بیوی بننا کوئی آسان کام نہیں

سیانوں کا کہنا ہے کہ بیوی بننا کوئی آسان کام نہیں کہ جسے ہر کوئی نادان اور نااہل لڑکی آسانی سے نبھا سکے۔ بیوی بننے کے لیے بہت ہی سمجھدارای ، سلیقہ مندی اور ایک خاص قسم کی دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لڑکی اپنے شوہر کے دل پر حکومت کرنا چاہتی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو خوشی اور مرضی کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ اس کی صحت وسلامتی اور اس کے کھانے پینے کا خیال رکھے اور اسے ہمیشہ ایک باعزت ، محبوب اور مہربان شوہر سمجھے۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک عورت کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھے خوشحال گھرانے کی مالکہ بنے یا ایک گھر کو برباد کر دے ۔ اللہ تعالی نے عورت کو ایک غیر معمولی قدر و صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ وہ اس سے کام لے کر یا تو دوسروں کے لیے بھی خوشیاں فراہم کرے یا پھر اپنے لیے پریشانی و پچھتاوے کا سامان پیدا کرے۔ یعنی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے اور چاہے تو اسے جہنم میں بھی بدل سکتی ہے۔ اپنے شوہر کو ترقی کی بلندیوں پر بھی پہنچا سکتی ہے اور تنزلی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ عورت اگر شوہر داری کے فن سے آگاہ ہے تو ایک عام مرد کو بلکہ ایک نہایت معمولی اور نااہل مرد کو ایک لائق اور با صلاحیت شوہر میں تبدیل کر سکتی ہے۔

ایک دانشور کا کہنا ہے کہ عورت ایک عجیب و غریب طاقت کی مالک ہوتی ہے وہ قضا و قدر کی مانند ہے ۔ وہ جو چاہے وہی بن سکتی ہے۔ معروف مفکر اسمایلز کا کہنا ہے کہ اگر کسی فقیر اور بے مایہ شخص کے گھر خوش اخلاق اور متقی و نیک عورت آ جائے تو وہ اس گھر کو آسائش و فضیلت اور خوش نصیبی کی جگہ بنا دیتی ہے۔

اسلام میں بیوی کے فرائض کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو خدا کی راہ میں جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے “عورت کا جہاد یہی ہے کہ وہ بحیثیت بیوی کے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے”۔

یورپی رائٹرسارہ براﺅن ایک آرٹیکل میں لکھتی ہیں کہ ایک بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے اکثر و بیشتر پیار و محبت کی باتیں کرتی رہے کہ جس سے شوہر کو اندازہ ہو کہ اس کی بیوی اس سے بہت محبت کرتی ہے۔ جب آپکا شوہر کام کے سلسلے میں دفتر گیا ہو تو اس کے فون پر پیار بھرے میسج بھیجو تا کہ اسے دفتری بوریت سے چھٹکارا مل سکے۔ سارہ کا کہنا ہے باتھ روم کے آئینے پر لپ سٹک سے اپنے شوہر کے نام کوئی پیغام لکھ دیں تا کہ جب آپ کا شوہر دفتر سے تھکا ہوا آئے اور واش روم جائے تو اس پیغام کو پڑھ کر مسکرائے بنا نہ رہ سکے یا اس کے سرہانے کسی کارڈ پر پیغام لکھ دیں کہ جس سے آپ کی محبت ظاہر ہوتی ہو۔ شوہر کی دفتری چھٹیوں کے دوران اسے ایسے ڈیل کرے جیسے ایک نوبیاہتا جوڑا زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ لباس ہمیشہ وہی زیب تن کرےں جو اس کی پسند ہو۔ صرف ان لوگوں سے ملیں چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جنہیں آپ کا شوہر پسند کرے۔ ویسی ہی گفتگو کرو جو آپ کے شوہر کو زیادہ پسند ہو، اپنی بھی اسے بات سنائیںاگر وہ اس میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے تو جاری رکھیں اور اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ کے شوہر کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تو بات کا موضوع بدل دیں۔

فرانسیسی لکھاری سیلیا کا کہنا ہے کہ اگر آپ چاہتی کہ آپ کی ازداوجی زندگی اچھی گزرے تو ماضی کے واقعات بھلا دیں، ماضی میں اگر کوئی بوائے فرینڈ تھا تو اس سے دور ہو جاﺅ اور شادی کے بعد صرف اور صرف شوہر کو ہی بوائے فرینڈ سمجھیں اور کسی دوسرے کا دل میں خیال تک نہ لائیں۔ اپنی گفتگو میں مٹھاس گھول دو، شوہرکو یا شوہر کے سامنے جلی کٹی نہ سنائیں۔ اپنے شوہر کی دفادار رہیں۔ اگر ممکن ہو سکے تو شوہر کے دفتری کاموں میں بھی ہاتھ بٹائیں۔

فرانسیسی لکھاری حیسا کالراکا کہنا ہے کہااگر بیوی کا شمار ایسی خواتین میں ہوتا ہو کہ جو دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھتی ہیں۔ تو پھر آپ اپنے بارے میں یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ آپ کا شوہر آپ کو پسند کرتا ہے۔اگر آپ کا رویہ ہر وقت ناقدانہ رہتا ہے تو آپ اپنے شوہر سے یہ توقع رکھنی چھوڑ دیں کہ وہ آپ کے اچھے کاموں کو سراہتے ہوں اور آپ کا وہ دل سے احترام کرتے ہوں ۔ اسی طرح اگر آپ یہ سوچتی ہیں کہ آپ اپنے شوہر کو ان کی خامیاں بتائیں گی تو وہ اپنی اصلاح کرلیں گے تو شاید آپ غلطی پر ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے شوہر کے روشن پہلو‘ ان کی ذاتی خوبیوں اور اچھائیوں کو تلاش کرنے کی عادت ڈالیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ آپ کا شوہر خودبخود اپنی کمزوریوں اور عیوب کوترک کر دیں گے ۔

کالرا کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے شوہر کے کسی عمل کو پسند کرتی ہیں تو ان سے کہیں کہ آپ کا یہ کام مجھے بہت پسند ہے اور آپ اس کی قدر کرتی ہیں۔ اس کا اظہار بار بار کرےں۔ یہ ایک طرح کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اچھائیوں پر نہ صرف دوسروں کو قائم رہنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ انہیں مزید اچھے رویوں اور اچھی عادات اختیار کرنے کی تحریک دیتی ہے۔

کالرا کا کہنا ہے کہ اکثر میاں بیوی اسی غلطی کا شکار نظر آتے ہیں جس میں دونوں ایک دوسرے کو غیرضروری طور پر نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور صرف ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ حالانکہ ہر انسان میں جہاں خامیاں ہوتی ہیں وہاں خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن اکثر جوڑے تنقیدی مزاج رکھنے کی وجہ سے ان خوبیوں پر نظر ہی نہیں ڈالتے یا پھر ان خوبیوں کو دل میں تو تسلیم کرتے ہیں لیکن زبان پر نہیں لانا چاہتے۔ شاید اس سے ان کی انا کو تسکین ملتی ہے۔ کالرا کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ایک دوسرے کو بلند کرو اور اسے سمجھاﺅ کہ وہ بھی یہی رویہ اختیار کرے۔ صرف چند ہفتے اس پر عمل کرکے دیکھیں کیسے ازدواجی زندگی میں بہار آتی ہے۔
اٹالین رائٹر انجیلا کا کہنا ہے کہ ازدواجی زندگی کی خو شحا لی اور شیر ینی، میا ں بیو ی کی با ہمی شر اکت و تعا و ن ، عقلمند ی اور ایک دوسر ے کے حقوق با احسن ادا کر نے کی مرہونِ منت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشتر ک از دواجی زند گی جو ایک مقد س عہد و پیما ن سے شر و ع ہو تی ہے ہم انسانوں کے
لیے خد ا و ند عا لم کی عظیم الشان نعمتو ں میں سے ایک نعمت ہے لیکن سا تھ ہی یہ بہت سی آفتوں میں بھی گھری ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ دونوں ایک دو سر ے کے حسد او ر ناموس کے جذبے کو نہ جگا ئیں۔ خصوصاً بیویوں کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے ان کے شوہر کے دل میں حسد یا نفرت کا جذبہ پیدا ہو۔ کیونکہ یہ حسد انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور محبت کی بنیادو ں کو کمزور کرتے کرتے اسے جڑ سے ختم کردیتا ہے۔

انجیلا کا کہنا ہے کہ بیوی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے شوہر کی تحقیر کرے۔ اس کا شوہر کیسا بھی ہو بہرحال اپنی بیوی کی تکیہ گاہ ہے۔ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ایسی حفاظت کرے کہ اس پر تکیہ کرسکے۔ اگر آپ نے اس طرح اپنے گھر کو بسایا تو جان لیں کہ آپ نے اپنی خوش بختی کے ایک بنیادی رکن کی حفاظت کرلی ہے۔

Dr. Gary Smalley اپنے ایک آرٹیکل 101 Ways To Tell Your Husband, “I Love You”میں لکھتے ہیں کہ شوہر کو خوش رکھنے کے 101طریقے ہیں اگر کوئی بیوی چاہتی ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور وہ ان طریقوں پر 50فیصد بھی عمل کر لے تو یقینا اس کی زندگی بہتر گزرے گی۔ ان طریقوں میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

اپنے شوہر کے مشاغل میں شمولیت کرنا، اکٹھے کھیلنا، شوہر کے کام کی تعریف کرنا، گھر ایسا بناﺅ کہ جہاں کام سے تھکا ہوا شوہر آکر سکون محسوس کرے،شوہر کی مسکراہٹ کا مسکراہٹ سے جواب دینا، شوہر کی سلامتی کی فکر کرنا اور دعا کی صورت میں اظہار کرنا، گھر کی صفائی کے دوران شوہر کی رکھی ہوئی چیزوں کی حفاظت کرنا اور انھیں سلیقے سے رکھنا، شوہر کے ساتھ اکٹھے سفر کرنا، گھر پر شوہر کو تنہا نہ چھوڑنا، شوہر سے اپنی دلی بات کا اظہار کرنا، یہ انتظار نہیں کرتے رہنا کہ شوہر خود آپ کے دل کی بات کو سمجھے بلکہ خود اظہار کرنا، شوہر کی پسند کی اشیاءکی خریداری کرنا، شوہر کی پسند کی خوراک تیار کرنا، شوہر کو خود سے اپنی جانب راغب کرنا، شوہر سے مل کر مستقبل کے پلان تیار کرنا، کسی شک و شبہ کی صورت میں شک کا فائدہ شوہر کو دینا، شوہر کو گھر کا سربراہ سمجھنا، اپنی کی گئی کوتاہی پر شوہر سے معذرت کرنا، شوہر سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنا، تھکاوٹ کی صورت میں شوہر کے پاﺅں دھونا، بیڈ روم کو شوہر کی پسند کے مطابق ترتیب دینا، دفتر جانے سے پہلے محبت کا اظہار کرنا،گھر میں موجودگی کی صورت میں شوہر کی پسند کے ریڈیو یا ٹی وی پروگرام چلانا، اگر شوہر سے کوئی کوتاہی یا زیادتی ہو جائے تو فراخ دلی سے اسے درگزر کرنا، شوہر سے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھنا، گھر پر آئے عزیزوں اور رشتہ داروں کی موجودگی میں پہلے سے زیادہ شوہر پر توجہ دینا، شوہر کی کار کو خود سے صاف کرنا، شوہر کی چیزوں کی خود سے حفاظت کرنا، بیڈ روم میں شوہر کی تصویر نصب کرنا، اکٹھے عبادت کرنا، فارغ اوقات میں شوہر کے بالوں میں انگلیاں پھیرنا، خود کو شوہر سے منسوب کرنا، دوسروں کی موجودگی میں شوہر کی کسی بات کی مخالفت نہ کرنا، شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی کسی بات کا دفاع کرنا، شوہر کی بیماری کی صورت میں ان کا خاص خیال رکھنا، شوہر سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں جھانکنا،شادی کی تصویر بیڈ روم میں لگانا، شوہر کی ہر بات پر اعتماد کرنا، اکثر وبیشتر اکٹھے تصاویر بنوانا، شوہر کا کسی اور سے موازنہ نہ کرنا، دفتر جاتے ہوئے دروازے پر شوہر کو رخصت کرنا اور دروازے پر مسکراہٹ سے استقبال کرنا، شوہر کے کپڑوں کا خیال رکھنا، کچھ باتوں کے لیے شوہر کے ساتھ” کوڈ ورڈز” بولنا، شیو کے دوران شوہر کی مدد کرنا، شوہر کی محبوب بننا نہ کہ اس کی ماں بننے کی کوشش کرنا، شوہر کا دوست بننا، شوہر کے لیے خود کو سنوارنا، ازدواجی امور میںشوہر کو مایوس نہ کرنا، شوہر کی نصیحت کو سننا اور عمل کرنا۔

ہو سکتا ہے کہ بعض قارئین یہ اعتراض کریں کہ آپ نے صرف بیوی کی ذمہ داریاں بیان کی ہیں ۔ کیا شوہر کا کوئی فرض نہیں تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ اس مضمون میں ہم نے بیوی کے فرائض پر بات کی ہے اور یہی موضوعِ بحث ہے۔ آخر میں ایک بات کہنا بہت ضروری ہے کہ وہ بیویاں جو اپنے شوہروں کو “غلام “بنا کر رکھنا چاہتی ہیں وہ آخر کار “باندی” بن جاتی ہیں اور جو اپنے شوہر کو اپنا” بادشاہ” بناتی ہیں وہ” ملکہ “کے منصب پر فائز ہوتی ہیں۔

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 62 Articles with 176217 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More