اشرف صبح اٹھا ،ناشتہ کیا ،کچھ راستہ پیدل چل کر وہ بازار
میں کھڑی اپنی گاڑی کے پاس پہنچا اسے صاف کیا اس کا تیل پانی چیک کیا پھر
اپنے سٹاپ پر کھڑا کر دیا ،کچھ دیر بعد اس میں سوار بیٹھے اور وہ اپنی منزل
کی طرف چل پڑی ،آہستہ آہستہ وہ چلتے ہوئے راستے میں سے لوگ بھی بیٹھا رہی
تھی۔ گاڑی کے اندر سیٹس پوری ہو گئیں اب جو سوار بھی آتا وہ گاڑی کے پیچھے
کھڑا ہوتا اور جب وہ جگہ بھی پر ہو گئی تو پھر جو بھی آتا وہ چھت پر سوار
ہوتا ،روٹ پر دوسری گاڑی بہت دیر سے آتی ہے اس لئے اپنے اپنے کاموں پر جانے
والے کوئی دفتر جا رہا ہوتا ہے، کوئی سکول کالج، اور کوئی اپنی محنت مزدوری
پر، سب کو اپنے اپنے وقت پر پہنچنا ہوتا ہے، اس لئے ہر ایک کی یہی کوشش
ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سوار ہو کر وقت پر اپنے کام پر پہنچ جائے۔اس
روٹ پر اوور لوڈنگ پر سختی سے پابندی کی وجہ سے ٹریفک پولیس نے راستے میں
ناکہ لگا رکھا ہوتا ہے جو بھی اوور لوڈ گاڑی وہاں سے گزرتی ہے تو وہ اس کا
چلان کرتے ہیں۔مگر کمال دیکھیں اس قوم کا اور اس قوم کے ان فنکاروں کا
جنہوں نے نا سدھرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔راستے میں جو گاڑی بھی کراس ہوتی
ہے وہ ایک ایک پل کی خبر دیتی جاتی ہے کہ ٹریفک پولیس کا ناکہ فلاں جگہ پر
ہے دیکھ کر جانا ،آج ناکے میں کون کون سے ٹریفک اہلکار ہیں ،اس طرح گاڑی کا
ڈرائیور اور کنڈیکٹر حالات سے مکمل طور پر با خبر رہتے ہیں۔ناکے سے چند
میٹر پہلے گاڑی والا اپنی گاڑی روکتا ہے اور تمام اوور لوڈ یعنی فالتو سوار
کو اُتاردیتا ہے ان سے کہتا ہے کہ آپ پیدل آجائیں میں یہ ناکہ گزر کے اگے
کھڑا ہو جاوں گا،سوار جو روزانہ آتے جاتے ہیں وہ ان کے ساتھ تعاون کرتے
ہوئے اتر جاتے ہیں۔گاڑی اب اوور لوڈ نہیں ہوتی اور ناکہ آتا ہے وہاں سے وہ
گزر جاتی ہے اس کا کوئی چلان نہیں ہوتا اور نہ کوئی اس کو روکتا ہے۔اس طرح
روزانہ اس روٹ پر چلنے والے پبلک ٹرانسپورٹ والے قانون کی آنکھ میں دھول
جھونک کر خود کو بہت بڑا فنکار سمجھتے ہیں۔اور قانون کے ان محافظوں کا کمال
بھی دیکھیں کہ جب پیدل لوگ اس ناکہ سے گزرتے ہیں تو ٹریفک اہلکار ان کو یہ
کہتے ہیں کہ جلدی جاو آگے گاڑی کھڑی ہے آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کا مطلب
یہ بھی ہے کہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں اپنی اپنی جگہ سب فنکار ہیں۔ یہ اس
ملک میں کسی ایک جگہ یا کسی ایک روٹ پر نہیں ہوتا یہ پاکستان سمیت
آزادکشمیر بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ایسا ہوتا ہے کہ عوام اور ہر وہ آدمی
جو کسی بھی طرح سے کام کر رہا ہو وہ قانون کو توڑنا اپنا فن اور قانون کی
آنکھ میں دھول جھوکنااپنا اعزاز سمجھتاہے۔مگر یہ حقیقت جو میں روزانہ کی
بنیاد پر صبح شام دیکھتا ہوں آزادکشمیر کے شہر باغ کے روٹ باغ سے سدھن گلی
کی ہے۔یہ حقیقت صرف ٹریفک کے قانون کی حد تک ہی نہیں بلکہ یہاں پر ہرشخص
کسی بھی طرح سے چاہے وہ اپنا کام کر رہا ہو یا پھر وہ کسی ادارے میں ملازم
ہو، وہ پیدل چلنے والا ایک عام آدمی ہو، وہ رول،قاعدہ قانون،اصول توڑنے میں
پہل کرے گا ۔
کہنے کو شاید یہ آپ کو عام بات لگے یا پھر آپ اس کو کوئی نئی بات نہ کہے
مگر ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ کیا ہم با حیثیت قوم کبھی ترقی کر سکتے ہیں
کیا ہم اپنے ملک معاشرے میں قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھنے کے
خواہشمند ہو سکتے ہیں ؟ہوٹلز پر،دفاتر میں،آتے جاتے راستوں میں ہم
امریکہ،برطانیہ ،چین،جاپان اور دوسرے یورپین ممالک کے قصے کہانیاں سناتے
ہوئے تھکتے نہیں مگر کبھی یہ تک نہیں سوچا کہ ان ممالک میں بھی یہی قانون ،اصول،ضابطے
ہیں، ان ممالک کی عوام اس قدربا شعور اور با اصول ہے کہ وہ اکیلے ہوں یا
کسی ادارے میں ملازم سب سے پہلے قانون کی پاسداری آپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔با
شعور اقوام،یا ترقی پسند ممالک میں عوام ہی قانون کی محافظ ہوتی ہے وہاں پر
قانون کو نافذ کروانے کے لئے عوام کے پیچھے نہیں بھاگا جاتا مگر ہم ایک طرف
تو خود کو اکیسویں صدی کے باشعور انسان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری
طرف ہمارا عملی مظاہرہ جہالت کے زمانے کا ہے۔اوور لوڈنگ ہو یا اشارہ
توڑنا،رشوت لینا ہو یا اپنی پسند کے لوگوں کو نوکریاں دینا،اپنی دکانداری
میں جھوٹ بول کر گاہگ کو لوٹنا ہو یا پھر ایکسپائر مال بیچ کر ایمانداری کو
داغدار کرنا،جھوٹ پر جھوٹ بول کر غریبوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی باہر
بھیجنے کا جھانسہ دے کر لے اڑنا،یا کمیشن کے چکر میں عوامی ترقیاتی منصوبے
روک کر عوام کو اذیت دینا،یا پھر عوام سے جھوٹے وعدے کر کے ووٹ لے کر اپنی
سیٹ پکی کرنا ہو، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس خطے کا انسان سر تا پا بد
نظمی اور قانون شکنی کے لبادے میں ملبوس فخر سے گردن اکڑائے اس زمین پر چل
رہا ہے ۔اس سے بڑی حیرانگی اور کیا ہوگی کہ قدم قدم پر قانون کی پامالی
کرنے والے،ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈالنے والے،اصولوں کو اپنے
پاوں تلے روندنے والے اس ملک میں اور آپ، دن رات ترقی اور بہتری کے خواب
دیکھ رہیں ہیں۔سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ کونسا چراغ ہے ،وہ کونسا جادو
ہے جو ہمیں اس حالت میں ترقی دلائے گا،کیا فرشتے اور جن آکے اس ملک کو اس
خطے کو سنوارے گے۔دوسروں پر تنقید کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں مگر جب
اپنی باری آتی ہے تو دلائل اور مجبوریاں بتانے میں بھی مہارت رکھتے
ہیں۔حقائق سے آنکھیں چورا کر اس کو بدلا نہیں جا سکتا،سچائی کو حالات
واقعات کا لیپ لگا کر اس کو چھپایا نہیں جا سکتااگر برتن کا پیندہ توڑ دیا
جائے اور یہ امید رکھی جائے کہ کل تک یا صبح ہونے تک یہ پانی سے بھرجائے گا
مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔کردار یہ نہیں ہوتا کہ سامنے سامنے جی جی
کہا جائے اور پیٹھ پیچھے جو دل میں آئے کرتے جاو بلکہ کرادر تو انسان کی وہ
پرفامنس ہوتی ہے جو وہ اپنی زندگی میں قدم قدم پر دیتا ہے۔سوچئے گا اپنے
ساتھ انصاف کیجیے گا کہ کیا ہم معذب قوم ہونے کا حق رکھتے ہیں؟کیا ہم اپنے
آپ کو با شعور قوم کہہ سکتے ہیں؟کیا ہم اس طرح سے ترقی کر پائیں گے؟اگر ہم
نے آپنے اپ کو ،اپنی سوچ کو ،اپنے رویے کو،اپنے کردار کونہ بدلا تو تباہی
اور بربادی کے جس دہانے پر ہم کھڑے ہیں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا
سکتی۔ترقی کے لئے ہمیں مہنگے اور خوبصورت لباس زیب تن کرنے کی نہیں بلکہ
اپنیکردار کو مثبت بنانے کی ضرورت ہے۔قانون پر تنہائی میں بھی عمل کرنا
اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی قانون دان کے سامنے کیا جاتا ہے۔باکردار قوم
بننے کے لئے ہم سب کو قانون اصول ،ضابطے،اخلاقیات کا محافظ بننا ہوگا۔ |