فریضۂ حج کی ادائے گی میں جلدی کریں

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے پانچواں عظیم الشان رکن ہے،جوہرصاحب استطاعت پرزندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے،حج کی فرضیت کے لیے چندشرائط میں اہم شرائط یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہو،عاقل بالغ ہو، صحت منداورتندرست ہو،معذورنہ ہواوراس کے پاس اتنامال ہوکہ وہ اپنے گھرسے بیت اﷲ تک جاسکے اورپھرواپس آسکے،اوراپنے غائبانہ میں اپنے اہل وعیال کے لیے مناسب اخراجات کابندوبست کرسکے،مندرجہ ذیل آیت میں حج کی فرضیت کے ساتھ ساتھ بیت اﷲ کی خصوصیتوں اوراوراس کی برکات کو بھی اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے۔

’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبٰرکاوھدی للعالمین۔(۹۶)فیہ آیات بینات مقام ابراہیم،ومن دخلہ‘ کان آمنا،وﷲ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا،ومن کفرفان اﷲ غنی عن العالمین‘‘(آل عمران:۹۷)

ترجمہ:بے شک سب سے پہلاگھرجومقررہوالوگوں کے واسطے یہی ہے جومکہ میں ہے، برکت والااورہدایت جہان کے لوگوں کو، اس میں نشانیاں ہیں ظاہر جیسے مقام ابراہیم اور جو اس کے اندرآیااس کوامن ملا اوراﷲ کاحق ہے لوگوں پرحج کرنااس گھرکاجوشخص قدرت رکھتا ہواس کی طرف راہ چلنے کی اورجونہ مانے توپھراﷲ پروانہیں رکھتاجہان کے لوگوں کی۔ ( تفسیرعثمانی:۲۳۸)

مذکورہ آیات سے جہاں ہمیں حج کی فرضیت معلوم ہوتی ہے وہیں ہمیں بیت اﷲ کی دیگرخصوصیات کابھی علم ہوتاہے جوکہ اس طرح ہے:(۱)دنیاکاسب سے پہلاگھربیت اﷲ اور اس کی برکتیں۔(۲)مقام ابراہیم(۳)بیت اﷲ کامامون ہونا۔(۴)صاحب استطاعت پرحج کافرض ہونا۔(۵)حج نہ کرنے والے پراﷲ کی وعید۔

(۱)دنیاکاسب سے پہلاگھربیت اﷲ اوراس کے برکات وخصوصیات:پہلی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے واضح طورپریہ بیان فرمایاہے کہ انسانوں کے لیے جوسب سے پہلاگھرمکہ میں بنایاگیایہ وہی بیت اﷲ ہے جوکہ بابرکت گھرہے اوردنیاوالوں کے لیے ہدایت کاذریعہ ہے۔مفسرین نے مندرجہ بالاآیت کے ضمن میں تحریرکیاہے کہ کعبۃ اﷲ کے دنیامیں پہلاگھرہونے کی دوحیثیت ہے ایک تویہ کہ روئے زمین پرتعمیر کیا جانے والاپہلاگھرہی کعبۃ اﷲ ہے،یعنی اس سے پہلے کوئی اورعمارت تعمیرہی نہیں کی گئی جیساکہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ،مفسرقرآن مجاہد وقتادہؓاورسدی وغیرہ صحابہ وتابعین کی یہی رائے ہے،یایہ کہ رہنے سہنے کے لیے تواورمکانات بنائے گئے ہوں،لیکن عبادت کے لیے سب سے پہلے کعبۃ اﷲ کی تعمیرکی گئی ہوجیساکہ حضرت علیؓ کی رائے ہے۔(معارف القرآن:۱؍۱۱۴)روایتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت آدم و حواعلیہماالسلام کے روئے زمین پرآنے کے بعدحضرت جبرئیل علیہ السلام کی نشاندہی پرحضرت آدم علیہ السلام نے بیت اﷲ کی تعمیرکی جوکہ طوفان نوح تک برقراررہی۔
(۲)مقام ابراہیمؑ:بیت اﷲ کی اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی مقام ابراہیم ہے،روایتوں میں آتاہے کہ جس پتھرپہ کھڑے ہوکرآپ بیت اﷲ کی دیوارکی تعمیرکررہے تھے وہ پتھرمعجزاتی طور پرجیسے جیسے دیواراونچی ہوتی تھی آپ کواونچااٹھانے کے لیے پتھربھی خودبخودحسب ضرورت اونچا ہوجاتا اورپھراترنے کے وقت خودبخودنیچے آجاتااورنرم ایساکہ کھڑے ہونے کی وجہ سے آپ کے نقش قدم کواس نے اپنے سینے پر اتار لیا جوکہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے،جس کامذکورہ آیت میں تذکرہ ہے۔
(۳)بیت اﷲ کامامون ہونا:بیت اﷲ کی دوسری اہم خصوصیات میں ایک خصوصیت اس کامامون ہونا ہے۔ اس کی ایک توشرعی حیثیت ہے کہ اﷲ کاحکم ہے کہ جوشخص حرم میں داخل ہوجائے اسے نہ مارونہ ستاؤ، اگر کوئی شخص کسی کاقتل کرکے حرم میں داخل ہوجائے تواس سے اس وقت تک درگذرکیاجائے گاجب تک کہ وہ باہرنہ آجائے،یاپھراسے باہرآنے کے لیے مجبورکیاجائے گالیکن حرم کے اندراس سے کسی قسم کاتعرض نہ کیاجائے گا۔اسی طرح حرم کامامون ومحفوظ ہونااس طورپربھی ہے کہ تکوینی طورپراﷲ نے ہرقوم وملت کے دل میں حرم کی عظمت ڈال دی ہے تاکہ وہ حرم کے اندرلڑائی جھگڑانہ کریں،زمانۂ جاہلیت میں ہزار خرابیوں کے باوجودہرشخص کے دل میں بیت اﷲ کی عظمت تھی اوروہ بیت اﷲ میں داخل ہونے والے کسی شخص سے تعرض نہیں کرتے تھے،صرف فتح مکہ کے موقع پراﷲ نے چندگھنٹوں کے لیے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کوبتقاضائے مصلحت قتال کی اجازت دی تھی،کیوں کہ اس موقع کاتقاضابھی یہی تھا،اورپھراس کے بعد قیامت تک کے لیے حرم میں قتل وخون کوحرام کردیاگیا۔
(۴)صاحب استطاعت پرحج فرض ہونا:آیت میں بیت اﷲ کی تیسری اوراہم خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ ہروہ شخص جوبیت اﷲ تک آنے کی استطاعت رکھتاہے اس پرزندگی میں ایک باربیت اﷲ کاحج فرض ہے۔حج کے فرضیت پرقرآن کی متعددآیتیں اوراحادیث واردہوئی ہیں،جن میں حج کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیاگیاہے۔اورساتھ ہی حج میں تاخیرکرنے والوں کے لیے وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں جیساکہ اسی آیت کے اگلے ٹکڑے میں یہ بات آرہی ہے۔جب انسان پرشرعی طورپرحج فرض ہوجائے تب چاہیے کہ وہ جلدازجلداپنایہ فریضہ پوراکرے،اس میں تاخیریاحیلہ بہانہ سخت گناہ ہے۔انسان کی زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں،نہ جانے اگلے حج تک وہ زندہ رہے گابھی یانہیں؟اگراس دوران اس کی موت ہوجاتی ہے تو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یاتووہ نصرانی ہوکرمرا،یایہودی ہوکر،اﷲ کیاوعیدہے حج میں تاخیرکرنے والوں پر!!!حج کی اہمیت وفضیلت سے متعلق یہاں چنداحادیث کوبیان کیاجارہا ہے پڑھیں اورغورکریں کہ آج کل کے اہل ثروت حضرات کس قدرخوا ب غفلت میں پڑے ہیں،ساری سہولتیں اورآسانیاں میسرہونے کے بعدحج میں تاخیرکرتے رہتے ہیں،اوراس وقت کاانتظارکرتے ہیں جب کہ وہ بوڑھے ہوجائیں،قویٰ کمزورہوجائے ،یادرکھیں!حج جوانی کی عبادت ہے،اورپھرجب فرض ہوگیاتوپھردیرکس بات کی؟ملاحظہ ہواحادیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم:حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کونسا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کونسا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: حج مقبول۔ (بخاری ومسلم)حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: فریضۂ حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے۔ (مسند احمد)حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہے (یعنی جس پر حج فرض ہوگیا ہے) اس کو جلدی کرنی چاہئے۔ (ابو داؤد)حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا مرض شدید نے حج سے نہیں روکا، اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔ (الدارمی) (یعنی یہ شخص یہود ونصاری کے مشابہ ہے)۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ کچھ آدمیوں کو شہر بھیج کر تحقیق کراؤں کہ جن لوگوں کو حج کی طاقت ہے اور انھوں نے حج نہیں کیا ،تاکہ ان پر جزیہ مقرر کردیا جائے۔ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ (سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا)حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود حج نہیں کیا، اس کے لئے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔ (سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا ) غور فرمائیں کہ کس قدر سخت وعیدیں ہیں ان لوگوں کے لئے جن پر حج فرض ہوگیا ہے، لیکن دنیاوی اغراض یا سستی کی وجـہ سے بلاشرعی مجبوری کے حج ادا نہیں کرتے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے محض اﷲ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تووہ (پاک ہوکر)ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز(پاک تھا)(بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں۔ اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: پے درپے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجـہ) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ! ہمیں معلوم ہے کہ جہاد سب سے افضل عمل ہے، کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں (عورتوں کے لئے) عمدہ ترین جہاد حج مبرور ہے۔ (بخاری)ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کیا عورتوں پر بھی جہاد (فرض) ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ان پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں خوں ریزی نہیں ہے اور وہ حج مبرور ہے۔ (ابن ماجـہ)حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کو جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے، اس کے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا۔ اور جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے، تو اس کو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ اور جو شخص جہاد کے لئے نکلے اور راستہ میں انتقال کرجائے، تو اس کے لئے قیامت تک جہاد کا ثواب لکھا جائیگا۔ (ابن ماجـہ)
(۵)حج نہ کرنے والے پراﷲ کی وعید:حج کی فرضیت کاصراحۃً انکارکرنے والاتوکافرہے،اس پرسبھی متفق ہیں۔مفسرقرآن مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کویوں بیان کیاہے:’’اس میں وہ شخص تو داخل ہی ہے جوصراحۃً فریضہ حج کامنکرہو،اس کادائرۂ اسلام سے خارج اورکافرہوناتوظاہرہے،اس لیے ’’ومن کفر‘‘کالفظ اس پرصراحۃً صادق ہے،اورجوشخص عقیدہ کے طورپرفرض سمجھتاہے ،لیکن باوجوداستطاعت و قدرت کے حج نہیں کرتا،وہ بھی ایک حیثیت سے منکرہی ہے،اس پرلفظ ’’ومن کفر‘‘کااطلاق تہدید اور تاکید کے لیے ہے،یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلاہے،جیسے کافرومنکرحج نہیں کرتے،یہ بھی ایساہی ہے،اسی لیے فقہاء رحمہم اﷲ نے فرمایاکہ آیت کے اس جملہ میں ان لوگوں کے لیے سخت وعیدہے جوباوجودقدرت واستطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہوگئے۔ العیاذباﷲ۔ (معارف: ۲؍۱۲۲)

الغرض!حج ایک ایسافریضہ ہے جوہرصاحب حیثیت شخص پرزندگی میں ایک بارفرض ہے،مندرجہ بالاآیات وروایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ فریضۂ حج کی ادائے گی میں جلدی کرنی چاہیے،حیلہ اوربہانہ کرکے تاخیرنہیں کرنی چاہیے نہ جانے کب زندگی کی شام ہوجائے اوراﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں اس کا حشر یہود ونصاریٰ کے ساتھ ہو۔اﷲ ہم سبھوں کوحج مبرورکی توفیق عطافرمائے۔آمین٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50715 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More