خود کش

ویگن کے اڈے پر وہ خاموش ایک طرف بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں ایک تھیلا اور اس میں کھانے کا کچھ خشک سامان۔ سرخ و سفید رنگت، چہرے پر تازہ تازہ اگتے بال اور جسم پر ایک سادہ سا قمیض شلوار۔ قمیض کی اندرونی جیب میں ایک پرانا سا موبائل فون جو اسے خصوصی طور پر استادصاحب نے چلتے وقت دیا تھا ۔۔۔’’ اسے سنبھال کررکھنا اور کسی کو مت بتانا کہ تمہارے پاس ایسی کوئی چیز ہے۔۔‘‘ وہاں تربیتی کیمپ میں اسے سب استاد صاحب کہتے تھے ، وہ بھی جو اس سے عمر میں بڑے تھے۔ چہرے مہرے سے وہ ایک جہاندیدہ شخص دکھائی دیتا تھا ، پچاس کے پیٹے میں بھی اصل عمر سے کم ہی لگتا تھا۔۔۔اس کی بھی ایک کہانی تھی ۔۔وہاں ہرشخص کی ایک نہ ایک دلدوز کہانی تھی لیکن اب وہ تمام کے تمام یہ کہانیاں اپنے سینے میں ہی چھپاکر رکھنے پر مجبور تھے کہ وہاں انہیں سننے والا کوئی نہ تھا۔۔کب نجانے کس کی باری آجائے اور اسے روانہ ہونا پڑے اور وہ اپنے ساتھیوں کو بروز قیامت ملنے کا وعدہ کر کے چلتا بنے ۔۔ ایک بڑے سے کمرے میں کسی مقامی فنکار کو بلوا کر خصوصی طور پر چند تصاویر بنوائی گئیں تھیں۔ سبزے سے بھرپور باغات ، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی، درمیان میں کہیں دودھ کی نہر بہتی دکھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔۔’’ اسے ذہن میں بٹھا لو، یہی تمہارا آخری گھر ہے جہاں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔۔‘‘ استاد صاحب نے ایک روز اسے کئی دوسرے نوجوانوں کے ہمراہ آگاہ کیا تھا اور اس کی نظر آخر تک انہی باغاتا پر جمی رہی تھی جبکہ دوسرے کب کے وہاں سے منتشر ہوچکے تھے۔ ہریالی اسے بہت پسند تھی، وہ اس پر جان چھڑکتا تھا۔۔ؒ اگر یہاں رہنا ہے تو میں تو بہت خوش قسمت ہوں ۔ؒ اس نے خود سے کہا تھا۔

استاد صاحب اسے حتمی روانگی سے قبل امیر المومنین کے پاس لے آئے تھے جو ایک تخت پر بیٹھے تسبیح پھر رہے تھے ۔ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا د ی۔ ’’ جاؤ بیٹا، اﷲ کے حوالے ‘‘ اور ایک لحظے کو اس کا دل بھر آیا ، وہ امیر المومنین کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا اور ان کی کہی ایک ایک بات پر اسے اندھا اعتقاد تھا۔استاد صاحب تو پھر اکثر تربیت کے دوران سخت لہجہ اختیار کرلیتے تھے لیکن امیر صاحب۔۔۔۔’’ کیا معلوم وہ بھی وہیں مل جائیں جہاں میں نے ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔۔‘‘

ویگن کے ہارن کی کرخت آواز نے اسے چونکا دیا اور وہ اپنا تھیلا سنبھالتا ہوا اٹھ گیا۔ سامنے ایک پولیس والا مونچھوں پر تاؤ دے رہا تھا لیکن اسے دیکھ کر وہ پرسکون ہی رہا۔ اس کے سامنے سے گزرتے وقت اس کے ذہن میں روکے جانے کی صورت میں ممکنہ جوابات گھوم گئے جنہیں استاد صاحب نے اسے اچھی طرح ذہن نشین کروادیا تھا۔ حکومت نے ایک بار خودکش حملہ آور کی پہچان کی نشانیاں بتا کر الٹا انہیں مزید چوکنا کردیا تھا۔ اب وہ اپنا چہرہ اور جسم کی سکنات کو پرسکون رکھتے ہیں، پھٹنے سے قبل منہ ہی منہ میں کسی قسم کا کوئی ورد نہیں کررہے ہوتے ، کپڑے بھی عام انداز کے پہنتے ہیں او ر رات کو اطمنان سے سونے کی وجہ سے ان کی آنکھیں سرخ بھی نہیں ہوتیں۔

ویگن نے اسے شہر کے ایک مضافاتی علاقے میں اتار دیا تھا جہاں سے وہ ایک جانب پیدل چل پڑا۔ بیس منٹ کی مسافت کے بعد ایک تنگ سی گلی میں اس نے ایک دورازے پر دستک دی، دورازہ کھولنے والا ایک باریش شخص تھا۔شناختی جملوں کے تبادلے کے بعد اسے اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا گیا۔ایک چھوٹے سے صحن سے گزار کر وہ ایک مختصر سے کمرے میں داخل ہوئے۔۔’’ تم بالکل محفوظ ہو یہاں۔۔‘‘ باریش شخص نے اسے اطمینان دلایا۔ کچھ دیر بعد وہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔

ؒؒ ’ؒ وہ سامنے غسل خانہ ہے، یہ نیند کی گولی ضرور کھا لینا،رات کو آرام سے سونا، کوئی چیز چاہیے ہو تو مجھے آواز دے دینا لیکن کمرے سے باہر مت نکلنا، صبح جلدی اٹھنا ہے۔‘‘ باریش شخص نے اسے تنبیہ کی۔ اس کے منہ میں بڑا سا نوالہ تھا اس لیے وہ محض سرہلا کررہ گیا۔کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر وہ چلا گیا تھا اور خودکش حملہ آور چارپائی پر نیم دراز ہوگیا۔

باہر گلی میں کوئی بانسری بجاتا گزراتھا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ کچھ پرانی تلخ یادوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ ماں، باپ، بہن بھائی، سبھی تو تھے ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ لیکن ایک دھماکے نے یک دم اس کی دنیا اجاڑ دی تھی۔ دھماکے قبل کسی طیارے کی پرواز کی جانی پہچانی آواز آئی تھی۔ لوگ ایسی آوازوں کے اب عادی ہوگئے تھے اور اسیے موقعوں پر گھر کے اندر ہی رہنے کو ترجیح دینے لگے تھے۔ لیکن اس بار کمپیوٹر کے سافٹ وئیر میں کوئی غلطی ہوگئی تھی یا پھر زمینی حدف پر الیکٹرونک چپ رکھنے والے ایجنٹ

سے کوئی ُچوک ۔۔۔لیکن اس کا نتیجہ اس کے گھر والوں کی اچانک اور دلدوزموت کی شکل میں نکلا تھا۔وہ گھر پر موجود نہیں تھا ، قریب واقع درختوں کے نیچے بانسری ہی تو بجا رہا تھا ۔
گھنے درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر بانسری بجانا اس کی زندگی کی سب سے بڑی عیاشی تھی۔اس کی پسندیدہ ہریالی اور اس ماحول میں بیٹھ کر نئے نئے شوق کی مشق ۔۔اس شوق پر کئی بار وہ اپنے باپ سے پٹ چکا تھا، ایسے موقعوں پر اس کی بہن اس کی مدد کو آتی تھی۔۔’’ بابا! بجانے دو نا اگر اسے اچھا لگتا ہے ۔۔‘‘جواب میں اسے کافی دیر تک باپ کی صلواتیں سنی پڑتی تھیں۔

دھماکے کی آواز اس قدر شدید تھی کہ بانسری اس کے منہ سے نکل کر دور جاپڑی اور وہ اوندھے منہ گر گیا۔ منہ میں بھر جانے والی مٹی نکالتا ہوا دیوانہ وار گھر کی جانب دوڑ پڑا تھا لیکن اس وقت تک سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ تربیتی کیمپ میں وہ کسی کے توسط سے پہنچا تھا جہاں اس جیسے اور بھی کئی نوجوان تھے ۔ سب کی کہانی ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھی۔ سونے سے پہلے وہ نیند کی گولی کھانا نہیں بھولا تھا۔

علی الصبح اسے نماز کے لیے اٹھایا گیا۔ باریش شخص نے اسے ناشتے کے لیے پوچھا۔۔’’ کوئی خاص چیز کھانے کا دل کررہا ہو تو بتاؤ! ہم سب سے پوچھتے ہیں ۔۔‘‘

اور جواب میں اس نے گھی لگی روٹی اور قہوے کی فرمائش کی تھی، باریش شخص مسکرا کر چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں ناشتے کے ہمراہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوا۔

ناشتے کے بعد چاہو تو کچھ دیر آرام کرلو، پھر نہا کر تیار رہنا، میں ایک گھنٹے بعد دوبارہ آؤں گا۔۔‘‘ وہ یہ ہدایات دے کر چلا گیا تھا

ایک گھنٹے بعد باریش شخص اس کے جسم پر بارود سے بھری جرسی باندھ رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے خانوں میں بارود بھرا تھا اور وہ بڑی مہارت سے اس کے جسم پر اسے نصب کررہا تھا۔ درمیان میں وہ اسے آہتہ سے ہدایات بھی دے رہا تھا ۔۔’’ ہلنا مت، اب گھوم جاؤ، داہنا ہاتھ اوپر اٹھاؤ ۔۔‘‘ اور وہ خاموشی سے اس کی ہدایات پر عمل کررہا تھا۔ یوں بھی اس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، تربیتی کیمپ میں اپنے سامنے وہ ایسا ہوتے کئی بار دیکھ چکا تھا۔ شروع شروع میں تو ایک بار ُچھپ کر یہ سب دیکھتے وقت استاد صاحب نے اسے ڈانٹ بھی دیا تھا لیکن وہاں سے گزرتے ہوئے امیر المومنین نے مشفقانہ لہجے میں انہیں ایسا کرنے سے روکا تھا۔۔’’ مت روکو اسے، ایک دن تو اسے بھی یہ کرنا ہے۔۔‘‘

ؒ ’’ اب تم بالکل تیار ہو۔۔‘‘ باریش شخص نے اس پر ایک ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔’’ تمہیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا، بس اس جگہ پہنچ کرلوگوں میں گھل مل جاناـ ، اور ان کے عین درمیان پہنچ کر ہاتھ اٹھا کر زورسے اﷲ اکبر کا نعرہ لگانا، اس کے بعد چند ہی لمحوں میں تمہیں شہادت نصیب ہوجائے گی اور تم اپنی اس پسندیدہ جگہ پہنچ جاؤ گے جہاں تمہیں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے ۔۔۔‘‘

جرسی بڑی مہارت سے نصب کی جاچکی تھی، باریش شخص اپنے کام میں ماہر تھا ۔ایک موقع پر اس نے اسے فخر سے بتایا کہ اس کی تربیت امیر المومنین کے ہاتھوں ہوئی ہے۔۔ کام مکمل کرکے اس نے اسے کھڑے ہونے کو کہا تھا اور چاروں طرف سے مکمل جائزہ لینے کے بعد مطمئن ہوکر سرہلایا۔۔’’ وزن زیادہ تو نہیں ۔۔ ‘‘ ؟
’’ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا ۔۔۔۔حالانکہ وزن زیادہ تو تھا ہی ۔ وہ بے چینی محسوس کررہا تھا اور سانس لینے میں بھی دقت ہورہی تھی ۔ اس نے اس سے قبل کسی جرسی والے کو اس طرح بے چین نہیں دیکھا تھا جیسی بے چینی وہ اس وقت محسوس کررہا تھا لیکن اس کا اظہار کرنا اس نے مناسب نہیں سمجھا ۔

ؒ زیادہ ہلنا جلنا مت، لیٹنا بالکل نہیں،ایک جگہ بیٹھے رہو، کچھ ہی دیر میں ہمیں روانہ ہونا ہے ؒ ۔۔ باریش شخص یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا ۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے آواز لگائی ۔۔’’ چلو، اٹھو، احتیاط سے ۔۔‘‘ اور وہ باریش شخص کی ہمراہی میں گھر کے صحن سے گزرتا، وہاں بکھری مختلف چیزوں پر نظر ڈالتا باہر نکل آیا۔ گھر کے باہر ایک ویگن کھڑی تھی ۔ یہ ایک عام سی گاڑی تھی جو عموماـاسکول کے بچوں کو لانے اور لے جانے کے کام آتی ہے۔ باریش شخص نے اسے آہستہ سے فی امان اﷲ کہا ۔منزل پر وہ اس کے ساتھ نہیں جانئے گا، یہ بات وہ اسے گھر سے نکلنے سے قبل ہی بتا چکا تھا۔ ڈرائیور کی کرسی پر بیٹھے شخص نے اسے گاڑی کی عقبی جانب بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ چپ


چاپ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی تھی اور وہ راستے میں بکھرے منظر کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ علی الصبح اسکول جاتے ہوئے چھوٹے بچے، سڑکوں کی صفائی کرتے خاکروب، پٹرول پمپ پر گاڑیوں کی قطار۔۔۔۔پھر اچانک اس کی نظر پھولوں کے ایک جھنڈ پر پڑی جسے بڑی مہارت سے سنوارا گیا تھا، اس کے دل میں خوشی در آئی ۔۔یہ اس کا پسندیدہ منظر تھا۔ ڈرائیور بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ بلاآخر وہ ایک ایسی جگہ رک گئے جہاں سے کچھ فاصلے پر پولیس کی وردیاں نظر آرہی تھیں۔ یہ مال روڈ پر ہونے والا ایک مظاہرہ تھا،ہر طرف کالے کوٹوں کی بھرمار تھی اور ان کو ڈنڈوں کے زور پر روکتے ہوئے پولیس والے۔ ڈرائیور نے اسے اترنے کا اشارہ کیا اور وہ آہستگی سے اتر کر پولیس والوں کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ کچھ ہی ساعت میں وہ نعروں کی آوازیں بلند کرتے مظاہرین کو روکتے پولیس والوں کے درمیان پہنچ چکا تھا، ایک پولیس والے نے ہاتھ سے پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ، اس نے اپنا دوسرا ہاتھ فضا میں بلند کرکے اﷲ اکبر کا زوردار نعرہ لگایا اور ایک کان پھاڑ دینے والے خوفناک دھماکے نے فضا کو دہلا دیا۔ دھوئیں کے بادلوں سے فضا سیاہ ہورہی تھی، کئی پولیس والوں کے چیتھڑے اڑ چکے تھے اور ان کے اعضاء دور دور تک بکھر چکے تھے۔

اگلے ہی لمحے اس نے خود کو ہوا میں اڑتے پایا، وہ تیزی سے ایک جانب اڑتا جارہا تھا ، اس کا بدن ہوا کی طرح ہلکا ہوچکا تھا ۔اس کے اردگرد مناظر تیزی سے بدلتے جارہے تھے۔ جلد ہی وہ ایک جگہ ایسی جگہ جاکر رک گیا جہاں ہر طرف ملگجا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس دھندلکے میں اس نے دیکھا کہ اس کے چاروں جانب جلے ہوئے پتھروں کا ڈھیر ہے، ایک عجیب سی بو اسے پریشان کررہی تھی۔ماحول سوگوار تھا ۔ اس کی پسندیدہ ہریالی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ اچانک سامنے سے کوئی اس کی جانب آتا دکھائی دیا۔۔’’ کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں اس وقت کہاں ہوں ؟ ‘‘ ۔ جواب میں اس شخص نے جو کہا، اسے سن کر اسے ایک جھٹکا سا لگا اور اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔۔

اس سے اگلی رات وہ استاد صاحب کے خواب میں آیا، وہ ہاتھ باندھے استاد صاحب کے سامنے کھڑا تھا اور گڑگڑاتی ہوئی آواز میں استدعا کررہا تھا: ’’ حضرت! براہ کرم امیر المومنین تک یہ درخواست پہنچا دیں کہ خودکش جرسی میں بارود ذرا کم ڈالا کریں۔۔میں جنت سے پچاس کلومیٹر آگے نکل گیا ہوں۔۔‘‘

Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 278783 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.