو میں نے ان کا خیال نہ رکھا جس کے نتیجے میں وہ اس دنیا سے چلے گئے
مجھے بھی ان کے جانے سے کوئی خاص کمی محسوس نہ ہوئی زندگی ایک بار پھر رواں
دواں ہو گئی اور چلتے چلتے وقت مجھے ایک بار پھر اسی جگہ پر لے گیا جہاں
کھبی میرے والدین تھے اور ان کے سامنے میں یعنی ان کا بیٹا مگر آج صورت حال
تبدیل ہو چکی تھی میرے والدین کی جگہ میں خود تھا اور اور میری جگہ میرا
بیٹا جس کی بیوی جسے میں بہت ارمانوں سے بیاہ کر لائے تھے وہ میرے بیٹے سے
کہہ رہی تھی کہ پتا نہیں بوڑھا کب جان چھوڑے گا ہم تو آزادی سے کہیں آجا
بھی نہیں سکتے مجھے ایک دم سے وہ اپنا وقت یاد آگیا جب میری بیوی میرے
والدین کے بارے ایساکہا کرتی تھی لیکن میرے بیٹے نے اس کی تائید نہ کی بلکہ
اسے ڈانٹا کہ وہ ایسے نہ کہے لیکن ایک دم سے مجھے یاد آیا کہ میں نے اس وقت
اپنی بیوی کی تائید کی تھی یہ بات بتاتے بتاتے اس کی آنکھوں سے آنسوں کی
جھڑی جاری ہو چکی تھی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی کچھ دیر کے بعد اپنے
آنسوں کو صاف کرنے کے بعد کہنے لگا کہ آج مجھے کوئی گلہ نہیں ہے کیونکہ میں
وہی کاٹ رہا ہوں جو میں نے بویا تھا اس دن کے بعد ایک رات میں چپکے سے گھر
سے نکل آیا کہ میری وجہ سے میری اولاد کو سکھ نصیب ہو جائے لیکن میں جانتا
تھا کہ آج جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ کل کو میری اولاد کے ساتھ ضرور ہو
گا کیونکہ میں اس عملی تجربے سے گزر چکا تھا باتوں باتوں میں اس کا کہنا
تھا کہ انگریز لوگ اس فلسفہ زندگی کو خوب جانتے ہیں کہ وہ جو اپنے ماں باپ
کے ساتھ کرتے رہتے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے شاید اسی لیے وہ اپنے بوڑھوں کو
اولڈ ہاوسز میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں انھیں آخری وقت تک سہولیات دی جاتی
ہیں اس کی تمام باتیں سن کے میرا دل اتنا بوجھل سا ہو گیا تھا کہ میں سارے
راستے میں اس کی باتیں سوچ سوچ کر اپنے لوگوں کے رویے پر نادم ہوتا رہا کہ
آخر کیونکہ ہم اپنے والدین کو اس وقت اکیلا چھوڑ دیتے ہیں جب ان کو ہماری
ضرورت ہوتی ہے حالانکہ انھوں نے تو اپنی تمام خواہشات کو بلائے طاق رکھتے
ہوئے ہماری ہر خواہش کو پورا کیا ہوتا ہے لیکن جب ہماری یہ عمر ہوتی ہے کہ
انھوں نے ہمارا خیال رکھنا ہوتا ہے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کہ جیسے ہم نے ان
کے لیے کچھ کیا ہی نہ ہو عموما جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ بات بات پہ
ضد کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کی اولاد کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے اور اس وجہ
سے ان کا رویہ والدین کے ساتھ ٹھیک نہیں رہتا اس بات کو والدین بہت زیادہ
محسوس کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو دکھی
نہیں دیکھنا چاہتے لیکن اگر اولاد شام کے وقت کچھ وقت اپنے والدین کے لیے
نکال لیں جو کہ صرف آدھا گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو والدین کو خوش کر دیتاہے اور
اس کی وجہ سے ان کے دل کو کافی حد تک سکون بھی ملتا ہے عالمی سطح پر بزرگوں
کا عالمی دن ہر سال یکم اکتوبر کو منایا جاتا ہے لیکن ہم مسلمان ہیں ہیں
اور اسلام میں میں والدین اور بزرگوں کا مقام بہت بلند ہے اسی لیے قرآن پاک
میں ارشاد ہے کہ ـ:والدین کو اف تک نہ کہو :اور اسلام میں والدین یا بزرگوں
کے دن کا کوئی تصور نہیں ہے یہ تو مغربی اقوام میں ہے جو والدین کو بوڑھا
ہونے کے بعد اولڈ ہاوسسز میں چھوڑ آتے ہیں اور انکے لیے سال میں ایک دن
مخصوص کر دیا جاتا ہے جبکہ اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ مسلمان
کیلئے ہر دن والدین اوربزرگوں کا دن ہے اس لیے غیر مسلم دنیا کی ان فرسودہ
رسم و رواج کو اپنانے کے بجائے ہر دن کچھ نہ کچھ وقت اپنے والدین کو ضرور
دینا چاہیے تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو
یقینا کل کلاں کو ہماری اولادیں بھی ہمیں اسی طرح وقت دیں گی ۔ |