سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے
قول کے مطابق زیادہ بولنے، زیادہ سونے اور زیادہ کھانے والا شخص زندگی میں
کامیاب نہیں ہوتا بزرگوں، حکماء، علما و دانشوروں کے اقوال ان کی زندگی کے
مطالعے و مشاہدہ اور تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں اور یہ اقوال حکمت سے خالی
نہیں ہوتے ان پر غور کیا جائے تو زندگی سے متعلق بہت سے پوشیدہ حقائق کے در
وا ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرنے والا شخص زندگی کے ناہموار راستوں کا
سفر بھی باآسانی اور کامیابی سے طے کر گزرتا ہے
جہاں تک بولنے کی بات ہے تو بولنے سے پہلے اس مقولے کو ذہن میں رکھا جائے٬
پہلے تولو پھر بولو٬ تو زیادہ بہتر ہے بجائے یہ کہ بغیر سوچے سمجھے جو دل
میں آیا کہہ دیا انسان کا طرز تکلم بہت حد تک انسانی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے
اپنے انداز گفتگو سے ہی دوسروں پر کسی بھی انسان کی شخصیت کا اچھا یا برا
تاثر قائم کرنے میں معاون کردار ادا کرتا ہے کوئی بھی بات کہنے سے پہلے
موقع محل کو ملحوظ رکھنا چاہئے، صرف اپنی بات ہی نہ کہتے رہیں بلکہ دوسروں
کو بھی بولنے کا موقع دیں، کسی بھی مؤقف پر اپنی بات کہنے کے بعد دوسروں کو
بھی رائے دہی کا موقع دیں آیا کہ کوئی آپ کی بات سے متفق بھی ہے یا نہیں
کسی بھی قسم کے خانگی، کاروباری یا دیگر معاشرتی امور و معاملات کو کامیابی
سے چلانے کے مناسب و موزوں انداز گفتگو ہی کارآمد ثابت ہوتا ہے کم بولیں
مگر موقع محل کی مناسبت سے بولیں بلا ضرورت طوطے کی طرح ایک ہی بات کو بار
بار دہرانے سے گریز کریں کہ یہ طرز عمل دوسروں کے لئے بعض اوقات چڑچراہٹ
اور بیزاری کا باعث ہے اپنے طرز تخاطب سے دوسروں پر اپنی شخصیت کا مثبت
تاثر قائم کریں تاکہ بوقت ضرورت جب کبھی آپ کو اجتماعی ترقی کے کاموں میں
دوسروں کے تعاون کی ضرورت پیش آئے تو وہ آپ کی گفتگو اور آپ کی شخصیت آپ کے
پر اثر اور مدلل بیان کے آگے انکار نہ کر سکیں بلکہ بخوشی اور برضا و رغبت
آپ کے نیک مقصد کی کامیابی میں آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کریں
سونے کا ذکر آیا تو ذہن میں یہ بات آئی کہ ‘جو سوتا ہے، وہ کھوتا ہے‘ یہ
کھوتا ‘گدھے‘ والا نہیں بلکہ کھو دینے والا، گنوا دینے والا ہے اب آپ اپنی
دانست میں جو مفہوم چاہیں لفظ ‘کھوتا‘ سے اخذ کر لیں ویسے تو گدھے کے بارے
میں بھی مشہور ہے کہ نہایت سست نالائق اور کام چور ہوتا ہے جب تک اسے ڈنڈے
مار کر نہ ہنکایا جائے چلنے کا نام نہیں لیتا جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ یا
لیٹ رہتا ہے
یہی حال زیادہ سونے والے انسانوں کا بھی ہے کہ زیادہ سونے والے بھی سست
کاہل اور کام چور ہوتے ہیں بلکہ کام نہ کرنے کی عادت ہی انسان کو سست اور
نکما بناتی ہے سستی اور کاہلی سے انسان پر ہر دم نیند کا غلبہ طاری رہتا ہے
گدھے کی طرح زیادہ سونے والا انسان بھی موقع بے موقع جب جگہ ملی جہاں جگہ
ملی بیٹھے بیٹھے یا لیٹ کر سو گیا
زیادہ سونا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ زیادہ سونے والا انسان کند ذہن اور سست
رہتا ہے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا نہ ذہنی نہ جسمانی جبکہ کام اور
آرام میں توازن رکھنے والے چاق و چوبند چست اور بیدار مغز ہوتے ہیں سست اور
کاہل انسان سے کامیابی کی امید رکھنا درکنار وہ تو خود اپنے معمولی کام بھی
صحیح طریقے سے انجام نہیں دے پاتا اپنی زندگی اپنا وقت اور زندگی میں
کامیابی کے راستوں کو اپنے لئے بند کر دیتا ہے اور وہ سب کچھ نیند کی آغوش
میں سو کر کھو دیتا ہے جو زندگی میں حسن و خوبصورتی، خوشیوں اور کامیابیوں
کی دلیل ہے
اب کھانے کے متعلق بات کرتے ہیں کہ کھانا انسانی صحت کی اہم اور بنیادی
ضرورت ہے کھانا کھائے بغیر انسان روز مرہ امور چستی و تندہی سے سر انجام
نہیں دے سکتا کہ انسان کو کام کے لئے توانائی اور توانائی کے لئے خوراک کی
ضرورت رہتی ہے خوراک کے بغیر جسم کے لئے حرارت و توانئی مہیا کرنا ممکن
نہیں لیکن بات وہی ہے کہ ہر چیز توازن و اعتدال میں رہے تو کارآمد بصورت
دیگر نقصان کا باعث ہے کھانا جسمانی صحت اور کام کی نوعیت کے مطابق استعمال
کرنا ہی کھانے کے اجزا سے جسمانی اعضاء کے مطلوبہ توانائی مہیا کی جا سکتی
ہے اگر کھانا جسمانی ضروت سے زیادہ کھا لیا جائے تو وہ جز و بدن بننے کی
بجائے جسم کو بیمار کرنے والے خلیوں کی صورت اختیار کرتے ہوئے جسم کو لاغر
و بیمار کر دیتا ہے اور کوئی بھی بیمار جسم کسی بھی طرح کا ذہنی و جسمانی
کام کرنے کے قابل نہیں رہتا لہٰذا کھانے پینے میں توازن اور جسمانی ضرورت
کا خاص خیال پیش نظر رکھنا بے حد ضروری ہے
یاد رہے کہ بولنا سونا اور کھانا یہ تینوں چیزیں ہی انسانی زندگی کے لئے
اشد ضروری ہیں لیکن کسی بھی چیز میں زیادتی انسان کے لئے نقصان کا باعث ہے
تینوں مذکورہ ضروریات کا انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے لیکن ان میں
توازن اور اعتدال قائم رکھ کر ہی انسان خود کو زندگی کے تمام مراحل خوش
اسلوبی اور کامیابی سے سرانجام دینے کے قابل بناتا ہے |