رزق کے اسباب

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۱۱(سورۂ جمعہ)
ترجمہ:آپ فرمادیجئے کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللّہ تعالیٰ سب سے بہتر رازق ہے۔
ایک دوسرے مقا م پر اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
إِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۳۷ (آل عمران)
ترجمہ:بے شک اللہ جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
مزیداللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے :
اَللّٰهُ لَطِیْفٌۢ بِعِبَادِهٖ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ ...۝۱۹(شوریٰ)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے جسے چاہے رزق عطافرماتاہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر لطف وکرم فرمانے والاہےاوروہ جسے چاہتاہے رزق دیتا ہے، چنانچہ اگر کبھی کسی کی روزی کم ملے یاسرے سے ہی نہ ملے تو اُسے اس آیت کوپیش نظر رکھنا چاہیے کہ رزق کم ملنے یا بالکل نہ ملنے میں ضرور اس کا کوئی نہ کوئی لطف وکرم اور اس کی حکمت پوشیدہ ہے۔
اوربندے کے رزق میں جوکمی بیشی ہوتی ہے وہ بھی اللہ ہی کی جانب سےہوتی ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:
إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِيرًا بَصِيرًا۔(اسرا:۳۰)
ترجمہ:بیشک تمہارا رب جسے چاہے رزق کشادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دیتا ہےبےشک وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا (اوراُن کے احوال کو) دیکھتا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رزق نہ ملنے کے ڈرسے بچوں کے قتل پرسخت بندش فرمائی ہے،اللہ کا ارشادہے:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ۔(انعام )
ترجمہ:اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے نہ مارو ،ہم تمھیں بھی رزق دیتے ہیں اور انھیں بھی۔
لیکن اس سے زیادہ تر لوگ غافل ہیں جیساکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ۔(سبا:۳۶)
ترجمہ:اے محبوب! فرمادیجئے کہ بےشک میرا رب رزق وسیع کرتا ہے جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے (جس کے لیے چاہے) لیکن زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ۔
مگریہاں یہ بات یادرہے کہ رزق میں کمی ،نہ تواللہ کی ناراضگی کی دلیل ہے اور نہ تورزق میں زیادتی، اللہ کی رضا کی دلیل ہے،بلکہ یہ سب امتحان اور آزمائش کے طورپر ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ گنہگار کے رزق میں وسعت ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ نیک و فرماںبردار بندوںکے رزق میں تنگی ہوتی ہے۔
ان قرآنی آیات کی روشنی میں یہ حقیقت جان لینے کے بعدکہ رزق میں خوشحالی اورتنگی لانے کا تنہامالک صرف اللہ ہے اس کےسوا اور کوئی نہیں، یہاںپر ہم چندایسے اعمال واسباب کا ذکر کرتے ہیںجن کو خوداللہ تعالیٰ نے رزق میں کشادگی وبہتری کا بہترین نسخہ قرار دیا ہے،مثلاً:
۱۔کسب رزق
اس کا مطلب ہے کہ رزق حاصل کرنے کے لیےکوشش کرنا اور ا س کےلیے طرح طرح کے طریقے اختیارکرنا، مثلا:
کسانی وکاشت کاری،صنعت وحرفت،تجارت، کاریگری اور نوکری وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوْا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِزْقِهٖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ۝۱۵ (ملك)
ترجمہ:وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین آسان کردی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف اٹھنا ہے۔
۲۔ایمان باللہ اورتقویٰ
ایمان باللہ کامطلب یہ ہے کہ عقیدہ رکھاجائےکہ اللہ اپنی ذات وصفات کے ساتھ موجود ہے،کوئی اس کا شریک نہیں اورتقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر پھونک پھونک کر قدم رکھاجائے۔چنانچہ اس بات کی نصیحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ یَتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ (طلاق:۲-۳)
ترجمہ:جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان رکھتاہےاورجو اللہ سے ڈرتاہے، اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دیتاہے اور اُسے وہاں سے روزی دیتاہے جہاںسے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی قدس سرہٗ لکھتے ہیں:
وَ مَنْ یَّتَّقِ اللہَ یعنی جو شخص مصیبت اور دکھ میں صابر رہے گا ،بے صبری اختیارنہیں کرے گااورممنوعات سے پرہیز رکھے گا اللہ اس کے لیے اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گااورایسے طریقے سے اس کو رزق عطافرمائے گا کہ اس کے گمان میں بھی نہ ہوگا۔ (تفسیر مظہری،تفسیرزیرآیت )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ،اتَّخِذُوا تَقْوَى اللهِ تِجَارَةً يَأْتِيَكُمُ الرِّزْقُ بِلا بِضَاعَةٍ وَلا تِجَارَةٍ، ثُمَّ قَرَأَ:وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهٗ مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهٗ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ۔
(معجم کبیر،ج:۱۵،ص:۶)
ترجمہ:اے لوگو!تجارت میںخوف الٰہی کو لازمی طورپر اختیارکرو،اللہ تمھیں سازوسامان اورتجارت کے بغیررزق دے گا،پھر آپ نے یہ آیت:وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ ... تلاوت فرمائی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ:
اے بوذر! اگرتمام لوگ اگراس آیت(وَمَنْ یَتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًاوَیَرْزُقْہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ) پر عمل کرلیں تویہ اُن کے لیے کافی ہے ۔ (مسنداحمد،ابوذر غفاری)
علامہ عمادالدین ابن کثیر حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہیںکہ:
قرآن کریم میں بہت ہی جامع آیت اِنَّ اللہَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ہے اور سب سے زیادہ رزق کی کشادگی کا وعدہ اس آیت:مَنْ يَّتَّق اللهَ میں ہے۔
(تفسیر ابن کثیر،تفسیرزیر آیت مذکور)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مَنْ يَّتَّق اللهَ يَجْعَلْ لَهٗ مَخْرَجاًمِنْ شُبْهَاتِ الدُّنْياَ وَمِنْ غَمْرَاتِ الْمَوْتِ وَمِنْ شَدَائِدِ يَوْمِ الْقَياَمَةِ۔
(مسندالفردوس،ج:۱،ص:۱۶۰)
ترجمہ:جو شخص اللہ تعالیٰ سے خوف رکھتاہے اللہ تعالیٰ اُس کےلیے دنیاکے شبہات، موت کی تکلیفوںاور قیامت کی سختیوں سے نجات اورچھٹکارے کاذریعہ پیدا فرمادیتاہے۔
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کے فرزند کو مشرکین نے قید کرلیا تو اُنھوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ی دی اور یہ عرض کیا کہ: میرےبیٹے کومشرکین نے قید کرلیا ہے اور اُسی کے ساتھ اپنی محتاجی و ناداری کی شکایت کی ،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
اتَّقِ اللهَ وَاصْبِرْ وَأَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ۔
ترجمہ:اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور صبر کرو اور کثرت سے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِپڑھتے رہو۔
چنانچہ انھوںنے ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ دشمنوں کی غفلت کی وجہ سے وہ آزاد بھی ہوگئے اور اپنے ساتھ ڈھیرسارامال غنیمت بھی لے لوٹے۔ (تفسیربغوی،تفسیرزیرآیت مذکور )
۳۔توکل علی اللہ
یعنی اللہ پر اس طرح بھروسہ رکھنا کہ ہر انسان کا پیدا کرنے والااللہ ہے اوراس نے ہرانسان کے رزق کا وعدہ کررکھا ہے تووہ کسی نہ کسی بہانے سے رزق ضروردے گا، ہاں!یہ ضرور ہوسکتاہے کہ رزق ملنے میںکچھ تاخیر ہو لیکن رزق ضرور ملے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے: وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ إِنَّ اللہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیْء ٍ قَدْرًا۔(طلاق:۳)
ترجمہ:اور جو اللہ پر بھروسہ کرے ،اس کے لیے اللہ کافی ہے،بےشک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے ،کیونکہ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک حد مقرر کر رکھا ہے۔
یعنی اللہ پر بھروسہ کرنے والوںکے لیےتمام مشکلات میں اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَوْ أَنَّکُمْ تَوَکَّلُون عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ، لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْر، تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا۔
(ابن ماجہ،باب التوکل والیقین)
ترجمہ:اگر تم اللہ پر بھروسہ کرو جیساکہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمھیںبھی اُسی طرح رزق ملے گا جیساکہ پرندےکو رزق ملتا ہےکہ خالی پیٹ صبح کرتاہے اورآسودہ حالت میںشام کرتاہے۔
شعب الایمان کی ایک روایت ہے :مَنِ انْقَطَعَ إِلَى اللهِ كَفَاهُ اللهُ كُلَّ مُؤْنَةٍ وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ، وَمَنِ انْقَطَعَ إِلَى الدُّنْيَا وَكَلَهٗ اللهُ إِلَيْهَا۔ (التوکل باللہ والتسلیم)
ترجمہ:جو ہر طرف سے الگ ہوکر اللہ کا ہوجائے (اور ہر حال میںاللہ پر بھروسہ رکھے)تو اللہ ہر مشکل میں اس کی کفالت کرتا ہے اور بے گمان رزق دیتا ہےاورجو اللہ سے منھ پھیرکر دنیاکا ہوجائے تو اللہ بھی اسے دنیا کے سپرکردیتاہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اللہ کو یادرکھو وہ تمھیں یادرکھے گا،اللہ کے حکم پر عمل کرو تو اللہ کواپنے پاس ،بلکہ اپنے سامنے پاؤگے،جب کچھ مانگو تو اللہ ہی سےمانگو،جب مددطلب کرنی ہوتو اسی کی مدد چاہوکہ تمام امت مل کر تمھیں نفع دیناچاہے اور اللہ کو منظور نہ ہوتو ذرا سا بھی نفع نہیں پہنچاسکتی اور اسی طرح سب کے سب جمع ہوکربھی تجھے نقصان پہنچاناچاہیںتو نہیں پہنچا سکتےاور یہ جان لو کہ مصیبت میں صبرکرنے سے زیادہ نعمت حاصل ہوتی ہے اور یہ بھی جان لو کہ اللہ کی مددصبرکرنے والوںکے ساتھ ہے۔
(مسنداحمد، عبداللہ ابن عباس)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
مَنْ نَزَلَتْ بِهٖ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهٗ، وَمَنْ نَزَلَتْ بِهٖ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِاللهِ، فَيُوشِكُ اللهُ لَهٗ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ۔ (سنن ترمذی،کتاب الزہد)
ترجمہ:جو شخص فاقہ میں مبتلا ہواور وہ لوگوں کے سامنے اپنے فاقہ کو بیان کرے تواللہ اس کے فاقہ کو دورنہیںکرتا اور جس شخص کو فاقہ ہو اوراللہ سے کہے تو اللہ اس کو جلدیا دیر رزق عطا فرمائے گا۔
۴۔اللہ سے دعاکرنا
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ...۝۶۰ (غافر)
ترجمہ:اورتمہارارب فرماتاہے کہ مجھ سے دعاکرو میں تمہاری دعا قبول کروںگا۔
یعنی رزق میں برکت اور خوشحالی کے لیے دعاکرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ رزق دینے والا ہے اور ساتھ ہی اپنے بندوں کی دعا قبول بھی فرماتاہےاور اس کے لیے اللہ کی بارگاہ میں مختلف طریقوںسے دعامانگی جاسکتی ہے،جیسے:
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِيْنَ۝۱۱۴(مائدہ)
ترجمہ:یااللہ!مجھے رزق عطافرما کیونکہ تو بہترین رزق دینے والاہے۔
اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْأَلُكَ رِزْقًا طَيِّبًا وَاسِعًا۔ (معجم کبیر،باب پنجم)
ترجمہ:یااللہ! میں تجھ سے حلال کشادہ رزق کا سوال کرتاہوں۔
اَللّٰهُمَّ قَنِّعْنِي بِمَا رَزَقْتَنِي وَبَارِكْ لِي فِيْہِ۔
(شعب الایمان،فضیلۃ الحجرالاسود)
ترجمہ:یااللہ !جو کچھ رزق تونے عطافرمایاہےمجھےاس پر قناعت کرنے والا بنادے اور اس میں برکت عطافرما۔
لیکن دعااسی شخص کی قبول ہوتی ہے جو معصیت میں مبتلا نہ ہو،جیسے:ترک واجب،حرام کام،حرام کھاناوغیرہ۔
۵۔ حمد وشكر بجالانا
یعنی الله تعالیٰ کی تعریف بیان کرنا اور اس کی جانب سے رزق ونعمت ملنے پر شکراداکرنا،کیونکہ اس سے بھی رزق میں کشادگی اور برکت ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۝۷ (ابراهيم)
ترجمہ:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے یہ اعلان فرما دیاکہ اگر شکراداکرو گے تو میں تمھیں اور دوںگااور اگر ناشکری کرو گےتو میرا عذاب سخت ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت ورزق میں اضافہ ہوتاہے۔ شکر کی اصل یہ ہے کہ آدمی نعمت کا تصوّر اور اس کا اظہار کرے اور شکر کی حقیقت یہ ہے کہ اس نعمت کی تعظیم کے ساتھ اس کا اعتراف بھی کرے اور نفس کو اس کا عادی بنائے ۔
شکر کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ نے جو کچھ نعمتیں دی ہیں ان کا استعمال اسلامی طریقے پر کیاجائے،مثلا: زبان ، پس اس کو صرف اللہ کی رضا کے لیے استعمال کیاجائے اور اسی پر دوسری نعمتوں کو قیاس کیاجاسکتاہے۔
یہاں ایک بات غورکرنے کی یہ ہے کہ بندہ جب اللہ کی نعمتوں اور اس کے مختلف فضل و کرم اور احسان کو دیکھتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے،اس سے نعمتوں میںاضافہ ہوتاہےاور بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اورپختہ ہوتی چلی جاتی ہے،یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے بھی اعلیٰ مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے(اللہ) کی محبت یہاں تک غالب ہو جائے کہ نعمتوں کی طرف قلب کا التفات باقی نہ رہے ، یہ صدیقوں کامقام ہے ۔
۶۔صلہ رحمی
صلہ رحمی ایک ایسا انسانی جذبہ ہے جو دوست تو دوست ، دشمن کو بھی نرم کردیتاہے ،صلہ رحمی نہ صرف معاشرتی اعتبارسے پسندیدہ عمل ہے بلکہ دینی اعتبارسے بھی محبوب عمل ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرماتاہے:
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۳۸ (روم)
ترجمہ: رشتہ دار ، مسکین اور مسافر کواُن کا حق دو ،جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں اُن کے لیےیہ بہتر ہے اور وہی کامیاب ہیں ۔
اس آیت میں فَآتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ کا مطلب ہے قریبی رشتہ داروںکو اُن کا حق دینا،ان کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کرنا،مسکین یعنی مانگنے والوں کو صدقات وعطیات دینا، ابن سبیل یعنی مسافرکے ساتھ حسن سلوک کرنااوراس کی مہمان نوازی کرنا،یہ سب اعمال اگر اللہ کی رضا کے لیے کیے جائیں تو صلہ رحمی ہےاور ایسا کرنے سے اللہ کی رضا حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ رزق میں خوشحالی بھی آتی ہے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مَنْ سَرَّهٗ أَنْ يُبْسَطَ لَهٗ فِي رِزْقِهٖ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهٗ فِي أَثَرِهٖ فَلْيَصِلْ رَحِمَهٗ۔(بخاری:البسط فی الرزق)
ترجمہ:جس شخص کویہ بات پسندہے کہ اُس کا رزق کشادہ ہو اور اُس کا اثر باقی رہے تو وہ صلہ رحمی کرے۔
۷۔انفاق فی سبیل اللہ
اس کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا،اب چاہے یہ خرچ کرنا زکوۃ وصدقات نافلہ کے طورپرہویا قرض حسن کے طور پر دونوں صورتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں۔ چنانچہ جو شخص ان دونوںاعتبارسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اس کے رزق میں برکت بھی ہوتی ہےاور اللہ اُسے بہترین رزق بھی عطافرماتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِنَّ رَبِّی یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۳۹(سبا)
ترجمہ:آپ فرمادیجئےبےشک میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لیےچاہتاہےرزق کوکشادہ فرمادیتاہےاور جس کے لیے چاہتاہےتنگ فرمادیتاہے اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو اس کے بدلے اللہ اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہٗ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵
ترجمہ:وہ کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے کئی گنا بڑھاکر عطا کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اسی کی طرف تمھیں پلٹ کرجانا ہے۔
اس آیت کریمہ میں قرضِ حسن سےمرادہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواوٴں کی کفالت کرنا، جو قرض دارہیں ان کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا وغیرہ۔
اسی طرح قرضِ حسن کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دینا کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو وہ قرض دینے والااس شخص سے اپنےقرض کامطالبہ نہیںکرے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: إِنَّ اللهَ قَالَ لِي: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ۔ (مسلم،باب النفقہ)
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ سےفرمایاکہ خرچ کرو میںتم پر خرچ کروں گا ۔
۸۔کثرت استغفار:یعنی زیادہ سے زیادہ استغفارکرنا۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ كَبِیْرٍ۝۳ (ہود)
ترجمہ:اوریہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو تمھیں اچھی نعمت دے گا ایک متعین مدت تک اور ہر فضل واحسان والے کو اُس کے فضل وکرم کا بدلہ دے گا اور اگرتم منھ پھیرو گےتو میں تم پر بڑے دن (قیامت)کے عذاب کا خوف کرتا ہوں ۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ’’متاعاًحسناً‘‘سے مرادلمبی عمر، رزق میں زیادتی اور عیش و آرام ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ اللہ کی بارگاہ میںدل سے توبہ کرنےاور استغفارکرنے سے رزق بڑھتاہے ،عمرمیں برکت ہوتی ہے اور دنیاوآخرت میں اللہ تعالیٰ توبہ واستغفار کرنے والوں کے لیے راحت وسکو ن کا سامان مہیا فرماتاہے۔
ایک دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا۝۱۱ وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهَارًا۝۱۲ (نوح)
ترجمہ: اپنے رب سے معافی مانگو ، بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔وہ تم پر زور کی بارش برسائے گا، مال اور اولاد نرینہ سے تمہاری مدد کرے گااور تم کو باغ عطاکرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔
حضرت ربیع بن صبیح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک شخص حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے بارش کی کمی کی شکایت کی ، حسن بصری نے اُسے استغفار کا حکم دیا ۔ دوسراشخص آیا ، اُس نے تنگ دستی کی شکایت کی ، اُسے بھی استغفار کاحکم دیا۔ تیسراشخص آیا ، اس نے اولاد کی کمی کی شکایت کی ، اُ سے بھی استغفارکاحکم دیا ،پھر چوتھا شخص آیا ، اس نے اپنی زمین کی پیداوار میںکمی اورخشک سالی کی شکایت کی ، اُ سے بھی استغفار کاحکم دیا۔ ربیع بن صبیح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے حسن بصری سےکہا:آپ کے پاس چند لوگ آئے اوراُنھوںنےطرح طرح کی حاجتیں پیش کیں ، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ: استغفار کرو، اس پر حسن بصری نے کہا:میں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہی،بلکہ قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں استغفار کا حکم دیا ہے کہ :
اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا، یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا،وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَکُمْ أَنْہَارًا۔ (خزائن العرفان،تفسیر زیر آیت مذکور)
حضرت جعفربن محمدرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: جب تم رزق میں تنگی پاؤ توزیادہ سے زیادہ استغفارکرو (تاکہ اللہ تمہارارزق کشادہ فرمادے)۔(حلیۃ الاولیا،ج:۳،ص:۱۹۳)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:
مَنْ أكْثَرَ مِنَ الاسْتِغْفَارِ، جَعَلَ اللهُ لَهٗ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ كُلِّ ضَيقٍ مَخْرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔ (مسنداحمد،عبداللہ ابن عباس)
ترجمہ:جو شخص زیادہ استغفار کرتاہے اللہ اُسے ہر غم سے نجات اور ہر تنگی سے خوشحالی عطافرماتاہے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق دیتاہے جس کا اُسے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔
 

Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 56446 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More