انسانی زندگی دکھ اور سکھ دونوں
طرح کی کیفیات سے مرکب ہے کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں
شریک ہونے سے خوشیوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے اور دکھی انسان کا غم ہلکا
ہو جاتا ہے دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اخلاقی فرض بھی ہے اور معاشرتی
ضرورت بھی
ایک حد تک تو خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا اور دوسروں کے دکھ سکھ بانٹنا
درست ہے لیکن یہ درست نہیں کہ اپنے ہر دکھ میں دوسروں کو شریک کیا جائے
جیسا کہ پہلے عرض کیا انسانی زندگی دکھ اور سکھ سے عبارت ہے دنیا میں آنے
والے ہر انسان کو اپنے اپنے حصے کی خوشیاں اور غم ملے ہیں اور ہر انسان نے
انہیں خوشیوں اور غموں کے ساتھ دنیا میں اپنے قیام کی مدّت پوری کرنی ہے
ہر انسان کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی ذات سے دوسروں کو کوئی تکلیف نہ
پہنچے کوئی دکھ نہ ہو بلکہ دوسروں کو اگر کوئی غم بیماری یا تکلیف لاحق بھی
ہے تو اسے کم کرنے کی اس کا مداوا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے دوسروں
کی خوشیوں میں بھلے ہی ہم شریک نہ ہوں لیکن دکھوں میں شریک ہو کر اپنی ذات
سے حتی المقدور دوسروں کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے
انسان کو زندگی میں بعض اوقات ایسے دکھوں سے واستہ پڑتا ہے کہ جن کا مداوا
بظاہر سجھائی نہیں دیتا لیکن دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل نہ ہو
کوئی غم ایسا نہیں جس کا مداوا نہ ہو لیکن یہ محض انسان کی اپنی ہمت اور
قوت ارادی پر ہے کہ وہ خود کو کس طرح ہر طرح کے حالات میں 'نارمل' رکھتا یا
اپنی کیفیات پر قابو پاتا ہے
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ بظاہر بہت ہشاش بشاش نظر آرہے ہوتے ہیں دوسروں
کو اپنی باتوں سے اپنی خوش اخلاقی سے اپنے حسن سلوک سے پریشانی کے عالم میں
بھی خوش رکھتے ہیں لیکن اصل میں وہ اندر سے کس قدر دکھی ہوتے ہیں دوسرے اس
کا اندازہ بھی نہیں کر پاتے اور ان کے اطمینان اور مسکراہٹ پر رشک کرتے ہیں
یہ سمجھتے ہوئے کہ جیسے انہیں دنیا میں کوئی غم ملا ہی نہ ہو
بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دکھوں کا مداوا دوسروں کے اداس چہروں پر
مسکراہٹ کے پھول سجا کرتے ہیں جبکہ اپنے دکھ دوسروں سے چھپا کر دوسروں کے
سامنے اپنے چہرے پر اطمینان اور خوشی کی کیفیت طاری رکھتے ہیں مبادا کہ
کوئی ان کے تاثرات سے ان کے اندر کے دکھوں کی پرچھائیاں نہ دیکھ لے
یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے حصے کے دکھوں کا
بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اسے اپنے دکھوں میں شریک کرنا گویا
اس کے دکھوں میں مزید اضافہ کرنے کے مترادف ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی ذات
سے کسی کو ذرہ برابر بھی دکھ نہ ملے وہ اپنے دکھ اپنے دل میں دبا کر سب کی
نظروں سے چھپا کر رکھتے ہیں اپنے دل سے ہی اپنے غموں کا مداوا کرتے ہیں اور
زندگی کے غموں سے جیتتے ہوئے جیتے ہیں یہی شاید ان کا حسن تدبیر بھی ہے اور
یہی ان کے دکھوں کا مداوا بھی ہے
دنیا میں انسان کو بعض اوقات ایسے دکھ بھی ملتے ہیں کہ جنہیں کم کرنے کی
کوشش میں دوسرے لوگ لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے دوسروں کو تسلی و تشفی دینے
کی سعی کرتے ہیں لیکن یہ محض طفل تسلیاں ثابت ہوتی ہیں اور لفظوں کی یہ شفا
درد کا درماں کرنے کی بجائے درد کی شدت میں مزید اضافہ کرتی ہے ایسے دکھوں
کا مداوا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا بلکہ انسان کو خود صبر و برداشت، ہمت اور
مضبوط قوت ارادی کے بل پر خود کو غم و اندوہ کی کیفیت سے باہر نکالنا ہوتا
ہے اور جو لوگ یہ کرلیتے ہیں پھر کوئی غم کوئی دکھ کوئی پریشانی انہیں
افسردہ و پریشان نہیں ہونے دیتی بلکہ وہ اپنے دکھ کا مداوا اپنے ہی دل سے
کرتے ہیں کہ یہ انسان کا دل ہی ہے جو اس کی رہنمائی کرتا ہے جو اندھیرے میں
روشنی دکھاتا ہے انسان کی ہمّت بندھاتا ہے نئی راہ سجھاتا، جینے کی راہ
دکھاتا ہے بتاتا ہے کہ دوسرے نہیں بلکہ دکھی انسان چاہے تو بذات خود اپنے
ہر درد کا درماں و مداوا کرسکتا ہے
ہم بھی اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہماری وجہ سے دوسروں کے دکھوں میں اضافہ نہ ہو
تو ہمیں بھی اپنے ہر درد کا درمان اور اپنے دکھوں کا مداوا خود ہی کرنے کی
کوشش کرنا چاہیے نہ کے دوسروں کو اپنی داستان غم حیات سنا کر دکھی کرتے
رہیں کہ دکھ سکھ تو آنی جانی چیز ہے آکر چلے جائیں گے اور ہم چاہیں تو ان
دکھوں سے دل پر لگنے والے داغ بھی وقت کی مرہم سے دھلتے چلے جائیں گے کہ اس
دنیا میں ہر انسان دکھی ہے تو اس درد کا مداوا بھی خود انسان کے اپنے ہی بس
میں بھی ہے اس لئے دکھوں سے نہ گھبرائیں بلکہ قسمت سے ملنے والے دکھوں کا
مداوا صبر و ہمت قوت ارادی اور حسن تدبیر سے کرتے چلے جائیں |