تبصرہ نگار :غلام شبیر
سید منصور عاقل کی ادارت میں اسلام آباد سے 2001میں اپنی اشاعت کا آغاز
کرنے والے ادبی مجلے الا قربا نے پوری دنیا میں اپنی افادیت کا لوہا منوایا
ہے ۔اس رجحان ساز علمی و ادبی مجلے کے ادارتی کلمات جس انداز میں فکر و نظر
کو مہمیز کرتے ہیں اس کی اہمیت و افادیت کا ایک عالم معترف ہے ۔سید منصور
عاقل نے اپنے ادارتی کلمات میں ہمیشہ اس امر پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ
قارئین ادب میں عصری آگہی کو پروان چڑھایا جائے ،ان کے ذوق سلیم کو صیقل
کیا جائے اور ان میں مسائل عصر کے بارے میں مثبت شعور پروان چڑھایا جائے
یہی وجہ ہے کہ الا قربا کے اداریے ہمیشہ توجہ سے پڑھے جاتے رہے ہیں ۔ادبی
اداریہ نویسی کی یہ منفرد اور نادر جہت قارئین ادب کے دلوں ایک ولولہء تازہ
عطا کرتی ہے جس کے معجز نما اثر سے جہد و عمل کی نوید ملتی ،جمود کا خاتمہ
ہوتا ہے.قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر نامہ پیش کر کے سید منصور
عاقل نے ید بیضا کا ،معجزہ دکھایا ہے ۔ ان اداریوں ہر لحظہ نیا طور نئی برق
تجلی کا منظر نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے ۔سید منصورعاقل کا شمار عالمی شہرت کے
حامل ممتاز پاکستانی دانش وروں میں ہوتا ہے جنھوں نے خون دل دے کے فروغ
گلشن و صوت ہزار کے موسم کی دید کو یقینی بنانے کی مقدور بھر سعی کی ۔ الا
قربا میں شائع ہونے والے سید منصور عاقل کے اداریے قلب اور روح کی اتھاہ
گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں ۔ ایک زیرک تخلیق کار
کی حیثیت سے سید منصورعاقل نے جس دردمندی اور خلوص سے قومی ،ملی ،بین
الاقوامی ،تہذیبی،تاریخی،ادبی ،ثقافتی،تعلیمی،معاشی ،سماجی،سیاسی ، معاشرتی
اور متنوع انسانی مسائل پر اپنے عالمانہ خیالات کا اظہار ان ادارتی کلمات
میں کیا ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔الا قربا کا اداریہ لکھتے وقت
اپنی تحریر کو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی
سے مزین کرتے ہیں اور حرف صداقت کے اعجاز سے قارئین کے دلوں کو مسخر کر
لیتے ہیں ۔حال ہی میں سید منصور عاقل کے لکھے ہوئے الاقربا میں شائع ہونے
والے (2001تا2013)اداریے ’’حرف معتبر ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع
ہوئے ہیں ۔مکتبہ الاقربا فاؤنڈیشن اسلام آباد نے تین سو صفحات پر مشتمل یہ
کتاب نہایت اہتمام سے شائع کی ہے۔
تاریخی اعتبار سے اردو میں ادبی اداریہ نویسی کے ابتدائی نقوش سر سید احمد
خان کی ادارت میں شائع ہو نے والے ادبی مجلے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ (1870) میں
موجود ہیں ۔اس کے بعد اردو ادب میں اداریہ نویسی کے یہ ابتدائی رجحانات
مختلف ادوار میں ارتقائی مدارج طے کرتے رہے ۔ایام گزشتہ کی تاریخ کے صفحات
کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ابتدا میں روزانہ اخبارات اور ہفت
روزہ مجلات کی اشاعت کے وقت باقاعدہ اداریہ نویسی پر بہت کم توجہ دی جاتی
تھی ۔ تا ہم ان اخبارات کے مالک مدیر جب کبھی محسوس کرتے مسائل عصر کے بارے
میں اپنے مختصر نوٹ بھی شامل اشاعت کر لیتے ۔اس نوعیت کی تحریروں کو جنھیں
اداریہ نویسی کے ابتدائی دھندلے نقوش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس صنف ادب
کے ارتقا کو سمجھنے میں مقیاس کا درجہ حاصل ہے۔مسائل عصر کی تمازت کے زیر
اثر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی تمنا کے جذبات کا پرتو لیے تحریروں
اور اداریوں کے سوتے اسی ادبی سوچ سے پھوٹتے ہیں ۔ یہ بات بلا خوف تردید
کہی جا سکتی ہے کہ ابتدائی دور میں مدیران جرائد نے جو طرز فغاں ایجاد کی
اسی کے معجز نما اثر سے اردو میں اداریہ نویسی کی صنف پروان چڑھی۔مدیران
جرائد کے تکلم کے یہ ابتدائی نقوش ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے اور فکر و
نظر کو مہمیز کرتے ہوئے قارئین ا دب کو حکیم یوسف حسن کے مجلہ نیرنگ خیال
،اختر شیرانی کے مجلہ رومان ،عبدالحلیم شرر کے مجلہ دل گداز ،نیاز فتح پوری
(نیاز محمد خان)کے مجلہ نگار (1921)،(1) دیا نارائن نگم کے مجلہ زمانہ ،ابو
الکلام آزاد کے مجلات الہلال ،البلاغ ،میاں بشیر احمد کے مجلہ ہمایوں ،
مولانا ظفر علی خٓن کے مجلہ زمیندار ،چودھری برکت علی کے مجلہ ادب لطیف
،مولوی سید احمد کے مجلہ اخبار النسا ،راشد الخیری کے مجلہ عصمت ،رازق
الخیری کے مجلہ بنات ،امتیاز علی تاج کے مجلہ کہکشاں ،عبداﷲ فاروقی کے مجلہ
محشر ،حافظ محمد عالم کے مجلہ عالم گیر ،صہبا لکھنوی کے مجلہ افکار ،ممتاز
شیریں اور صمد شاہین کے مجلہ نیا دور ،(2)مولانا صلاح الدین احمد کے مجلہ
ادبی دنیا ،شاہد احمد دہلوی کے مجلے ساقی (3)نسیم درانی کے مجلے سیپ ،احمد
ندیم قاسمی کے مجلے فنون ،ڈاکٹر وزیر آغا کے مجلے اوراق ،محمد طفیل کے مجلے
نقوش ،مجید لاہوری کے مجلے نمک دان ،خالد احمد کے مجلے بیاض ، عذرا اصغر کے
مجلے تجدید نو ، شورش کاشمیری کے مجلے چٹان، ڈاکٹر ناصر رانا کے مجلے ادب
معلیٰ ،منصورہ احمد کے مجلے بیاض ،اقبال سحر انبالوی کے مجلے رشحات ،احسن
سلیم کے مجلے سخن زار ،شبنم رومانی کے مجلے اقدار ،رضیہ مشکور کے مجلے دیدہ
ور ،تاب اسلم کے مجلے ید بیضا گلزار جاوید کے مجلے چہار سو ، اور موجودہ
دور کے متعدد ادبی مجلات میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اداریہ نویسی کے ابتدائی
رجحانات کو ہر دور می ں نئی تاب و تواں حاصل ہوتی رہی ا ور مجلات کے مدیروں
نے خون دل میں اپنی انگلیاں ڈبو کر اپنے علمی و ادبی جنوں کی حکایات
خونچکاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھاداریہ نویسی ارتقائی
مدارج طے کرتی ہوئی قارئین ادب میں بے حدمقبول ہو گئی ۔ اس طرح عصر حاضر
میں ادبی اداریہ نویسی نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی
ہے ۔
حرف معتبر میں سید منصور عاقل کے الاقربا میں شائع ہونے والے ترپن
(53)اداریے شامل ہیں۔ان تمام اداریوں میں موضوعات کا تنوع قارئین ادب کو
متوجہ کرتا ہے ۔سید منصور عاقل نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں
کو کافور کر نے اور جہان تازہ تک ر سائی کو جو عزم صمیم کر رکھا ہے وہ ان
اداریوں کے موضوعات سے صاف ظاہرہے۔سید منصور عاقل نے اپنے ادبی مجلے
الاقربا میں ہمیشہ نئے مضامین ،اچھوتے خیالات ،دل کو چھو لینے والے موضوعات
،عصری آگہی کی آئینہ دار ادبی تخلیقات اور منفرد اسالیب بیان کو ہمیشہ قدر
کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔تقلید کی روش سے اپنا دامن بچاتے ہوئے انھوں نے نئے
زمانے ،نئے صبح شام پیدا کرنے کی سعی کی ہے ۔حرف معتبر میں شامل اداریوں کے
دامن میں عصری آگہی کے جو گنج ہائے گراں مایہ پوشیدہ ہیں وہ اس اعلا ترین
ذہن و ذکاوت کے مرہون منت ہیں جو قدرت کاملہ نے سید منصور عاقل کو عطا کی
ہے ۔انھوں نے اپنے سماج ،معاشرے ،ملک ،قوم اور بنی نوع انساں کو درپیش
مسائل کا نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ جائزہ لیا ہے ۔ان اداریوں میں
مقامی، قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے قارئین ادب میں مثبت شعور و
آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی گئی ہے ۔قارئین ادب کے فکر و نظر کو مہمیز
کرنے کے سلسلے میں ان اداریوں نے بلا شبہ ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے
۔معاشرتی زندگی میں جس برق رفتاری کے ساتھ تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری ہے اس
کے بارے میں سید منصور عاقل نے اپنے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات کا بر
ملا اظہار کیا ہے ۔حق گوئی و بے باکی ہمیشہ ان کا شعار رہا ہے ۔ان کی عقابی
نگاہ کسی ایک مدار تک محدود نہیں رہتی بل کہ حیات و کائنات کے جملہ مسائل
،سماج و معاشرے کے تمام نشیب و فراز ،دیہاتی اور شہری زندگی کے سب معاملات
،محروم ،مجبور اور پس ماندہ طبقے کے مصائب و آلام اور ان کے ساتھ روا رکھی
جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر ان کی دلی کیفیات اور جذبات و احساسات
کا واضح اظہار ان اداریوں میں جس خلوص کے ساتھ کیا گیا ہے ان میں قومی فلاح
،ملی شعور اور انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت کا عنصر نمایاں ہے ۔ تہذیبی و
ثقافتی سطح پر ان کا یہ اسلوب ایک منفرد اور نئے انداز فکر کو سامنے لاتا
ہے انھوں نے زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے
۔یہ اداریے ادب کی ان درخشاں روایات کے امین ہیں جن کے وسیلے سے اصلاح اور
مقصدیت کی شمع فروزاں رکھی جا سکتی ہے یہ اداریے جس تجزیاتی انداز فکر کے
مظہر ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ سید منصور عاقل کا دبنگ لہجہ قاری کے لیے
فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے ۔وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے
بل کہ کھرے اور کھوٹے کو الگ کر کے دکھاتے ہیں۔ملمع سازی اور خوابوں کی
خیاباں سازی سے انھیں شدید نفرت ہے ۔وہ زہر ہلاہل کو کبھی قند نہیں کہہ
سکتے ۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر ؓ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والے
اس جری تخلیق کار نے ہوائے جور و ستم میں بھی جبر کا ہر انداز مسترد کرتے
ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھا ہے ۔ حریت فکر کے اس مجاہد نے وطن ،اہل
وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل
و نہار سمجھتے ہوئے اس پر صدق دل سے عمل پیرا رہے ۔ان کی اداریہ نویسی ایک
خاص نوعیت کی محا کمہ نگاری بن جاتی ہے جس میں وہ فسطائی جبر کے سامنے سینہ
سپر ہو کر بر ملا یہ کہتے ہیں ان کے ظلم کا پرچم بالآخر سر نگوں ہو کر رہے
گا۔سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد جعلی کرو فر اور جاہ و جلال
کی داستانیں قصہء پارینہ بن جائیں گی ۔اردو ادب میں اداریہ نویسی کی یہ جہت
لائق صد رشک و تحسین ہے ۔اداریہ نویسی کی اس بے مثال اور منفرد جہت نے سید
منصور عاقل کو اکیسویں صدی کے منفرد اداریہ نویس کے منصب پر فائز کیا ہے
۔یہ وہ اعزاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔انھوں نے ستاروں پر
کمند ڈالی ہے اور ان کے اسلوب نے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا
منوایاہے۔ انھوں نے ادبی اداریہ نویسی کو معیاراور وقار کی جس رفعت سے آشنا
کیا ہیوہ اپنی مثال آپ ہے ۔ان کا اسلوب ان کی ذات ہے اور ان کے مسحورکن
انداز بیاں کی مثال پیش کرنا اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں بہ قول اختر
الایمان :
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
سید منصور عاقل کے ادارتی کلمات جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں ۔
2012میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے ایک وزیر کو جب جامعہ کراچی
نے پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری سے نوازا تو کسی نے اس حادثہء وقت کے بارے میں کچھ
نہ لکھا اور راوی نے چین ہی چین لکھ کر چپ سادھ لی ۔ سید منصور عاقل نے
اپنے اداریے میں اس پر کڑی تنقید کی اور ’’جامعہ کراچی کی غلط بخشی ‘‘کے
عنوان سے الاقربا میں اپنے اداریے میں لکھا:
’’موجودہ ہئیت حاکمہ جسے ملکی تاریخ میں بد ترین نظام حکم رانی کے الزامات
کے ساتھ ساتھ ہمہ گیر تنقید کا بھی سامنا ہے ،ایک مقتدر ترین وزیر کو عطائے
اعزاز کی ایک خصوصی اور پر شکوہ تقریب میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے پی
ایچ ۔ڈی کی ڈگری پیش کی گئی ۔وزیر موصوف کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔انھیں
پہلی اور غالباًآخری بار کا بینہ کے اجلاس کے آغاز سے قبل قرآن حکیم کی
تلاوت کی دعوت دی گئی چنانچہ انھوں نے اپنی جیب سے ایک پرچہ نکالا اور
سورہء اخلاص کی تلاوت کرنے کی کوشش فرمائی جو صر ف چار آیتوں پر مشتمل ہے
لیکن قل ہو اﷲ احد کی پہلی آیت سے شروع ہونے والی اس سورۃ کی تلاوت وہ نہ
فرما سکے جب کہ ان کی وزارت کے اس عہد زریں میں ملک کے کروڑوں عوام کی
آنتیں بھوک اور افلاس کے سبب دن رات قل ہو اﷲ پڑھتی رہتی ہیں۔لیکن صحیح
تلاوت نہ کر سکنے میں وزیر صاحب کا کوئی قصور نہ تھا بہ قول ان کے یہ سورۃ
ہی انھیں غلط لکھ کر دی گئی تھی ۔‘‘(4)
معاشرتی زندگی کے تضادات اور قباحتوں کے بارے میں سید منصور عاقل نے ہمیشہ
قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ہے ۔ان کے اداریے قومی درد مندی ،خلوص
،اصلاح اور تعمیری اقدار کے مظہر ہیں ۔وہ ان درخشاں روایات کو پروان چڑھانے
کے آرزو مند ہیں جن کے اعجاز سے حق گوئی و بے باکی ،بے لوث محبت ،بے باک
صداقت ،خلوص ،مروت ،ایثار ،انسانی ہمدردی اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی
کو یقینی بنایا جا سکے ۔جب عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آجائیں تو
زندگی کی حیات آفریں اقدار کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس پر
اپنے غیظ و غضب کا بر ملا اظہار کرتے ہیں اس نوعیت کے کٹھن حالات اور سخت
مقامات کی وہ تاب نہیں لا سکتے اور معاشرتی زندگی سے حق و انصاف کو بارہ
پتھر کرنے والوں اور انسانیت پر کو ہ ستم توڑنے والوں پر کاری ضرب لگانے
میں کوئی تامل نہیں کرتے ۔ ممتاز شاعر محسن بھوپالی نے اس قسم کے حالات پر
اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا :
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے اس حادثہء وقت کا کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا
جائے
اس کتاب کا پیش لفظ امین راحت چغتائی نے لکھا ہے ۔اس تحقیقی اور تجزیاتی
پیش لفظ میں امین راحت چغتائی نے سید منصور عاقل کی ادارت میں شائع ہونے
والے ادبی مجلے الاقربا کی اہمیت ،افادیت اور اس کی علمی ،ادبی اور قومی
خدمات پر روشنی ڈالی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ سید منصور عاقل کے اسلوب کے اہم
پہلوؤں کو قارئین ادب کے سامنے پیش کیا ہے ۔ اپنے جامع اور وقیع مضمون میں
انھوں نے یہ واضح کیاہے کہ سید منصور عاقل کے ادارتی کلمات کا اولین مقصد
اصلاح ہے ۔وہ تعمیری انداز فکر اپناتے ہیں اور معاشرتی زندگی میں امن و
عافیت کے خواہش مند ہیں ۔ان کا اسلوب اس حقیقت کا مظہر ہے کہ وہ اپنے ملک
،قوم ،معاشرے بل کہ پوری انسانیت کی فلاح کے لیے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے
کار لاتے ہیں۔ان کے جذبات و احساسات اپنے عہد کے حالات و واقعات کی حقیقی
تصویر پیش کرتے ہیں اور ہر مکتبہء فکر کے قارئین کے خیالات کی ترجمانی کرتے
ہیں۔ اس کتاب کے آغاز میں محمود اختر سعید نے الاقربا کے اداریے کے عنوان
سے مدلل انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ان کی موثر تحریرمعاشرتی
زندگی کے انتشار اور دہشت کی کثیف فضا میں بھی تازہ ہوا کے جھونکے کا لطیف
احساس دلاتی ہے ۔محموداختر سعید ابتدا ہی سے الاقربا سے وابستہ رہے ہیں اس
لیے ان کی تحریر کو اولین اور بنیادی ماخذ کا درجہ حاصل ہے ۔سید منصور عاقل
نے ’’گزارش احوال واقعی ‘‘ کے عنوان سے الاقربا کے اداریے اور ان کے تخلیقی
محرکات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔حرف معتبر میں افتخار
عارف کا لکھا ہوا سید منصور عاقل کا تعارف بھی شامل ہے ۔الاقربا نے آزادیء
اظہار کو اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے ۔قارئین کے خطوط کا حصہ اس مجلے کا
دلچسپ حصہ خیال کیا جاتا ہے جس میں قارئین اس مجلے میں شامل مضامین اور
دیگر تخلیقات کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دے کر مجلس ادارت کو راہ راست
پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔حرف معتبر میں قارئین الاقربا کے
پچھتر (75)مکاتیب سے اقتباسات شامل کیے گئے ہیں ۔ پوری دنیا میں موجود
الاقربا کے لاکھوں قارئین میں سے الاقربا کے یہ پچھتر قارئین ایسے ہیں جن
کی فہم و فراست اور ذوق سلیم کا ایک عالم معترف ہے ۔ ان زیرک قارئین ادب نے
اپنی مسلسل مراسلہ نگاری سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالمی ادبیات کے نباض
اور قارئین ادب کے مزاج آشنا ہیں۔ان تمام مراسلہ نگاروں نے الاقربا کی
مختلف اشاعتوں کے اداریوں کے بارے میں جو رائے دی ہے اسے شامل اشاعت کرکے
اس کتاب کی ثقاہت میں اضافہ کیا گیا ہے اور یہ واقعی حرف معتبر ثابت ہوئی
ہے ۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں الاقربا نے اقتضائے وقت کے
مطابق اپنی اشاعت کو پرنٹ اور سائبر دونوں صورتوں میں پیش کیا ہے ۔اس مجلے
کے تمام شمارے اس کی ویب سائٹ پر پی۔ڈی ۔ایف فارمیٹ میں موجود ہیں ان کا
براہ راست آن لائن مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے اور ڈاؤن لوڈ کر کے ان کا پرنٹ
بھی لیا جا سکتا ہے ۔ای۔میل کے ذریعے مجلس ادارت سے فوری رابطے کا اہتمام
بھی کر دیا گیا ہے ۔اس اعتبار سے یہ مجلہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق
تخلیق ادب کو متعدد نئی جہات سے آشنا کرنے میں پیہم مصروف عمل ہے ۔اداریہ
نویسی میں بھی اس مجلے نے ایک منفرد انداز اپنایا ہے ۔سید منصور عاقل نے
اداریوں میں جو طرز فغاں ایجاد کی ہے وہ اب معاصرین کے لیے طرز ادا کا درجہ
حاصل کر چکی ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی سطح پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو ں گے
۔اپنے اداریوں میں سید منصور عاقل نے یہ کوشش کی ہے کہ معاشرتی زندگی کو
رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں سے مزین کرکے زندگی کی حقیقی معنویت
کو اجاگر کیا جائے ۔انھوں نے ان اقدار و روایات کے فروغ اور ترویج و اشاعت
پر توجہ دی ہے جن سے زندگی کی رعنائیوں میں اضافہ ممکن ہے ۔زندگی کی یہی
درخشاں اقدار و روایات مہذب معاشرے کا امتیازی وصف ہیں اور ان ہی کی اساس
پر کسی بھی قوم یا ملک کے کلچر کا قصر عالی شان تعمیر ہوتا ہے ۔سید
منصورعاقل نے الاقربا کے اداریوں میں فنون لطیفہ میں قومی کلچر کی اہمیت کو
اجاگر کرنے کی جو مساعی کی ہیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی
۔ان اداریوں میں صداقت ،خلوص ،دردمندی ،حریت فکر ،بے باکی اور انسانی
ہمدردی کے جذبات کی فراوانی نے انھیں حرکت و عمل کا نقیب بنا دیا ہے ۔
قارئین ادب اور تخلیق کاروں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا سید
منصور عاقل کا شیوہ ہے ۔الاقربا کے اداریوں میں جو توازن ،اعتدال اور
منصفانہ طرز عمل پایا جاتا ہے وہ سید منصور عاقل کی عظیم شخصیت کا لائق صد
رشک پہلو سامنے لاتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں
،تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں پر وہ چپ نہیں رہ سکتے ۔ہوائے جور و
ستم میں بھی وہ حرف صداقت کی مشعل فروزں رکھتے ہیں اور سفاک ظلمتوں کو
کافور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ان کا خیا ل ہے ظلم و ناانصافی
کہیں بھی ہو اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر با ضمیر ادیب کا فرض ہے ۔ظلم کو
سہنا اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا نہ صرف ایک اہانت آمیز فعل
ہے بل کہ اس سے ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کو کھل کھیلنے کا
موقع ملتا ہے ۔ جب معاشرے میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی جانے لگے
تو بے حسی کی یہ کیفیت قو می ترقی کے لیے بہت برا شگو ن ہے ۔اپنے ایک
اداریے ’’ہو س کو ہے نشاط کا ر کیا کیا ‘‘میں سید منصورعاقل نے لکھا ہے :
’’بد قسمتی سے سر براہ حکومت نے جنھیں عوام الناس میں اپنے اوصاف حمیدہ کے
باعث اعتماد واحترام حاصل ہے محض اس لیے ایک مطلقاًقانونی اقدام کو کالعدم
قرار دے دیاکہ اس سے ایک ایسا شخص متاثر ہو رہا تھا جو ادب کے حوالے سے
سرکار کا اعزاز یافتہ بھی ہے اور اثر و رسوخ کا حامل بھی ۔چنانچہ قانون و
انصاف کی اس بے حرمتی پر اہل نظر کبیدہ خاطر ہی نہیں بل کہ حیران و ششدر
بھی ہیں، جب کہ اسی سانحہ کے مضمرات بے شمار دیگر داد خواہوں کو مایوسی و
بے اعتمادی کے آسیب میں مبتلا کر سکتے ہیں ۔بہ قول محسن احسان :
وہاں پر ضابطے کی دھجیاں اڑتی ہی رہتی ہیں جہاں انصاف بکتا ہے جہاں آئیں
نہیں رہتا
ذرا سی منصفوں سے آشنائی کی ضرورت ہے پھر ایسے مجرموں کا جرم بھی سنگیں
نہیں رہتا ‘‘(5)
فطرت اور تاریخ کے مسلسل عمل پر سید منصور عاقل کی گہری نظر ہے ۔حرف معتبر
کے اداریے قومی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اور اسرارو رموز کے بارے میں
عوامی انداز فکرکو ایک کلیت کی صورت میں صفحہء قرطاس پر منتقل کر کے قومی
سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں ان کے ذریعے قارئین ادب میں قومی مسائل کے بارے
میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملے گی ۔مثال کے طور پر وہ ایک
اداریے جس کا عنوان ’’قومی زبان کی تذلیل ۔۔۔حمیت باختہ سفارت کاری ‘‘ہے
،میں لکھتے ہیں :
’’اردو کے طلبا کو استنبول میں پاکستانی قونصل خانے بھیجاتا کہ ایک پروگرام
کے مطابق وہ پاکستانی عملے سے روابط کے دوران اپنی اردو بول چال کے معیار
کو بہتر بنا سکیں ،نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ اولاًتو ان طلبا کی اردو میں
گفتگوکا جواب انگریزی میں دیا گیا اور پھر یہ کہہ کر کہ ’’ کیا پاگل ہو گئے
ہو ؟اردو کیوں سیکھ رہے ہو؟کیا تمھیں دنیا میں اور کوئی کام نہیں ؟‘‘(6)
اس اداریے میں سید منصور عاقل نے استنبول کے قونصل خانے میں تعینات
پاکستانی سفارتی عملے کے اس منفی طرز عمل پر کڑی تنقید کی ہے ۔سچی بات تو
یہ ہے کہ جب بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ اونچی مسند پر نیچی سوچ کے حامل با
لشتیے اور عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن غاصبانہ طور پر جا گھسیں گے تو اس
قسم کی بوالعجبیاں اور طرفہ تماشے روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں ۔سید منصور
عاقل نے اسی اداریے میں اس طرز عمل پر گرفت کرتے ہوئے جو استفسار کیا ہے وہ
چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہے :
’’اب ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بیرون ملک ہمارے سفارتی دفاتر کے مقاصد
کیا ہیں اور کیا ان کے فرائض میں سیاسی سفارت کاری کے علاوہ پاکستان کی
تہذیب و ثقافت کو متعارف کرانے میں جس میں قومی زبان ہمیشہ سر فہرست ہوتی
ہے کوئی کردار ہے بھی کہ نہیں ؟‘‘ (7)
زندگی کی اقدار عالیہ سے دلی محبت کرنا سید منصور عاقل کا مطمح نظر رہا ہے
۔وہ اس امر کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی
وابستگی اور والہانہ محبت کا شمار ہمہ گیر نوعیت کی اقدار میں ہوتا ہے ۔اسی
کی اساس پر قومی وقار اور ملی عظمت کا دار و مدار ہے ۔ ہمارے ان سفارت کار
وں کی کور مغزی اور بے بصری کا کیا ٹھکانہ جو قومی تخریب میں مصروف ہیں اور
اسی شجر سایہ دار کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں لگے ہیں جو ہم سب کے سر پر سایہ
فگن ہے ا ور ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ لوگ مادر
وطن کی تہذیب و ثقافت کو اپنی ہف وات سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کی کوتاہ
اندیشی ملک دشمن عناصر کو خوش کرتی ہے اوروہ مادر وطن کے ان دشمنوں اور آ
ستین کے سانپوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔مادر وطن کی
تہذیبی اور ثقافتی اقدارکے خلاف تہمت لگانے والوں کے بارے میں یہی کہا جا
سکتا ہے :
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی کو امن ،راحت اور سکون کا گہوارہ بنانے کی
تمنا میں سید منصور عاقل نے الاقربا کو جدیددور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے
علم و ادب کی جو خدمت کی ہے وہ تاریخ کے اورا ق میں آب زر سے لکھنے کے قابل
ہے ۔ہوس زر اور جلب منفعت نے معاشرتی زندگی کو جس مایوسی، محرومی ، انتشار
اور مسموم صورت حال کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اس نے تمام رتیں ہی بے ثمر کر دی
ہیں۔حر ف معتبر کے اداریے سید منصور عاقل کی حب الوطنی ،انسانی ہمدردی اور
دور اندیشی کے مظہر ہیں۔وہ حالات حاضرہ پر تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں
اور اس سے اپنے تخلیقی عمل بالخصوص ادارتی کلمات کے لیے مواد حاصل کرتے
ہیں۔ یہ اداریے ان کے تبحر علمی ،وسعت نظر اور قومی حمیت کے آئینہ دار
ہیں۔ان ادارتی کلمات میں انھوں نے جو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے وہ
قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے اور اس کو ایک جہان تازہ کی جانب لے
جاتا ہے ۔مضامین اور موضوعات کا تنوع ،ندرت اور تازگی فکر خیال کے نئے گوشے
سامنے لاتی ہے ۔اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں حرف معتبر کو سنگ میل
کی حیثیت حاصل ہے ۔
حواشی
(1)نیاز فتح پوری کی ادارت میں ہونے والے ادبی مجلے ’’نگار ‘‘ نے پہلے آگرہ
سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا اس کے بعد یہ مجلہ کچھ عرصہ بھوپال سے شائع ہوتا
رہا ۔ کچھ عرصہ یہ لکھنو سے مسلسل شائع ہوتا رہا ۔ نامور ادیب نیاز فتح
پوری کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں بھارتی حکومت کی جانب سے انھیں
1962میں پدما بھوشن ایوارڈ عطا کیا گیا ۔قیام پاکستان کے بعد مجلہ نگار
کراچی سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں2013کے وسط تک شائع ہوتا رہا
،ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے تاریخی ادبی مجلے ماہ نامہ نگار ،کراچی کے چار سو
سے زائد اداریے لکھے ۔
(2)ممتاز شیریں اور ان کے شوہر صمد شاہین کی ادارت میں شائع ہونے والے اس
مجلے نے 1944میں بنگلور (بھارت )سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا ۔قیام پاکستان
کے بعد ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ساتھ کراچی آ گئیں اور ’’نیا دور 1952
‘‘تک کراچی سے شائع ہوتا رہا ۔
(3)شاہد احمد دہلوی کے دادا ڈپٹی نذیر احمد اردو کے عناصر خمسہ (سر سید
،حالی ،شبلی ،نذیر احمد ،محمد حسین آزاد )میں شامل ہیں۔مجلہ ساقی قیام
پاکستان سے پہلے دہلی سے شائع ہوتا تھا ۔قیام پاکستان کے بعد اس تاریخی
مجلے نے شاہد احمد دہلوی کی ا دارت میں کراچی سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا
۔ساقی اپنے عہد کا مقبول و موقر ادبی مجلہ تھا جس میں اپنی ابتدائی ادبی
تخلیقات پیش کرنے والے تخلیق کاروں نے بعد میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا
پر شہرت حاصل کی ۔عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ 1938میں ساقی میں شائع ہوا۔
(4)سید منصور عاقل :حرف معتبر، اداریہ الاقربا ’’جامعہ کراچی کی غلط بخشی
‘‘ اکتوبر ۔دسمبر 2011 ،الاقربا فاؤنڈیشن ،اسلام آباد ،2013، صفحہ 226۔
(5) ایضاً ،صفحہ 93۔
(6) ایضاً صفحہ 223۔
(7) ایضاً صفحہ 224۔
Ghulam Shabbir
Mustafa Abad Jhang City
Post Code :35204 |