ہم پاکستانی عوام کس کس سمت سے
لُٹ رہے ہیں ہمیں اندازہ ہی نہیں-
دنیا میں تعلیم اور صحت خدمت کے دو بڑے شعبے ہیں مگربد قسمتی سے پاکستان
میں سب سے زیادہ بزنس ان دو شعبوں میں ہو رہا ہے ، پاکستان کے سرمائیدار
اور سیاستدان طبقے کو اُن کے لُوٹ کے مال اور سرکاری اخراجات پر یہ دونوں
سہُولتیں آسانی سے میسر ہیں۔ مگر عوام بنیادی صحت اور بنیادی تعلیم کے
لئےکس طرح ذلیل ہو رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا شاید مشکل ہو۔
پاکستان کے 99%فیصد ڈاکٹر حضرات میڈیکل کمپنیوں سے بنگلے، گاڑیاں اور
انٹرنیشنل ٹُوئرز کی مد میں کمیشن حاصل کر کے ان کی ایک روپے والی گولی
100روپے میں سیل کروا رہے ہیں۔ میڈیکل ریپ اس کام میں کتنا آگے نکل چکا ہے
کہ شاید کوئی پاکستانی ہو جو اس شعبے کی کرپشن کو نہ جانتا ہو۔
آئیے اس سے آگے دیکھتے ہیں کہ تعلیمی شعبے میں کیا ہو رہا ہے۔ میرے خیال
میں مجھے سرکاری تعلیمی شعبے کے بارے میں یہاں لکھ کر اپنا وقت ضایع نہیں
کرنا چاہیئے کیوں کہ ہر پاکستانی یہ خُوب جانتا ہے سرکاری تعلیمی شعبوں میں
کیا ہو رہا ہے۔مگر ظلم یہ ہے کہ جہاں پاکستانی تعلیمی میدان میں پرائیویٹ
سیکٹر کو اچھی تعلیم کے حصول کا بھترین ذریعہ سمجھا جا رہا تھا وہ بھی اب
میڈیکل ریپ کی پالیسیوں کو اپناتے ہوئے پرائیوٹ اسکولوں کو کمیشن کے جھانسے
دیکر اپنی فرسودہ کتابیں بیچ رہا ہے۔ جس ملک میں تعلیم کی شمع بجھ رہی تھی
ایک وقت ایسا لگا کہ پرائیویٹ اسکولز کی ابتدا اس بجھتی ہوئی شمع کوبجھنے
سے بچا لیں گے اور یہ ہی وجہ تھی کہ ایک غریب مزدور بھی اپنے بچوں کو
سرکاری اسکولوں سے نکال کر پرائیویٹ اسکولوں میں لے آیا ، حالانکہ وہ یہ
افورڈ بھی نہیں کر سکتا تھا مگر پھر بھی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس نے
یہ سوچا کہ شاید میرا بچا بھی انگریزی کے دو لفظ بول کر امیروں کے بچوں کی
اُس لِسٹ میں آجائے کہ جو بیکن ہائوس اور سٹی اسکولوں میں پڑھ کر پاکستان
کی بڑی بڑی پوسٹوں پر قابض ہیں ۔ مگر شاید وہ مزدور یہ نہیں جانتا تھا کہ
اس ملک کے اکثر پرائیویٹ اسکول بھی پیسا کمانے کا ایک بہت بڑا ڈھونگ ہیں ۔
اس طرح ہم عوام پاکستان میں بنیادی تعلیم اور بنیادی صحت کے حصول میں ہی
برباد ہو رہے تھے کہ پھر یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں، موبائل سروس کمپنیا ں ،
پنجاب کی پییسٹی سائیڈ کمپنیاں رہی کثر پوری کر چکی ہیں۔
موبائل کمپنیوں کی اگر بات کریں تو۔
میڈیا پر بے حیا ئی کے اشتہارات مثلاََ "سب کہہ دو" بولتے جاؤ دن رات"
راتوں کو گھنٹا آفرز دیکر اپنا تو بزنس کر رہے ہیں مگر اس اسلامی معاشرے کی
کس طرح دھجیاں اڑا رہے ہیں اس کی مثال آپ روزانہ دیکھ اور سن رہے ہیں ۔
گلیوں میں ہیڈ فونز لگائے دنیا سے آزاد نوجوان گھنٹوں باتیں کرتے ہوئے اور
چلتے ہوئے دکھائی دیں گے اور کس طرح اس معا شرے میں روزانہ کتنے گھروں کی
عزتیں اجڑ رہی ہیں اس کی مثال عام ہے مگر ہم خاموش اس بہائو میں بہتے جا
رہے ہیں ۔
پھر اگر زراعت کی بات کریں تو پھر پیسٹی سائیڈ کمپنیاں بھی اس ملک کو
لُوٹنے میں کہیں پیچھے نہیں۔ پہلے تو یہ کمپنیاں خوداپنی لیبارٹریوں میں
فصلوں کے دشمن جراسیم اور جانور تیار کرکے ان کے انڈے اپنے ایجنٹوں کے
ذریعے فصلوں میں پھینکتے ہیں اور پھر اپنے فیلڈ آفیسر ز کو ان علاقوں میں
بھیج کر مقامی کسانوں اور زمینداروں کو مشورے دیتے ہیں کہ ہمارا فلاں زہر
استعمال کریں یا ہماری فلاں دوائی استعمال کریں جس زہر کی قیمت تو معمولی
ہوتی ہے مگر عمدہ مارکیٹنگ اشتہارات اور جھوٹےدعووں کی وجہ سے وہ زہر
ہزاروں میں بکتا ہے جس کی انکم سے کمیشن، ٹوئرز ، بنگلے اور گاڑیوں کی مد
میں نیچے سے اوپر تک یعنی سرکاری اعوانوں تک رشوت پہنچادی جاتی ہے تاکہ یہ
کالا دھندھا بغیر کسی پریشانی کے چلتا رہے مگرظلم یہ ہے کہ اس زہر سے پھر
جانور یا جراسیم تو نہیں مرتے مگر آپ اگر میری طرح شہر کی سرکاری ہسپتال کے
ایمرجنسی شعبے میں کچھ وقت گزاریں گے تو آپ کو اندازا ہو جائے گا کہ کس طرح
اُن کسانوں کی عورتیں ، بچے یا وہ خود اس زہر کو پیکر موت کو گلے لگا رہے
ہیں۔ بات یہاں رُکتی نہیں یہ تو وہ ہے جو نظر آ رہا ہے مگر جو نظر نہیں آ
رہا مثلاََ اس ملک میں پھیلتی ہوئی پیٹ کی ، میدے اور پھیپھڑوں کی بیماریاں
۔ السر ، ہیپاٹائیٹس یا ٹی بی وغیرہ بھی اسی زہر کی مہربانیاں ہیں کے جو
روز مرہ کے استعمال کی سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوتا ہے۔
اور اس طرح عام پاکستانی یعنی عوم اپنی نسلیں تباہ کر کے اس دنیا کے سرمائے
داروں اور پاکستان کے کمیشن پہ پلنے والے سیاستدانوں کی جیب بھر رہا ہے
مگر سب کچھ خاموشی سے ہو رہا ہے کہ جیسے کچھ ہوہی نہیں رہا۔ |