گوری کی بہن چاندنی

دوپہر کی حدت کچھ کم ہو چکی تھی ۔ سائے لمبے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ گوری کی ماں قیلولہ کرنے کے بعد جماہیاں اور انگڑائیاں لیتے ہوئے اُٹھ چکی تھی اور بار ی باری اپنے سب بچوں کو جگا رہی تھی۔ گوری کو بستر پر نہ پا کر وہ اُس کی سہیلیوں کو کوسنے لگی جن کے پاس وہ اکثر دوپہر کی گرمی کی پرواہ کئے بغیر کھیلنے کے لئے چلی جاتی تھی۔اُس کی ماں کچھ دیر منہ میں بڑبڑاتی رہی پھر اُٹھ کر روزمرہ کے کام کاج میں مگن ہو گئی۔شام ہونے کو آئی تھی لیکن گوری نہیں آئی۔ اُس کی ماں نے غصے سے اُسے دو چار گالیاں دیں اور اپنے چھوٹے بیٹے کو اُسے بلانے کے لیے بھیج دیا۔شام کا اندھیرا چھانے لگا تھا گوری کا چھوٹا بھائی اُسے ڈھونڈے بغیر گھر لوٹا تو اُس کی ماں کو کچھ تشویش ہوئی۔ آخر وہ کہاں جا سکتی ہے؟ اتنی دیر تو وہ کبھی بھی گھر سے باہر نہیں رہی۔ چند لمحے کچھ سوچنے کے بعدوہ اُٹھی اور ان تمام سہیلیوں کے پاس جا کر اُس کے بارے میں پوچھتی رہی جن کے پاس گوری اکثر اپنا دن گذارتی تھی۔ لیکن آج وہ اپنی کسی سہیلی کے پاس نہیں گئی تھی۔ شام کا اندھیرا اب رات میں بدل چکا تھا۔ اُس کی ماں بوجھل قدموں سے گھر کے اندر داخل ہوئی تو گوری کی چھوٹی بہن چاندنی نے پگھلا ہوا سیسہ اپنی ماں کے کانوں میں انڈیل دیا ……’’گوری گھر سے بھاگ گئی ہے‘‘……، یہ کہہ کر اُس نے ایک چیخ ماری اور ماں سے لپٹ کر رونے لگی۔ماں یہ سنتے ہی گویا بت بن گئی۔چاندنی کے ہاتھ میں ایک خط تھا جو گوری جاتے ہوئے اپنے تکیے کے نیچے رکھ گئی تھی۔خط میں لکھا تھا۔ '' میں اس گھر کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جا رہی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ میری اس حرکت پر آپ لوگوں کو بہت دکھ پہنچے گا۔ لیکن ! میں اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوں۔میں جس سے محبت کرتی ہوں وہ ہماری برادری کا لڑکا نہیں ہے۔اس بات کو ابا کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور مجھے جان سے مار ڈالیں گے۔اس لیے میں اپنی محبت اور جان دونوں کی سلامتی کی خاطر آپ لوگوں سے بہت دور جا رہی ہوں۔میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ لوگ میری یہ گستاخی کبھی معاف نہیں کر سکتے مگر پھر بھی میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ آپ کی نا فرمان بیٹی گوری''۔۔۔ ماں چلائی ’’نہیں یہ جھوٹ ہے۔ میری بیٹی ایسا نہیں کر سکتی۔ اُسے ضرور کسی نے ورغلایا ہو گا۔گوری ۔۔۔ ہائے گوری۔۔۔تو جاتے جاتے اپنی ماں کو زہر کیوں نہ دے گئی۔گوری۔۔۔تو نے اپنے باپ سے کس بات کا بدلہ لیا ہے۔۔۔ہائے ہائے میں لٹ گئی۔ میں برباد ہو گئی۔۔۔۔ گوری تجھے پیدا ہوتے ہی موت کیوں نہ آ گئی۔۔۔ تو اپنے باپ کے سر میں ڈھیروں راکھ ڈال کر کس کمینے کے ساتھ چلی گئی ۔ تجھے شرم نہ آئی۔۔۔‘‘ وہ وہیں کھڑی کھڑی بین کرنے لگ گئی ۔ اور پھرغش کھا کر وہیں گر پڑی۔

گوری کا باپ بہت خوش تھا کیونکہ آج اُس کی دیہاڑی اچھی لگ گئی تھی۔آج اُس نے پورے سات سو روپے کمائے تھے۔ وہ شہر کی ایک مارکیٹ میں سامان ڈھونے کا کام کرتا تھا۔آج مارکیٹ بہت تیز تھی اس لیے اُسے شام دیر تک کام کرنا پڑا۔ وہ جب گھر پہنچا تو رات آدھی گزر چکی تھی۔ اُس کی بیوی اور بچے ابھی تک جاگ رہے تھے ۔ اُن کی آنکھیں سرخ اور چہروں پر غم کے آثار تھے۔ باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی چاندنی باپ کی طرف لپکی اور اُس سے لپٹ کر رونے لگی۔ بیوی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے میاں کو دیکھنے لگی۔ گوری کے باپ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا……’’کیا ہوا گوری کی ماں ؟‘‘ ماں کیا بتاتی‘ اس کی زبان کو تو ہزاروں تالے لگ چکے تھے……باپ نے بیتابی سے چاندنی کی طرف دیکھا‘ چاندنی کے ہونٹ کپکپائے ’’ابا!!! ہمارے گھر میں قیامت آگئی ہے۔گوری۔۔۔۔‘‘ وہ صرف اتنا ہی بول پائی۔

’’ کیا ہوا گوری کو؟ اُس کے باپ نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔پھر اپنی بیوی کو جھنجھو ڑنے لگا جو ابھی تک بت بنی بیٹی تھی۔

’’گوری بھاگ گئی ہے۔۔۔ تمہاری لاڈلی نے تمہاری عزت کا جنازہ نکال دیا ہے۔اُس نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھو ڑا ۔ گوری بھاگ گئی ہے۔۔۔ گوری بھاگ گئی ہے۔۔۔ وہ بین کرتے کرتے ایک بار پھر لڑھکی اور بے ہوش ہو گئی……چاندنی کا باپ کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن کچھ بھی نہ کہہ پایا ۔ اُس کی زبان اُس کے تالو سے چپک گئی تھی۔ آواز اُس کے حلق میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ وہ غم اور غصے سے کانپ رہا تھا لیکن کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔اُس نے اپنی بیٹی اور بیوی سے بہت کچھ پوچھنا چاہا ۔ لیکن!۔۔۔ اُس کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی تھی ۔ وہ ایک زندہ لاش بنا اپنی بے بس بیوی اور روتی ہوئی معصوم بیٹی کو گھور رہا تھا۔گوری جاتے جاتے اس گھر کی خوشیاں ساتھ لے گئی تھی۔ یہ سب اُس نے اپنی خوشی کی خاطر کیا تھا۔ اُس نے اپنے باپ ، ماں اور بہن بھائیوں کے بارے میں کچھ بھی نہ سوچا ۔ اُسے تو محبت ہو گئی تھی ۔ اور اپنی محبت کی خاطر اپنے ہنستے بستے گھر کو آگ لگا کر اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔وہ آشنا جس سے اُس کی ملاقات چند ماہ پہلے ہی ہوئی تھی۔ ساتھ والی گلی میں اُس کا گھر تھا ۔ وہ اکثر گوری کو اپنی سہیلیوں کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ملتا ۔ پہلے پہل تو گوری اُسے دیکھ کر اپنی نظریں جھکا لیتی اور آگے بڑھ جاتی۔لیکن رفتہ رفتہ وہ انجانا شخص اُسے اپنا اپنا سا لگنے لگا ۔نظریں ملیں۔ باتوں کا آغاز ہوا۔ ملاقاتیں بڑھیں اور دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ گوری کی سہیلیاں اُس سے یہ گلہ کرتیں کہ اب تو ہمارے پاس بہت کم آنے لگی ہے جبکہ اُس کی ماں اُسے ساراسارا دن سہیلیوں کے پاس بیٹھے رہنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتی۔ لیکن گوری تو محبت میں دیوانی ہو چکی تھی ۔ اُسے اس بات کی خبر ہی نہ رہی کہ جس باپ کی جوان بیٹی گھر سے بھاگ جائے وہ ساری عمر اپنے گھر سے باہر قدم رکھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔

گوری کا باپ گوشت پوست کا ایک لوتھڑا بن کر رہ گیا تھا ۔ فالج کے حملے نے اُس کے جسم کا ایک حصہ بالکل بے جان کر دیا تھا۔اب وہ خالی نظروں سے دیواروں کو گھورتا رہتا ۔ کوئی اُس کے منہ میں کچھ کھانے کو ڈال دیتا تو وہ کھا لیتا ورنہ بھوک پیاس سے بھی اُس کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا۔ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ہاتھ پاؤں تو مارنے ہی پڑتے ہیں۔ اس کام کے لیے اب چاندنی کی ماں نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ صبح گھر سے نکلتی اور شام کولوٹتی۔ باپ کی دیکھ بھال کی وجہ سے چاندنی کا سکول جانا بند ہو گیا تھا۔دو وقت کا کھانا مشکل سے میسر آتا ۔ کبھی کبھا ر تو نوبت فاقوں تک آجاتی۔ چاندنی کی ماں بھی دن بھر گھروں میں کام کرتے کرتے تھک جاتی ۔ ماں کی بوڑھی اور کمزور ہڈیوں کا احساس کرتے ہوئے چاندنی نے اپنا قدم گھر سے باہر رکھا اور کام میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ چاندنی کا گھر سے باہر نکلنا خوش بختی ثابت ہوا ۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ حالات بدلنے لگے اور معذور باپ کا علاج شروع ہو گیا۔چند سالوں میں سب کے چہروں پر رونق آگئی۔ چاندنی کے چھوٹے بہن بھائی اچھے سکولوں میں پڑھنے لگے اور اُس کا باپ بھی اپنے قدموں پر چلنے کے قابل ہو گیا۔ اب محلے میں اُس کی عزت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہی عزت جس کے چلے جانے کے غم نے اُسے بستر کے ساتھ چپکا دیا تھا۔چاندنی کی ماں نے تو پہلے ہی کام پر جاناچھوڑ دیا تھا ، اُس کے باپ نے بھی تندرست ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کے کام کاج کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ضرورت تو تب محسوس ہوتی جب کوئی ضرورت پوری نہ ہو رہی ہوتی۔چاندنی نے گھرکے تمام اخراجات کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی تھی اور وہ اُسے اچھی طرح نبھاہ رہی تھی۔اُس نے اپنا ایک معیار بنا لیا تھا اور اسی معیار نے اُسے ایک مقام تک پہنچا دیا تھا۔ وہ صرف شریف ‘ عزت داراور امیر گھرانوں میں ہی کام کرنا پسند کرتی تھی جن کے جوان بیٹے ہوتے تھے……!!!

Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100729 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.