اسلا م میں غیر مسلموں کے حقوق

ملک ِعزیز پاکستان بدقسمتی سے گوں نا گوں انتشاروں اور خلفشاروں کا شکار ہے،داخلی و خارجی ہر سطح پر بے شمار مسائل و مشکلات ہیں، دہشت گردی ،فرقہ واریت ،لسانیت اور صوبائیت کے عفریت ہر طرف منہ کھولے کھڑے ہیں،ابھی حال ہی میں پشاور کو پے درپے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے خون میں نہلایا گیا،یہ اور ان سے قبل کے تمام واقعات قابل صدافسوس ہیں ،اوپر سے ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کے شکار معصوم بچوں اور خواتین کے غم سے دل خون کے آنسو رو رہا ہے،مذکورہ مصائب کے مختلف پہلووئں پرآئے روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت کچھ لکھا ،کہا اورپڑھا جا چکا ہے، امن مذاکرات کو سبوتاژکرنے کے لئے پشاور چرچ دھماکہ کرایاگیا،غیر مسلم ’’اہل ذمہ‘‘ جو دارالاسلام میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ،ان کے اہلِ اسلام پرکیا حقوق اور ذمہ داریا ں ہیں، اس مناسبت سے ذیل کی سطریں پیش خدمت ہیں۔
دارالاسلام میں مقیم غیر مسلم یا تومفتوحہ علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں یاوہ ہوتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ معاہدہ کرکے دارالاسلام میں اقامت اختیار کی ہو،یہ معاہدہ جیسے کسی علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر دارالاسلام کے حکمرانوں سے کرتے ہیں،ایسے ہی یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی غیر مسلم فرد انفرادی طور پر اس قسم کا معاہدہ کر ے۔دارالاسلام میں مستقل اقامت اختیار کرنے والے غیر مسلم ک، چاہے مفتوحین ہوں یامعاہدین،ہر دو صورتوں میں انہیں ذمی کہا جاتا ہے۔

فقہاء نے تصریح کی ہے کہ عقدذمہ مسلمانوں کے حق میں عقد لازم ہے،جبکہ غیر مسلموں کے لیے عقد غیر لازم ہے،عقد لازم کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے۔امام کاسانی فرماتے ہیں :’’ جہاں تک اس عقد کی صفت کا تعلق ہے، تو وہ ہمارے حق میں لازم ہے،چنانچہ مسلمان بلاجوازاسے کسی حالت میں نہیں توڑ سکتے،البتہ یہ عقد ان کے حق میں غیر لازم ہے،بلکہ فی الجملہ ٹوٹ جانے کا احتمال رکھتاہے‘‘،(بدائع الصنائع،کتاب السیر،ج6،ص82)۔گویا انہوں نے اہل ذمہ کے لیے اسے بطور امر قانونی نہیں ،بلکہ بطور امر واقعی غیر لازم قرار دیا ہے،یہ بھی واضح رہے کہ فقہاء کے نزدیک عقد ذمہ ’’امانِ مؤبد‘‘ہے، یعنی مسلمان ہمیشہ کے لیے اہل ذمہ کے ساتھ نہ صرف امن سے رہیں گے،بلکہ ان سے جنگ نہیں کریں گے اور ان کی حفاظت بھی مسلمانوں کے ذمہ ہوگی،جب تک اہل ذمہ اپنی جانب سے اس معاہدے کو نہ توڑیں کیوں کہ مسلمان ان کے لئے ’’اہلِ عصمہ‘‘ہیں۔

اہل ذمہ کو اپنے مذہب پر عمل کی اجازت ہوتی ہے، اور انہیں اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا،ان کے معابد کو نہیں ڈھایا جائے گا،البتہ جن شہروں کو’’امصار المسلمین ‘‘قرار دیا گیا ہو،وہاں وہ نئے معابد تعمیر نہیں کر سکیں گے،لیکن دوسرے مقامات پر انہیں نئے معابد تعمیر کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے،بقول ڈاکٹر حمید اﷲ آپ ﷺ نے یہودمدینہ کے ساتھ جوپہلا معاہدۂ صلح کیا تھا اس میں بشمول دیگر امور کے یہ بھی طے کیا گیاتھا:’’یہود کے لئے ان کا دین اور مسلمانوں کے لئے ان کادین‘‘(میثاقِ مدینہ)۔نیزنجران کے عیسائیوں کے ساتھ آپ ﷺ کے معاہدے میں یہ بھی تھا:ــ’’ان کے کسی معبد کو نہیں ڈھایا جائے گا،ان کے کسی پادری کو نہیں نکالا جائے گا، ان پر ان کے دین کی تبدیلی کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا،یہ معاہدہ جب تک برقرار رہے گاجب تک وہ نئی کوئی بات نہ نکالیں یا سود نہ کھائیں‘‘(سننِ ابی داؤد،حدیث نمبر2644)،مگراسلامی فقہ کی رو سے سود کی اجازت کسی بھی حال میں مسلمان تو کجا انہیں بھی نہیں دی جائی گی۔ امام ابو یوسف نے سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے اہل حیرہ کے ساتھ کیے گے معاہدے کی جوشقیں نقل کی ہیں،ان میں بشمول دیگر امور کے یہ بھی کہا گیا تھا :’’ ان کے کسی معبد یا کلیسا کو نہیں گرایا جائے گا،نہ ہی ان کے محلات اور قلعوں میں سے کسی محل یا قلعہ کو گرایا جائے گا، ان کے کلیساؤں کو گھنٹیاں بجانے یا عید کے دن صلیب نکالنے سے منع نہیں کیا جائے گا‘‘۔ امام نے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے کئی معاہدات بھی نقل کیے ہیں،جن میں اس طرح کی شقیں شامل تھیں،بعض میں یہ صراحت کی گئی تھی:’’ ان پر ان کے دین کی تبدیلی کے لیے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی،نہ ہی ان میں کسی کو نقصان اور ضرر پہنچایا جائے گاــــ:․․․․،نہ ہی ان پر ان کے قوانین کے اطلاق میں کوئی رکاوٹ ڈالی جائے گی‘‘، البتہ غیر مسلموں سے توقع کی جاتی ہے کہ:’’ وہ مسلمانوں کی نمازوں کے اوقات کا لحاظ رکھیں گے،اور نمازوں کے اوقات کے ماسوا جس پہر میں چاہیں اپنی گھنٹیاں بجا سکتے ہیں‘‘،بعض معاہدات میں یہ تصریح بھی کی گئی :’’ ان کے تاجروں کو دارالاسلام میں اور ان علاقوں اور ملکوں میں جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہوا ہو،تجارت میں مکمل اجازت ہو گی،چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’ان کے تاجروں کو اجازت ہے کہ جن علاقوں میں ہم نے صلح کی ہے،ان میں جہاں جاناچاہیں جاسکتے ہیں‘‘۔(کتاب الخراج،ص 154)۔ آپﷺ نے بھی مختلف پیرایوں میں اس حقیقت کو واضح کر کے فرمایا:’’جس نے معاہدہ کرنے والی کسی جان کو قتل کیا ،تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا،اور اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے بھی پائی جا سکتی ہے‘‘،( احمد19601)۔ایک اور جگہ فرمایا :’’ خبردار،جس کسی نے کسی معاہد پر ظلم کیا ،یا اس کے بارے میں حق تلفی کی ،یا اس پراس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری ڈالی،یا اس سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لی ، تو میں قیامت کے دن اس کے خلاف اور معاہد کے حق میں کھڑا ہونگا‘‘،( ابوداؤد،2654)۔فتح خیبر کے موقع پر آپﷺ نے جن چیزوں کی حرمت کا اعلان کیا تھا ان میں :’’معاہد کی گری پڑی چیز کے اٹھا لینے کا بھی ذکر تھا‘‘ ،(ابوداؤد3310)۔

مگر ایسی جگہوں پر ہر نئے معابدکے تعمیر کی اجازت نہیں ہو گی ،جہاں مسلمان اپنے مذہبی اجتماعات منعقد کرتے ہوں،امام ابو یوسف اور دیگر فقہا ء نے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا فیصلہ ذکر کیا ہے :’’جن شہروں کو عربوں اور اہل اسلام نے آباد کیا ہو،وہاں ذمیوں کو اپنے معابد تعمیر کرنے ،گھنٹیاں بجانے ،شراب پینے، اور خنزیر پالنے کی اجازت نہ ہو گی۔البتہ وہ شہر جن کو انہوں نے خودآباد کیا ہو،اور پھراﷲ تعالیٰ نے اسے عربوں کے لیے فتح کرادیا ہو،اور وہ وہاں آباد ہوں،تو ذمیوں کو معاہدے کے تحت تمام حقوق حاصل ہونگے، اور عربوں پر لازم ہو گا کہ وہ ان کے ساتھ کیے گے معاہدات پر عمل کریں‘‘،( کتاب الخراج،احکام اہل الذمہ،ج2،ص121) ۔

امام کاسانی فرماتے ہیں :’’ جہاں تک پرانے گرجا گھروں کا تعلق ہے ان کو نہیں چھیڑا جائے گا،یعنی ان میں مذہبی رسومات اورتہوار وغیرہ منانے کی انہیں اجازت ہوگی،نہ ہی ان میں کسی کو ڈھایا جائے گا،اگر ان گرجوں کی عمارت گر جائے ،تو انہیں اجازت ہوگی کہ وہ اسے دوبارہ تعمیر کریں،کیونکہ دوبارہ تعمیر کرنا پرانی عمارت کو برقرار رکھنے کے حکم میں ہے،پس جس طرح انہیں اجازت ہے کہ ان کو برقرار رکھیں ،اسی طرح انہیں اس کی دوبارہ تعمیر کی بھی اجازت ہے‘‘۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں :’’ان کے گاؤں میں ،یا ایسی جگہ جو مسلمانوں کے شہر نہ ہوں،ان میں شراب،خنزیر اور صلیب کے بیچنے یا گھنٹیاں بجانے سے منع نہیں کیا جائے گا،خواہ وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجو د ہو،یہ کام صرف مسلمانوں کے شہروں میں ناپسندیدہ ہیں‘‘،(بدائع الصنائع،ج6ص80_84)۔

نجران کی جغرافیائی پوزیشن انتہائی اہم تھی ، اس کے ایک طرف جزیرۃالعرب کے حجاز کا علاقہ تھا، تو دوسری طرف بحر احمر کے پارحبشہ (ایتھوپیا) کی عیسائی سلطنت تھی ، وہاں بغاوت کے آثار بھی رونماہوئے تھے ،کیونکہ انہوں نے جنگ کے لئے باقاعدہ تیاریاں شروع کردی تھیں ،ابن الاثیر کی روایت کے مطابق انہوں نے چالیس ہزار جنگجو اکٹھے کرلیے تھے ،نیز انہوں نے کھلے عام سودی لین دین شروع کردیاتھا، جو نہ صرف اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی، جو انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ کیا تھا ،بلکہ یہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت کا اقدام بھی تھا، اس نازک ترین موقع پرخلیفۂ ثانی سیدنا عمررضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمان جاری کرکے ان لوگوں کو یمن کے نجران سے عراق کے نجران کو منتقل ہونے کا حکم دیا :’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ یہ وہ فرمان ہے جو امیرالمؤمنین عمر بن خطاب نے اہل نجران کے لئے لکھوایاہے ،ان میں جومعاہدے پر قائم رہا، تو وہ اﷲ تعالی کی امان میں ہے ، اسے مسلمانوں میں سے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچاسکے گا، کیونکہ ان پر لازم ہے کہ وہ ان معاہدات کی پابندی کریں، جو رسول اﷲ ﷺ اور ابوبکر ؓنے اہل نجران کے ساتھ کیے ہیں،شام اور عراق کے حکام میں جس کے پاس یہ جائیں وہ ان کو قابل کاشت زمین عطاکریں، جس زمین میں یہ کاشت کریں ،وہ ان کے لئے اﷲ کی رضا کی خاطر صدقہ اور ان کی اس زمین کا معاوضہ ہے ،جو ان سے لی گئی ہے ،اس زمین میں ان پر کوئی دست درازی اور زیادتی نہ کی جائے ،اگر کوئی مسلمان ان پر ظلم ہوتا دیکھے ،تو وہ ظالم کے خلاف ان کی مددکرے ،کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں ،جن کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، ان کے آنے کے بعد چوبیس مہینوں تک ان کا جزیہ معاف ہے ،ان سے وہی کام لیاجائے گا ،جو یہ کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں ان پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں کی جائے گی ۔عثمان بن عفان ؓاور معیقیب اس معاہدے پر گواہ ہوئے اور یہ دستاویز لکھی گئی ‘‘۔(مزیدتفصیل کے لئے جہاد ،مزاحمت اور بغاوت،ص545_ 587)۔

اب ان واضح اور دو ٹوک فرامین واحکامات کی روشنی میں کوئی بھی مسلمان ،غیر مسلم ذمیوں کے ساتھ کیسے کوئی زیادتی یا ان پر ظلم کرسکتاہے،یہ ایک طرف تو قرآن وسنت اور پیغمبرﷺ وصحابہ کے ارشادات کی صریح خلاف ورزی ہوگی،تو دوسری طرف اس کا خمیازہ ان مسلم اقلیات کو بھگتنا پڑے گا، جو غیر مسلم ملکوں میں کروڑوں کی تعداد میں آبادہیں،عالمگیریت کی اس دنیا میں کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان وہاں سے ہجرت کیوں نہیں کرلیتے،موجودہ دور کے عالمی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں ، کہ اب یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں رہا،اسلام ایک پرامن مذہب ہے، جنگ وجدل نہ چاہتے ہوئے بامر مجبوری اس کے ماننے والے اختیار کر تے ہیں،یہ اور بات ہے کہ جب جنگ سے پالا پڑ جائے ، تو ان کوفولاد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا پڑتا ہے، حقیقت میں اسلام میں جہاد برائے امن و اسلامتی ہے، جیسے قصاص ناحق قتل وقتال کے روکنے کا ضامن ہے، یا اسلحہ برائے کا جو نیا تصور ہے بالکل اسی طرح،بہر حال اہل ذمہ کے حقوق اسلام میں اہل اسلام ہی کی مانند ہیں،بلا معقول وجہ ان سے کوئی بھی تعرض اسلامی اخلاقیات، احکام اور آداب کے خلاف ہے۔
 

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877767 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More