ہم سب بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں عورت کا
کردار کتنا واضح ہے جس کے بارے میں فرمانِ الہٰی ہے کہ: ’’ مومن مرد اور
مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘‘ ہم لوگ اس بات سے بھی منحرف نہیں ہو
سکتے کہ اسلام کے پھیلانے اور اس کی دعوت پہنچانے میں اس کا ایک عظیم
نمایاں کردار ہے۔آغازِ دعوت (اسلام) میں تاریخ حضرت خدیجہ، بروز ہجرت حضرت
اسماء، احد کے دن حضرت اُمّ اَمّارہ اور یومِ حنین کو حضرت اُمّ سلیمہ کے
کردار کو بھی نہیں بھلا سکتی۔ عورت وہ ماں ہے جو اپنی اولاد کے ذریعے ایک
پاکیزہ اور خوبصورت معاشرے کی بنیادیں استعار کرتی ہے، ایک بیوی ہے جو اپنے
خاوند نامدار کو ایثار و قربانی پر آمادہ کرتی ہے، اور ایک عالمہ ہے جو
قرآن حفظ اور حدیث شریف کی روایت کرتی ہے۔ پس اس بات پر تعجب کیوں ہو کہ اس
کا آج بھی کل کی طرح زمانے کے چیلنجز کا سامنا کرنے اور فروغِ اسلام میں اس
کا اپنا نمایاں کردار ہو۔
ہمارا ایمان ہے کہ اسلام وہ منفرد دین ہے جو عورت کو اس کے حقوق دیتا ہے
اور اس کی عزتِنفس اور خود داری کا محافظ بھی ہے۔ عہدِ اسلام کے آغاز میں
عورت سامانِ تجارت کی مانند تھی، اس کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، اسے زندہ
درگور کیا جاتا تھا جبکہ یہ معصوم بچی ہوتی۔ اس کی مرضی کے برعکس اس کی
شادی کروا دی جاتی تھی۔ اسے سامان اور دیگر اشایء کی طرح خاوند کی وراثت
خیال کیا جاتا تھا۔ اور رشتہ داروں کی میراث میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا
تھا۔ اس کے خلاف بد ترین مظالم روا رکھے جاتے ، اور یہ زمانہ جاہلیت میں
محض عربوں کا دستور نہیں تھا بلکہ دیگر اقوام اور تہذیبوں کے حالات اس سے
بھی بدتر تھے۔یونان، روم، فرانس ، انگلستان ، ہندوستان اور شریعت موسوی
(یہودیت) کے علاوہ دیگر مذاہب اور تہذیبوں کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ عورت کو
اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبایا جاتا۔ یہ معاشرہ عورت کے
کسی حق کو تسلیم نہیں کرتا تھا وہ تو بس ایک گِری پَڑی چیز تھی۔ پھر اسلام
کا عظیم دور شروع ہوا، اس نے عورت کو اس کے حقوق واپس دلائے، اس کی شان
بلند کی اور اس کی عزت میں خوب خوب اضافہ کیا۔ پس عورت ایک ماں ہے، بہن ہے،
بیٹی ہے اور بیوی بھی ہے۔ مرد کی ہمشیرہ ہے، اسی لئے حضور نبیٔ کریم ﷺ نے
عورت کے حقوق کو اُمت کے اہم ترین مسائل کے ضمن میں تاکید اً ذکر کیا ہے،
اور خطبہ میں بھی فرمایا: ’’عورتوں کے معاملہ میں ہمیشہ ربّ سے ڈرو، تم نے
انہیں اﷲ کے ساتھ وعدہ کرتے ہوئے شریکِ حیات چنا ہے، ان کے ساتھ ازدواجی
تعلقات قائم کرنا بھی حکمِ الہٰی کے تحت جائز ٹھہرا، پس تم میں بہتر وہ ہے
جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بھلائی کرے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اپنے
اہلِ خانہ کے ساتھ بھلائی کرنے والا ہوں۔‘‘
دینِ اسلام نے آکر بچیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا۔ عورت کو وراثت
میں حق دیا۔ والد کے گھر ہو یا شوہر کے، دورانِ قیام اس کے نان و نفقہ کی
کفالت کی ضمانت دی۔ شادی کے لیئے اظہارِ رائے کی آزادی دی ۔ ایسے قوانین و
ضوابط وضع کئے جو تعدد ازواج کی صورت میں عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں
اور ان کو چار تک محدودکر دیا جب کہ اس سے پہلے مرد حضرات بغیر کسی قاعدہ و
قانون کے جتنی خواتین سے چاہتا شادی کر سکتا تھا۔ اسلام نے مرد و زَن کے
بیچ نسلی اختلاف کا بڑا خیال رکھا ہے، یہ اختلاف زمین پر بود و باش کے
حوالے سے دونوں کے متعین کردہ کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہی سب تو وجہ ہے
کہ شریعت کے احکامات دونوں کے بارے میں جُدا جُدا ہیں۔ مرد کو نماز و روزہ
کی ادائیگی کا حکم ہے اور وہی حکم حالتِ حیض و نفاس میں عورت سے ساقط ہو
جاتا ہے۔ اسلام مرد پر اسلامی ریاست کی خاطر جہاد اور دفاعی اُمور کو فرض
قرار دیتا ہے جب کہ یہ عورت پر فرض نہیں۔اسی طرح مرد و زن کے مابین مکمل
برابری کا دعویٰ بالکل ناقص ہے، (واﷲ اعلم )یہ اس خودرو جھاڑی کی طرح ہے جس
کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، کیونکہ برابری دو ہم جنس چیزوں کے درمیان ہوتی ہے
اور کوئی بھی با شعور انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ مرد و زن ہر معاملہ میں
ایک جیسے ہیں، البتہ اسلام مختلف مقامات، قوانین اور شرعی امور کی بجا آوری
میں دونوں کو برابر قرار دیتا ہے۔
عورت کو مرد کی کاربن کاپی بنانے کی کوشش ایک معیوب اَمر ہے اور اس سے اس
کی عزت میں کمی واقع ہوئی ہے نہ کہ اضافہ، جیسا کہ بعض لوگوں کا اس سلسلے
میں گمان ہے۔اسلام نے حقوق و فرائض کی بجا آوری کے معاملہ میں مرد و زن کے
درمیان عدل سے کا م لیا ہے۔جبکہ مرد کی ذمہ داریاں زیادہ اور سخت ہیں تو یہ
ایک فطری بات ہے کہ اس کے حقوق بھی اسی طرح ہوں تاکہ اس کے کاندھوں پر پڑنے
والے بوجھ برابر ہوں۔ علاوہ ازیں جب عورت کے فرائض کم ہیں تو اس کے حقوق
بھی فرائض کے مطابق ہونے چاہیئں، یہی تقاضۂ عدل ہے۔
ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ کسی معاشرتی یا ذاتی ضرورت کے پیشِ نظر عورت کو
گھر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ معاژرہ مختلف پیشوں میں عورت کا محتاج ہے، جیسے
میڈیکل، نرسنگ، تدریسی عمل۔ عورت رسولِ اکرم احمدِ مجتبیٰ ﷺ کے ساتھ غزوات
میں شریک ہوتی، زخمیوں کی تیمارداری کرتی، کھانا تیار کرتی اور پانی بھر کے
لاتی تھی۔ مزیدں براں نبی آخر الزماں ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ بھی کرتی تھی اور
اس کی مثال حضرت نسیبہ بنت کعب انصاریہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہا) ہیں۔
عورت ذاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنے کی محتاج ہے،
پرھائی کی غرض سے یا اپنی اور اپنی اولاد کی روزی روٹی اور اخراجات کی خاطر
کام کے سلسلہ میں، اسلام نے یہ جائز حق اسے عطا کیا ہے۔ اس کے لیئے ضروری
امر یہ ہے کہ عورت کا گھر سے باہر جانا شرعی ضابطے کا پابند ہو، وہ شرعی
پردہ کرے، (مرد کے ساتھ) تنہا نہ رہے، اور خوشبو نہ لگائے تاکہ اس کا گھر
سے باہر جانا معاشرے اور اس کی اپنی ذات کے لیئے فتنہ و فساد کا باعث نہ
بنے۔ مسلمان عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری اولاد کی تربیت اور ایسی پاکیزہ
نسلوں کی تیاری ہے جو معاشرہ کو قوت و ترقی دے۔ عورت ہی ہیرو بناتی ہے اور
عظیم لوگ بھی تیار کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں تباہ کن معاشرتی بیماریاں نہ پھوٹتیں اگر عورت اپنے
تربیتی کردار سے کنارہ کشی نہ اختیار کرتی، اور کٹھن ذمہ داریوں و ضروری
اُمور میں مرد کے ساتھ تگ و دُو کرتی رہتی۔ |