ٹوٹی ہوئی تلواریں ۔۔۔۔!

خلیفہ ء دوئم سیدنا حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دورِ مبارک تھا ۔عیسائی ریاستوں کو بد ترین شکست کا سامنا تھا۔ مسلمان کامیابی و کامرانی کے پے درپے جھنڈے گاڑتے چلے جارہے تھے کفار کے قدم اپنے ہی علاقوں سے اکھڑتے جارہے تھے ۔ ایسے میں یہودی اور عیسائی مشنریز حرکت میں آئیں اور اس وقت کے سپر پاوروں نے خود کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے ایک اجلاس منقعد کیا ۔ اجلاس میں اس وقت کے بڑے بڑے سپہ سالار اور وزراؤں کو بھی مدعو کیا گیا۔حاکم ِ وقت نے ان سے دریافت کیا کے ہمارے دشمن کے ہاتھ ایسا کیا لگ گیا ہے جس کی بنا پر ہمیں پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔کیا انکے لشکر کی تعداد ہمارے فوجیوں سے زیادہ ہے۔۔؟ ان میں سے ایک سپہ سالار نے جواب دیا نہیں جناب ہمارے فوجی انکے لشکر سے کئیں زیادہ ہیں۔حاکمِ وقت بولا جب انکا لشکر کم اور ہمارے فوجی زیادہ ہیں تو یقینا انکے پاس اسلحہ اور جنگی وسائل ہم سے زیادہ ہونگے۔ سالار نے جواب دیا نہیں جناب ہمارے دشمن کے پاس نہ جدید اسلحہ ہے اور نہ کوئی وسائل کی کثرت بلکہ ہمارے پاس اسلحہ جدید اور وافر مقدار میں ہے جبکہ دشمن کے پاس ٹوٹی ہوئی تلواریں اورٹیڑھے تیر ہیں ۔حاکمِ وقت یہ سن کر بڑی حیرانگی کے ساتھ بولا جب ہم تعداد میں ان سے زیادہ ہیں وسائل میں ان سے زیادہ ہیں اسلحہ ہمارے پاس جدید ہے اور انکے پاس ٹوٹی ہوئی تلواریں اور ٹیڑھے تیروں کے سوا کچھ نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہمیں شکست کا سامنا ہے۔حاکم ِ وقت کی یہ بات سن کر اجلاس میں خاموشی طاری ہوگئی کسی کے پاس اس کا جواب نہ بن پارہا تھا۔ کہ انہی میں سے ایک کمانڈر اٹھا اور حاکم ِ وقت سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا اسکا جواب میں آپ کو دیتا ہوں۔ جناب ہمارے فوجی سارا دن میدان میں ان سے لڑتے ہیں اور رات میں علاقے کے قریب بستیوں میں جاکر عیاشی کرتے ہیں زناخوری کر تے ہیں شراب پی کر نشے میں دھت سوتے رہتے ہیں۔ ہمارے مرنے والوں کا اور زخمیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ جبکہ ان کے لشکر کا ایک ایک فرد سارا دن جنگ میں مصروف رہنے کے باوجود جنگ کے بعد اپنے شہیدوں کی عزت کے ساتھ تدفین کرتے ہیں اپنے زخمی بھائیوں کی عیادت کرتے ہیں سارا لشکر اپنے زخمی بھائی کی باز پرس میں لگ جاتا ہے وہ لوگ رات کو اپنے اﷲ کی عبادت کرتے ہیں رو روکر اپنے رب سے صبح کی فتح یابی کی دعائیں مانگتے ہیں اس قدر روتے ہیں کہ ان کی ڈاڑھیاں تک انکے آنسوؤں سے تر ہوجاتیں ہیں۔ صبح کو جب وہ میدان میں اترتے ہیں تو انکا رب انکی دعاؤں کے طفیل انکو فتح یابی نصیب فرمادیتا ہے۔وہ اپنے رب کے ساتھ سچے ہیں وہ اپنے ایمان کے پکے ہیں وہ اپنے رب کو دھوکا نہیں دیتے وہ اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات پر من و عن عمل کرتے ہیں وہ حق گوئی کی دعوت دیتے ہیں وہ اپنے ایمان کی خاطر جیتے ہیں وہ اپنے دین کی سربلندی کو اپنا مقصد ِ حیات سمجھتے ہیں وہ ربِ واحد کی عبادت کرتے ہیں انکا صرف ایک معبود ہے جو واحدِ لاشریک ہے اور وہ اپنے اُس معبودِ برحق کے ساتھ مخلص ہیں۔ اپنے کمانڈر کی بات سن کر حاکمِ وقت بولا اگر تم واقعی سچ کہتے ہوں تو سن لو پھر ہم اپنے دشمن سے کبھی جیت نہیں سکتے سو سال بھی لڑتے رہیں ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی ۔جو اپنے رب کے آگے جھکتے ہوں وہ کسی کے آگے نہیں جھک سکتے جو اپنے ایمان کو اپنی زندگی کا مقصد حیات بنالیں وہ کبھی شکست خردہ نہیں ہوسکتے جو اپنے رب کی خاطر ٹوٹی ہوئی تلواروں سے لڑنا جانتے ہوں وہ کبھی گھٹنے نہیں ٹیکیں گے وہ ہمیں مارتے جائیں گے اور ہم مرتے جائیں گے چاہے ہم تعداد میں ان سے کتنے ہی زیادہ ہوجائیں ہم وسائل میں ان سے کتنے ہی زیادہ ہوجائیں ہم کامیاب نہیں ہوسکتے بس جان لو شکست ہمارا مقدر بن چکی ہے ۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے ہم اپنی شکست تسلیم کرلیں خود کو انکے آگے پیش کردیں ۔ انھیں بیت الاقدس کی چابیاں چاہیئے ہم ان کو وہ چابیاں دے دیتے ہیں ہم اپنی وہ سلطنت جس پر ہم صدیوں سے حکمرانی کرتے آرہے ہیں ان کے حوالے کردینگے کیونکہ ہم مزید اپنے بچوں کو یتیم نہیں ہونے دینگے ہم اپنی بیویوں کو بیوہ نہیں ہونے دینگے۔ ہم اپنے اس دشمن سے کبھی نہیں جیت سکتے ۔ لہذا عقل مندی اسی میں ہے کہ ہم اپنے دشمن کے آگے سر جھکا دیں ۔ اور کیسر وکسریٰ کے خزانہ انکے حوالے کردیں ۔ جاؤ اپنے کسی قاصد کو انکے پاس بھیجو اور انکے امیر تک ہمارا پیغام پہنچادو کے ہم بیت الااقدس کی چابیاں انکو دینے کو تیار ہیں ہم خود کو انکے آگے پیش کرتے ہیں۔وہ آجائیں اور ہم سے ہمارا سب کچھ لے لیں ۔

قاصد کو بھیجا گیا اس وقت مسلمان لشکر کی کمانڈ جلیل والقدر صحابی جن کانام عشرہ مبشرہ میں شامل ہے حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کررہے تھے ۔ ابو عبیدہ ؓ نے قاصد کی بات امیرِ وقت جناب سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تک پہنچائی اور کہا کہ اپنے عہد کے طاغوتوں نے شکست تسلیم کرلی ہے آپ یہاں تشریف لے آئیں تاکہ بیت الااقدس کی چابیا ں آپ ؓ کے حوالے کی جاسکیں ۔ لہذا عمرِفاروق ؓ نے بیت الاقدس روانگی کا ارادہ فرمایا۔ادھر ابو عبیدؓہ چونکہ انہیں راستے کی مسافت کا علم تھا کہ کتنے دن مسافت کے بعد خلیفہ ء وقت ہم تک پہنچ پائیں گے لہذا وقت مقررہ پر ابو عبیدؓہ خلیفہ کے استقبال کے لیے انتظار فرمانے لگے ۔ کچھ دیر بعد بالکل سادہ لباس میں موجود وقت کے خلیفہ امیرِ وقت جناب سیدنا عمر فاروقؓ ابو عبیدؓہ کے سامنے موجود تھے ۔ ابو عبیدؓ ہ نے پرجوش استقبال کے بعد ان سے مصافحہ کیا اور لمبی مسافت کی وجہ اور کچھ آرام کی غرض سے انہیں آرام گاہ تک لے جایا گیا ۔ آرام کرنے کے بعد ابو عبیدؓہ حضرت عمر فارقؓ کے سامنے حاضر ہوئے اور ایک عمدہ خوبصورت عالیٰ لباس اپنے امیر کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اے امیر ِ وقت آج اِس وقت آپ کے سامنے عہدِ حاضر کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت گھٹنے ٹیکنے جارہی ہے ۔لہذا میں چاہتا ہوں آ ج آپؓ ان کے سامنے جائیں تو آپ کا لباس عمدہ ہو تاکہ آپ کے اس عمدہ لباس کے ساتھ آپ کی شخصیت میں اضافہ ہواورآپ ان سے اس روعب و دبدبے کے ساتھ ملیں کہ مسلمانوں کی عزت توقیربڑھے ۔ابو عبیدؓہ کی یہ بات سن کر حضرت عمر فاروقؓ کا چہرہ غصے سے زر د ہوگیا اور ابو عبیدؓہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے اے ابوعبیدہ اگر میں نے اﷲ کے رسول جنابِ نبی کریم ﷺ سے تیرے فضائل نہ سنے ہوتے تو آج میں تیری پیٹ پر اتنے کوڑے لگاتا اتنے کوڑے لگاتا کہ تیری کمر سیدھی ہوجاتی ۔ اے ابو عبیدؓہ یاد رکھو آج ہمیں جو عزت جو مقام اﷲ کی طرف سے ملا ہے وہ صرف ہمارے دین کی بدولت ہے آج ہمیں جو عزت و توقیر مل رہی ہے وہ دین کے راستے سے ہے اور تو آج عزت اعلیٰ وعمدہ لباس میں دوھونڈ رہا ہے خدا کی قسم اگر میں نے رسول اﷲ ﷺ سے تیرے فضائل نہ سنے ہوتے اور تو اﷲ کے نبی کو پیارہ نہ ہوتا تو آج تجھے اتنے کوڑے لگاتا کے تیری کمر سیدھی کردیتا۔
سبحان اﷲ قارئین کیا شان تھی ہمارے صحابہ کرام ؓ کی خلیفہ وقت بھی جنتی سامنے کھڑا سپہ سالار بھی جنتی جن کے جنتی ہونے کی تصدیق اﷲ کے رسول ﷺ نے خود فرمائی ۔لیکن اگر کوئی دینِ حق سے چوک کھانے کی بھول بھی کر بیٹھے جہاں دین کی حرمت کی بات آجائے کوئی رسول اﷲ ﷺکی تعلیمات وفرمودات سے ایک ہلکی سی بھی چوک کر بیٹھے چاہے وہ معصومیت میں ہویا بھول میں وہاں کسی قسم کی کوئی لرزنش کی گنجائش نہیں ۔تمام عزت و توقیر اور بڑائی ایک مسلمان کے لیے قرآن کی نسبت سے ہے اگر مسلمان اس سے روگردانی کر بیٹھے توذلت و رسوائی کو اس نے خود اپنے اوپر لادلیا۔اور وہ کسی طور عزت وقار کے لائق نہیں ۔جیسا کہ عمرِفاروق ؓ نے فرمایا آج مسلمان کسی عزت اور توقیر کا اہل ہے تو وہ صرف قرآن اورتعلیماتِ نبویﷺ کی بدولت ہے اور جس نے اس سے انکار کیا یا پسِ پشت ڈالا وہ کسی طور کامیابی و کامرانی کا مستحق نہیں۔تمام مرتبے اور فضائل دینِ حق سے جڑے ہیں ۔مطلب کوئی بھی بلند مقام و مرتبہ اس کے پاس اس کے دین کی بدولت ہے کسی کی ذاتی کوئی حیثیت نہیں ۔ صحابہ کرام ؓ نے آپﷺ کے بعداس بات کا ہمیشہ پاس رکھا اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو کسی بھی طور نہ چھوڑا بلکہ اس کو مکمل نافظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اگر کبھی کسی سے کوئی معصوم چوک ہونے کا اندیشہ بھی ہوتا تواس حوالے سے صحابہ کرامؓ آپس میں ایک دوسرے کی اصلاح فرمادیاکرتے تھے ۔جیسا کے کئیں روایات میں ملتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد میں بحیثیت خلیفہ چند ایک ایسے فیصلے کیئے جو کتاب و سنت سے دلیل نہیں رکھتے تھے لہذا دیگر صحابہ کرامؓ کی اصلاح پر آپ ؓ نے اپنے اُنہی فیصلوں سے رجوع فرمایا۔اسی حوالے سے ایک روایت میں ہے کہ نمازِ ِ جمعہ میں خطبہ کے دوران حضرت عمر فاروق رضی اﷲ رتعالیٰ عنہ نے نمازیوں سے پوچھا اگر میں بطور خلیفہ قرآن و حدیث سے ہٹ کر کوئی حکم جاری کروں تومیری رعایا کیا کریگی ۔ صف میں موجود ایک صحابی ؓ اٹھے اور ہوا میں تلوار لہراتے ہوئے بولے اے عمر اگر آپ بطور خلیفہ قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی فیصلہ دیتے ہیں تو پھر یہ تلوار تمھارا فیصلہ کریگی ۔ صحابیِ رسول کی بات سن کر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خوش ہوئے اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔ میرے محترم قارئین بحیثیت مسلمان ہمیں چاہیئے ہم اپنی عزت وقار سلامتی وکامیابی دینِ حق میں تلاش کریں قرآن و حدیث میں تلاش کریں کیونکہ دین کی اصل یہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں اﷲ اور اسکے رسول ﷺکی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اپنے لیے نجات کا راستہ پائیں ایک مسلمان کی کامیابی بھی اسی میں ہے اور عزت توقیر بھی اسی راستے سے ہے باقی سب راستے گمراہیوں کی طرف لے جانے والے ہیں آج اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی اکثریت کتاب و سنت کے راستے کو چھوڑ کر باقی تمام گمراہ کن راستوں پر چل نکلی ہے آج کامسلمان اپنی عزت و توقیرقرآن و حدیث میں نہیں ڈھونڈتا بلکہ مکروہ فریب کی چادر اوڑھے اس شیطانی سماج میں تلاش کرتا دکھائی دیتا ہے جس کا حاصل آخرمیں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔قارئین اس سے پہلے کے وقت ختم ہوجائے اور سانسیں بند ہوجائیں آئیے اپنے آپ کو اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے احکامات کا پابند بنائیے ۔اﷲ نے انسان کو آزاد بنایا ہے آزاد سوچ میں ڈھالا ہے خدارا خود کو اپنی منفی سوچوں کا قیدی مت بننے دیں اپنی نفس کے غلام مت بنیں غلام ابنِ غلام کی روِش کو ترک کردیں دینِ حق میں شارٹ کٹ تلاش مت کریں ہیلے بھانے مت ڈھونڈیں خو د کو باپ داداؤں سے تعبیر مت کریں یہ سب تو کفار ِ مکہ کے قول و فعل تھے ہم تو مسلمان ہیں ہمیں توقرآن و حدیث کے راستے علم و عمل ِ سے خود کو تعبیر کرنا چاہیئے۔ یقین جانیئے اگر آپ نے اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیا تو آپ کو کسی زندہ یا مردہ کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں پڑیگی کسی کی پوجا پاٹ کرنے کی ضرروت نہیں پڑیگی ۔ دینِ حق کو پہچانیں اپنی آخرت کو سنواریں اپنے آپ کو اﷲ کے عذاب سے بچائیں اور دنیا و آخرت میں قدرو منزلت کی معراجیں پائیں۔

علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115904 views کالم نگار/بلاگر.. View More