ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا فن اگر کوئی سیکھنا چاہتا ہے
تو کانگریس پارٹی سے سیکھے۔سیاسی بساط پراستعمال کےبعد کوڑے دان کا عملی
مظاہرہ اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے تو لالو جی کا حشر دیکھ لے۔لالو کو پھر
ایک بارکیوں جیل جانا پڑا اگر یہ سوال مختلف لوگوں سے پوچھا جائے تو بھانت
بھانت کے متضاد جوابات ملیں گے۔یادو کہے گا یہ اونچی ذات کے لوگوں کا نچلی
ذات والوں کے خلاف بغض و عناد ہے لیکن جگناتھ مشرا جن کو لالو کے ساتھ موردِ
الزام ٹھہرایا گیا ہےبراہمن ہیں۔ مسلمان کہے گا چونکہ لالو نے اڈوانی کو
گرفتار کروادیا تھا اس لئے یہ سنگھ پریوارکی دشمنی ہے لیکن سی بی آئی کی
عدالت جس میں ٖفیصلہ تو کانگریس کے زیرِ اثر ہے۔بی جے پی والے کہیں گے یہ
رام رتھ یاترا کو روکنے کا پرکوپ(عذاب) ہے لیکن کارسیوکوں پر گولی چلانے
والا ملائم سنگھ یادو تویوپی میں حکومت کررہا ہے۔کانگریسی کہیں گے یہ
بدعنوانی کے بارے میں ہماری عدم مصالحت کا ثبوت ہے لیکن جب کانگریسی وزراء
پر بدعنوانی کےسنگین الزامات لگتے ہیں تو لچک کہاں سے آجاتی ہے ۔ملائم ،مایاوتی
اور یدورپاّکا بال بیکا کیوں نہیں ہوتا؟ درحقیقت یہ تمام خیال خامی صرف اور
صرف خودفریبی کےسوا کچھ اور نہیں ہے۔لالو پرشاد یادو کے الفاظ ’’جمہوریت
میں اقتدار دائمی نہیں ہوتا‘‘اس کی اپنی ذات پر چسپاں ہو گئے ہیں ۔ لالو
یادوہندوستانی سیاست کی بے ثباتی کا منھ بولتا نمونہ ہے اور ان تمام لوگوں
کیلئے نشان ِ عبرت ہے جو جوڑ توڑ کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں ۔
ایمرجنسی کے خلاف چلائی جانے والی جئے پرکاش نارائن کے مکمل انقلاب کی
تحریک کا ایک تحفہ لالو پرشاد یادو بھی تھا جو ۲۹ سال کی عمر میں رکن
پارلیمان بن گیا اور ۱۲ سال بعد ۱۹۸۹ میں بہار اسمبلی میں حزب اختلاف کا
لیڈر کی ذمہ داری پر فائز ہوگیا۔اس کے ایک سال بعدوی پی سنگھ بدعنوانی کے
خلاف تحریک نے ۱۹۹۰ میں اسے وزیراعلیٰ بنا دیا۔لالو پرشاد یادو کی ترقی کے
پس پشت نسلی اور مذہبی امتیاز کارفرما تھے ۔ یادواور دیکر پسماندہ سماج کے
لوگوں کی بھومی ہاروں کے ناروا سلوک کے خلاف بغاوت اور بھاگلپور فساد کے
بعد مسلمانوں کی کانگریس کے متبادل کی تلاش نے لالو کو بہار کا بے تاج
بادشاہ بنا دیا ۔یادو سماج کیلئے لالو کا وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہو
جانا ہی سب سے بڑا اعزاز تھا مگر مسلمانوں کےدلوں کو مسخر کرنے کا نادر
موقع لالو یادو کو لال کرشن اڈوانی نے دیا۔ لالو نے اڈوانی کی رام رتھ
یاترا کو روک کر سمستی پور میں اسے گرفتار کرلیا اس لئے کہ بقول لالو’’میری
ماں نے کہا تھا بھینس کو دم سے نہیں سینگ سے پکڑ قابو میں کیا کرتے ہیں‘‘
لالو یادو ۱۹۹۵ میں جب دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی تواعلان کردیا ’’جب تک
رہے گا سموسے میں آلو تب تک رہے گا بہار میں لالو‘‘ اور یہیں سے لالو کا
زوال شروع ہوگیا ۱۹۹۶ میں لالو کا نام چارہ گھوٹالہ کے اندر منظر عام پر
آیا اور ایک سال بعد انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر لالو نے
اپنی بیوی ربڑی دیوی کو سنگھاسن پربٹھا کر جیل کے اندر سے حکومت کرنے کا
منفرد تجربہ کیا ۔ لالو کو عوام نے پھر ایک بار کامیاب کیا اور اسے تیسری
مرتبہ بہار پر راج کرنے کا موقع دیالیکن افسوس کہ لالو نے اس تیسرے موقع کو
بھی گنوادیا۔ اس دوران لالو یادو خودسر اور خوشامد پسند ہوگیا تھا۔ ’’بہار
میں سڑک نہیں ہے تو گاڑی کی کیا ضرورت اور غریب لالٹین جلاتا ہے تو بجلی کا
کیا کام‘‘اس طرح کے احمقانہ بیان دینے لگا۔ہنومان چالیسا کے طرز پر لالو
چالیسا تصنیف کیا گیا ۔ اسکول کے امتحانات میں طلباء سے لالو کے متعلق
تعریفی و توصیفی سوالات پوچھے جانے لگے۔ریاست میں غنڈہ راج اور بدعنوانی
کابول بالا ہوگیا یہاں تک کہ بیزار عوام نے لالو مسترد کردیا۔ ۲۰۰۵ کے
اندر لالو کی آر جے ڈی کو صرف ۵۳ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی اوروہ بی جے
پی کے بعد تیسرے نمبر پر آئی۔
لالو کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کا اندازہ ایک سال قبل ہوچکا تھا اس لئے اس نے
۲۰۰۴ کے اندر کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر پارلیمانی انتخاب لڑا اور ۲۳
نشستوں پر کامیابی درج کرائی۔ لالو خوش نصیب تھا کہ اس وقت کانگریس پارٹی
اکثریت حاصل نہ کرسکی اس لئے اس کو مرکزمیں وزیر ریلوے بننے کا موقع مل
گیا۔ دہلی آنے کے بعد لالو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے ریلوے
وزیر کی حیثیت سے غیر معمولی کارنامے انجام دیئے ۔لالو کے بقول ’’جب لوگ یہ
دیکھتے ہیں کہ میں مشکل حالات میں سے کیسے راہ نکالتا ہوں تو انہیں خود
اپنی زندگی میں حوصلہ ملتا ہے‘‘۔ لالو سے قبل ہندوستانی ریلوے ایک خسارے
میں چلنے والی وزارت تھی لیکن اس نے ایک مرتبہ مال بردار ڈبوں کا معائنہ
کرتے ہوئے پایا کہ بہت سارا مال بغیر کرائے کے ڈھویا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ
یہ تھی کہ ڈبے میں ایک خاص وزن سے زیادہ مال برداری کی تحدید تھی ۔اس لئے
زائد مال کا کرایہ سرکاری خزانے کے بجائےاہلکاروں کی جیب میں چلا جاتا تھا
۔
اس صورتحال میں لالو کو اپنی ماں کی ایک اور نصیحت یاد آئی ’’اگر گائے کو
پوری طرح نہ دوہا جائے تو وہ بیمار ہو جاتی ہے‘‘۔ جب ڈبے اور پٹری زیادہ
وزن ڈھو سکتے ہیں تو ان کو کم وزن اٹھانے کا پابند کیوں کیا جائے؟ لالو نے
سب سے پہلے تو یہ کیا کہ مال ڈبے میں بوجھ کی مقدار پر لگی پابندی ہٹا دی
اور پھر مال بردار گاڑی میں ڈبوں کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا۔ اس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ کم کرچ پر زیادہ مال ڈھویا جانے لگا اور بدعنوانی پر بھی
روک لگ گئی ۔ اس کے بعد لالو نے ریلوےاصلاحات کا لامتناہی سلسلہ شروع
کردیا۔ نئی ریل گاڑیاں،کمپیوٹر،ریزرویشن کی نت نئی سہولیات وغیرہ ۔ نتیجتاً
لالو کے دور میں ریلوے نے ۲۵۰۰۰کروڈ کا منافع کرکے دکھا دیا۔ امریکہ کے
تجارتی کالجوں نے ہندوستانی ریلوے کی کامیابی کا سبق اپنے نصاب میں شامل
کیا ۔ وہاں کے طلباء ریلوے بھون میں تعلیمی سیاحت کے دوران تشریف لانے
لگے۔خود لالو یادوکو ہاروڈ اور وہارٹن جیسی یونیورسٹی میں خطاب کی دعوت دی
گئی ۔ لالویادو نے ۲۰۰۸ کے بجٹ کی تقریر میں اعلان کیا تھاکہ ہماری
کارکردگی دنیا کی بہترین ۵۰۰ کمپنیوں سے بہتر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ
اس دوران لالو نے عام مسافروں پر بوجھ بڑھانے کے بجائےدیگر ذرائع سے آمدنی
کی جانب توجہ کی ۔ اس دوران ریلوے گاڑیاں اشتہار بازی کا ذریعہ بن گئیں اور
خوبصورت بھی نظر آنے لگیں۔
اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لالو اپنی غیر معمولی کامیابی کا
سیاسی فائدہ کیوں نہ اٹھا سکا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔اول تو یہ کہدہلی کی
کامیابی و پذیرائی لالو کے اندر پائی جانے والی سادگی و خاکساری کو نگل گئی
۔ ا اس کے مزاج میں تکبر اور خودسری کے عناصر ظاہر ہونے لگے اس کی دومثالیں
ذرائع ابلاغ میں بھی آئیں۔ ایک مرتبہ لالووزیر ریلوے کی حیثیت سے بہار کے
کسی ریلوے اسٹیشن کامعائنہ کرنے کیلئے پہنچا ۔ علاقے کے لوگوں کو جب اطلاع
ملی تو وہ اپنے رہنما کے درشن کیلئے اسٹیشن پہنچ گئے ۔لالو نے انہیں اہانت
کے ساتھ دھتکاردیا اور کہا یہ لوگ بنا پلیٹ فارم ٹکٹ کے اندر آئے ہیں ان
کا چالان کرو۔ اپنے مداحوں کے ساتھ ایسااہانت آمیز سلوک ایسا سیاسی رہنما
نہیں کرسکتا جس کو ان کے آگے ووٹ کی جھولی پھیلانی ہے۔ اسی طرح دہلی میں
ایک مرتبہ لالو کی بیٹی نے ایک صحافی کو بھرے بازار میں طمانچہ رسید کردیا
۔ لالو اپنی بیٹی کی ڈانٹنے کے بجائے اس کی نارواحرکت کو حق بجانب ٹھہراکر
اپنی رعونت بے نقاب کردیا۔
لالو کے زوال کی دوسری وجہ خود اپنی ریاست بہار کے عوام اور سرکاری افسران
کی ناقدری تھی ۔وہ اپنی کمزوری کیلئے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا نے لگا
تھا۔ جب لالو سے یہ سوال کیا گیا کہ جو کچھ اس نے دہلی میں کیا وہ پٹنہ میں
کیوں نہ کرسکا ؟تو اس کا جواب تھا وزارت ریلوے کے افسران منظم اور باصلاحیت
ہیں ان کو جو کام تفویض کیا جاتاہے وہ توقعات پرپورے اترتے ہیں جبکہ بہار
میں ایسا نہیں ہوتا۔یہ لالو پرشاد یادو کی غلط فہمی تھی جو نتیش کمار نے
اقتدار سنبھالنے کے بعد دور کردی۔ لالو جن سرکاری افسران کو ناکارہ
قراردیتا تھا وہی نتیش کے ساتھ کارآمدہوگئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لالو
وزارت ریلوے کے اندر افسران کا موقف سنتا تھا ۔ ان کی بات کو سمجھنے کوشش
کرتا تھا اور انہیں اعتماد میں لے کر کام کرتا تھا جبکہ بہار کے اندر وہ
خوشامدکرنے والےوزراء اور اہلکاروں کے درمیان گھرا رہتا تھااورٹھوس
کارکردگی کے بجائے نمائشی اقدامات و جذباتی استحصال سے کام چلانے کی کوشش
کرتا تھا ۔ یہ کاغذ کی ناؤ ایک عرصے تک چلی لیکن پھر اپنے بوجھ سے ڈوب
گئی۔
دہلی قیام کے دوران لالو پرشاد یادو عالمی سطح اپنی مقبولیت بڑھاتا رہا
یہاں تک کہ اس نے پاکستان کا بھی نہایت کامیاب دورہ کیا مگر خود اپنی ریاست
کے عوام سے اس کا رابطہ بتدریج کمزور ہوتا چلا گیا ۔مگر میڈیا کی چکا چوندھ
میں وہ بھول گیا کہ دنیا بھر کے لوگ اس کے فقروں پر تالیاں تو بجا سکتے تھے
مگر اس کی پارٹی کو ووٹ نہیں دے سکتے تھے اور یہ تلخ حقیقت کا ادراک نہ
کرسکاکہ وزارت ِ ریلوے میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا براہِ راست
فائدہ بہار کے رائے دہندگان کو نہیں مل ہورہا ہے۔اس کے نتیجے میں خود اپنی
ریاست کے اندراس کا حلقۂ اثر سمٹتا چلا گیا۔ اس کی ایک مثال ۲۰۰۸ میں
کوسی ندی کے سیلاب کی غیرمعمولی تباہی کے دوران سامنے آئی ۔ پہلے تو لالو
نے اس کیلئے نتیش کی نااہلی و بدانتظامی کومورد الزام ٹھہرایا لیکن جب جے
ڈی یو کے ارکانِ پارلیمان نے مرکز کے عدم تعاون پر استعفیٰ دے دیا تو لالو
کی آنکھ کھلی اور اس نے ریلوے کے ذریعے امدادی سامان کی بڑی کھیپ بھجوا کر
سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی کریڈٹ حاصل کرنے کیلئے
انتظامیہ کا تعاون لینے کے بجائے تقسیم کاری کا کام اپنی پارٹی کے ذمے
کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام پریشان ہوتی رہی اورامدادی مال واسباب آر جے
ڈی کے دفاتر میں سڑتا رہا۔ اس طرح کی حماقت نے لالو کی رہی سہی سیاسی ساکھ
کوبھی ملیامیٹ کردیا۔ریاست کی عوام اور اس کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا
اظہار ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۰ کے انتخابی نتائج میں ہوگیا اور لالو کی ریل پٹری سے
اتر کربالآخر جیل چلی گئی ۔
لالو کے اس بارجیل جانے کی بنیادی وجہ بدعنوانی نہیں بلکہ سیاسی بے وزنی ہے
اور کانگریس کی ابن الوقتی ہے۔ ۲۰۰۵ کےریاستی انتخابات میں لالو کی آر
جےڈی کو ۵۴ نشستیں ملی تھیں جو ۲۰۱۰ کے اندر صرف ۲۲ پر سمٹ گئیں جبکہ جنتا
دل اور بی جے پی کے اتحاد کو ۲۴۳ میں سے ۲۰۶ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی
۔۲۰۰۴ میں ایوانِ پارلیمان میں ۲۳ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی آر
جے ڈی کو ۲۰۰۹ میں صرف ۴ نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ۔ لالو کو جیل لے جانے
والے یہی اعدادوشمار ہیں ۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو لالو کے اس مقدمے میں سی
بی آئی نت نئے متضاد شواہد پیش کرکے ٹال مٹول کا سلسلہ جاری رکھتی اور
لالو اقتدار کے گلیارے میں عیش کرتے رہتے۔لالو کا ستارہ چمکانے میں جس طرح
اڈوانی نے بلاواسطہ مدد کی اسی طرح اس کی لٹیا ڈبونے میں نریندر مودی نے
ہاتھ بٹایا۔ اگر نتیش کمار مودی کا بہانہ بنا کر اپنا دامن بی جے پی سے
نہیں جھاڑتے تو کانگریس کو لالو ضرورت باقی رہتی اور وہ اسے سیاسی بن باس
پر روانہ کرنے سے گریز کرتی لیکن نتیش کمار نے بی جے پی کو طلاق دے کر
کانگریس کونکاح کا پیغام دے دیاجس کے نتیجے میں کانگریس کولالوسے خلع لینے
پر مجبور ہونا پڑا۔ لالو کے جیل چلے جانے کے بعد اس رشتے کے ٹوٹنے
سےکانگریس کا نقصان بے حد کم ہوجائیگا ۔ مسلمان ویسے ہی مودی کی مخالفت کے
سبب نتیش کمار پر فدا ہیں۔ اب وہ لالو کے بجھتے ہوئے لالٹین میں تیل ڈالنے
کے بجائے شرحِ صدر کے ساتھ جنتادل کا چراغ روشن کریں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ لالو یادو کو اپنی کمزوری کا احساس ہی نہ ہوا ہو۔ مئی
۲۰۱۳اپنی پارٹی کے تجدید و احیاء کیلئے انہوں نے پریورتن ریلی کا اہتمام
کیا لیکن اسے بھی کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی ۔اس کا اعتراف لالو نے اپنی
پارٹی ورکرس کے سامنےحال میں اس طرح سے کیا کہ ’’میں اپنے لئے بہت نام کما
چکا ہوں ۔میرے پاس کافی دھن دولت ہے۔میں اپنے خاندان کو مستحکم کرچکا ہوں
اور میرا مستقبل محفوظ ہے ۔اب آئندہ ریاستی انتخاب میں تمہیں خوداپنی فکر
کرنی چاہئے‘‘ اس خطاب کے اندر جو مایوسی اور شکست خوردگی ہے اسے ہرکوئی
محسوس کرسکتا ہے۔ اس سے پارٹی کے کارکنان کا حوصلہ کس قدر پست ہوگا اس کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جبکہ یہ وہی رہنما ہے جس نےایک بارخود اپنے
متعلق کہا تھا’’ میں ایک دن وزیراعظم بننے کے امکان سے انکار تو نہیں کرتا
مگر اس کیلئے ابھی وقت ہے‘‘۔ کون جانتا تھا کہ لالو چالیسا کاا ختتام اس
قدر عبرت خیز ہوگا ۔ رابڑی دیوی کے مطابق وہ اپنے بیٹوں تیجسوی اور تیج
پرتاپ کی مدد سے پارٹی چلائیں گی۔ لالو پھر ایک بار وہ غلطی دوہرانے جارہا
ہے جس نے نتیش کمار کو اس کا دشمن بنادیاتھا۔ اگر ۱۹۹۷ میں اس نے رابڑی کے
بجائے نتیش کو بہار کا وزیراعلیٰ بنایا ہوتا تو آر جے ڈی نہیں ٹوٹتی اور
ممکن ہے آج بہار میں نتیش وزیراعلیٰ اور دہلی میں لالو کا بینی وزیرہوتا
لیکن اقرباپروری کے چلتے یہ کیونکر ممکن تھا؟
لالو کے جیل چلے جانے سے کچھدانشوروں کو یہ خوش فہمی بھی ہے اس سے بدعنوانی
کے عفریت پر لگام لگے گی لیکن لالو کی کیا بساط کہ وہ تو ایک سابق وزیر
ریلوے ہے۲۰۰۰ کے اندر سابق وزیراعظم پی وی نرسمھا راؤ کو بھی نچلی عدالت
نے جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ارکانِ پارلیمان کو ۱۹۹۳میں رشوت دے کر اعتماد
کا ووٹ حاصل کرنے کے جرم میں موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ اس وقت نرسمھا راؤ
بھی لالو کی ماننداقتدار سے محروم تھا ۔ اس کی کانگریس پارٹی نے اسے بے
یارومددگارچھوڑ دیا تھا ۔ دوسال بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ بدل کر۸۳ سالہ راؤ
کو بری کردیا اور اس کے ایک سال بعد یکہ و تنہا راؤ کا انتقال ہو گیا لیکن
اس واقعہ کے باوجود بدعنوانی کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ بے شمار
اضافہ ہوا۔ منموہن سنگھ نے حزب اختلاف بی جے پی کے ارکان پارلیمان کو
خریدنے کی کوشش کرڈالی ۔اس لئے یہ سوچنا کہ اس طرح کے فیصلے بدعنوانی کو کم
کریں گے محض خام خیالی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ لالو کی گرفتاری کا بھرپور فائدہ کانگریس پارٹی اٹھائیگی
اور عوام کویہ گمراہ کن فریب دینے کی کوشش کرے گی کہ بدعنوانی کے خلاف وہ
سنجیدہ ہے۔ اس بابت وہ اپنے حلیف بلکہ پارٹی ارکان کا بھی پاس و لحاظ بھی
نہیں کرتی ۔ اس حکمتِ عملی کا ادنی ٰ سامظاہرہ راہل گاندھی نے پچھلے دنوں
دہلی کے اندر کیا۔حکومت نے داغی ارکان پارلیمان کے تحفظ کی خاطرسیاسی
جماعتوں کو اطلاع کے حق سے مبریٰ رکھنے کا قانون بنانے کوشش میں ناکامی کو
دیکھتے ہوئے اسے اسٹینڈگ کمیٹی کے حوالے کردیا مگر پھر مجلسِ وزراء کے
ذریعہ حکم نامہ تیار کرکےتوثیق کیلئے صدرمملکت کے پاس روانہ کردیا ۔ اس
سارے عرصہ میں کانگریس کا نائب صدر راہل گاندھی غفلت کی نیند سویا رہا لیکن
جب پتہ چلا کہ صدر کو اعتراضات ہیں اور حزب ِ اختلاف اس سے فائدہ اٹھا سکتا
ہے تو اپنے آپ کو خجالت سے بچانے کیلئے ایک تماشہ کھڑا کردیا۔
ایک طرف کانگریس پارٹی کے مختلف ترجمان ذرائع ابلاغ میں اس حکمنامے کو حق
بجانب ٹھہرا رہے تھے۔ ان کو اعتماد میں لے کر منع کئے بغیر راہل گاندھی
پریس کلب آف انڈیا میں جاری اجئے ماکن کی پریس کانفرنس میں پہنچ
گیااوراپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری حکمنامے کو مہمل اور بکواس
قراردے دیا۔راہل نے کہا کہ اسے پھاڑ کر پھینک دیا جانا چاہئے۔ خود میری
پارٹی اسے سیاسی مجبوری قراردیتی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے اس طرح کی بکواس
کو روکا جائے۔اگر ہم بدعنوانی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کی
مصالحت نہیں کرسکتے ۔اس لئے اگر اس طرح چھوٹے چھوٹے سمجھوتے کرتے رہے تو ہر
جگہ ہمیں یہی کرتے رہنا ہوگا۔ جب راہل اٹھ کر جانے لگا تو کسی نے سوال کیا
کہ کیایہ حزب اختلاف کے خوف سے کیا جارہا ہے ۔ اس پر راہل نے آستین چڑھا
کر جواب دیا مجھے حزب اختلاف سے غرض نہیں۔میں اپنی کانگریس پارٹی اور حکومت
کے کام میں دلچسپی رکھتا ہوں اور میرے خیال میں جو کچھ ہماری حکومت نے کیا
ہے وہ غلط ہے‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ راہل کا یہ ڈرامہ کھسیانی بلی کے کھمبا نوچنے والی بات
ہے۔ حزب اختلاف کو صدر کے انکار کا فائدہ اٹھانے سے محروم کرنے کیلئے خود
اپنی حکومت اور اس کے سربراہ وزیراعظم کی پگڑی کو بھری محفل میں اچھال دینا
کہاں کی عقلمندی ہے۔اس وقت منموہن سنگھ اوبامہ سے ملاقات کی تیاری کررہے
تھے۔اس غیر معمولی توہین کے باوجود کانگریس پارٹی راہل گاندھی کی پشت پناہی
میں جٹ گئی۔سوائے وزیراعظم کے سابق میڈیا صلاح کار سنجے بروا کہ جنہوں نے
راہل پر تنقید کرتےہوئے کہا۔ بہت ہوچکا۔ کب تک وہ اس طرح کی بکواس برداشت
کریں گے؟وزیراعظم کو اوبامہ سے ملاقات کے بعد اپنی ساری مصروفیات کو منسوخ
کرکے واپس آجانا چاہئے اور استعفیٰ دے کر وسط مدتی انتخاب کا اعلان کردینا
چاہئے۔ کسی جماعت یا خاندان سے زیادہ اہم قوم کی خدمت ہے ‘‘ وزیراعظم
منموہن نے سنجے بروا کے مشورے کو مسترد کرکے ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک ملک
و قوم سے زیادہ اہمیت کے حامل پارٹی اور خاندان ہے اس لئے کہ اقتدار کا
سوتا وہیں سے پھوٹتا ہے۔ آئندہ انتخاب میں کانگریس پارٹی لالو کی گرفتاری
اور راہل کے ناٹک کی مدد سے اپنی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کرے گی اور اپنے
آپ کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرے گی ۔ اسے اپنی اس سعیٔ لاحاصل
میں کس حدتک کامیابی ملتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ |