عالمی فورمز پر پاکستان کا مقدمہ نوازشریف کی زبانی

وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے کے لیے چند روز امریکہ میں گزارے۔ وہاں انہوں نے ہر فورم پر پاکستان کے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے اپنے ملک کی اچھے انداز میں ترجمانی کی۔ آیئے انہوں نے امریکہ میں کیا کہا اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدرکی دعوت پرپائیدار ترقی کے بارے میں اعلیٰ سطح کے سیاسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ امداد نہیں،بلکہ، تجارت، مارکیٹوں تک رسائی، اقتصادی شراکت داری، ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم کا تبادلہ چاہتے ہیں۔ ایسی باتیں باوقار قوم کے باوقار لیڈر ہی کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ وہ امداد نہیں، بلکہ تجارت اور منڈیوں تک رسائی چاہتے ہیں۔ صرف امداد پر ہمیں نہ ٹرخایا جاتا رہے۔ ہم ترقی کے مواقع چاہتے ہیں۔ ہم اپنی مصنوعات اور پیداوارکو عالمی منڈیوں میں لانا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ سب مواقع فراہم کیے جائیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے ’’پائیدار توانائی سب کے لیے‘‘ کے بارے میں تین ممالک کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں توانائی کے بارے میں اپنی حکومت کے اہداف و مقاصد کا ابتدائی خاکہ واضح کیا کہ پاکستان کے قومی فریم ورک کا مقصد ملک میں سستی توانائی پیدا کرنا، قابل تجدید توانائی اور پائیدار توانائی کے امکانات کی تلاش اور ملک میں توانائی کے استعمال میں ذمہ داری اور توانائی کی بچت کا کلچر لانا ہے۔ اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ تینوں ممالک 2015ء کے بعد ترقی کے ایجنڈے کے حصہ کے طور پرپائیدار ترقی سب کے لیے کے مقصد اورہدف کو آگے بڑھانے کے لیے کوشش کریں گے۔ ناروے کے وزیراعظم نے نواز شریف کو بتایا کہ ناروے میں سب سے زیادہ پن بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اور یقین دلایا کہ وہ ناروے کے سرمایہ کاروں، نجی شعبہ اور تاجروں کی پاکستان کے توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لینے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس سے یہ بات توواضح ہوتی ہے کہ دیار غیر میں بھی نواز شریف نے اپنے ملک میں جاری توانائی کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ان ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا نا چاہتے ہیں۔ جن ممالک میں بجلی کا بحران نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں بجلی کا بحران ختم ہو۔ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی میں تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا ناخواندگی اور جہالت کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ پانچ سال میں تعلیم کا بجٹ دو گنا کردیں گے۔ اور یکساں نصاب تعلیم کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ ہمیں تعلیم کے میدان میں ابھی بہت ساکام کرنا ہے۔ ہمیں اپنا تعلیمی نصاب اس طرح ترتیب دیناہوگا کہ وہ عالمی معیار پر بھی پورا اترے اور ہمارے طلباء اور طالبات اپنی تاریخ شاندار ماضی اور اپنی ثقافت لباس ، زبان ، رہن سہن اور تہذیب و تمدن کو بھی نہ بھول جائیں۔ ہمیں تعلیم کے بارے میں اپنے سے ترقی یافتہ ممالک کے تجربات کو بھی سامنے رکھنا ہے او راپنی شناخت کو ختم نہیں ہونے دینا۔ اس صدی میں واقعی تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ جبکہ ملک میں امن قائم کیے بغیر تعلیم کا آزادانہ فروغ بھی ممکن نہیں ہے۔

امریکی جریدے وال سٹریٹ جنرل کوانٹرویو دیتے ہوئے نواز شریف نے خدشات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ڈرون حملوں کا تسلسل طالبان سے مذاکراتی عمل کی ہماری پالیسی کو برباد کردے گا۔انہوں نے درست ہی کہا ہے کہ ہم طالبان سے مذاکرات کرکے ملک میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن قائم ہوجائے۔ اس لیے وہ ڈرون حملے جاری رکھ کر ہماری ان کوشش پر پانی پھیر دے گا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا اعتراف بھی کیا اور ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گیس کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بجلی گھر چلانے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کو گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ اور ہمیں کہیں نہ کہیں سے گیس درآمد کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا ہم ایرانی گیس پائپ لائن منصوبے کے معاہدے کے پابند ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر آئندہ سال تک یہ منصوبہ مکمل نہ ہوا توہمیں ایران کو روزانہ تیس لاکھ ڈالر کا جرمانہ اداکرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا ہمارے خیال میں اس منصوبے کے نتیجے میں ہم پر کوئی اقتصادی پابندیاں عائد نہیں ہوں گی۔ انہوں نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گیس دیں اور تیس لاکھ ڈالر روزانہ دیں تاکہ ہم جرمانہ ادا کریں اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو ہمارے لیے مشکلات پیدا نہ کی جائیں۔ ہمیں پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کام کرنے دیا جائے۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ جب سے ایران سے گیس خریدنے کی بات کا آغاز ہوا اس وقت سے امریکہ اس کوشش میں ہے کہ پاکستان ایران سے گیس نہ خریدے۔ اس نے سابق صدر آصف زرادری کو بھی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرنے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ اب وہ چاہتا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہو۔ امریکہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنی ضروریات اسے بتائے۔ وہ اسے بجلی فراہم کریں گے۔ تاہم یہ پیشکش پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے سے منحرف کرنے کی چال تھی جوپاکستان نے ناکام بنادی۔ اب امریکی جریدے کو انٹرویو میں نواز شریف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کو گیس کی ضرورت ہے اور اس کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں سے گیس درآمد کرنا پڑے گی۔ انہوں نے یہ کہہ کر امریکیوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل نہ کرے تو پاکستان کو وہ رقم دی جاتی رہے جو اس نے جرمانہ کے طور پر ایران کو دینی ہے۔ اس کو گیس بھی دی جائے۔ ورنہ ہمیں اس سلسلہ میں کام کرنے دیا جائے۔ انہوں نے امریکہ میں بیٹھ کر اسے پیغام دیا ہے کہ وہ اس منصوبے پر ہر حال میں عمل کریں گے۔ پابندیاں لگا کر ہمارے لیے مشکلات پیدا نہ کی جائیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بات اس لیے کی ہے کہ اقوام متحدہ کے سب فیصلوں پرعمل نہیں ہوتا۔ عالمی طاقتیں جس فیصلے پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔ اس پر ہوجاتا ہے او ر جس فیصلے پر عمل کرنا نہیں چاہتیں اس پر نہیں ہوتا۔ اس سے مرضی کے فیصلے بھی لیے جاتے ہیں۔ دنیا پر تھانیداری کے لیے اقوام متحدہ کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کواقوا م متحدہ میں اصلاحات کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو عالمی طاقتوں کی اجارہ داری سے آزاد کرنے کی بھی بات کرنا چاہیے تھی۔ جب تک اس ادارے پر اجارہ داری ختم نہیں ہوگی اس وقت تک اس کی قراردادوں اور فیصلوں پر من وعن عمل نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں نواز شریف نے کہاکہ تیسری مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہونا اعزاز کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امن اور سلامتی کا قیام میری حکومت کا نصب العین ہے۔ ہمارے ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے باتیں نہیں گڈ گورننس کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں خوشحالی کے نئے پروگرام بنا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونا اعزاز کی بات ہے۔ دنیا کو بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ ا ن کو کہنا چاہیے تھا کہ ملک میں امن اور سلامتی کا قیام میری حکومت کا نصب العین ہے۔ مگر اس میں امریکہ کی پاکستان بارے پالیسیاں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری حکومت لوگوں کو امن اور ترقی دے گی۔ دہشت گردی نے بارہ برسوں میں چالیس ہزار پاکستانیوں کی جان لے لی۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی قوتوں کا ساتھ دیا تھا اس کا انعام ہمیں یہ ملا کہ ہمیں ہی اس کی بھینٹ چڑھا یا جا رہا ہے۔ ہمارے چالیس ہزا ر افراد شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ہمیں بتایا جائے اور ہم جانتے بھی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ طالبان کے خلاف تھی یا پاکستان کے خلاف۔ طالبان اور القاعدہ کے خلاف تھی تو اسامہ کو تو وہ قتل کر چکے اب وہ یہاں کیا کررہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کا جو دشمن تھا وہ مارا جا چکا ہے۔ پھر یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی سرزمین پر قیام امن کے لیے اے پی سی کا اہتام کیا۔ مذاکرات کی پیش کش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم امن پسند ہیں اور پرامن طریقے سے امن کا قیام چاہتے ہیں۔ ہم جنگ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ جذبوں کی۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختیاری کے خلاف ہیں۔ میں امریکہ سے مطالبہ کرتا ہوں ڈرون حملے بند کردے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ ڈرون حملوں سے فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ڈرون حملوں کے بارے میں بان کی مون بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔ دہشت گردوں کے نام پر بے گناہ پاکستانیوں کو ڈرون سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ڈرون حملوں سے نقصان ہورہا ہے تو ہمارا ہورہا ہے امریکہ کا نہیں۔ اس نے پاکستانیوں قتل کرنا ہوتا ہے چاہے وہ دہشت گردہوں یا امن پسند اس سے اس کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ امریکہ نے ڈرون بندکرنے کا مطالبہ نہ ماننا تھا اور نہ ہی مانا۔ نواز شریف کے خطاب کے دوسرے دن ہی چوبیس گھنٹوں کے اندر دو ڈرون حملے کر دیئے گئے۔ تاہم نواز شریف کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے عالمی فورم پر آواز تو بلند کی ہے۔ اس سے پہلے پرویزمشر ف اور آصف زرادری بھی اس فورم سے خطاب کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ معاملہ نہیں اٹھایا تھا۔ نوازشریف نے ڈرون حملوں کے حوالے سے آواز تو بلند کی ہے۔ تاہم اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ نواز شریف کو وہاں پر موجود تمام شرکاء سے پوچھنا چاہیے تھا کہ سب ممالک کے سربراہان بتائیں کہ کیا دنیا کوئی قانون اس کی اجازت دیتا ہے جیسا پاکستان میں امریکہ کررہا ہے پاکستان کی خودمختیاری کا بھی احساس نہیں کیا جارہا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب او رذات نہیں ہوتی۔ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے۔ ہم یہ بات اپنے ایک آرٹیکل میں لکھ چکے ہیں۔ نواز شریف اس بات کو پڑھ لیتے توضرور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ جب دہشت گردوں کا کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا۔ تو اس کا الزام مسلمانوں پر کیوں لگایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مساوی حقوق ہیں۔ پشاور میں چرچ پر حملہ انسانیت کے خلاف بد ترین جرم ہے۔ جس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ یہ حملہ ان عناصر نے کیا ہے۔ جو مساجد پر حملے کررہے ہیں۔ دنیا میں یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ توہین رسالت کے قانون کے خلاف محاذ یہ جواز بنا کر کھڑا کیاگیا کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نواز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ انہیں بھی پاکستانی شہریوں کے برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ پشاور میں چرچ پر حملہ کے بعد جس طرح مسلمانوں نے امدادی اور ریلیف کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس سے دنیاکو معلوم ہوجانا چاہیے کہ مسلمان انسانیت کا دکھ برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ نہ تو فرقہ واریت ہے اور نہ ہی مذہبی انتہا پسندی ۔ یہ دہشت گردی ہے صرف اور صرف دہشت گردی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عالمی برادری سے ایڈ نہیں ٹریڈ چاہتے ہیں۔ ہمیـں بھکاری نہ سمجھا جائے۔ ہماری مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک رسائی دی جائے۔ نواز شریف نے یہ بات کہہ کر امت مسلمہ کی ترجمانی کی ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھے جانے کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔ دہشت گرد مسلمانوں کے بھی دوست نہیں۔ جب سے نائن الیون ہوا ہے اس وقت سے مسلمان زیر عتاب آئے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر پاکستانی مسلمان تو خاص طور پر نشانے پر ہیں۔ ہمارے کئی سیاستدانوں اور دیگر شخصیات کی جس انداز میں امریکہ کے ائیر پورٹس پر تلاشی لی جاتی ہے او ر سیکیورٹی کے نام پر جو تذلیل کی جاتی ہے۔ اس سے بڑی انسانیت کی تذلیل اور کیا ہوگی۔ نواز شریف نے درست ہی کہا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھے جانے کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جو بغیر ختنہ کے نعشیں ملی تھیں کیا وہ مسلمان تھے؟ ریمنڈ ڈیوس نے دن دیہاڑے تین پاکستانیوں کو قتل کر دیا تھا کیا وہ مسلمان تھا؟اس لیے مسلمان نہ دہشت گرد ہے اور نہ ہی اس کو ہر جگہ مشکوک سمجھا جائے۔ دنیاتو مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد مسلمانوں کے دوست نہیں دشمن ہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ پاکستان کے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم نے کہا پاکستان بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتا ہے۔ اب یہ پاکستان کا بھی حق ہے کہ اس کی خودمختیاری کا لحاظ کیا جائے۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ ٹھوس اوربامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے اپنے بہت سے وسائل جنگوں میں جھونک دیئے۔ خطے کی خوشحالی کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہوں۔ 1999ء کے اعلان لاہور کے تحت بھارت سے تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ اور بھارت ہے کہ شرارت کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ہم بامقصد مذاکرات چاہتے ہیں وقت گزارو نہیں۔ ایسے مذاکرات بہت ہو چکے ہیں۔ ہم تعلقات چاہتے ہیں۔ بھارت تنازعات چاہتا ہے۔ نواز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر گذشتہ سات عشروں سے اقوام متحدہ میں حل طلب پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کو اس کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ طاقت کی سیاست سے مظلوم عوام کے حقوق کو دبایا نہیں جاسکتا۔ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں انہوں نے اقوام متحدہ کو یاددلایا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ ہی نے یہ قرارداد منظور کی تھی کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ اب اپنی اس قرارداد پر عمل کرائے جو ستر سال سے عمل کی منتظر ہے۔ اقوام متحدہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہا۔ نوازشریف نے اقوام متحدہ کو آئینہ دکھایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی کو یقین دلایا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ افغانستان میں کوئی ہمارا پسندیدہ نہیں ہے۔ دنیا کو جنگ سے بچانے کے لیے ہم نے عالمی قوانین پر عمل کیا ۔ پھر ہمیں ہی اس میں جھونک دیا گیا۔ کئی برسوں تک افغان مہاجرین کو پاکستان نے سنبھالا ہے۔ افغان عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اب نواز شریف نے تو کہا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ ہم تو باربار مداخلت کر چکے ہیں۔ روس افغانستان جنگ میں ہم نے افغانستان کا ساتھ دے کر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر ہم مداخلت کرچکے ہیں۔ اس کے بدلے میں ہمیں لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا۔ دہشت گردی کا شکا ر بھی ہونا پڑا۔ اور اپنی قیمتی جانیں بھی اس کی بھینٹ چڑھانا پڑیں۔ اب امریکہ جانے اور افغانستان جانے۔ ہم اب مداخلت کرکے امریکہ کی ناکامی کا ملبہ اپنے اوپر نہیں ڈلوانا چاہتے۔ ہماری کوئی پسند ناپسند نہیں ہے۔ وہاں کون آئے کون نہ آئے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ افغان عوام پر ہی چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس مسئلہ کا کیا حل چاہتے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی کہ فلسطین جلد اقوام متحدہ کا ممبر بن جائے گا۔ انہوں نے 1967ء کی سرحدوں کے مطابق خود مختیار فلسطین کے قیام کی بھی حمایت کا اظہار کیا۔ شام کے معاملہ پر بھی اپنا نکتہ نظر واضح الفاظ میں دنیا کے سامنے رکھا۔ نواز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان جنوبی ایشیاء میں ہتھیاروں کی کسی دوڑ میں شامل نہیں۔ ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست کی حیثیت سے تخفیف اسلحہ کی حمایت کرتے رہیں گے۔ پاکستان کو طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اسلحہ تیار رکھنا پڑتا ہے۔ ویسے یہ اسلحہ کے میدان میں کسی مقابلہ میں شامل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سول جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہ حق بھارت کو دیا جاسکتا ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں۔ وزیراعظم سے اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر اکمل الدین احسان اوگلو بھی ملے۔ نوازشریف نے مسلمان ممالک کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت موثر لائحہ عمل اختیار کرنے پر زوردیا۔ اور اوآئی سی کو مزید فعال بنانے کی خواہش کا اظہا ر کیا۔

نوازشریف کی منموہن سنگھ سے بھی ملاقات ہوئی ۔ نواز شریف نے بلوچستان میں مداخلت بند کرنے اور منموہن نے ممبئی حملوں میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہ ملاقات بس ملاقات رہی ۔ اس سے نہ تو کوئی نتیجہ نکلنا تھا اور نہ ہی نکلا۔ دونوں اسی بات پر اڑے رہے کہ اپنی چھوڑو ہماری مانو۔ نوازشریف نے پاکستانی صحافیوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں گفتگو اور پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے ایک صحافی کے سوال پر کہا کہ لگتا ہے کہ منموہن دیہاتی بڑھیا کی طرح اوباما سے میری شکایتیں لگانے گئے تھے بات نہ بننے پر الزام تراشی پر اترآئے۔

نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب اور دیگر فورمز پر پاکستان کے اپنے مسائل اور دنیا کے مسائل پر اپنا موقف واضح الفاظ میں دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ انہوں نے اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ تاہم صرف تقریروں سے کام نہیں چلے گا۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ جیتنے کے لیے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرنی چاہیے۔ اسی لیے نواز شریف نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کرنے اور اس کے اختیارات بحال کرنے کی بات کی ۔ انہوں نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا ذکر کیا۔ ایسا کرنا ہی چاہیے تھا۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ وہاں کے مسلمانوں پر جو ظلم کیا جارہا ہے۔ اس کا تصور ہی دل دہلا دیتا ہے۔ ابھی تک اس سلسلہ میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ نواز شریف کو برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں بھی بات کرنا چاہیے تھی۔ ان کو اپنا یہ مقدمہ جیتنے کے لیے سفارتی کوششیں شرو ع کردینی چاہییں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350874 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.