قدرتی آفات بے جا دخل اندازیوں کا نتیجہ تو نہیں؟

جب انسان قدرت کے اصول میں حد سے زیادہ دخل اندازی کرتا ہے تو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اسے اسکا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو قدرت کا ایسا قہر انسان کو اس کی اوقات یاد دلادیتا ہے آخر کس قدر مجبور اور بے بس ہے انسان اس برگزیدہ ہستی کے سامنے ۔آخر بساط کیا ہے انسان کی ۔قدرت کے کاموں میں دخل اندازی اور اس سے چھیڑ چھاڑ انسان کے لئے ہمیشہ سے خسارہ کا سودا ثابت ہوئی ہے ۔ہمیشہ ہمیں الٹی میٹم دیا جاتا ہے لیکن ہم پر اس کا اثر ذرہ برابر بھی نہیں ہوتا یا ہمیں وہ سرزنش سمجھ میں نہیں آتی ،یا پھر ہم سمجھنا نہیں چاہتے ۔آج جس طرح ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے اس کے اثرات ہمیں ہر روز کسی نہ کسی صورت میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔کبھی زلزلہ ،کبھی سیلاب ،کبھی طوفان تو کبھی لینڈ سلائیڈ سے ہمیں ہر روز گزرنا پڑ رہا ہے ۔اور ان کی تعداد میں کچھ عرصہ سے صرف اضافہ ہی ہوا ہے ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سے ہم نے خود کو الگ کرلیاہے ۔اور اس کا خمیازہ ہمیں بڑی تباہیوں کے طور پر بھگتنا پڑتا ہے ۔کبھی سونامی کی شکل میں آئے طوفان لاکھوں کروڑوں لوگوں کو تباہ کردیتے ہیں،توکبھی سینڈی اور کیٹرینہ جیسے طوفان اونچی اونچی عمارتوں کو لمحوں میں زمین بوس کردیتے ہیں ۔ کبھی کیدارناتھ کی نہ بھولنے والی تباہیوں کے گہرے زخم ہوتے ہیں تو کبھی پاکستان میں آئے بھیانک زلزلے سے روح کانپ جاتی ہے ۔لیکن نہ جانے کیوں ہم ان پر سوچتے ہی نہیں ۔ انسان اپنی زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے ،اور وہ اس وقت بھی ان وجوہات سے انجان رہتا ہے جو اس کی تباہی کا سبب ہوتے ہیں ۔آخر کیوں آتے ہیں یہ زلزلے ؟یہ طوفان ؟یہ سیلاب؟، اگر ان کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں تو سب کی الگ الگ رائے ہمارے سامنے آتی ہے ۔سائنسدانوں کی مانیں توماحولیاتی توازن برقرار نہ رہنا اسکی سب سے اہم وجہ ہے اور اس کا سیدھا سیدھا تعلق ہم سے ہے ۔بڑھتی آبادی ،گلوبل وارمنگ کے بڑھتے اثرات،مختلف قسم کی گیسوں کا بڑھتا استعمال ،زمین پر بڑھتا حد درجہ بوجھ اور اوزون لیر میں تبدیلی اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں ۔یہ ہماری زیادتیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ موسم بالکل تبدیل ہوچکے ہیں،پیڑوں کی گھٹتی تعداد اور گاڑیوں کے ذریعہ پھیلنے والے بے پناہ دھوئیں ماحولیاتی توازن کوبگاڑنے میں اہم رول اد ا کرتے ہیں ۔اگر حال کے کچھ عرصہ میں ہوئی تباہیوں کا جائزہ لیں تو پچھلے 10 سالوں میں جتنی تباہیاں ہمارے حصہ میں آئی ہیں اتنی شاید پچھلے 50 سالوں میں نہ آئی ہوں ۔اگر حال کی کچھ تباہیوں کا ذکر کریں جن کی تصاویر اب بھی ذہن کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہے تو سب سے پہلے سب سے بھیانک طوفان سونامی کا نام یاد آتا ہے ۔ جاپان میں سونامی کی شکل میں آئے شدید زلزلے نے سینکڑوں لوگوں کی زندگی کو درہم برہم کردیا، کتنے لوگ اس کی زد میں آئے اس کا پتہ نہیں لگایا جاسکا ،اس طرح کی تباہی جاپان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔سونامی یعنی سمندری طوفان جب بندرگاہ کے قریب کی اٹھیں سینکڑوں کلومیٹر لمبائی اور چوڑائی والی لہروں نے اپنا قہر ڈھاناشروع کیا تو انسانی طاقت بالکل ناکام ہوگئی ۔لوگ کھڑے کھڑے ان لہروں کا تماشہ دیکھتے رہے ، ان لہروں کے نچلے حصوں کے درمیان کا فاصلہ سیکڑوں کلومیٹر کا تھا ۔ جب یہ سمندر کے پاس آتیں، تو لہروں کا نچلا حصہ زمین کو چھونے لگتا ،ان کی رفتار کم ہو جاتی ، اور اونچائی بڑھ جاتی۔ایسی صورت میں جب یہ سمندر سے ٹکر ائیں تو وہ تباہیاں ہوئیں جنھیں آج تک بھلایا نہیں جاسکا۔ان کی رفتار 400 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ، اور اونچائی 10 سے 17 میٹر تک تھی ۔، انہی لہروں کے ریلے کو سونامی کا نام دیا گیا۔اگر سائنس دانوں کی مانیں تو سونامی کے پیچھے ویسے تو کئی وجوہات تھیں،لیکن سب سے زیادہ مؤثر وجہ زلزلہ تھا اس کے علاوہ زمین دھسنے ، آتش فشاں پھٹنے ، کسی طرح کا دھماکہ ہونے سے بھی سونامی کی لہریں اٹھیں۔سونامی نے جب بھی جہاں دستک دی ہے وہاں صرف اور صرف بربادی ہی آئیں۔

6 دسمبر 2004 کو انڈونیشیا میں زبردست زلزلہ آیا،گزشتہ 40 سالوں میں یہ سب سے طاقتور زلزلہ تھا،اس زلزلے سے افریقہ میں صومالیہ تک کے ساحلی علاقوں میں تقریبا دو لاکھ لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے17 جولائی 2007 کو 7.7 mg شدت والے زلزلہ نے 654 لوگوں کی جان لے لی تھی 2 اپریل 2007 : سونامی کے قہر سے قریب 52 لوگ مر گئے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو گئے تھے. 29 ستمبرکو 2009 : 8 mg والے زلزلہ نے 192 لوگوں کی جان اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا تھا۔وہی27 فروری2010 کو چلی میں آئے زلزلہ میں تقریبا 521 افراد ہلاک ہوگئے۔25 اکتوبر 2012 کو امریکہ کے مشرقی کنارے پر کئی دہائیوں بعد آئے سب سے بڑے طوفان سینڈی نے وہ تباہیاں مچائیں جس نے پوری دنیا میں خود کو سپر پاور کہلانے والے امریکہ کی آنکھیں کھول دیں ۔سینڈی نیویارک ، واشنگٹن اور بوسٹن کے سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں کی طرف بڑھااور اس نے کیریبین علاقہ میں سینکڑوں لوگوں کی جان لے لی ۔امریکہ میں آئے اس طوفان نے جنوبی اور شمالی امریکہ کو بری طرح متاثر کیا۔اس طوفان کی وجہ سے یہاں تیز بارش ہو ئی اور ہر جگہ اندھیرا چھاگیا۔

کیدارناتھ میں آئی تباہیوں کے منظر تو ابھی دھندلے بھی نہیں پڑے ہزاروں لوگوں کو کھونے کا غم ابھی بالکل تازہ ہے ۔کچھ مہینہ پہلے آئی اس تباہی نے مانو پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے جاری کئے گئے سیٹلائٹ تصاویر کے اشارہ کے مطابق کیدارناتھ کی تباہی کا اہم سبب گلیشئر کا پگھلنا تھا۔ناسا نے جو تصاویر جاری کی تھیں ، ان سے صاف ہو رہا تھاکہ کس طرح کیدار ناتھ کے اوپر موجود چوراباری و پینین گلیشیئر کی کچی برف معمول سے زیادہ مقدار میں پانی بن کر رسنے لگی تھی۔لیکن ہندوستانی سائنسداں اسکا جائزہ لینے میں ناکام رہے کہ تیزی سے پگھل رہے گلیشیئر ایسی ہولناک تباہی کا سبب بن سکتے ہیں ۔ناسا کے مطابق گلیشئر کی برف پگھلتی جارہی تھی اور گلیشئر کی برف کے پگھلنے کا اہم سبب زمین کا بڑھتا درجہ حرارت ہے ۔اور زمین کی اس بڑھتی درجہ حرارت کی اہم وجہ بھی انسانی وجود اور اس کا مختلف قسموں کی گیسوں کا استعمال کرنا ہے۔اب بات اگر پاکستان میں آئے اس زلزلہ کی کریں جس نے آج پاکستان کو ہلارکھا ہے تو اس میں بھی کہیں نہ کہیں انسانی غلطیاں ضرور دیکھنے کو مل جائینگی ۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں آنے والے شدید زلزلے سے کم از کم 300 لوگ ہلاک ہوئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ۔زلزلہ شدید تھا اور اس سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔اس زلزلے سے آواران، کیچ، خاران، پنجگور،گوادر کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ متاثرہ ضلع آواران میں ماشکے، جھاہو اور آواران میں زیادہ تباہی ہوئی ہے۔اس زلزلے سے تقریباً تین لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ان تمام زلزلے اور طوفان کے آنے میں سب سے زیادہ عمل دخل ماحولیاتی عدم توازن ،اور گرین ہاؤس افیکٹ کا ہی رہا ہے ۔یوں تو گرین ہاؤس اثرات ( greenhouse effect ) ایک قدرتی عمل ہے جس کے ذریعے کسی سیارے یا سیٹلائٹ کے ماحول میں موجود کچھ گیس اس سیارے کے ماحول کی گرمی کو نسبتا زیادہ بنانے میں مدد کرتی ہیں۔لیکن گرین ہاؤس کے بڑھتے اثرات اور ان نقصاندہ گیسوں کے بے جا استعمال کی وجہ کر اس قسم کی آفات میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے ۔اور یہ ہمارے لئے لمحہ فکر ہے ۔

اگر ان قدرتی آفات سے ہمیں بچنا ہے تو قدرت کے اصول سے چھیڑ چھاڑ بند کرنی ہوگی ۔ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے مثبت قدم اٹھانے ہونگے۔اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام ممالک ایک ساتھ مل کر ان مشکلوں سے لڑنے کی کوشش کریں ۔یوں تو یہ طوفان ،سیلاب ،زلزلہ ،لینڈ سلائیڈنظام قدرت میں شامل ہیں لیکن ان کا اس قدر بڑھ جانا تشویش کا سبب ہے اور ان پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت۔

Misbah Fatima
About the Author: Misbah Fatima Read More Articles by Misbah Fatima: 14 Articles with 12297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.