قربانی……مسائل واحکام

قرآن مجیداوراحادیث مبارکہ میں متعددمقامات پرقربانی کاذکرآیاہے۔قربانی کالفظ ’’قرب‘‘سے لیاگیاہے۔عربی زبان میں قربان!اس چیزکوکہتے ہیں جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جائے۔جبکہ اصطلاحِ شریعت (Tarm-e-Islamic)میں اس سے مراد’’مخصوص جانورکو ذوالحجہ کی دس، گیارہ اوربارہ تاریخ کوتقربِ الٰہی اوراجرو ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے یعنی ہروہ چیزجوقربِ خداوندی کاذریعے بنے،اسے قربانی کہتے ہیں،چاہے وہ ذبیحہ کی شکل میں ہویاصدقہ وخیرات کی صورت میں ہو۔
قربانی کاوجوب
قرآن مجیدکی متعددآیاتِ مقدسہ میں اﷲ تعالیٰ نے صاحبانِ ایمان کوقربانی کرنے کاحکم فرمایاہے۔ جس میں قربانی کے وجوب،قربانی کی اہمیت اورقربانی کی عظمت و فضیلت کوواضح طورپربیان کیاگیا ہے۔چنانچہ سورۃ الکوثرمیں ارشادِباری تعالیٰ ہے:
فصل لربک وانحر o
ترجمہ: ’’(اے حبیبﷺ!)پس آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھتے رہیں اورقربانی کیجیے‘‘۔(سورۃ الکوثر:آیت نمبر2)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایاکہ:’’جس شخص کے پاس مالی استطاعت ہواور قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘۔(ابن ماجہ/مسندامام احمد)
قربانی! دین اسلام کے عظیم شعائرمیں سے ایک ہے اوراس کے عبادت ہونے پرپوری امت مسلمہ کااتفاق ہے اور اوراس کی فرضیت (وجوب) قرآن وحدیث اوراجماعِ امت سے ثابت ہے۔
وجوبِ قربانی اورملکیتِ نصاب
قربانی ایک مالی عبادت ہے جوہرصاحب نصاب مسلمان مردوعورت پر فرض ہے۔مخصوص جانورکومخصوص ایام(۱۰،۱۱،۱۲ذوالحجہ)کوتقربِ الٰہی اوراجرو ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے۔مالکِ نصاب ہونے سے مراداتنا مال ہے جوحاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولے چاندی (612.36گرام)یا ساڑھے سات تولے (یعنی 87.48 گرام) سونے کی رائج الوقت بازاری قیمت کے برابرہو۔
واضح رہے کہ قربانی کے وجوب کیلئے محض مالک نصاب ہوناہی کافی ہے، نصاب پرپوراقمری سال گزرناشرط نہیں ہے۔
قربانی کامجموعی وقت
قربانی کامجموعی وقت دسویں ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کربارہویں ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے۔جب کہ قربانی کیلئے 10ذوالحجہ سب سے افضل دن ہوتا ہے۔گیارہویں اوربارہویں ذوالحجہ کی شب میں بھی قربانی ہوسکتی ہے، مگر رات میں ذبح کرنامکروہ ہے۔
شہرمیں قربانی کاوقت
امام کے ساتھ نمازِعیدالاضحی پڑھنے کے بعدقربانی کرنابالاجماع جائزہے اور امام اعظم ابوحنیفہرضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ:’’گاؤں اوردیہات والوں کے حق میں فجر ثانی طلوع ہونے کے بعد قربانی کا وقت داخل ہوجاتاہے،جبکہ شہر والوں کے حق میں جب تک امام نمازِعیداورخطبہ سے فارغ نہ ہوجائے قربانی کاوقت داخل نہیں ہوتااوراگر کسی نے اس سے پہلے قربانی کردی تووہ جائز نہیں ہے، اسے دوبارہ قربانی کرنی ہوگی۔
شہرمیں قربانی کرنے کیلئے شرط یہ ہے کہ نمازِعیدکے بعدقربانی کی جائے اور دیہات میں چونکہ نمازِعید(واجب)نہیں ہوتی اس لئے وہاں صبح صادق کے بعدقربانی کر سکتے ہیں،اگرشہرمیں متعددجگہوں پر نمازِعید ہوتی ہوتوصرف پہلی جگہ نمازِعیدہو جانے کے بعد قربانی کرناجائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ عیدگاہ میں نمازہو جائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ اگر کسی مسجدمیں ہوگئی اورعیدگاہ میں نہیں ہوئی، جب بھی ہوسکتی ہے۔
ایام قربانی کی مقدارمیں ائمہ کرام اور مجتہدین کا اختلاف ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ،امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام سفیان ثوری صرف تین دن (یوم نحراور اس کے بعد دو دن)تک قربانی کے جواز کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک تیسرا دن گزرجانے کے بعد چوتھے دن قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔ جبکہ امام شافعی اورغیرمقلدین کے نزدیک یوم نحر اوراس کے بعد تین دن تک قربانی جائز ہے لیکن اہلسنّت کے نزدیک قربانی صرف تین دن تک ہو سکتی ہے۔
قربانی کی شرائط وجوب
قربانی کے واجب ہونے کی شرائط حسب ذیل ہیں۔
۱۔ مسلمان ہونا(کافرپرقربانی واجب نہیں)
۲۔ مالک نصاب ہونا(فقیرپرقربانی واجب نہیں)
۳۔ آزادہونا (غلام پرقربانی واجب نہیں،اگرچہ آجکل غلامی کا سلسلہ نہیں ہے)
۴۔ مقیم ہونا (مسافرپرقربانی واجب نہیں)
۵۔ بالغ ہونا(نابالغ پرقربانی واجب نہیں)
مسافر پر اگرچہ قربانی واجب نہیں ہے مگر نفل کے طورپرکرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔ حج کرنے والے جو مسافر ہیں ان پرقربانی واجب نہیں اور مقیم ہوں تو واجب ہے ، البتہ’’ حج تمتع‘‘ اور’’حج قران‘‘ کرنے والوں پرقربانی واجب ہے۔
شرائط قربانی کاوقت میں پایاجانا
قربانی کی جملہ شرائط کاقربانی کے وقت میں پایاجاناضروری ہے۔مثلاًایک شخص ابتدائی وقت میں کافرتھااورپھرمسلمان ہوگیااورابھی قربانی کاوقت ہے تواس پر قربانی واجب ہے جبکہ قربانی کی باقی شرائط بھی پائی جائیں․․․․اسی طرح کوئی شخص اول وقت میں مسافرتھاپھر اثنائے وقت میں مقیم ہو گیاتواس پربھی قربانی واجب ہے․․․․اسی طرح ایک شخص فقیرتھااور وقت کے اندرمالک نصاب ہوگیا اورنابالغ بچہ بالغ ہوگیاتواس پربھی قربانی واجب ہے۔
مخصوص جانورکی قربانی
قربانی واجب ہونے کاسبب’’وقت‘‘ہے۔جب وہ وقت(دس،گیارہ اور بارہ ذوالحجہ)آ جائے اورشرائط وجوب پائے گئے توقربانی واجب ہوگئی اورقربانی کارکن ’’مخصوص جانور‘‘ کوقربانی کی نیت سے ذبح کرناہے۔قربانی کی نیت سے دوسرے حلال جانورمثلاًہرن، مرغ وغیرہ کوذبح کرناجائز نہیں ہے۔(درمختار/ردالمحتار)
فرداًفرداًقربانی کاوجوب
شریعت مطہرہ کے مطابق ہرعاقل وبالغ مسلمان مردوعورت اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا جوابدہ ہے،لہٰذااگرکسی مشترکہ خاندان میں ایک سے زیادہ افراد صاحب نصاب ہیں توسب پر فرداًفرداًقربانی واجب ہے۔محض ایک کی قربانی سب کیلئے کافی نہیں ہوگی بلکہ تعین کے بغیراداہی نہیں ہوگی۔
ہرسال کی واجب قربانی
اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اگرکوئی شخص دولت مندہے اوروہ حضورنبی کریم ﷺکیلئے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرناچاہتاہے تویہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔لیکن پہلے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنی ہوگی کیونکہ وہ اس پرواجب ہے،حتی کہ اگروہ ہرسال صاحب نصاب ہوتاہے تو اسے ہرسال پہلے اپنی طرف سے قربانی اداکرنی ہوگی اوربعدمیں چاہے توکسی اورکی طرف سے قربانی کرسکتاہے۔
ایصالِ ثواب کی نیت سے قربانی
اپنے فوت شدہ رشتہ داروں اوربزرگان دین کے لئے ایصالِ ثواب کی نیت سے قربانی کی جاسکتی ہے یعنی اپنی طرف سے واجب قربانی اداکرنے کے بعداﷲ تعالیٰ توفیق دے تواپنے مرحوم رشتہ داروں،بزرگان دین،اہل بیت،صحابۂ کرام اور خصوصاً حضورنبی کریم ﷺکی ذاتِ اقدس کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل اورباعثِ سعادت ہے اورکرنے والے کونہ صرف اجرو ثواب پوراملے گا بلکہ حضورسیدعالم ﷺ کی نسبت سے اس کی قبولیت بھی یقینی ہے۔
موت وحیات اوروجوبِ قربانی
ہمارے معاشرے میں جہالت، کم علمی اور دین سے دوری کے سبب ایک نہایت غلط رسم یہ پائی جارہی ہے کہ اگرکسی کے گھر میں کوئی فوتگی ہوجائے تو اس کے بعد جو پہلی عید قربان آتی ہے اس میں اس کے گھروالے فوت ہونے کے سوگ میں قربانی نہیں کرتے اور اس کو فوت ہونے والے کی تعزیت کے خلاف سمجھتے ہیں، ایساکوئی تصور اسلام میں نہیں ہے بلکہ ایسا تصور رکھنا قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ موت وحیات اﷲ کے ہاتھ میں ہے اور قربانی اﷲ کا حکم اورشرعی اعتبار سے واجب ہے، اس کا ترک کرنا گناہ ہے،قیامت کے دن اس شخص کا مواخذہ ہوگا جو قربانی کرسکتا ہے مگر اس نے قربانی نہیں کی۔
قربانی کرناہی واجب ہے
قربانی کے ایاممیں قربانی کرناہی واجب ہے۔قربانی کاجانوریااس کی قیمت صدقہ کردیناجائز نہیں ہے اوراس سے واجب ادانہیں ہوگابلکہ قربانی واجب الاعادہ اورضروری ہے۔ہاں، البتہ اس میں نیابت ہوسکتی ہے یعنی کسی نے دوسرے کووکیل بنادیا اوراس نے اس کی طرف سے قربانی کردی تویہ جائز ہے۔
قربانی میں’’عقیقہ‘‘ کاحصہ
مشترکہ گائے یااونٹ وغیرہ کی قربانی میں’عقیقہ‘کاحصہ بھی ڈالاجاسکتاہے۔ افضل وبہتریہ ہے کہ لڑکے کیلئے دوحصے اورلڑکی کیلئے ایک حصہ ہو،اگردو حصوں کی استطاعت نہ ہوتولڑکے کیلئے ایک حصہ بھی ڈالاجاسکتاہے۔
بہ وقت ذبح جانورکابچہ نکلنا
قربانی کے جانورنے ذبح سے پہلے بچہ دے دیا،یاذبح کرنے کے بعدپیٹ سے زندہ بچہ نکلاتودونوں صورتوں میں یاتواسے بھی قربان کردیں یازندہ صدقہ کردیں یا فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردیں۔اگربچہ مردہ نکلے تواسے پھینک دیں، قربانی ہرصورت میں صحیح ہے۔
قربانی کے جانورکامعیار
قربانی کاجانورتمام ظاہری عیوب سے سلامت ہوناچاہئے۔اس سلسلہ میں فقہاءِ کرام نے یہ ضابطہ مقررکیاہے کہ ہروہ عیب جوجانورکے کسی نفع یاحسن و خوبصورتی کوبالکل ضائع کردے،اس کی وجہ سے قربانی جائزنہیں ہے اورجو عیب اس سے کمتردرجہ کاہوتواس کی وجہ سے قربانی ناجائزنہیں ہوتی۔
جس جانورکے دانت نہ ہوں لیکن اگروہ چاراکھالیتاہے تواس کی قربانی جائز ہے،ورنہ نہیں۔جس جانورکاپیدائشی سینگ نہ ہویااس کاسینگ تھوڑاساٹوٹا ہواہوتواس کی قربانی بھی جائزہے۔ اگر جانوراندھا،کانایالنگڑاہو اوراس کے عیوب بالکل ظاہرہوں تواس کی قربانی جائزنہیں ہے…… اس طرح اگراس کی بیماری ظاہرہو،جس کے دونوں کان کٹے ہوئے ہوں،جس کی چکتی یادم بالکل کٹی ہوئی ہویاجس کاپیدائشی کان نہ ہواس کی قربانی جائزنہیں ہے۔
جس جانورکاایک کان پوراکٹاہوا ہویا جس کاپیدائشی صرف ایک کان ہواس کی قربانی بھی جائزنہیں۔اگرکان،چکتی یادُم اورآنکھ کازیادہ حصہ ضائع ہوگیاہوتو اس کی قربانی جائزنہیں اوراگرکم حصہ ضائع ہواہوتوپھر قربانی صحیح ہے۔جو جانور بھینگا ہویاجس کااون کاٹ لیاگیاہواس کی قربانی بھی جائزہے۔خارش زدہ جانور اگر موٹا تازہ ہوتواس کی قربانی جائزہے ورنہ نہیں جائزنہیں ہے۔
قربانی کے جانوروں کی عمریں
حضرت جابررضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا کہ تم صرف مسنہ (ایک سال کابکری،دوسال کی گائے اور پانچ سال کااونٹ)کی قربانی کیا کرو،ہاں اگرتم کو(مسنہ ملنا)دشوار ہوتوچھ سات ماہ کا دنبہ یا مینڈھازبح کردو‘‘۔ (صحیح مسلم، مسند امام احمد،سنن ابی داؤد،سنن نسائی)
قربانی کے جانورتین قسم کے ہیں:
۱) اونٹ اور اونٹنی! ان کی عمرکم ازکم پانچ سال ہونا ضروری ہے۔
۲)گائے،بیل،بھینس اور بھینسا، ان کی عمرکم ازکم دو سال ہونا ضروری ہے۔
۳)بکری،بکرا،بھیڑاوردنبہ، ان کی عمرکم ازکم ایک سال ہونا ضروری ہے۔البتہ دنبہ یا مینڈھااگرچھ مہینے کا ہو لیکن اتنافربہ( صحتمند) ہوکہ دیکھنے میں سال بھرکامعلوم ہوتاہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔نیز بکری، بکرا، بھیڑاوردنبہ صرف ایک آدمی کی طرف سے قربانی میں ذبح کیا جاسکتا ہے، جبکہ گائے ،بیل،بھینس ، بھینسا، اونٹ اور اونٹنی میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سب کی نیت عبادت اور حصولِ اجروثواب کے لئے ہو۔
صاحب نصاب اورعیب دارجانور
صاحب نصاب نے اس قسم کے عیب والے جانورکوخریدایاخریدنے کے بعد اس میں کوئی ایسا عیب پیداہوگیاجس کی وجہ سے قربانی ممنوع ہے توہر صورت میں صاحب نصاب کااس جانورکی قربانی کرناجائزنہیں اورجوصاحب نصاب نہ ہووہ ہر صورت میں اس جانورکی قربانی کرسکتاہے۔( شرح صحیح مسلم:جلد6صفحہ151)
بہ وقت ذبح عیب دارجانورکی قربانی
ذبح کرتے وقت قربانی کاجانوراچھلاکودااوراس میں کوئی عیب پیداہوگیایا ذبح ہوتے ہوئے اٹھ کربھاگااوروہ عیب دارہوگیاتواسے اسی حالت میں ذبح کردیں، قربانی ہوجائے گی۔
افضل ترین قربانی کابیان
حضرت بقیہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایاکہ: ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ قربانی وہ ہے جوزیادہ منہگی اورزیادہ فربہ ہو‘‘۔
(سنن کبریٰ:272/9)
زیادہ فربہ وقیمتی جانورکی قربانی
زیادہ فربہ،زیادہ حسین اورزیادہ قیمتی جانورکی قربانی مستحب اورافضل ہے۔ بکریوں کی جنس میں سرمئی رنگ کاسینگوں والاخصی مینڈھاافضل ہے۔خصی جانورکی قربانی آنڈوکی بہ نسبت زیادہ افضل ہے،کیونکہ اس کاگوشت لذیذ ہوتاہے۔
قیمتی ،فربہ اورلذیذترین جانورکی قربانی
اگر بکری کی قیمت اورگوشت!گائے کے ساتویں حصے کی قیمت اورگوشت کے برابرہوتوبکری کی قربانی افضل ہے،کیونکہ بکری کاگوشت لذیذہوتاہے اوراگر گائے کے ساتویں حصے میں بکری سے زیادہ گوشت ہوتوگائے کی قربانی افضل ہے۔نیزمینڈھا، بھیڑسے اوردنبہ،دنبی سے افضل ہے۔بکری،بکرے سے افضل ہے،لیکن خصی بکرا،بکری سے افضل ہے۔گائے،بیل سے اور اونٹنی، اونٹ سے افضل ہے،جب کہ ان کی قیمت اور گوشت برابرہو۔
گائے وغیرہ کے ساتویں حصے کی قربانی اور بکری کی قربانی میں اس جانور کی قربانی کرناافضل ہے جس کی قیمت زیادہ ہو۔اگر قیمتیں برابرہوں توجس کو گوشت زیادہ ہو،وہ افضل ہے اوراگر قیمتیں اور گوشت دوونوں برابر ہوں تو پھر جس کا گوشت زیادہ لذیذ ہو، اس جانور کی قربانی کرناافضل ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بالترتیب زیادہ قیمتی، زیادہ فربہ اور لذیذترین جانور کی قربانی افضل ہے۔
قربانی کے گوشت کابیان
قربانی کے جانورکاگوشت خودکھانااوردوسروں کوکھلانامستحب ہے اورافضل یہ ہے کہ گوشت کے تین برابرحصے کئے جائیں اورایک حصہ اپنے گھروالوں کیلئے، ایک حصہ فقیروں اورغریبوں کیلئے اورایک حصہ اپنے دوست واحباب کیلئے مخصوص کیائے۔اگر قربانی کاساراگوشت صدقہ کردیایاسارااپنے لئے رکھ لیاتویہ بھی جائزہے۔ اوراس کیلئے یہ بھی جائزہے کہ وہ تین دن سے زیادہ بھی گوشت ذخیرہ کرکے رکھے،لیکن اس کوکھلانااور صدقہ کرنا افضل ہے۔البتہ اگرکوئی شخص کثیرالعیال (زیادہ اہل وعیال والا)ہوتواس کیلئے افضل اپنے اہل و عیال کو کھلاناہے۔
مشترکہ قربانی اور برابر حصہ داری
گائے وغیرہ کی مشترکہ قربانی میں حصہ داری کی ہے تو لازمی ہے کہ گوشت وزن کرکے برابربرابر تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ کریں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو گوشت زیادہ اور کسی کوکم ملے اور یہ ناجائز ہے،یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ اگرکسی کو کم وبیش ملے گا توہر ایک حصہ دار دوسرے کو جائز (معاف ) کردے گاکیونکہ یہاں عدمِ جواز حق شرع ہے اور اس کو معاف کرنے کاکسی کو اختیار نہیں ہے۔
حلال جانورکے اعضائے ممنوعہ
شریعت کے مطابق ذبح کئے ہوئے حلال جانورکے مندرجہ ذیل اعضاء اور حصے کھاناممنوع ہیں۔دمِ مسفوح(بہ وقت ذبح بہنے والاخون)،ذَکرو فرج(جانور کے پیشاب کی جگہ)خصیتین، (کپورے)مثانہ،دُبر(جانورکے پاخانے کی جگہ)حرام مغز،اوجھڑی اورآنتیں،اِن میں دمِ مسفوح (ذبح کے وقت بہنے والاخون)حرام قطعی اورباقی مکروہِ تحریمی ہیں۔(بہ حوالہ:تفہیم المسائل)
اگرکوئی حلال جانورکسی بھی وجہ سے مردار(حرام) ہوجائے تواس کی کھال سے بغیر دباغت (رنگنے) کے نفع حاصل کرنااوراس کی خریدوفروخت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ دباغت کے بعد اس سے نفع حاصل کرنا جائز ہے،کیونکہ دباغت کے بعد کھال پاک ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مردارکی وہ چیزیں جن میں زندگی حلول کرتی ہے مثلاًآنتیں اور چربی وغیرہ) ان سے نفع حاصل کرناجائزنہیں ہے اور وہ چیزیں جن میں زندگی حلول نہیں کرتی مثلاً ہڈیاں،سینگ،بال، روئیں،کُھر،پنجے، اون،ناخن اورچونچ وغیرہ ان سے نفع حاصل کرناجائز اوردرست ہے۔ (ہدایہ،شرح وقایہ)
تکبیراتِ تشریق
9؍ذوالحجہ کی نمازِفجرسے13؍ذوالحجہ کی نمازِعصرتک ہرباجماعت نمازکے بعد ایک مرتبہ بلندآواز سے یہ تکبیرات پڑھناواجب ہے اورتین مرتبہ پڑھناافضل و مستحب ہے۔عیدگاہ آتے جاتے بھی بہ آوازِبلندیہ تکبیرات پڑھنی چاہئیں۔
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلَّااَللّٰہُ واَللّٰہُ اَکْبَرْ ،اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَللّٰہِ الْحَمْدُ0
ذبح کے وقت تکبیراوردعاء
قربانی کرنے سے پہلے جانورکوپانی اورچارادے دیں۔چھری اچھی طرح تیزکرکے اورجانورکو بائیں پہلوپرلٹاکراسے قبلہ رخ کرلیں۔اپنا دایاں پاؤں اس کے پہلوپررکھ کرتیزچھری سے جلد ذبح کردیں۔ذبح سے پہلے یہ دعاء پڑھ لیں۔
دعائے قربانی
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰٰٰٰوتِ وَالْاََرْضَ حَنِیْفاًوَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَo اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ۔
پھربلندآوازسے ’’بِسْمِ اللِّٰہ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘پڑھ کرذبح کردیں اور ذبح میں کم ازکم تین یاچاررگیں ضرور کٹنی چاہئیں۔
نیز یہ مستحب ہے کہ چھری تیزہو اور گلے میں چھری پھیرنے کے بعد اتنی دیر انتظار کرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اس کے تمام اعضاء ٹھنڈے ہوجائیں اوراس کے تمام جسم سے جان نکل جائے اوراس کے جسم کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا مکروہ ہے۔
جانورذبح ہوجانے کے بعدیہ دعاء پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَاتَقَبَلّْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍصَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ0
ضروری وضاحت
اگرذبح کرنے والایادعاء پڑھنے والاکوئی اورہوتوپھر’’مِنِّیْ‘‘کی جگہ مِنْ فلاں(اس شخص یااشخاص کانام) کہے۔اگرگائے یااونٹ وغیرہ ہوتوتمام شرکاءِ قربانی کا نام لینا ضروری ہیں۔
قربانی کی کھالیں
قربانی کوکھال کواپنے استعمال میں بھی لایاجاسکتاہے۔مثلاًاس سے جائے نماز(مصلّٰی)موزے اورمشکیزہ وغیرہ بناسکتے ہیں۔جب کہ قربانی کی کھال بیچ کراس کی رقم اپنے استعمال میں نہیں لاسکتے بلکہ اس کل رقم کوصدقہ کردیناواجب ہے۔اسی طرح قربانی کے جانورکی کھال یاگوشت قصاب وقصائی کو اجرت کے طورپردیناجائز نہیں ہے۔
قربانی کی کھال اوراعانت ِدین
قربانی کی کھالیں کسی نادارومفلس غریب اورمستحق کوبھی دے سکتے ہیں،البتہ دینی اداروں اور مدارس کودیناافضل ہے،کیونکہ یہ تبلیغ واشاعت ِدین کے کام میں اعانت ومددبھی ہے اورصدقۂ جاریہ بھی ہے۔
دعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کوقربانی کاعظیم فریضہ انجام دینے اور اس کی روح اور فلسفہ پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین ثم آمین بجاہ سیدالانبیاء والمرسلین)

Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180870 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.