ایک گلہری اور طوطے کی دوستی ہوگئی طوطے نے جھٹ سے
ہی گلہری کی دعوت کرڈالی اورگلہری کی خاطر مدارت کے لئے سارادن کھپ کے جنگل
میں دستیاب پھلوں کا ڈھیر جمع کر لیاگلہری طوطے کی مہمان نوازی دیکھ کر
پھولے نہیں سمائی اور خوب مزے سے دعوت اڑانے کے بعد جاتے جاتے طوطے کو بھی
اپنے ہاں آنے کا کہہ کر گئی،دعوت کے دن طوطا خوب بن ٹھن کے گلہری کے گھر
پہنچا گلہری نے والہانہ انداز میں طوطے کو خوش آمدید کہا اور بھاگ دوڑ میں
مصروف ہوگئی ،وہ کبھی درخت کے اوپر جاتی تو کبھی نیچے کبھی دائیں تو کبھی
بائیں،اچھلتی کودتی بھاگتی پھرتی گلہری پہ طوطے کو بہت پیار آرہا تھا اس نے
دل ہی دل میں سوچا کہ گلہری اسکے لئے آج کھانے پینے کا کوئی بہت ہی خاص
انتظام کر ر ہی ہو گی، اسی طرح انتظار کرتے کرتے بہت سا وقت گزر گیا مگر
گلہری اسکے کھانے کے لئے کچھ بھی لے کر نہ آئی یہاں تک کے گھر سے خالی پیٹ
آنے والے طوطے کے پیٹ میں بھوک کے مارے درد ہونے لگا،جب اسکی حالت بگڑنے
لگی تو اس نے گلہری کو آوازیں دینا شروع کیں کچھ ہی دیر میں ہنستی مسکراتی
گلہری ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ طوطے کے پاس آکر بیٹھ گئی،طوطے سے رہا نہ
گیا اور خفگی سے کہنے لگا گلہری اب مجھے کچھ کھلاؤ گی بھی کہ نہیں گلہری
کھلکھلا کر ہنس پڑی اور بولی طوطے ڈیئرچھوڑو یہ کھانے پینے کی باتیں تم آج
بس میری آنیاں جانیاں دیکھو۔
11مئی کو پاکستان کے عوام نے بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ دوستی کے سچے اورکھرے
رشتے کی نئی بنیاد رکھی تھی یہ رشتہ اعتماد خلوص اور احساس کا رشتہ تھا
میاں نواز شریف نے قوم کو لوڈشیڈنگ ،غربت مہنگائی ،بیروزگاری اور بد امنی
سے نجات دلانے کا عہد کیا تو11مئی کو اندھیروں میں ڈوبی ہو ئی قوم نے ان پر
اعتبار کیا اور اپنی محبتیں ووٹ کی صورت میں مسلم لیگ ن پر نچھاور کردیں،
ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوگئی وہ بھی اس اکثریت سے کہ کسی اور
جماعت کے پاس مسلم لیگ ن کو بلیک میل کرنے کا بھی موقع نہ تھا، وعدے نبھانے
اور عوام کی محبت کا جواب اس سے بھی زیادہ پیار سے دینے کی باری اب مسلم
لیگ ن کی تھی لیکن خواجہ آصف کی جانب سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے صاف ہی مکر
جانے سے لے کر ا سحاق ڈار کی عوام کش چکر بازیوں نے دو چار سال میں نہیں دو
تین ماہ میں ہی عوام کو وہ ہاتھ دکھائے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو اب کسی
اپوزیشن کی حاجت باقی نہیں رہی، عوام حکمرانواں کی چین ،ترکی ،امریکہ
اوردیگر ملکوں میں آنیاں جانیاں تو دیکھ رہی ہے لیکن ان کا نتیجہ عوام کے
لئے ناقابل بردا شت حد تک بڑھائی جانے والی مہنگائی اور انکی کی طاقت سے
سینکڑوں گنا بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بلوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے بجلی اور
پیٹرول کے مسلسل بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے مہنگائی کا وہ طوفان آیا ہے کہ
جسکی عوام کو کم از کم اس حکومت سے توقع نہیں تھی اوور بلنگ نے عوام کے اور
بھی کڑاکے نکال کر رکھ دئیے ہیں مرے ہو وؤں کو مارنے کی یہ پالیسی مسلم لیگ
ن کی قیادت کی ہے یا ڈار صاحب کی اپنی اس کا فیصلہ تو وقت جلد یا بدیر ہو
ہی جائے گا البتہ نواز شریف نے جلاوطنی کے 7سالوں سمیت طویل عرصے تک اسحاق
ڈار سے انکے اقتصادی پلان اور پالیسیوں کی بہت سی کہا نیاں سن رکھی تھیں
یہی وجہ تھی کہ وہ بڑے اعتماد اور وثوق سے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی
قتصادی حالت بدلنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن حکومت میں آتے ہی ڈار
سرکار کی نام نہادکرشماتی صلاحیتیں اور سارے کرتب بری طرح سے ٹھس ہوگئے ہیں
بہت سنتے تھے شور پہلو میں دل کا
جو چیرا ایک قطرہ خوں نہ نکلا
اس سے کم نصیبی اورکیا ہو گی کہ اسحاق ڈار کی پٹاری سے باہر آنے والے ہر
سانپ کا رخ بے بس اورلاچار عوام کی جانب ہے،مسلم لیگ ن کے کارکنوں کا حال
بھی کم برا نہیں ہے جس طرف جائیں غصے سے بھرے عوام شیر پر چڑھ دوڑنے کو
پھرتے ہیں،ڈار صاحب کی کرم نوا زیاں کم نہ ہوئیں توکچھ بعید نہیں کہ لیگی
کارکنوں کی حالت بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں جیسی ہو جائے جنہیں آصف زرداری
کے عظیم کرپٹ سیاسی فلسفے کی بھاری قیمت کچھ اس طرح چکانی پڑی تھی کہ
انتخابی مہم میں عوام کو منہ دکھانے لائق بھی نہیں رہے تھے،میاں نواز شریف
ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہیں،ایک طرف روتے سسکتے بلکتے ہوئے عوام ہیں جو
سر تا پا زخم زخم ہیں اور دوسری جانب معیشت دانوں کے روپ میں اعدادو شمار
کے جادوگر ہیں جن کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں یہ لوگ اپنی چرب
زبانی سے اگلے پانچ سال میں ملک کو اقتصادی قوت بنانے کے خواب دکھا کر نواز
شریف کو بے وقوف بنا رہے ہیں ان کو قطعی احساس نہیں کہ غریب عوام ایک وقت
کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں اور 15سال کے جبر مسلسل کے بعد کچھ نہ کچھ
ریلیف کے حقدار تھے۔99ء میں بھی نواز حکومت کی برطرفی کی نوبت لانے میں خود
کو آسمانی مخلوق سمجھنے والے نواز شریف کے چار پانچ قریبی رفقا ء ہی کا
ہاتھ تھا آج بھی قریب ترین لوگوں میں کوئی عوام دوست شخص نظر نہیں آتاحکومت
کتنی بھی پائیدار اور مضبوط کیوں نہ ہو اسے ایک دن ختم ہونا ہے،نواز شریف
کو عوام کی فریاد اور ان ساحروں کے میٹھے سروں میں سے کسی ایک آواز پر کان
دھرنے ہیں اور اس فیصلے لئے انکے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہے ، وہ نہ بھولیں
کہ حکمرانی انہیں خدا کے بعد اس ملک کے عوام نے دی ہے اور عوام نے اس بار
انہیں پورا موقع دینے کی نیت سے وزیر اعظم چنا ہے اب اگر وہ خودہی عوام کی
آہ سے نہ بچنا چاہیں تو پھر انکی مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |