آپ نے بھی میری طرح سے یہ بات کئی مرتبہ سنی ہوگی کہ
”لڑکیاں پانی کی طرح سے ہوتی ہیں‘ انہیں جس ماحول میں ڈھال دو‘ ڈھل جاتیں
ہیں۔“ تو مجھ میں ایک عجیب سی جنگ چھڑ جاتی تھی۔مجھے اس بات کا شدت سے
احساس ہوتا کہ معاشرے نے ازخود طے کرلیا ہے کہ اگر کسی کو تبدیل ہونے کا حق
ہے تو وہ صرف صنف نازک کو۔
حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو آج جب ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ہر
طبقے کی ‘خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ‘بچیوں کو کم عمری سے مختلف قسم کی
آزمائشوں سے گزرنا پڑتاہے ۔ انہیں بچپن ہی سے ذہنی طور پر اس بات کے لئے
تیار کیاجاتا ہے کہ ایک دن انہیں اپنے سسرال جانا ہے جہاں جاکر انہیں اپنی
ہستی کو مٹاکر ماں اور باپ کی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے ان کی ”ناک“ کو
اُونچا رکھنا ہے۔ آج بھی والدین رخصتی کے وقت چپکے سے اپنی بیٹی کے کان میں
کہہ بیٹھتے ہیں کہ اس گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلے کیوں کہ نازوں کی پالی
پھولوں سے جیسی بیٹی جب سسرال سے روٹھ کر میکے آبیٹھتی ہے تو اس کا وجود
پہاڑوں سے زیادہ بھاری اور کانٹوں سے زیادہ نوکیلا محسوس ہوتا ہے ۔
99فیصد مائیں بیٹیوں کی پیدائش سے خوفزدہ نظر آتی ہیں۔ اسپتالوں میں جگہ
جگہ جنس جاننے پر اصرار نہ کرنے کی بابت ہدایات درج نظر آتی ہیں جو اس بات
کی شاہد ہیں کہ لوگ آج بھی صرف اور صرف بیٹے چاہتے ہیں۔ عورتوں کو جس دن سے
اپنے ماں بننے کی خبر ملتی ہے اُسی دن سے وہ منتیں مرادیں مانتے ہوئے
مزاروں اور درگاہوں کے چکر لگانا شروع کردیتی ہیں کہ اللہ پاک انہیں اولاد
نرینہ سے ہی نوازے ۔ اگر ایسا ہوجائے تو کیا ہی کہنے ‘ خوب مٹھائیاں بانٹی
جاتی ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی منشاءسے ان کے گھر میں خدا کی رحمت آجائے
تو ٹھنڈی آہوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا جاتا ہے۔
اگر آپ کبھی کسی میٹرنٹی ہوم میں چند گھنٹے قیام کریں تو آپ کو میری بات کی
سچائی کا بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ آج بھی ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کی
پیدائش پر سوگ منایا جاتا ہے اور بیٹی کی ماں اس جرم کی سزا میں معتوب قرار
دی جاتی ہے۔صد شکر کہ ترقی یافتہ شہروں میں آج صورتحال میں اتنی تبدیلی
ضرور آئی ہے کہ والدین بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دے
رہے ہیں تاہم بنظر غائیت کہیں نہ کہیں زیادتی کا عنصر نظر آہی جاتا ہے۔ اگر
والدین مالی دشواریوں کا شکار ہوں تو انہیں یہ فیصلہ کرنے میں چنداں دشواری
نہیں ہوتی کہ وہ بیٹی کو اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کرایں یا بیٹے کو۔ خود
بخود یہ فیصلہ بیٹے کے حق میں ہوجاتا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ بیٹیاں بھی
والدین کے اس فیصلے پر بخوشی سر تسلیم خم کرلیتی ہیں۔ شاید ان کا ماحول اور
تربیت انہیں یہ سوچنے کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے کہ وہ اپنے بھائی سے زیادہ
باصلاحیت ہیں اور اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنا ان کا بھی حق ہے۔
حیرت انگیز طور پر صنفی امتیاز کا بیج مائیں ہی بوتی ہیں۔ یہ سلسلہ تو وہیں
سے شروع ہوجاتا ہے جب ایک ماں اپنی کم عمر بیٹی سے میز پر برتن لگواتی ہے‘
دسترخوان اٹھواتی ہے اور بیٹے کو کھانا کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ کیا آپ
کی نظر میں کوئی ایسی مثال ہے جہاں کسی ماں نے اپنی بیٹی کو نظر انداز کرتے
بیٹے کو ہاتھ بٹانے کی ترغیب دی ہو ؟
معاشرہ ہم سے ہی بنتا ہے‘ ہماری ڈالی ہوئی روایات ہی آگے بڑھ کر مختلف
النوع مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ اگر ہم آغاز میں ہی اپنے بیٹوں کے دماغوں میں
مرد ذات اور برتر ہونے کا خناس نہ سمانے دیں تو بڑے ہونے پر ان کے اندر
حاکمیت کا کیڑا پیدا ہونے کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔
بہرکیف یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوئے اس مقام تک آجاتا ہے جب بیٹیاں اپنے والدین
کے معاشی بوجھ کو تقسیم کرنے کی غرض سے ملازمت کرنے نکلتی ہیں۔ صبح اپنے
بھائی کے ساتھ ہی نوکری پر جانے والی لڑکی جب اپنے مقررہ وقت پر گھر لوٹتی
ہے تو بے شمار کام اس کے منتظر ہوتے ہیں جنہیں وہ کبھی ماں کی جھڑکیوں تو
کبھی تھکن سے چور ہوتے ہوئے کام کے ساتھ نمٹاکر اگلے دن ایک بار پھر نوکری
پر جانے کی تیاری کرتی ہیں۔جب کہ وہ اپنے بھائی کو بھی جو خواہ نوکری پر
جارہا ہو یا نوکری نہ ملنے کا بہانہ کرکے دوستوں میں بیٹھا ہو‘ گرما گرم
روٹیاں بھی پکاکر دیتی ہے۔
شادی کا مرحلہ آتا ہے تو اولا والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس کھونٹے سے
بیٹی کو باندھنا چاہتے ہیں وہ بے زبان جانور کی طرح وہاں بندھ جائے لیکن
اگر بیٹی کی ضد سے مجبورہوکر وہ اس کی شادی اس کی پسند سے کربھی دیتے ہیں
تو بیٹی کو دبی یا کھلی زبان میں یہ تنبیہ کردی جاتی ہے کہ اپنے فیصلے خود
کرنے والی نافرمان اولاد کو کسی بھی تکلیف میں والدین کی جانب دیکھنے کی
اجازت نہیں ہوگی۔جب کہ اگر بیٹا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرکے لے آئے تو
بھی یہ طے شدہ امر ہوتا ہے کہ پورے گھر کو اس کی عزت کرنی ہے اور اس پر کسی
قسم کا طنز نہیں کرنا۔اس بھابھی کو بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی نندوں
کو کسی بھی قسم کی تضحیک کا نشانہ بنالے۔
والدین کے گھر سے نکل کر ہزاروں سپنے اپنی آنکھوں میں سجائے جب لڑکی اپنے
سسرال پہنچتی ہے تو نئے سرے سے سینکڑوں آزمائشیں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔
سسرال والوں کے دل میں گھر کرنا‘ انہیں اپنے طرز عمل سے خوش رکھنا‘ والدین
کی تربیت پر آنچ نہ آنے دینا ‘اب اس کی ترجیحات کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر وہ
اپنی نوکری کا تسلسل برقرار رکھتی ہے تو اس کی مشکلات مزیدبڑھ جاتی ہیں۔
اپنے معیار زندگی کو بلند رکھنے کی خواہش انہیں تسلسل سے کام کرنے پر مجبور
کرتی ہے لیکن اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے انہیں صرف اور صرف اپنی ذات کی
قربانی دینی پڑتی ہے۔اس کے ہمراہ گھر سے کام کی غرض سے نکلنے والا شوہر
واپسی میں بستر پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹ جاتا ہے جب کہ بیوی دوپٹہ اور ہینڈ
بیگ ایک جانب رکھ کر باورچی خانے میں گھس جاتی ہے ۔ایسے میں اسے کھانا
بدذائقہ ہونے اور سستی سمیت دیگر طعنوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
ملازمت پیشہ وہ خواتین جن کے چھوٹے بچے ہوں دہری ذمہ داری اُٹھاتی ہیں۔بچے
اسکول کیسے آئیں اور جائیں گے ‘ ان کی تربیت کیسے ہوگی‘ وہ کیا کھائیں پئیں
گے سمیت ہر کام ماں کے ذمے ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض صورتحال میں بچوں کو
ڈاکٹروں کے پاس بھی ماں ہی لے جاتی ہے اس پر اسے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا
بوجھ احسن طریقے سے اُٹھانا ہوتا ہے۔
آج بے شمار بچیاں اور شادی شدہ لڑکیاں مختلف شعبوں میں ‘ مختلف عہدوں پر
صنف مخالف سے کہیں بہتر انداز میں ‘ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اپنی
صلاحیتوں کا اظہار کررہی ہیں۔ان سطور کا مطالعہ کرنے والیوں کی اکثریت بھی
کہیں نہ کہیں ملازمت کررہی ہوگی اگر وہ صرف اپنا تجزیہ کریں تو انہیں اس
بات بخوبی اندازہ ہوگا کہ صبح سے لے کر رات تک وہ اپنے لئے سکون کے چند
لمحے بھی نہیں نکال پاتیں یہاں تک کہ رات کو جب وہ سونے کے لئے لیٹتی ہیں
تو ان کے ذہن میں گھر‘ شوہر‘ بچوں ‘ بھائیوں ‘ ماں اور باپ کے حوالے سے ‘
اپنی ذمہ داریوں کی بابت خیالات کی آماجگاہ بنے ہوتے ہیں۔
یہ بھی بہت عجیب سی بات ہے کہ وہ ہستی جسے لوگ ”عورت“کے نام سے جانتے ہیں
‘اپنی ذات کی نفی کرکے اپنے پیاروں کی خدمت میں ہی خوشی محسوس کرتی ہے ۔
اپنی تمام تر تھکن‘ بوجھ اور تکالیف کے باوجود والدین‘ بھائی بہنوں‘ شوہر
اور بچوں کی خاطر اپنی تمام تر تکلیفیں بالائے طاق رکھ کر ہنستے مسکراتے
اپنے کام کئے جاتے ہیں۔
سچ جانئے تو یہ عورت ہی ہے جو بیٹی‘ بہن‘ بیوی اور ماں کی ذمہ داریوں کو
ماتھے پر شکن لائے بغیر ادا کرتی ہے۔ بس ضرورت ہے تو اس کے قدر کرنے والوں
کی۔ ایک لڑکی یا عورت اپنے پیاروں کی خوشی کے لئے جو کچھ بھی کرتی ہے وہ اس
کا صلہ نہیں چاہتی لیکن اس کے دل کے کسی گوشے میں یہ خواہش ضرور دبی ہوئی
ہوتی ہے کہ اس کے ماں باپ‘ ساس سسر‘ بہن بھائی‘ نندیں ‘ دیور ‘ شوہر اور
بچے ان کی کاوشوں کو سراہیں خواہ وہ ستائش بھری نظروں کے ذریعے اس کی محنت
کا صلہ دیں یا پھر محبت بھرے لمس سے ۔
لڑکیوں کو ”مائع“کی مثال شاید اس لئے دی جاتی ہے کہ انہیں شعور کی سیڑھیاں
چڑھتے چڑھتے بہت سے رنگوں میں ڈھلنا ہوتا ہے ۔
سچ ہے کہ عورت کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا ‘وہ جس رشتے سے پکاری جائے اس
رشتے میں ڈھل جاتی ہے ۔ عورت جتنی حساس ہوتی ہے اتنی ہی مضبوط بھی ہے۔
پتھریلے عزائم کی مالک عورت جب اپنی پر آجائے تو اس کے ارادوں میں دراڑ
ڈالنا مشکل ہے۔ میرا چیلنج ہے کہ اگر مردوں کو عورتوں والی ذمہ داریاں دے
دی جائیں تو وہ چند ہی روز میں اپنی ہار تسلیم کرلیں گے لیکن کیا ہی اچھا
ہو کہ وہ عورت کی جیت کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرلیں.... |