سدر کا نام قرآن پاک میں چار مرتبہ لیا گیا ہے۔ ایک بار
سورۃ سبا میں، دو مرتبہ سورۃ النجم میں اور ایک جگہ سور ۃ الواقعۃ میں ان
چاروں حوالوں میں سے صرف ایک حوالہ (سورۃ سبا) کا تعلق اس سر زمین سے ہے دو
کا حوالہ آسمانوں کی سرحد سے متعلق ہے، جب کہ ایک کا ذکر جنت کے نباتات کے
بیان میں آیا ہے۔ تفصیل یوں ہے:
(1) سورۃ سبا XXXIV آیت نمبر15 تا 16۔۔۔ ترجمہ : سبا کے لئے ان کے اپنے
مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں، کھاؤ اپنے رب
کادیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا،ملک ہے عمدہ وپاکیزہ اور پروردگار ہے
بخشش فرمانے والا، مگر وہ منھ موڑ گئے۔ آخر ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب
بھیج دیا اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دئے جن میں
کڑوے کسیلے پھل (خمط) اور جھاؤ (اثل) کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں
(سدر)۔
(2)- سورۃ النجم LIII آیت نمبر 7تا18 ۔۔۔ترجمہ : وہ سامنے کھڑا ہوا جب کہ
وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا،یہاں تک کہ
دوکمانوں کے برابر آیا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا، تب اس نے اﷲ کے بندہ
کووحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی،نظر نے جوکچھ دیکھا دل نے اس میں
جھوٹ نہ ملایا، اب کیاتم اس چیزپر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا
ہے اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں
پاس ہی جنت الماویٰ ہے اس وقت سدرہ پر چھا رہاتھا جوکچھ کہ چھا رہا تھا، نہ
چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں
دیکھیں۔
(3) سورۃ الواقعۃ LVI آیت نمبر 27تا 34۔۔۔ ترجمہ : اوردائیں بازو والے،
دائیں بازو والوں کی (خوشی نصیبی) کاکیا کہنا وہ بے خار بیریوں (سدر) اور
تہ بہ تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں اور ہر دم رواں دواں
پانی اور کبھی نہ ختم ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور
اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔
اردواور انگریزی کے مفسرین قرآن نے سدر کو زیادہ تر بیری کادرخت بتایا ہے
مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورۃ النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھاہے :
’’کہ سدرۃ المنتہیٰ کے بیری کے درخت کو دنیا کی بیریوں پر قیاس نہ کیاجائے،
اﷲ ہی جانتا ہے کہ وہ کس طرح کی بیری ہوگی‘‘۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ : ’’جو
اعمال وغیرہ اِدھر سے چڑھتے ہیں اور جو احکام وغیرہ ادھر سے اترتے ہیں سب
کامنتہیٰ وہی ہے، مجموعۂ روایات سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی جڑ چھٹے
آسمان میں اور پھیلاؤ ساتویں آسمان میں ہوگا۔ واﷲ اعلم‘‘۔
مولانا عبدالماجد دریابادی نے تحریر فرمایا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ اس عالم
اور اس عالم کے درمیان ایک نقطۂ اتصال ہے جہاں سے ملائکہ عالمِ بالا کے
احکام زمین پر لاتے ہیں اور یہاں کے اعمال مسعود وہاں تک پہنچاتے ہیں۔
مولانا موصوف کے خیال میں آسمانوں کے اوپر درخت اور بیری کے درخت کوتسلیم
کرنے میں کوئی دشواری نہ ہونی چاہئے کیونکہ دنیا کے نباتات سمیت نہ جانے
کتنی چیزوں کاجنت میں ہونا مسلم ہے البتہ جنت اور آسمان کی ہر نعمت دنیا کی
نعمتوں سے مشابہ توہوگی لیکن پھر بھی بہت کچھ مختلف ہوگی، سوۃ الواقعہ کی
تفسیر بیان فرماتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین کی رائے میں سدر سے
مراد بیری نہیں ہے بلکہ ایک اورعمدہ درخت ہے‘‘۔
تفسیرحقانی میں سِدر کی بابت تحریر کیا گیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے
اﷲ کو بارِ دیگر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا اور سدرہ جوجنت الماویٰ میں ہے
وہ کوئی دنیا کادرخت نہیں ہے بلکہ صوفیائے کرام کے نزدیک سدر سے عبارت ہے
روحِ اعظم سے کہ جس کے اوپر کوئی تعین اور مرتبہ نہیں ہے۔ مولاناحقانی کے
نظریہ میں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایک درخت پر تجلّی ہوئی
تھی اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جنت الماویٰ میں اس درخت (سدر) کی
صورت میں تجلی ہوئی جو تمام ارواح کی جڑ ہے۔
لغات القرآن میں سدرۃ المنتہیٰ کوانسانی فہم وادراک کی آخری سرحد پرایک
درخت کہا گیا ہے ’’جہاں آنحضرتؐ کو فیوض ربانی اور نعمائے صمدانی سے مخصوص
فرمایا گیا‘‘۔
جناب غلام احمدنے سدرۃ المنتہیٰ کو وہ مقام بتایا ہے جہاں تحیر اپنی انتہا
تک پہونچ جائے اسی لئے اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ ’’جب سدرہ پر چھارہا
تھا جو کچھ چھار ہا تھا‘‘ یعنی نبی کریم ؐکے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں کہ
جان سکے کہ وہ کیا کیفیت تھی، گویا کہ نظر کے لئے تحیر کی فراوانی تھی، جس
نے ساری فضا کو ڈھانپ رکھاتھا۔
مولانا مودودی (71) سورۃ النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :
’’سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت جبریل علیہ السلام کی آنحضرتؐسے
دوسری ملاقات ہوئی، ہمارے لئے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالمِ مادی کی آخری
سرحد پر وہ بیری کادرخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت وکیفیت کیا ہے، بہر
حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لئے انسانی زبان میں سدرہ سے،زیادہ موزوں
لفظ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا‘‘۔
علامہ عبداﷲ یوسف (1) نے سدرہ کے انگریزی معنی Lote-Tree کے دئے ہیں اور
لکھا ہے کہ نباتاتی اعتبار سے یہ Ziziphus کی جنس کا پودہ ہے اورعرب میں
عام طور سے جنگلی وغیرجنگلی ملتا ہے۔ (نوٹ نمبر 3814، اور5092) جناب پکٹہال
نے سدرۃ المنتہیٰ کا ترجمہ یوں کیا ہے :"Lote-tree of th utmost boundry"
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مفسرین کی اکثریت نے سدرہ کوبیری ضرور بیان
کیا ہے لیکن عام طور سے سورۃ النجم کاترجمہ کرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ کو
سدرۃ المنتہیٰ ہی لکھا ہے، مثلاً جناب دواؤد نے اپنے انگریزی ترجمہ میں
سدرۃ المنتہیٰ کو Sidra-tree لکھا ہے اور ’’سدرمخضود‘‘ کے معنی Thornlees
Sidrahs کے دئے ہیں۔
سدر کاتذکرہ متعدد احادیث میں بھی ملتاہے ۔ ابوداؤد کے کتاب الادب کے تحت
’’باب فی قطع السدر‘‘ میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے جس میں تحریر کیاگیا ہے
کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص سدر کادرخت کاٹے گا
اﷲ اس کے سر کوجہنم میں اوندھا گرادے گا۔ ایک دوسری حدیث میں سدر کو لکڑی
کے دروازے اور چوکھٹوں کو بنانا ایک ایسی بدعت کہاگیا ہے جس کولوگ عراق سے
لائے تھے اور اس بدعت کے ضمن میں ہشام بن عروہ نے فرمایا کہ : ’’میں نے سنا
کہ مکّہ میں کوئی کہتا تھاکہ لعنت کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سدر کے
درخت کاٹنے والوں پر‘‘۔
قرآنی آیات کی روشنی میں سدر کی حقیقت اور کیفیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ
ان ارشادات کے مقاصد اور مفہوم کو ذہن میں رکھا جائے، مثلاً یہ بات بہت
واضح ہے کہ چاروں حوالے سدر کے درخت کے ہیں، اِن میں ایک بھی اشارہ سدر کے
پھل (نبق) کی جانب نہیں ہے ۔مزید برآن کسی بھی آیت میں سدر کا ذکر دوسرے
پھل دارپودوں کے ساتھ نہیں ہوا ہے یعنی کھجور، انگور، زیتون۔ انار اورانجیر
کاتذکرہ توایک دوسرے کے ساتھ کیاگیا ہے لیکن ان میں سے کسی کا ذکر سدر کی
ساتھ نہیں ملتا ہے گویا کہ سدر کے درخت کی اہمیت اور اس کی شان وشوکت
کابیان ہوا ہے لیکن اس کے ثمر کی خوبی یا نعمت کی بات نہیں کہی گئی
ہے۔مثلاً سورۃ النجم اور سورۃ الواقعہ میں سدرہ کا ذکر کرکے حسین، دلکش اور
تحیر میں ڈالنے والے مناظر کا احساس دلایا گیا ہے جب کہ سورۃسبا میں سدر کو
ان تین اقسام کے مضبوط درختوں (اثل، خمط، سدر) میں سے ایک بتایاگیا ہے جو
سیلاب کی زد میں آکر بھی اپنی جڑوں پر کھڑے رہے حالانکہ باقی سارے دورویہ
باغات تہس نہس ہوگئے۔
عرب میں بیری کی تین ذاتیں Species عام طور سے پائی جاتی ہیں۔ ایک تووہ
بیری جو ہندوستان میں بھی پایا جاتا ہے اور جس کو نباتاتی اعتبار سے
Zizphus mauritiana Hamilt نام دیاگیا ہے، اس کے پھل کوانگریزی میں
jujubeبھی کہتے ہیں ۔ دوسرا وہ بیری جو عرب کے ریگستانی علاقہ میں نسبتاً
خوبصورت پودہ سمجھا جاتا ہے گویا کہ یہ ایک چھوٹا درخت ہی ہوتا ہے اس کا
نام Zizphus lotus lam. ہے اور Lotus کی نسبت سے اسے Lote-tree کہا گیا ہے۔
تیسری قسم وہ ہے جس کو Z.spina-christi Willd کہتے ہیں اور جس کی بابت
روایت ہے کہ اس کے کانٹوں کاتاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سر پر رکھاگیا
تھا۔ بیری کی یہ تینوں ذاتین خاردار ہوتی ہیں اورکھانے والے پھل کا ذریعہ
ہیں گو کہ ان پھلوں کامقابلہ، خصوصیات اور مزہ کے اعتبار سے،ان پھلوں سے
نہیں کیاجاسکتا جن کا ذکر قرآن کریم میں اﷲ کی جانب سے دی گئی نعمتوں کے
طور پر ہوا ہے یعنی کھجور، انار، انگور، زیتون اور انجیر۔
عرب میں پائے جانے والی بیری یعنی Ziziphus کی تینوں (Species) خار دار
جھاڑیاں ہوتی ہیں جن کو چھوٹے درخت بھی کہاجاتا ہے۔(50) Paxtonنے لکھا ہے
کہ بیری کی جنس (Genus) کے نام Ziziphus کا منبع عربی زبان کا لفظ
الزیزوفون ہے جس کے معنی جھاڑی دار درخت کے ہیں۔
بیری کے درخت کی لکڑی ایندھن کے کام توآتی ہے لیکن عمارت یا فرنیچر بنانے
کے لئے موزوں نہیں سمجھی جاتی ہے۔ تینوں اقسام کی بیری کے پھل خوش ذائقہ
توہوتے ہیں لیکن ان کاشمار بہترین پھلوں میں نہیں کیا جاتا ہے لہٰذا تجارتی
طور پر بیری کے باغات خال خال ہی ملتے ہیں۔ ان درختوں کو کانٹوں کی بنا پر
باڑھ کے طور پر تو لگایا جاسکتا ہے لیکن کسی علاقہ کوخوش منظر بنانے کے لئے
اس کا لگایاجانامناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہ درخت اپنے تنوں یا جڑوں کی
بنا پر بہت مضبوط درخت بھی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں۔ ان کی شاخیں اور پتیاں
سایہ دار بھی نہیں کہلائی جاسکتیں۔
اب اگر بیری کی ان ساری خصوصیات اور کیفیات کو مد نظر رکھاجائے تواس بات کے
امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں کہ جس درخت کاحوالہ قرآن کریم میں سدرۃ المنتہیٰ
اور جنت کی منظر کشی کرتے ہوئے دیا گیا ہے نیز سورۃ سبا میں سیلاب سے بچ
جانے والا کہا گیا ہے وہ بیر ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ
سدر کی بابت بہت واضح احادیث بھی موجود ہیں جن کے بموجب سدر کو ایک شان دار
اور پر وقار درخت بتایاگیا ہے۔اس کے کاٹنے کو منع کیا گیا ہے۔ مزید برآں اس
کی لکڑی کو عمارت کے لئے استعمال کرنے کو بدعت بتایا گیا ہے۔ مختصراً یہ
کہاجاسکتا ہے کہ سدرہ یقینا کوئی اہم اور نایاب درخت تھااسی لئے قرآن
اورحدیث دونوں میں اس کے تذکرے معنی خیز اور بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ان
حقائق کی روشنی میں ان مفسرین قرآن کی رائے اور نظریہ پر غور کرناہوگا
جنہوں نے فرمایا ہے کہ سدرہ بیری کے بجائے کوئی دوسرا شان داراور عمدہ درخت
ہوسکتاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سدر کامفہوم اورمطلب اگر بیری نہیں ہے تو پھر وہ کون سا
درخت ہے ، راقم سطور کی رائے میں سدر کااشارہ شام ولبنان کے اس درخت سے ہے
جس کو عربی زبان میں ارز الربّ، ارزالبنان یا شجرۃ اﷲ کہتے ہیں او رجو
زمانۂ قدیم میں سدر کے ہم وزن ناموں سے روم اور یونان میں جانا جاتاتھا
یعنی سدر اس، سدرس، کدراس، وغیرہ۔ لبنان کایہ درخت اپنے جاہ وجلال، قدوقامت
اور خوبصورتی نیز خوشبودار لکڑی کی بنا پر عرب ہی نہیں بلکہ ساری
دنیاکاحسین ترین درخت سمجھا جاتا تھا۔ اس کا ذکر حضرت سلیمانؑ، حضرت
موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اوردوسرے پیغمبروں نے اپنے ارشادات میں بڑے ادب کے
ساتھ کیا ہے اور اس کی عظمت بیان فرمائی ہے۔
مقدس بائبل میں اس کا تذکرہ Erez کے نام سے بارہا ہوا ہے۔ ایک آیت میں
ارشاد ہوتاہے :
The trees of the Lord, the Cedrus of Lebnon Which He hath planted (Psalm
104:16)
سرولیم اسمتھ کی تحقیق کے مطابق بائبل کے Erez کاترجمہ یورپ کی قدیم زبانوں
میں سدر کے نام سے کیا گیا (99)ہے جو غالباً کسی سامی زبان کے لفظ سے
اختراع کیا گیا تھا۔ یورپ کی ان قدیم زبانوں (یونانی اور رومی) کااثر اسلام
سے قبل لبنان، شام اور فلسطین کے زیادہ تر علاقوں میں پایا جاتا تھا اسی
لئے وہاں کی ایک پرانی آبادی ’’جہاں سِدر کے درخت بہت پائے جاتے تھے‘‘
کانام سِدران پڑ گیا۔
سدر (انگریزی Cedar : )کانباتاتی نام Cedrus libani ہے۔یہ عام طور سے ایک
سو پچاس فٹ تک بلند ہوتا ہے ۔ اس کے تنے کا قطر آٹھ فٹ ہوتاہے چنانچہ اس کی
گولائی چالیس فٹ تک ہوتی ہے، اس کی گہری سبز پتیوں کی شاخیں نیچے سے اوپر
تک ایک ہی انداز سے لٹکی ہوئی Pyramid کی شکل پیش کرتی ہیں اور دھوپ میں
ایک خاص چمک پیدا کرتی ہیں، مولڈنکے نے لکھا ہے کہ اس درخت یا اس کے جنگلات
کے قریب کھڑے ہوکر انسان محوِ حیرت ہوجاتاہے اور اس کے جاہ وجلال کا رعب
بھلا پانا دشوار ہوجاتاہے حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ نے اپنی عبادت گاہیں
اور محلات اسی درخت کی لکڑی سے بنوائے تھے۔ ایک روایت ہے کہ ان عظیم الشان
درختوں (سدر) کی لکڑی کاٹ کر حضرت سلیمانؑ کے دارالسلطنت تک پہونچانے کے
لئے ایک لاکھ تراسی ہزار تین سو مزدوروں کو متعین کیا گیا تھا۔
سدر کی لکڑی میں اتنی خوشبو اور چمک ہوتی ہے کہ اس سے بنی عبادت گاہیں
نہایت معطر اور صاف وستھری رہتی تھیں اور تقریباً چارسو سال تک ان پر موسم
کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فرعونی دور میں لبنان اور شام کے
سدر (عربی : ارز،عبرانی : Erez) کے جنگلات سے اتنی زیادہ لکڑی کاٹ کر مصر
لے جائی گئی کہ حضرت عیسیٰؑ کے دور سے قبل ہی اس کی کمیابی محسوس کی جانے
لگی، لہٰذاسدر کے درختوں کو کاٹنا ایک نامناسب عمل تصور کیاجانے لگا۔
شام ولبنان کے سدر Cedar) ( کی کل چار ذاتیں دنیا کے مختلف خطوں میں پائی
جاتی ہیں جس میں ایک ہندوستان کا دیودار ہے جوہمالیہ کا ایک خوبصورت اوراہم
درخت ہے۔ اس کانباتاتی نام Cedrus deodara ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں
ہے کہ Cedrus deodara کوہندوستان میں دیوتا کاشجر یعنی دیودارو کہاگیا ہے
جب کہ عرب کے ارز یعنی سدر کوشجرۃ اﷲ کہاجاتا تھا۔ کچھ سائنسدانوں کاخیال
ہے کہ ہندوستان کادیودار عرب کے Cedrus Libani سے ہی پیدا(evolve) ہواہے
گویا کہ دیودار کااصل وطن شام ولبنان ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام سے قبل یونان اور روم کے
تہذیبی اثرات شام وفلسطین میں اس قد رعام ہوچکے تھے کہ الارز (عبرانی :
Erez) کا ان علاقوں میں سدر یا سدر س کے نام سے موسوم ہوجانا تعجب کا امر
نہ تھا۔ لیکن جب سدر کے جنگلات لبنان وشام میں تیزی کے ساتھ کاٹے جانے لگے
اور اس کی لکڑی کمیاب ہوگئی تو کچھ دوسرے اقسام کے درختوں کو بھی سدر کا
نام دیا جانے لگا۔ خاص طور سے Juniperus نامی جنس کا ایک درخت جوعربی میں
العرعر کہلاتا تھا اس کو بھی سدر کہاجانے لگا، یہ درخت حجاز اور یمن کے
پہاڑی علاقوں میں بہت ملتا تھا، پھر ایک وقت وہ آیا جب عرعر کا بھی صفایا
ہونے لگا تو بیری کی ایک ذات (Species) کو جو عرب میں کافی عام تھی، سدر
کانام دے دیاگیا، موجودہ نباتاتی سائنس کے اعتبار سے یہ قسم یا تو Z.lotus
تھی یا پھر Z. spina-christi۔ مشہور پودوں کے ناموں کادوسرے درختوں سے
منسوب ہوجانا نباتاتی دنیا میں ایک عام بات ہے۔ مثلاً Teak کے پودے کئی
اقسام کے بتائے جاتے ہیں۔ کوئی ہندوستانی Teak ہے توکوئی برمی Teak۔ اسی
طرح Kino نہ جانے کتنے اقسام اور جنس کے درختوں کو کہا جانے لگا۔ Copal
tree بھی مختلف درختوں کے نام بتائے جاتے ہیں۔ بہر حال اس امر کے مان لینے
میں کوئی پس وپیش نہ ہوناچاہئے کہ الارز کو قدیم زمانہ میں ہی سدر کے ہم
وزن نام دئے گئے جو یونان اور یورپ کی زبانوں میں آج بھی مستعمل ہیں لیکن
عربی زبان میں کچھ دوسری اقسام کے درختوں کو بھی سدر کہاجانے لگا جس میں
ایک بیری تھا۔ اس طرح یہ بات کسی حد تک یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قرآن
پاک میں جس سدر کاذکر آیا ہے اس کا اشارہ الارز یعنی Cedrus libani سے ہے
نہ کہ بیری سے۔
سدر بنام Cedar کی دو تصاویر پیش نظر مضمون کے ساتھ دی جارہی ہیں،ان تصاویر
سے سدر کی شان وشوکت کااندازہ کیاجاسکتا ہے، اسٹائن گاز کی مشہور فارسی لغت
میں سدر کی بلندی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک لفظ ’’سدرقامت‘‘ دیاگیا ہے جس
کے معنی دراز قد کے بتائے گئے ہیں۔ سدر کا درخت جنگل کابادشاہ کہلاتا تھا۔
پلانیؔ ( 79ء) نے اپنی کتاب میں اس درخت کا ذکر سدرس کے نام سے کرتے ہوئے
لکھا ہے کہ Ephesus کی مشہور عبادت گاہ Temple of Diana کو بنانے میں سدر
(سدرس) کی لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ یہ عبادت گاہ چار سو سال تک اپنی اصل آب
وتاب کے ساتھ باقی رہی۔ غرضیکہ حضرت عیسیٰؑ سے کچھ قبل کے دور سے لے کر
اسلام کے ظہور میں آنے تک کے دور میں جتنے حوالے یونانی یا رومی ادب میں
الارز کے درخت کے ملتے ہیں وہ سب کے سب سدر کے ہم وزن ناموں سے ہیں، چنانچہ
یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآنی لفظ سدر یا سدرہ غیر عربی لفظ ہے اوراس امر
کو حافظ سیوطی اور متعدد علماء نے تسلیم کیا ہے کہ غیر عربی زبان کے الفاظ
قرآن مجید میں موجود ہیں جو اپنی پہلی صورت بدل کر عربی زبان کے لفظ بن
گئے۔
اب اگر سدر کوارز البنان تسلیم کر لیا جائے تو قرآنی ارشادات بسلسلۂ سدرہ
کامفہوم اور مطلب بہت واضح ہوجاتا ہے۔ چھٹے اور ساتویں آسمان پر سدرۃ
المنتہیٰ سے مراد آخری حد پر ایسے درخت کی ہوجاتی ہے جو عرب کے علاقے کا سب
سے بلند عالی شان جاہ وجلال والا مضبوط، خوشنما، خوشبودار اورحیرت میں
ڈالنے والا درخت تھا اور جو آنحضرتؐ سے قبل مبعوث پیغمبروں کے ارشادات کا
بھی ایک موضوع تھا۔ اسی درخت کو قرآن کریم میں جنت کی منظر کشی کرتے ہوئے
سورۃالواقعۃ (آیت نمبر28) میں بیان فرمایا جاتا ہے اور سدر مخضودٍ (بغیر
کانٹے والا سدر) اس لئے کہا جاتاہے کیونکہ اس کے بعد کی آیت میں جس درخت
کاذکر ہوتاہے وہ طلح ہے جو ببول کی قسم کا خوبصورت درخت ہے لیکن خاردار
ہوتاہے۔ (ملاحظہ ہو ببول)
سورہ سبا میں سدر بہ معنی الارز کا مفہوم بھی بالکل صاف ہوجاتاہے، یمن کا
شہر مآرب جہاں کے سیلاب ارم کا ذکر ہوا ہے (آیت نمبر16) وہ سطح سمندر سے
تقریباً چار ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور سرد علاقہ مانا جاتا ہے۔ الارز بھی
سرد اور پہاڑی علاقوں کی پیداوار ہے، جب کہ بیری گرم اور ریگستانی علاقوں
میں پایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یمن کے انتہائی ترقی یافتہ اور متمول
مملکت میں سدر کے کچھ درخت شام ولبنان سے لاکر باغات کو حسن بخشنے کے لئے
لگائے گئے ہوں اورجوخمط (پیلو) اوراثل (جھاؤ) کے ساتھ سیلاب کی تباہ کاریوں
سے بچ گئے ہوں (ملاحظہ ہو باب جھاؤ اور باب شجر مسواک)۔ نباتاتی سائنس کے
اعتبار سے یہ ایک حقیقت ہے کہ اثل اور پرانے خمط اپنی جڑوں اور تنوں کے
اعتبار سے مضبوط پودے ہیں اور سدر (الارز) کی مضبوطی تو ضرب المثل ہے ہی۔
عرب کی مختلف نباتاتی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات علم میں آتی ہے کہ بیری
کی تینوں ذاتوں species کو سدر اور شجرۃ النبق کے علاوہ ارز بھی کہتے ہیں
اسی طرح Juniperus کے درختوں کوعرعر کے سوا ارز اور سدر کانام بھی دیا گیا
ہے۔ بعض Tamarix کے پودوں کو بھی سدر کہاگیا ہے۔ گویاکہ سدر کانام یوں تو
بہت سے اقسام کے درختوں سے منسوب کیا گیا، لیکن اصل سدر Cedrus libani ہی
تھا جو یونان وروم وغیرہ کی زبانوں میں سدرہ، سدرس یا سدرو جیسے ناموں سے
آج تک موسوم ہے غرضیکہ امکانات اسی بات کے ہیں کہ قرآنی سدر وہی ہے جو
یونانی یا رومی سدرس ہے یعنی الارز۔
یہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حجاز اور نجد کے علاقوں میں
اسلام سے قبل ہی عرعر اور بیری کے درختوں کوسدر کہاجانے لگاہوگا کیونکہ اس
وقت تک اصل سدر یعنی الارز بہت کمیاب ہوگیا تھا۔
سدر کا الارز (ارزالربّ، شجرۃ اﷲ،ارزالبنان) ہونا احادیث سے بھی ثابت ہے،
جن کا حوالہ دیا جاچکاہے، مثلا ابوداؤد کی حدیث میں جس سدر کو کاٹنے سے منع
فرمایا گیا اور کاٹنے والے کو جہنم سے ڈرایا گیا ہے وہ یقینا بیری نہیں ہو
سکتا۔ وہ سدر بہ معنی الارز ہی تھا اور اگر رسول کریمؐ اتنی سختی سے ارز کو
کاٹنے سے منع نہ فرماتے تو یقینا عرب سے یہ حسین درخت ختم ہوجاتا اور آج اس
سرزمین پر اس درخت کاوجودہی نہ ہوتا۔
بخاری شریف کی ایک حدیث میں سدرۃ المنتہیٰ کے ضمن میں فرمایا گیا ہے کہ
آسمان پر جو سدر آنحضرت نے دیکھا تھاوہ ایک نہایت بلند وبالا درخت تھا جس
کے پتے یا شاخیں ہاتھی کے کانوں کے مانند تھیں اور پھل (نبق) حجر کے پانی
کے مٹکوں کی طرح، حجرقومِ ثمود کی مملکت کادارالسلطنت تھاجہاں کے پتھروں
اور پکی ہوئی مٹی کی مصنوعات بہت مشہور تھیں۔ جس شخص نے بھی سدر کا درخت
(Cedrus libani) اور اس کا پھل، جس کو نباتاتی اصطلاح میں Cone کہتے ہیں،
دیکھا ہو یا اس کی تصاویر نظرسے گزری ہوں، وہ مذکورہ حدیث میں دی گئی تشبیہ
کی خوبی سے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ سدر کی پتیوں سے گھنی اور لمبی شاخیں
نیچے کی جانب لٹکتی ہوئی واقعی ہاتھی کے کان کاتصور پیش کرتی ہیں اور اس کے
پھل (Cone) کی وضع قطع ہوبہو پانی کے مٹکوں کی سی ہوتی ہے۔ زیر نظر مضمون
کے ساتھ دی گئی سدر کی تصاویر اس بیان کی صداقت کاثبوت ہیں۔
واضح رہے کہ سدر سے متعلق احادیث کی روشنی میں بیری کا کوئی تصور ذہن میں
نہیں لایاجاسکتا ہے۔ بیری کے کاٹنے کی ممانعت کا بھی سوال نہیں پیدا ہوتا
ہے بیری کی لکڑی چوکھٹ اور دروازہ بنانے کے کام میں عام طور سے نہیں لائی
جاتی ہے اور نہ بیری کادرخت بلند کہلایا جاسکتا ہے۔ جب کہ یہ ساری باتیں
الارز پر ہی صادق آتی ہیں۔
یہاں شاید ان احادیث کا بھی ذکر ضروری ہے جن کاتعلق صحیح بخاری، جامع ترمذی
اور صحیح مسلم کے باب الجنائز اور باب الطہارت سے ہے ۔ ان میں جنازہ کو غسل
دینے کے لئے گرم پانی میں سدر کی پتیاں ملانے کی بات کہی گئی ہے۔ سدر کی
تاریخی اور سائنسی جائزہ کی روشنی میں یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں الارز کے علاوہ عرعر اور بیری کوبھی سدر کے
نام سے جانا جاتاتھا۔ اوران تینوں اقسام کے درختوں کی پتیوں کوگرم پانی میں
ملانے کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ الارز اور عرعر کی پتیوں
میں ایک خاص قسم کا تیل (Resin)ہوتا ہے جو Cedar Oil بھی کہلاتا ہے اس کی
اہمیت خوشبو کے اعتبار سے بھی ہے اور desinfectantخصوصیات کے ناطے سے بھی
ہے۔ بیری کی پتیوں میں خوشبو تونہیں ہوتی ہے لیکن اس کی پتیاں بالعموم اور
Z. spina-christi کی پتیاں بالخصوص طبی اہمیت رکھتی ہیں اورجلد کوصاف کرنے
میں مددگار ہوتی ہیں۔ لہٰذا مندرجہ بالا باب الجنائز اور باب الطہارت کی
احادیث میں سدر کا اشارہ ان تینوں میں سے کسی کی بھی جانب موزوں ہے۔
مندرجہ بالا دی گئی نباتاتی تاریخ، پودوں کی کیمیاوی خصوصیات، قرآنی
ارشادات کا پیغام اور احادیث کی روشنی میں راقم سطور یہ نظر یہ پیش کرنے کی
جرأت کرتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کاسدر، جنت الماویٰ کاسدر (سورۃ النجم)،
دائیں بازووالوں کی جنت کاسدر (سورۃ الواقعۃ)اور مآرب کے زبردست سیلاب سے
بچ جانے والا سدر (سورۃ سبا)وہ درخت تھا جودنیا کاحسین ترین درخت ہے، جس کو
آج کل عربی میں الارز کہتے ہیں۔
ارشادات رسولؐ بسلسلۂ سدر
1۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے
جایاگیا تو وہاں پر چار نہریں تھیں۔ دو ظاہری اور دو باطنی‘‘۔ (بخاری)
2۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص ’’سدر‘‘ کادرخت کاٹے گا
اﷲ اس کوسر کے بل اوندھا گرادیگا‘‘۔ (راوی، عبداﷲ بن حبشی، کتاب
الادب،ابوداؤد)
3 -میں نے ہشام بن عروہ سے ’’سدر‘‘ کے کاٹنے کی بابت دریافت کیا جو عروہ کے
مکان میں ٹیک لگائے تھے، انہوں نے کہا تم ان دروازوں کو دیکھتے ہو۔ یہ
دروازے ’’سدر‘‘ کے بنے ہوئے ہیں جن کو عروہ کی زمین (آراضی) سے کاٹا گیا
تھا۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حمید اضافہ کرتے ہیں کہ
انہوں نے فرمایا اے عراقی تم یہ بدعت لائے ہو میں نے مکہ میں کسی کو کہتے
سنا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ’’سدر‘‘ کاٹنے والوں پر ۔
(راوی حسان بن ابراہیم، کتاب الادب، ابوداؤد)
(ماخذ۔نباتات قرآن۔ ایک سائنسی جائزہ۔ از ڈاکٹر اقتدار فاروقی۔سدرہ
پبلیشرز۔ شاہد اپارٹمینٹس۔ گولا گنج۔لکھنؤ۔226018
Email:[email protected]; Tel; 0522-2610683))
تأثرات - حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔ بعض پودوں کے تشخص میں انہوں
نے کچھ نئی باتیں بتائی ہیں جن سے بعض گرہیں کھلتی ہیں اور بعض الجھنیں دور
ہوتی ہیں۔ خاص طور پر سدرؔ اور کافور کی وضاحت اور تشخص میں انہوں نے نئی
اور مفید باتیں لکھی ہیں
تأثرات۔۔مولانا محمد رابع حسنی ندوی، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی صاحب نے قرآن مجید میں بتائی ہوئی متعدد
اشیاء کے سلسلے میں بہت عالمانہ تحقیق کی ہے اور ایسی تحقیقات پیش کی ہیں
جن سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے والوں کی متعدد الجھنیں یکسر دور ہوجاتی ہیں
اور قرآن مجید نے جو بعض گہرے حقائق بتائے ہیں ان سے دھندلکے کاپردہ اٹھ
جاتا ہے۔ سدرہ، کافور اور زقوم کی تحقیق اس سلسلے میں خاص طور سے بطور مثال
پیش کی جاتی ہیں
تأثرات۔۔ مولانا ڈاکٹر کلب صادق نائب صدر آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
میں اس کتاب کے مطالعہ سے بہت متاثر ہوا میرے خیال میں اس موضوع پر کوئی
کتاب ابھی تک اس عنوان سے تحریر میں نہیں ہے یا کم از کم میرے زیر مطالعہ
نہیں آئی ہے۔کتاب کا اسلوب خالص تحقیقی ہے اور مصنف نے اس میں اتنی جفا کشی
اور تندہی کی ہے جو بغیر’’ عشق‘‘ کے مشکل ہے |