اللہ تعالیٰ نے خواتین کو نہ صرف گھرکی زینت اوردلی
سکون کے لیے پیداکیاہے،بلکہ انھیںسماج کا ایک اہم حصہ قرار دیا ہے-ان کے
بغیرخوبصورت اورپاکیزہ انسانی معاشرہ کا خواب ادھورا ہے۔
لیکن آج خواتین کے آپسی رشتوںکو دیکھ کر ڈاکٹراقبال کےاس مصرعے پریقین
کرنا مشکل معلوم ہوتاہے کہ: ؎
وجودِزن سے ہے تصویرکائنات میںرنگ
خواتین جنھیں ہم مختلف پاک رشتوںسے یادکرتے ہیں جیسے ماں ،بیٹی،بہن
وغیرہ،جب ساس اوربہوکی شکل میں ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں تو اس کے
بجائے کہ آپس میں ایک دوسرے کی قدر کریں،ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام
آئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا برتاؤ کریں،ایک دوسرے
کو نیچادکھانے میں اپنی تمام تر قوتیں لگادیتی ہیںاور اس کا نتیجہ یہ
نکلتاہے کہ نہ تو وہ خود چین سے رہتی ہیں اور نہ ہی اپنے احباب واقارب کو
ہی سکون سے رہنے دیتی ہیں۔جب کہ دوسروںپر ظلم کرنا،انھیںرسواکرنا اور
کمترسمجھنانہ صرف سماجی ومعاشرتی اعتبارسے سخت نقصان دہ ہے، بلکہ اللہ
تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰى أَنْ
يَّكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّنْ نِسَاءٍ عَسٰى أَنْ
يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ۔(حجرات:۱۱)
ترجمہ:کوئی مرد کسی مرد کا مذاق نہ اڑائے ہوسکتاہے کہ جس کا مذاق اڑایاجائے
وہ مذاق اڑانے والے سے بہترہو اور کوئی خاتون کسی خاتون کا مذاق نہ اڑائے
،ہوسکتا ہے کہ جس خاتون کا مذاق اڑایاجارہا ہو وہ مذاق اڑانے والی خاتون سے
بہتر ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:الْمُسْلِمُ
اَخُوالْمُسْلِمِ،لَايَظْلِمُهٗ وَلَايَخْذُ لُهٗ،وَلَا
يَحْقِرُهٗ۔(مسلم،تحریم الظلم)
ترجمہ:مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے تو نہ اس پر کوئی ظلم کرے ، نہ کوئی اس
کو شرمسارکرے اورنہ کوئی اس کو کمتر اورحقیرجانے۔
یہاں لفظ مسلمان میں مرداور خاتون دونوںشامل ہیں۔ اب اگراس حدیث کی نسبت
خواتین کی جانب کریں تو یوں سمجھاجاسکتاہے کہ مسلم خاتون، مسلم خاتون کی
بہن ہے تونہ کوئی خاتون ،دوسری خاتون پر ظلم کرے اور نہ کوئی خاتون ، دوسری
خاتون کو رسوا کرے اور نہ کوئی خاتون کسی دوسری خاتون کو کمتر جانے۔
اس کے باوجود اگرکوئی خاتون کسی خاتون کی بے عزتی کرتی ہے،اس کو ستاتی ہے
یا اس پر کسی بھی طرح سے ظلم کرتی ہے تو کل قیامت میں اس سے سخت باز پرس
ہوگی ۔اب چاہے یہ ظلم ساس کی جانب سے بہو پرہو یا بہو کی جانب سے ساس پر،
بہر صورت پکڑہوگی۔
اسی طرح ساس اوربہو ایک دوسرے کی برائی اور غیبت کرنے میں بھی پیچھے
نہیںرہتی ہیںبلکہ تل کا پہاڑبنادیتی ہیں ، ایک دوسرے کے عیوب کوچٹخارے لے
لے کر بیان کرتی رہتی ہیںاورایک دوسرے کوبرے ناموںسے یاد کرتیں، جب کہ
قرآن کریم میںنہ صرف غیبت کی ممانعت آئی ہے، بلکہ یہ بھی بتایاگیاہے کہ
غیبت کرنا گویا مردار کا گوشت کھانا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ
أَحَدُكُمْ أَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا۔(حجرات:۱۲)
ترجمہ:ا ور کوئی شخص کسی کی غیبت نہ کرے،کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسندکرے
گاکہ وہ اپنے مرداربھائی کا گوشت کھائے۔
یونہی ارشادباری تعالیٰ ہے:وَلاَتَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ ۔
(حجرات:۱۱)ترجمہ:اورناموں کو نہ بگاڑو۔
موجودہ حالات پر نظر ڈالیںتوساس اوربہوکے مسائل سلجھنےکے بجائے الجھتے ہی
جارہے ہیں۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا ایک ہی سبب ہے اوروہ ہے اسلامی
تعلیمات سے روشنی حاصل نہ کرنا،مثلا:خواتین کے دلوں کا پاکیزہ نہ ہونا،
اخلاقی تربیت سے دورہونا،نیزان کے دلوںمیں حکمرانی اور حسد جیسے جذبات کا
بڑھنااوریہ جذبہ اس وقت شدیدتر ہوجاتا ہے جب کسی ساس کے گھرکوئی خاتون
بہوکی شکل میں داخل ہوتی ہے۔القصّہ آج ساس بہو کے جھگڑےاتنےعام ہوگئے ہیں
کہ شایدہی کوئی ایساگھر ہوجواس وباکی زدمیںنہ ہو ۔
سوال یہ ہے کہ اس جھگڑے کاذمے دارکون ہے ؟
میرے خیال میں اس کی اصل ذمے دار خودخواتین ہیں۔
ہاں!اس بات سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ والدین اورگھرکے بڑے بزرگ بھی
اس جھگڑے کےبراہ راست نہیں تو بالواسطہ ذمے دار ضرور ہیں۔
لیکن سردست میں صرف ساس اور بہو کےمثبت ومنفی رویے پر گفتگو کروںگاجو اُن
کے درمیان جھگڑے کی اصل بنیادہےاور یہ ایک حقیقت ہے کہ ساس اور بہو کے
آپسی تعاون ہی سےان مشکلات سے نبٹاجاسکتا ہے۔ورنہ دنیا لاکھ چاہ لےکہ ساس
اوربہو کی الجھنیں سلجھ جائیں ،سلجھ نہیں سکتیں جب تک کہ ساس اور بہوخود اس
مسئلے کو سلجھانانہ چاہیں۔
ساس اوربہوکے درمیان تعلقات خراب رہنےکے متعدد اسباب میںسے ایک اہم سبب یہ
ماناجاتاہے کہ ان دونوں میںسےکوئی بھی ایک دوسرے کی ماتحتی قبول کرنے کے
لیے راضی نہیںہوتی،بلکہ حدتو یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو برتر
ثابت کرنے اورایک دوسرے کو نیچا دکھانےکے لیے غیر انسانی سلوک کرنے سے بھی
نہیں چوکتی اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں عاجزی اورانکساری سے کام
نہیںلیتیںاور ہمیشہ غرورو گھمنڈ میںچوررہتی ہیں۔
اسی طرح اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپسی فتنہ وفسادسے بچنے
کی سخت تاکید فرمائی ہےاور جھگڑا کو شیطانی عمل قراردیاہے۔ ارشادباری
تعالیٰ ہے:
إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ
لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا۔ (اسرا:۵۳)
ترجمہ:بے شک شیطان انسانوںکے درمیان جھگڑا پیدا کرتاہے کیونکہ شیطان انسان
کا کھلادشمن ہے۔
ساس اوربہو کی نااتفاقیوںکی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ساس اپنی بہو
کومحض پرائے گھر کی بیٹی مانتی ہے اوربہو سے ہروہ کام بھی لینے کو جائز
مانتی ہےجو کام وہ اپنی بیٹی سے کسی بھی قیمت پر کراناپسندنہیںکرتی۔اس کے
باوجوداگر بہو سے کچھ غلطی ہوگئی تو نظرانداز کرنے کے بجائے اس پر لعنت
ملامت کرنے لگتی ہے،جب کہ دوسری جانب اگر اس کی اپنی بیٹی بڑے سے بڑا نقصان
بھی کردے تواسے بچی سمجھ کر ٹال دیتی ہے یا پھر صبروضبط سے کام لےلیتی ہے
،یہ جذبہ بھی اسلام کے جذبۂ عدل وانصاف کے خلاف ہے،چنانچہ ایسے موقع پر یہ
حدیث یادرکھنی چاہیے کہ:جو بڑوںکی عزت نہیںکرتا اور چھوٹوں پر شفقت
نہیںکرتاوہ ہم میںسے نہیں۔
اگر ایک ساس ۔ بہواپنے اپنےمعاملےمیںعدل و انصاف کا رویہ قائم رکھے
،یعنی:ساس بہوپر شفقت کرے اور بہوساس کی تعظیم کرے تو بہت سی آپسی
ناچاقیوں اور نااتفاقیوں سے بچاجاسکتاہے۔
سا س۔ بہو میں من مٹاؤ کے بنیادی اسباب میںایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں
اپنے اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں یہ بھول جاتی ہیںکہ ساس۔بہوکے بھی
کچھ حقوق ہیں جن کا اداکرنا ایک دوسرے پر لازم وضروری ہےاوروہ آپس میں ایک
دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھ پاتیں۔ جب کہ اللہ اوراس کے رسول صلی الہ
علیہ وسلم نےہر انسان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیاہے۔حدیث شریف میں ہے:
أَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهٗ۔ (معجم کبیر،وہب بن عبداللہ)
یعنی ہر حق دارکو اس کا حق اداکرو۔
ایسے موقع پر اگر حق والاحق نہ ملنے کی صورت میںاللہ کے لیے صبرکرےاورحق
اداکرنے والا حق کی ادائیگی کے تعلق سے اپنی ذمے داری کو سمجھ لے تو
دونوںنہ صرف ایک پرسکون زندگی گزارسکتے ہیں بلکہ اللہ کی رضا بھی حاصل
کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ درج ذیل کچھ باتوں کو دھیان میں رکھا جائے توساس۔بہوکی بہت سی
پریشانیاں دورہوسکتی ہیں،جیسے:
۱۔ساس(ماں کی حیثیت سے)بیٹے پرصرف اپنا حق نہ سمجھے ،ایسے ہی بہو(بیوی کی
حیثیت سے)شوہرپرصرف اپنا حق نہ سمجھے ،بلکہ دین اسلام نے جس حدتک دونوںکے
حقوق مقررکیے ہیںاسی حدتک ہر دوخاتون بیٹا/شوہر سے اپنے اپنےحقوق کی تمنا
رکھےاوراللہ کے حدودسے آگے نہ بڑھے۔
۲۔اگربیٹابحیثیت شوہر اپنی بیوی سےمحبت رکھتاہے تو ساس (ماں)ہرگزیہ نہ
سمجھےکہ اس کاحق ماراجارہاہے ،بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یہ دھیان
میں رکھے کہ:
وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً۔(روم:۲۱)
اللہ تعالیٰ نے شوہراوربیوی کے درمیان محبت رکھی ہے۔
توپھروہ دونوںآپس میںمحبت کیوںنہ کریںگے۔ اسی طرح اگرشوہر بحیثیت بیٹااپنی
ماںکی خدمت کرتاہے تو بہو (بیوی) ہرگز دل میں یہ خیال نہ لائے کہ اس کا حق
چھینا جارہاہے،بلکہ وہ یہ یقین رکھے کہ وہ ماں کی اطاعت کرکے اللہ تعالیٰ
کے حکم پر عمل کررہا ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔(بقرہ:۸۳)
یعنی ماں باپ کے ساتھ اچھے سے پیش آؤ۔
۳۔بیٹے کو حق زوجیت اداکرتے دیکھ کر ساس (ماں)کو یہ کبھی نہ سوچنا چاہیے کہ
اس کا بیٹا بیوی کا غلام ہے یا بیٹا،بیوی کے بہکاوےمیں آکراس کا خیال
نہیںرکھے گا،ایسی صورت میں یہ یقین دل میں بسالے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق
کی ادائیگی کرکے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کررہا ہے
،بلکہ بہتر تو ہے کہ وہ اپنی توجہ بیٹے کی طرف سے ہٹاکر اللہ کی جانب
کرلے۔اسی طرح مادری حق ادا کرتے دیکھ کر بہو (بیوی)کو کبھی یہ نہیں سوچنا
چاہیے کہ اس کا شوہر اپنی ماں کے قبضے میں ہےاوراپنی ماں کی باتوںمیں
آکرکہیں اس کی حق تلفی نہ کردے،بلکہ وہ بھی یہ یقین رکھے کہ وہ ماں کی
فرماںبرداری کرکے اللہ کی بندگی کررہاہے اور حقوق کے لیے شوہر کی جانب
لولگانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی جانب لولگالے۔
۴۔ساس اپنے دل میں کبھی یہ خیال نہ لائے کہ شادی سے پہلے اس کابیٹاجوکچھ
لاتاتھاوہ میری قدموں میںڈال دیتا تھا اب اس میں اس کی بہو بھی حصے داربن
گئی ہے ،بلکہ ہر حال میں دونوں اللہ کی تقدیر اور اس کی رزاقیت(روزی دینے
والا اللہ ہے)پر ایمان کامل رکھیں۔
۵۔ساس کبھی یہ بات بھی ذہن میں نہ لائے کہ اس کا بیٹا جو شادی سے پہلے ہر
بات میںصرف اسی کے مشورے کو اہمیت دیتا تھا اب اس میں بہوبھی اس کی شریک
ہونے لگی ہے وغیرہ۔بلکہ یہ یقین رکھے کہ مشورے میں جتنے زیادہ لوگ شریک
ہوںگے اس میں اسی قدربرکت ہوگی۔
اب اگروہ دونوں ایک دوسرے کے لیے برےخیالات رکھتی ہیںتویہ ایک ماں کی جانب
سے بیٹے کے لیےاورایک بیوی کی جانب سے شوہر کے لیے بدگمانی ہوگی۔ جو نہ ایک
ساس کے لیے(بحیثیت ماں) اچھاہے اور نہ ایک بہوکے لیے(بحیثیت بیوی)مناسب
ہے۔بلکہ مذہبی اعتبارسے بھی یہ بہت بڑاجرم ہے۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
اِجْتَنِبُواكَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۔
(حجرات:۱۲) یعنی زیادہ گمان سے بچو،کیونکہ بعض گمان گناہ ہے۔
اس سلسلے میں بالخصوص ان خواتین کے لیے جو ساس بن چکی ہیں، ایک اوربات
غورکرنے کی یہ ہے کہ جب ساس، بہو کی شکل میں آئی تھی توکیا اس نے اپنے
شوہرپر اپنا حکم چلانے کی کوشش نہیں کی تھی؟ کیا اس وقت وہ یہ نہیں چاہتی
تھی کہ گھرکا ہر کام کاج اس کے حساب سے ہواور ہرکام میں اس کی مرضی شامل
رہے،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگرشوہرنے کبھی گھرکاکوئی کام اس کی مرضی کے
خلاف کردیا تونہ صرف سخت ناراضگی کا اظہارکرتی تھی، بلکہ سارا آسمان سرپر
اٹھا لیتی تھی تو اب جب کہ وہ بھی ایک عدد بہوکی ساس بن چکی ہے اور اس کی
بہوئیںیہ چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر نامداران بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائیں
تو کیا برا کررہی ہیں؟ کیونکہ یہ بہوئیں کوئی انہونی یانیا کام توانجام
نہیں دے رہی ہیںبلکہ اسی کاریگری اورہنرمندی کا مظاہرہ کررہی ہیں جوآج کی
ساس پہلے بہوکی شکل میں کرچکی ہےاور حق تو یہ ہے کہ یہ بہوئیں اپنی ساس کے
نقش قدم پر چل رہی ہیں۔
اگر بہو کا یہ عمل آج کی ساس کوناگواراورناپسندیدہ لگ رہاہے تووہ اپنی ان
کارگزاریوںکا محاسبہ کرے جو اس نے اپنی ساس کے ساتھ کیاتھا۔اس کے باوجود
اگر آج کی ساس یہ چاہتی ہےکہ بہوئیں اس کی عزت کریں اور اس کی خدمت کرنے
میںکسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی سے کام نہ لیں تو وہ اپنی بہوئوں کو محض بہو
نہ سمجھیں، بلکہ انھیںبھی اپنی بیٹی سمجھیں اورجہاں ان پر اپنا حق سمجھتی
ہیں تو اسی طرح اپنے اوپر بھی ان کا حق جانیں۔
یونہی آج کل کی بہوئوں کو بھی اپنامحاسبہ کرناہوگاکہ جب وہ اپنے ماں باپ
کے گھر تھیںاور ان سے کبھی کوئی غلطی یا نقصان ہوجاتا تھا تو انھیںماں باپ
کی جانب سے ڈانٹ پھٹکارسننی پڑتی تھی یاپھر وہ اپنی غلطی کا احساس کرکےاپنے
ماں باپ سے معافی مانگنے میں کوئی شرم وندامت محسوس نہیں کرتی تھیں، اب اگر
وہ اپنے سسرال میں ہیں اورکسی غلطی یا نقصان ہونے پر ساس یاسسرنے ڈانٹ
پلادی تواس پر صبر کرناان کی اخلاقی ذمےداری ہے ۔اس کی وجہ سے جہاں ساس،
سسر کے دلوں میں بہوئوں کے لیے نرم گوشہ پیداہوگا وہیں دوسری طرف فتنہ
اورفسادکا دروازہ بھی بندہوجائے گا۔
بالفاظ دیگرساس،بہو پر شفقت ومحبت کا ہاتھ پھیرے توبہو ،ساس کی عزت وتعظیم
کرے ۔آپس میںاس طرح کا سلوک کرنے سے جہاں ایک طرف ساس اور بہو کو دنیاوی
بہت سارے فائدے ہوں گے وہاں دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس
قول پرعمل بھی ہوجائے گاجس میں فرمایاگیاہے کہ:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا۔
(کنزالعمال)
ترجمہ:وہ ہم میں سے نہیں جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوںپر شفقت نہیں
کرتا ۔
چنانچہ ساس اوربہوکے مسائل کے حل کے لیے نہایت سمجھ بوجھ اور ہوشیاری کے
ساتھ،ساس اور بہوکے رشتوں میں پاکیزگی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے لازم
ہے کہ رشتو ںکی بنیاداخلاص پر رکھی جائے ،دلوںسے بغض وکینہ اور جلن وحسدکو
دورکیاجائے ،ساس کو ماں کا درجہ دیا جائے تو بہوکے ساتھ بیٹی کی طرح سلوک
کیاجائے ۔ساس،بہو کو یہ احساس دلائے کہ وہ گھر کی نوکرانی نہیں بلکہ گھر کی
ایک اہم فرد اورمالکہ ہے،اسی طرح بہو اپنی خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے
ساس کویہ باورکرائے کہ وہ اس کی سگی ماں کی طرح ہیں۔
غرض کہ دلوں کی صفائی اور نیک نیتوں کے ساتھ،ساس بہو اپنےتعلقات اورمعاملات
کا خیال رکھیں تو کبھی کوئی ایسی بات پیش ہی نہیں آئے گی جو اُن کے درمیان
ناچاقی کا سبب بن سکے،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ساس ۔بہو مل جائیں تو
ویران گھر بھی جنت بن سکتا ہے |