نماز زیرِ غور و توجہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مضمون کا عنوان ’’نماز زیرِ غور و توجہ‘‘ (Salah in Focus) ہے –جو نماز کے بارے میں کچھ غور و توجہ پیدا کرے گا۔ آئیے اپنی امت کی تاریخ میں ایک ایسے وقت کی طرف واپس چلتے ہیں جب نماز کا نکتۂ توجہ (focus) ٹھوس خطوط پر استوار تھا۔ ہماری تاریخ کا اہم ترین دور حیاتِ رسول ﷺ کا ہے۔ ہمارے دین میں اور حیاتِ رسول ﷺ میں نماز کو غور و توجہ کا جو مقام حاصل ہے، اسے سمجھنے کیلئے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے کٹھن اور غمناک ترین وقت کی جانب واپس جانا ہو گا: ان کی حیاتِ طیبہ کا وہ وقت جو ’عام الحزن‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس وقت ایسا کیا ہوا تھا جس نے اسے ’عام الحزن‘ (غم کا سال) بنا دیا؟ وہ کیا واقعات تھے جو نماز پر غور توجہ پر منتج ہوئے؟ شاید عظیم ترین ذاتی سانحہ۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں بہت سے مشکل حادثات اور لمحات آئے لیکن رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا سب سے بڑا ذاتی سانحہ ان کی پیاری زوجہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال تھا۔ مجھے جو ایک عمومی شکایت رہتی ہے – اور میں اکثر اس شکایت کا اظہار اپنے شاگردوں اور اپنے لوگوں سے کرتا ہوں – وہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر میں دیکھتا ہوں کہ بالخصوص سیرت کے معاملے میں، ہمارے یہاں یا تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بارے میں ویکی پیڈیا طرزِ عمل ہے یا پھر ان کی زندگی کے بارے میں اینٹر ٹینمنٹ (لطف اندوزی) جیسا طرزِ عمل ہے۔
وہ کیسے؟ مجھے تفصیل سے بتانے دیجیے۔ جب ہم عام طور سے رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور ان کی زندگی کے تجربات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو یہ یا تو ویکی پیڈیا طرزِ عمل ہوتا ہے، یعنی اِدھر اُدھرکے چند ملے جلے حقائق اور نکات کا مجموعہ اورآپ بس ’نیکسٹ‘ (آگے کا بٹن) دباتے جاتے ہیں اور کاغذ پر نیچے کی جانب چلتےجاتے ہیں۔ آپ پڑھتے ہیں کہ نبوت کے گیارھویں سال رسول اللہ ﷺ کی بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا وفات پا گئیں اور پھر آپ فہرست میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔
یا پھر اینٹر ٹینمنٹ (لطف اندوزی)جیسا طرزِ عمل میں، جس کا مطلب ہے کہ اگر گزشتہ ہفتے کسی دوسرے مقرر نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر لیکچر دیا اور اس ہفتے میں آتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ’’آج آپ کے مہمان مقرر کے طور پر میں رسول اللہ ﷺ کی پیاری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا ‘‘ تو ساتھ ہی کوئی کہہ دے گا، ’’برائے مہربانی بھائی، ہم اس موضوع کو پہلے ہی عبور کر چکے ہیں اور گزشتہ ہفتے ہی اس کو سن چکے ہیں!‘‘
میں اسے اینٹرٹینمنٹ جیسا طرزِ عمل کیوں کہتا ہوں؟ ہم اینٹرٹینمنٹ کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں؟اگر آپ ایک مزاحیہ اسٹیج ڈرامے کی ایک قسط ایک مرتبہ کبھی دیکھ چکے ہیں اور اب(ٹی وی کے) چینل تبدیل کر رہے ہیں اور وہی قسط جو آپ نے گزشتہ ہفتے دیکھی تھی دوبارہ دکھائی جا رہی ہے، تو کیا آپ وہاں بیٹھ کر اسے دوبارہ دیکھیں گے؟ نہیں، آپ چینل تبدیل کر دیں گے کیونکہ آپ وہ قسط پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگر اور کچھ بھی نہ چل رہا ہوتا اور آپ تمام دیگر چینلز تبدیل کر کے دیکھ چکے ہوتے اور اس شو (پروگرام) کی کوئی بہت ہی اچھی قسط چل رہی ہوتی تو شاید آپ اسے دوسری مرتبہ بھی دیکھ لیتے۔ جب یہ تیسری مرتبہ چلے تو پھر آپ اسے نہیں دیکھیں گے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ واقعی بہت ہی عمدہ قسط تھی، آپ شاید اسے تیسری مرتبہ بھی دیکھ لیں مگر اس وقت تک آپ اس قابل ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کے بولنے سے بھی پہلے آپ وہی فقرے بول سکتے ہیں اورٹی وی شو والوں سے بھی پہلے آپ ان کے چٹکلے ادا کر سکتے ہیں۔ جب یہی قسط چوتھی مرتبہ چلے تو کیا آپ اسے پھر سےدیکھیں گے؟ ہر گز نہیں!
اگر آپ کسی میگزین کا کوئی شمارہ ایک مرتبہ پڑھ چکے ہیں تو آپ اسے دوبارہ نہیں پڑھیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر کے کلینک میں انتظار گاہ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور اسے اٹھا لیتے ہیں اور یہ گزشتہ مہینے کا شمارہ ہے جسے آپ پہلے ہی پورا پڑھ چکے ہیں تو آپ اسے رکھ کر دوسرا میگزین اٹھا لیتے ہیں۔آپ کزشتہ کل کا اخبار آج دوبارہ نہیں پڑھتے۔
یہ (رویہ) ملی جلی معلومات جمع کرنا ہے یااینٹرٹینمنٹ ہے۔ بد قسمتی سے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں ہمارا طرزِ عمل بالکل اسی رویے جیسا ہو چکا ہے۔ ’’ہم یہ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ ہم پہلے ہی اس پر عبور حاصل کر چکے ہیں۔ ہم اس پر بات کر چکے ہیں۔‘‘
یہاں آج میرا مقصد یہ ہے - جو کہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنی عادت اور مشق میں شامل کرنے کی ضرورت ہے - وہ یہ کہ ہمیں واقعی سمجھنے اور ذہن نشین کرنے اور اپنے آپ کو اس جگہ رکھ کر دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ان حالات کو مکمل طور پر سمجھنے، ان پر عبور حاصل کرنے اور احاطۂ فہم و ادراک میں لانے کی ضرورت ہے جن سے رسول اللہﷺ گزر رہے تھے۔
نماز کی وحی (حکم) کا سیاق و سباق
اس (مقصد کی تکمیل کی) کوشش میں ، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس بات کا مطلب کیا ہے کہ نبوت کے گیارھویں سال رسول اللہ ﷺ کی بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا وفات پا جاتی ہیں۔ وقت کے اس نکتے پر رسول اللہ ﷺ کی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئے 25 سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ اگر آپ 25 سال سے کم عمر ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی ہوئے اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا تھا جتنے عرصے سے آپ زندہ ہیں۔ 25 سال ایک وقت ہوتا ہے، اسے غور سے سمجھیے!
کیا آپ جانتے ہیں کہ 25 سال میں کیا ہوتا ہے؟ یہ ایسے ہے جیسے آپ یک جان دو قالب ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس وقت پر آ کر آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوسرا فرد کیا سوچ رہا ہے اس سے بھی پہلے کہ وہ کچھ کرے آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہے گا اور آپ اس سے بھی پہلے اس کے جملے مکمل کر سکتے ہیں۔ آپ اس فرد کے بارے میں ہر بات جانتے ہیں۔ آپ بہ دل و جان جڑے ہوتے ہیں۔ تصور کیجیے، ایک فرد کے ساتھ آپ کی زندگی کے حد درجہ ذاتی، بے تکلفانہ، اور محبت سے بھر پور لمحات کے 25 سال۔ سوچیے کہ یہ تعلق کس قدر گہرا تھا یہ محبت کتنی والہانہ اور گہری بنیادوں پر قائم تھی۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کافی گھسا پٹا انداز لگتا ہے اور بعض لوگوں کو قدرے پریشان کن لیکن وہ واقعتاً رسول اللہ ﷺ کی زندگی کی محبت تھیں۔ وہ دل و جان سے ان کی ساتھی اور شریکِ حیات تھیں۔ ہمیں یہ کیسے معلوم ہے؟ ہم یہ بات اس وقت معلوم ہوتی ہے جب ہم خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے کئی سالوں بعد بھی ان کی یاد میں رسول اللہ ﷺ کے رد عمل کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہیں۔
غزوۂ بدر کے زمانے میں، جو کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے تقریباً چار سال بعدتھا، انہوںﷺ نے دوبارہ شادی کر لی ہوئی تھی اور ایک مختلف شہر میں منتقل ہو چکے تھے۔ یہ ایسے ہے جیسے ہم کہیں کہ وہ ٹکڑے چن چن کر زندگی میں آگے چل دیئے تھے۔ زندگی رواں دواں تھی – وہ کسی اور جگہ سکونت اختیار کیے ہوئے تھے اور دوبارہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو چکے تھے۔ اس وقت تک اور بہت کچھ ہو چکا تھا (یعنی وقت اور حالات میں تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں)۔
غزوۂ بدر کے دوران جنگی قیدیوں میں سے ایک ان ﷺ کا داماد تھا، ان ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہاکا شوہر۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے جو حکمت عملی وضع کر رکھی تھی وہ یہ تھی کہ قیدی اس صورت میں چھوڑے جائیں گے کہ اگر وہ خواندہ ہوں اور 10 مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں،یا اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر ان کے لواحقین انہیں چھڑانے کیلئے کچھ رقم ارسال کر دیں، تو اس صورت میں وہ اپنے گھر، خاندان اور لوگوں میں جانے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں گے۔
رسول اللہ ﷺ کا داماد قیدی تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کچھ زیورات بھیجتی ہے – ایک ہار – تا کہ فدیہ دے کر اپنے شوہر کی خلاصی یقینی بنا سکے۔ رسول اللہ ﷺ بہت مصروف ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں ہوا، اور صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں، ’’اگلا قیدی فلاں فلاں ہے، یہ ہار اسے چھڑانے کیلئے بھیجا گیا ہے۔‘‘ جوں ہی رسول اللہ ﷺ نے ہار کی جانب دیکھا، آنسو ان کی چشمِ مبارک سے رواں دوں ہو گئے۔ ان پر اداسی چھا گئی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا، ’’اے اللہ کے رسول ﷺ، کیا ہم نے آپ کو پریشان کیا ہے؟ کیا ہم نے آپ کو مضطرب کیا ہے؟ کیا سب ٹھیک ہے؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ ہار میری بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت تھا، انہوں نے یہ ہماری سب سے بڑی بیٹی زینب کو دے دیا تھا، اور آج زینب نے یہ بطور فدیہ بھیج دیا ہے۔ اس ہار کو دیکھنے پر مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہاکے ساتھ گزارے پرانے ایام یاد آ گئے ہیں۔ میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ اس بارے میں اتنے فکر مند تھے کہ زینب اپنی والدہ کی ہمیشہ رہنے والی یاد کو اپنے پاس ہی رکھ سکیں کہ انہوں نے صحابہ سے ان کی اجازت مانگی: ’’اگر تم برا نہ مانو تو کیا میرے داماد کو رہا کر دیں کہ اپنی بیوی، میری بیٹی کے پاس اس ہار سمیت چلا جائے؟ میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی اپنی ماں کی اس یادداشت سے محروم ہو جائے۔‘‘ اتنی شدید تھی رسول اللہ ﷺ کے دل میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد!
کئی سالوں بعد، رسول اللہ ﷺ کے وصال سے ایک سال قبل جب قافلوں کے قافلے اسلام قبول کرنے کیلئے مدینہ حاضر ہو رہے تھے، ایک قافلہ جو یمن سے آیا ، اس کے پاس ایک اوڑھنے والی چادر کی مانند قیمتی کپڑا تھا، جو سردار نے رسول اللہ ﷺ کیلئے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ نادر تحفہ وصول کیا تو مقامی لوگوں میں سے ایک نوجون صحابی کو بلایا جو انﷺ کے کام کرتے تھے ، اور فرمایا: ’’یہ کپڑا اس عمر رسیدہ خاتون کے گھر لے جاؤ جو فلاں فلاں کے گھر کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے ایک زوجہ ان خاتون کو نہیں جانتی تھیں سو ذرا حیران ہوئیں۔ فرمانے لگیں، ’’یہ انجان اور عمر رسیدہ خاتون کون ہیں جنہیں آپ نے اتنا عمدہ تحفہ بھیجا ہے؟ میں جانتی ہوں کہ وہ آپ کی رشتہ دار نہیں ہیں کیونکہ میں آپ کے خاندان کو جانتی ہوں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ جواباً فرماتے ہیں، ’’وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی پرانی سہیلیوں میں سے ایک ہیں۔ میں آج دن تک خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا شکریہ ادا کرنا، انہیں یاد رکھنا اورانہیں تحائف بھیجنا پسند کرتا ہوں تا کہ انہوں نے میری پیاری مرحوم بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جو سالہا سال کی دوستی کا ساتھ دیا اس کا شکریہ ادا کر سکوں۔‘‘ یہ تھی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد رسول اللہ ﷺ کے دل میں!
نوجوان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک نے، جنہوں نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کا دور نہیں دیکھا تھااور نہ ہی ان سے کوئی فائدہ پایا تھا، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، ’’اے اللہ کے رسول ﷺ، ہم اپنی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتنا زیادہ سنتے ہیں لیکن ان سے ملنے اورانہیں دیکھنے اور انہیں جاننے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکے۔ وہ کیسی تھیں؟ ہمیں ان کے بارے میں بتائیے۔‘‘ حدیث کے الفاظ میں ہے، ’’انها کانت... و کانت‘‘ (وہ تھی اور بس وہ تھی!) اس تاثرسے مراد یہ ہے کہ جیسے رسول اللہ ﷺ فرما رہے ہیں، ’’وہ تھی اور بس وہ تھی۔۔۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں، میرے پاس یہ بتانے کیلئے الفاظ نہیں ہیں کہ وہ کتنی شاندارتھی۔۔‘‘ رسول اللہ ﷺ اتنا طاقتور احساس رکھتے تھے ان کے بارے میں۔ وہ اپنی زندگی کی محبت کھو چکے تھے – ان کی بیوی اور ان کے بچوں کی ماں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ کو اپنے بچوں کی آنکھوں میں دیکھ کر انہیں یہ بتانا پڑے کہ ان کی ماں اب گھر نہیں آئے گی؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ کتنا دل شکن کام ہے؟
ایک ذاتی واقعہ
چند سال قبل میں یہ واقعہ ایک خطبہ میں سنا رہا تھا۔ بعد ازاں ایک بھائی میرے پاس آتا ہے۔ عموماً خطبہ کے بعد لوگوں کے پاس آپ کیلئے کوئی رد عمل ہوتا ہے۔ یہ بھائی کہتا ہے، ’’بھائی آپ جانتے ہیں آج آپ نے جس موضوع پر بات کی، اس نے مجھے ذاتی طور پر جھنجھوڑ دیا!‘‘ کبھی کبھار کوئی آپ کے پاس آتا ہے اور کچھ کہتا ہے اور ان کی نظروں میں ایساتاثر ہوتا ہے جیسے ان کے پاس آپ کو بتانے کیلئے کوئی روداد ہے۔ اس بھائی کی نظروں میں بھی ایسا ہی تاثر تھا، سو میں نے اسے پوچھا، ’’بھائی اگر برا نہ لگے تو کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ خطبہ آپ سے ذاتی طور پر کس طرح ملتا جلتا ہے اور اس نے کس طرح آپ کو گہرا متاثر کیا ہے؟‘‘ وہ میرے پاس بیٹھ جاتا ہے اور مجھے بتاتا ہے، ’’میں مسلمان پیدا ہوا اور پلا بڑھا، ایک اچھے مسلمان گھرانے میں پرورش پائی – نماز، مسجد، قرآن، ذکر۔ یہ سب چیزیں ہمارے اہلِ خاندان کی زندگیوں کا حصہ تھیں، مگر آج میں نے تقریبا ایک سال کے عرصے میں پہلی دفعہ نماز پڑھی ہے۔‘‘
سبحان اللہ، کیا ہوا؟ وہ مجھے بتاتا ہے، ’’تقریبا ایک سال پہلے میں اپنی زندگی میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں (زندگی کے)معمے کی تمام گتھیاں سلجھتی جا رہی تھیں۔ آپ جانتے ہیں میرا کیا مطلب ہے؟ آپ کچھ وقت سے کچھ خاص مقاصد کے حصول کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں اور پھر آپ وقت میں ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں یوں لگتا ہے کہ ہمہ گیر منصوبہ اب پایہ تکمیل تک پہنچنے کو ہے۔ میں تقریبا 30 سال کا تھا اور میڈیکل ریزیڈینسی (ہاؤس جاب) کے اختتام کے قریب پہنچ چکا تھا اورمیری ایک جوان بیوی اور دو بچے تھے۔ ہم ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں ایک طالبعلم اورریزیڈینٹ (اپنے فرائض کی بجا آوری کے دوران مقیم ڈاکٹر) کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہمارے پاس ایک پرانی خستہ حالت استعمال شدہ گاڑی تھی۔ زندگی مشکل تھی لیکن ہم اسے اسکول اور ریزیڈینسی کے ذریعے جیسے تیسے گزار رہے تھے۔ میں اپنی ریزیڈینسی کے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا اور ڈاکٹروں، گروپس، کلینکس، اور ہسپتالوں سے بہت عمدہ پیشکشیں وصول کر رہا تھا۔ چیزیں بہتر ہو رہی تھیں۔ ہم کچھ نئے مکان بھی دیکھنے کیلئے گئے جہاں میرے بچے بھاگ دوڑ سکیں اور جہاں ان کےکھیلنے کیلئے عقبی صحن ہو۔ ہم ڈیلرشِپ کی دکان پر منی وین (minivan) خریدنے کیلئے بھی گئے اور اور اچھے اسکول بھی تلاش کر رہے تھے جہاں اپنے بچوں کو بھیج سکیں۔غرض ہر لحاظ سے ۔۔ ہر چیز بہتر ہو رہی تھی۔
ایک روز میں ہسپتال سے گھرمعمول سے ذرا جلدی آگیا۔ میں نے اندر داخل ہو کر سلام کیا مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس وقت عموماً میری بیوی بچوں کو تھوڑی دیر سلانے کیلئے لٹاتی تھی اور ساتھ خود بھی ذرا دیر کو سو جاتی تھی، سو میں نے سوچا کہ میں انہیں نہیں جگاؤں گا۔ میں نے کچھ کھایا پیا اور کچھ پڑھ کر وقت گزاری کرنے لگا۔ تقریبا ایک گھنٹہ گزرا ہو گا کہ مجھے بیڈ روم سے بچوں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ جاگ گئے تھے۔ میں کمرے سے ان کے شور شرابے کی آوازیں سن کر خوش ہوا ۔ میں کمرے کی طرف گیا اور دروازہ کھولا اور بچے وہاں بستر پر جاگے بیٹھے تھے اور رو رہے تھے کیونکہ وہ ابھی ابھی اٹھے تھے ، لیکن میری بیوی بے حس و حرکت لیٹی تھی اور کوئی رد عمل ظاہر نہیں کر رہی تھی۔ میں اسے دیکھنے کیلئے گیا۔ جب میں نے چیک کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مردہ تھی۔ وہ وفات پا چکی تھی۔
اس لمحے میری دنیا بکھر کر رہ گئی۔ میری زندگی پارہ پارہ ہو گئی۔ شروع کے کچھ دن تو جنازے اور اس کی رسومات میں دھندلائے ہوئے گزر گئے۔ جب جنازہ ہو گیا اور یہ حقیقت راسخ ہو گئی کہ میری بیوی جا چکی تھی، میرے بچوں کی ماں جا چکی تھی، تو میں دو ہفتوں تک اپنے بیڈ روم سے باہر نہ آیا۔ میں نے اپنے آپ کو اپنے کمرے میں بند کر لیا اور اندھیرے میں لیٹا پڑا رہا۔ میں بمشکل ہی کچھ کھاتا اور بمشکل ہی سوتا۔ ان دو ہفتوں میں میں نے اپنے بچوں تک کواپنے ہاتھوں میں نہ اٹھایا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اپنے آپ کے ساتھ کیا کروں۔ میری زندگی بے معنی ہو گئی تھی۔ یہ کیا ہو گیا تھا؟ اب مجھے کیا کرناچاہیے؟
آخر کار میں نے سنبھلنا شروع کیا اور اپنی زندگی کو دوبارہ ڈگر پر لانا شروع کیا اور کام پر گیا اور بچوں کے ساتھ دوبارہ تعلق جوڑا اور بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ بالآخر میں دوبارہ کام پرجانے لگا اور جتنا مجھ سے ہو سکتا اچھے طریقے سے بچوں کا خیال کرنے کی کوشش کرنے لگا۔میرا ایک چھوٹا سا خاندان تھا میں جن کا سہارا لے سکتا تھا۔ ایک مسئلہ بہرحال تھا جو ابھی حل نہیں ہوا تھا: میرا ایمان۔ مجھے یہ معلوم نہیں رہا تھا کہ اب میں کس چیز پر یقین رکھتا ہوں اور یوں محسوس ہوتاتھا جیسے میرے دل کے اندر ایک سوراخ ہو۔ میں اپنا ایمان کھو چکا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا کس چیز پر اعتقاد تھا کیونکہ ہ سب کیوں ہوا تھا اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے تھا؟ میرا بھائی جو بہت معاون رہا ہے، ہمیشہ میرے ساتھ رہا اور اس وقت میرے بچوں کا خیال رکھا جب میں ان کا خیال رکھنے سے عاجز تھا۔ میرا بھائی مجھے حوصلہ اور ہمت دلاتا رہا اور مجھے کہتا رہا، ’’تمہیں نماز ادا کرنی چاہیے۔ اگر تم نماز ادا کرو گے تو چیزیں پھر سے با معنی ہونے لگ جائیں گی۔ تمہیں اللہ سے بات کرنے اور اللہ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔‘‘ میں لگاتار مزاحمت کرتا رہا۔
آخر کارآج میں صبح جاگا اور میرا بھائی میرے پاس آ کر کہنے لگا، ’’میں انکار نہیں سنوں گا۔ تم میرے ساتھ مسجد چل رہے ہو۔ تم چلو گے اور خطبہ سنو گے اور بڑی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرو گے۔ آج کے دن تم نئے سرے سے آغاز کرو گے ۔‘‘ وہ مجھے نمازِ جمعہ کیلئے لے کر آیا اور میں واقعتا نتیجے یا انجام کے بارے میں کوئی خاص پر امید نہیں تھا۔ جب آپ نے منبر پر سے رسول اللہ ﷺ کااپنی بیوی کوکھونے اور ان کے بچوں کا اپنی ماں کو کھونے کی بات کی تو مجھے اپنے مسئلے کا جواب مل گیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میرے رسول ﷺ اسی تجربے سے گزرے تھے جس سے میں گزر رہا ہوں۔ وہ میری تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے میری (جیسی) تکلیف کو محسوس کیا تھا۔ مجھے ان کے ساتھ اپنا تعلق محسوس ہوا اور میں نے سوچا کہ اگر وہ اس (حادثے) کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھ سکتے تھے تو پھرمیں بھی ویسے ہی کر سکتا ہوں۔‘‘
کبھی کبھار جب آپ کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اسے سمجھ نہیں پاتے اور واقعتاً اس چیز کی قدردانی نہیں کر سکتے جس چیز سے رسول اللہ ﷺ گزرے تھے جب تک کہ آپ خود اس سے نہ گزریں – اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ کبھی کبھار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی (ایسے شخص) کو آپ سے ملا دیتے ہیں تا کہ آپ بہتر طور پر سمجھ سکیں ۔ آپ ایک دوسرے انسان کی آنکھوں میں دیکھ کر کم از کم اتنا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیا تکلیف تھی (جس سے وہ گزرے)۔
سبحان اللہ، اس بھائی سے بات چیت کے دو سال بعد، جب یاد دھندلی ہونے لگتی ہے اور آپ کیلئے کہانی دل و دماغ میں پرانی ہونے لگتی ہے، اللہ تعالیٰ کسی اور کو بھیج دیتے ہیں۔ میں ایک مقامی آبادی میں یہ لیکچر دے رہا تھا اور بعد میں ایک بھائی مجھ تک آیا اور کہنے لگا، ’’بھائی آپ نے جو بات کی ہے، بالکل یہی کچھ پانچ سال قبل میرے ساتھ ہوا۔ میں گھر آیا۔ میرے بیٹے 10 اور 12 سال کے تھے۔ میں نے سلام کیا اور میرے بیٹے کھیل رہے تھے اور وہی کچھ کر رہے تھے جو بچے کرتے ہیں۔ میں بیڈروم میں جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ میری بیوی فرش پر ڈھیر ہے۔ میں نے اسے چیک کیا تو وہ وفات پا چکی تھی۔ پانچ سال بعد، آج میرے بچے 15 اور 17 سال کے ہیں، اور مجھے یوں لگتا ہے کہ اپنی زندگیوں میں سب سے اہم فرد – وہ گوند جس نے پورے خاندان کو جوڑا ہوا تھا – کھودینے کے بعد اب آ کر ہم نے اپنی زندگیوں کو دوبارہ اکٹھا کرنا شروع کیا ہے۔‘‘
رسو ل اللہ ﷺ نے اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی ماں کو کھو دیا۔ اور اس سب پر مستزاد، انہوں نے اپنے سب سے مصمم اور طاقتور مددگار کو کھو دیا۔ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا فرد کون تھا؟ خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ وہ ایک جراتمند خاتون تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ پیغامِ وحی کے ساتھ گھر تشریف لائے تو وہ پریشان تھے، اور وہ رضی اللہ عنہا ان کی پریشانیوں کو دلاسہ دیتی ہیں اور فرماتی ہیں، ’’اللہ آپ کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑے گا۔ اللہ آپ کو کبھی نقصان کی راہ پر نہیں ڈالے گا کیونکہ آپ اتنے عمدہ انسان ہیں۔‘‘ وہ ﷺ فرماتے ہیں، ’’ٹھیک ہے خدیجہ، میں یہ سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں، مگر اس پیغام کو کون تسلیم کرے گا؟‘‘ وہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ’’کیا آپ اس بات سے پریشان ہیں کہ اس پیغام کو کون تسلیم کرے گا؟ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ وہ رسول اللہ ﷺ کی قوت تھیں۔ تصور کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ انہیں کھو کر کیسی تکلیف اور رنج و الم سے دوچار ہوئے ہوں گے!
حتمی مثالی نمونہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک حتمی مثالی نمونہ بنایا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تقریبا تین سے چھ ماہ بعد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک اور سانحہ پیش آیا: ان کے چچا ابو طالب کی وفات۔ اس بات کا مطلب جاننے کیلئے ہمیں سیاق و سباق (معلوم کرنے) کی ضرورت ہے۔ جب آپ کسی چچا کی وفات کی خبر سنتے ہیں تو یہ افسوسناک اور المناک ہوتا ہے، مگر کیا یہ چیز آپ کی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے اور آپ کو پامال کر کے رکھ دیتی ہے؟ یہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جسے آپ نے سال میں زیادہ سے زیادہ دو تین مرتبہ دیکھا ہوتا ہے۔ اگر وہ کوئی قریبی چچا بھی ہوں تب بھی یہ ماں یا باپ کو کھونے جیسا نہیں ہوتا۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ چچا کون تھے اور رسول اللہ ﷺ کیلئے واقعتاً کیا حیثیت رکھتے تھے۔ یہ اس قسم کے چچا نہیں تھے جنہیں ہم سال میں دو مرتبہ عید پر ملتے ہیں!
رسول اللہ ﷺ کے والد ان کی پیدائش سے قبل وفات پا گئے، اور ان کی والدہ اس وقت وفات پا گئیں جب وہ صرف چھ سال کے تھے۔ وہ پھر اپنے دادا عبدالمطلب کی نگرانی میں چلے گئے اور جب وہ آٹھ سال کے ہوئے تو ان کے دادا بھی وفات پا گئے۔ نقطوں کو ملائیے اور تصویر کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آٹھ سال کی عمر تک اس بچے نے کبھی باپ دیکھا ہی نہیں تھا، اپنی ماں اوراپنے دادا کو بھی کھو چکا تھا اور اس کے کوئی حقیقی بہن بھائی نہ تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں یہ بچہ بنیادی طور پر دنیا بھر میں تنہا تھا۔ اس کا اپنا کوئی گھرانہ نہ تھا۔ وقت کے اس موڑ پر اس کے چچا ابو طالب نے اس کو اپنی نگہداشت میں لے لیا۔
عام طور پر جب ہم ایسی کہانی سنتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنے بچوں کی طرح پالا۔ ابو طالب نے انہیں اپنے بچوں کی طرح نہیں پالا تھا، بلکہ انہوں نے اپنے بچوں سےبھی زیادہ اچھے طریقے سے پالا تھا، جتنا کہ یہ ناممکن نظر آتا ہے (اصل میں اتنی ہی حقیقت ہے!)۔ میرے اپنے بچے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ یہ ناممکن لگتا ہے۔ آپ کسی اور کے بچے کو اپنے بچے سے زیادہ پیار کیسے کر سکتے ہیں؟ ابو طالب نے ثابت کر دیا کہ یہ ممکن ہے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابیں کہتی ہیں کہ قریش کے لوگ اس بات کی شہادت دیتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ابو طالب کی گود میں ان کے اپنے بچوں کی نسبت زیادہ دیکھتے۔ ابو طالب ایک لمحے کیلئے بھی رسول اللہ ﷺ کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کیلئے فکر مند رہتے۔ انہوں نے ان ﷺ کی پرورش کی اوروہی ان ﷺ کے والدین اور خاندان تھے۔ یہ وہ شخص تھے جنہوں نے آٹھ سال کی عمر سے جوانی تک ان ﷺ کی پرورش کی۔ انﷺ کا پورا خاندان یہ ایک شخص ابو طالب تھا۔ وہ آپ ﷺ کیلئے سب کچھ تھے۔
رسو ل اللہ ﷺ نے انہیں کھو دیا۔ یہ ایسے ہے جیسے آپ اپنے ماں اور باپ دونوں کو یکدم کھو دیں۔ تصور کیجیے کہ بیوی کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد یہ حادثہ کتنا تکلیف دہ ہوا ہو گا۔ سوچیے کہ یہ دور رسول اللہ ﷺ کیلئے جذباتی طور پر کتنا مشکل رہا ہو گا۔
ابو طالب کی وفات کے ساتھ ایک اور المیہ بھی جڑا ہوا تھا۔ ایک حدیث ہے جو اس پوری تصویر کی عکاسی کرتی ہے۔ ابو طالب بہت عمر رسیدہ شخص تھے اور کچھ عرصے سے بیمار تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ اب گویا ان کا آخری وقت ہے اور انہیں الوداع کہنے کا وقت آ گیا ہے، تو وہ فوراً ان کے بستر تک پہنچے اور ابوطالب کے بستر کے ساتھ بیٹھ کر نم آنکھوں کے ساتھ ان کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اس شخص کو کھو رہے تھے جس سے انہیں بے حد محبت تھی۔
رسول اللہ ﷺ ان کا ہاتھ تھام کر فرماتے ہیں، ’’چچا آپ نے میرے لئے اتنا کچھ کیا ہے، صرف ایک مرتبہ کلمہ پڑھ لیں، صرف ایک مرتبہ۔‘‘ حدیث میں ہے کہ اس وقت ابو جہل اور قریش کے دیگر سرداروہاں موجود تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ وفات سے پہلے ابو طالب اسلام قبول کریں۔ حدیث میں ہے کہ ابو جہل نے کسی جنگلی جانور کی طرح اپنے پورے زور سے شور و غوغا کیا، ’’ابو طالب، اپنے آباؤ اجداد کا دین مت چھوڑنا! ابو طالب اپنے دین کو مت چھوڑو!‘‘ وہ بار بار بہ آواز بلند چلّا رہا تھا، اور ابو طالب جو پہلے ہی ایک عمر رسیدہ، مریض اور بیماری کی وجہ سے عاجز شخص تھے اور ساتھ ایک بندہ اپنے پورے زور سے چلّا رہا تھا، تو وہ نہ سن سکے کہ رسول اللہ ﷺ کیا فرما رہے تھے۔
ابو جہل بالکل نہیں چاہتا تھا کہ ابو طالب رسول اللہ ﷺ کو سن سکیں، لہٰذا وہ بار بار ممکن ترین حد تک بلند آواز سے شور و واویلا کر رہا تھا۔ ابو طالب نے اپنے پیارے بھتیجے کو دیکھا جسے انہوں نے بالکل اپنے بچے کی طرح پالا تھا ، اور کہا، ’’پیارے بھتیجے، تم جو بول رہے ہو میں نہیں سن پا رہا۔‘‘ حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا منہ ابو طالب کے کان کے ساتھ لگا کر بات کی تا کہ وہ واضح طور پر سن سکیں۔ انہوں نے فرمایا، ’’چچا، صرف ایک مرتبہ یہ الفاظ میرے کان میں دہرا دیجیے، ان بیوقوفوں کو یہ سننے کی ضرورت نہیں، بس میرے کان میں کہہ دیجیے، میں روزِ قیامت آپ کا گواہ بنوں گا۔۔‘‘ ابو طالب نے پیار بھری نظروں سے اپنے بھتیجے کو دیکھا اور کہا، ’’پیارے بھتیجے تم جانتے ہو کہ میں تم سے کس قدر محبت کرتا ہوں مگر جو تم مجھے کہہ رہے ہو وہ میں نہیں کر سکتا۔‘‘ وہ اسلام قبول کیے بغیر وفات پا گئے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ کمرے سے باہر نکلے تو انتہائی شکستہ اور غمزدہ تھے۔ ان کا غم ایسا تھا جیسا صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
اس رنج کو تصور کیجیے کہ نہ صرف اس فرد کو کھونا جو آپ کے پورے خاندان کی طرح ہو بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ آپ ایمان اور ہدایت کا پیغام سب تک پہنچا رہے ہیں مگر وہ شخص جس نے آپ کو پالا پوسا اور آپ کیلئے اتنا کچھ کیا وہی اسلام قبول نہیں کرتا۔ حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے آپ کو سوال کر رہے تھے اور متفکر تھے کہ اس سے زیادہ وہ اور کیا کہہ سکتے تھے یا کر سکتے تھے۔ اس وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۃ القصص کی یہ آیت (؀56)نازل فرمائی:
(إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ )
’’(اے محمدﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے‘‘
ہم اس آیت کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ ﷺ کو خبردار کرنا سمجھتے ہیں۔ قطعاً نہیں – جب آپ اسے سیاق و سباق کے مطابق رکھ کر دیکھتے ہیں تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو دلاسہ دے رہے ہیں، کہ اے حبیب اپنے آپ پر شک نہ کیجیے، اپنے آپ کو سوال نہ کیجیے، آپ جن لوگوں سے محبت کرتے ہیں ان کو لازماً ہدایت نہیں دے سکتے، آپ نے جو کیا ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہدایت آپ کے ہاتھ میں نہیں۔ آپ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے جن سے آپ محبت کرتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ تھا۔ اپنے آپ کو شک اور سوال کا نشانہ مت بنائیے۔
رسول اللہ ﷺ کی تکلیف اور غم کا اندازہ لگائیے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں اورجن کے والدین مسلمان ہیں، اس دکھ کو نہیں سمجھ سکتے۔ کسی ایسے شخص سے بات کر کے دیکھیے جنہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیاہو اور جن کے والدین نے ابھی اسلام قبول نہ کیا ہو اور ان سے پوچھیے کہ ہر رات سونے سے پہلے وہ کیا دعا کرتے ہیں اور جاگنے کے بعد پہلی دعا کیا کرتے ہیں! وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کی دعا یہ ہوتی ہے، ’’اے اللہ بس آج کا دن ہی وہ دن ہو جائے (کہ والدین اسلام قبول کر لیں!)‘‘
میرے دیرینہ دوست ہیں جنہوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کے والدین نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا۔ جب بھی وہ اپنے والدین سے ملاقات کیلئے یا ان کے ساتھ دن گزارنے کیلئے جانے لگتے ہیں، تو اس صبح میں ہمیشہ ٹیکسٹ میسج وصول کرتا ہوں جس میں کہا گیا ہوتا ہے، ’’بھائی پلیز دعا کیجیے کہ بس آج کا دن ہی وہ دن ہو!‘‘ تو پھر رسول اللہﷺ کی تکلیف اور دکھ کا اندازہ لگائیے!
میں نے آپ کو اس بھائی کے متعلق بتایا تھا جو ان میں سے ایک المیے سے گزرا اور پھر وہ حقیقتاً اگلے روز صبح کو اٹھ نہ سکا اور دنیا کا سامنا نہ کر سکا۔ اسے لگا کہ وہ زندگی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اپنے آپ کے ساتھ کیا کرے۔ تصور کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ ان المیوں میں سے صرف ایک سے نہیں بلکہ اس طرح کے دوالمیوں سے گزرے اور ان میں سے ہر ایک المیے کے ساتھ جڑے ہوئے اور کتنے غم تھے۔
سوال یہ ہے: رسول اللہ ﷺ کس طرح چلتے رہے؟ وہ اگلے روز صبح کس طرح اٹھے؟ ہم دوبارہ کام میں لگ جانے اور اپنی نوکریوں پر دوبارہ واپس جانے کی بات کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر کسی بھی انسان سے زیادہ بڑی ذمہ داری تھی: ’’اے اللہ کے رسول، آپ تمام انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ‘‘ ان کے پاس کسی بھی انسان کی نسبت سب سے زیادہ اہم، دباؤ والی اور دقت طلب ذمہ داری تھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے کس طرح کام جاری رکھا اور مزید زیادہ محنت کی؟ کس چیز نے انہیں طاقت دی اور ان کے زخم بھرے؟ کس چیز نے ان کو دوبارہ آرام دیا؟ انہوں نے جذباتی ڈھارس اور توانائی کہاں سے حاصل کی؟
ان دو حادثات کے واقع ہونے کے بعداللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو اس معجزاتی سفر پر لے گئے جسے ہم اسراء والمعراج کے نام سے یاد کرتے ہیں: یروشلم کی جانب رات کا سفر اور پھر آسمان کی جانب صعود۔ اس وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک تحفہ عنایت فرمایا: روزانہ کی پانچ نمازیں۔ یہ ان کی طاقت تھی جس نے انہیں دوبارہ آرام آنے میں مدد دی اور ان کے زخم بھرے اور انہیں زندگی کا سفر جاری رکھنے اور اسے پھر سے استوار کرنے کے قابل کیا۔ جب ہم اسے اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو یہ نماز کی تاریخی اہمیت ہے اور اس کا مقصد اور فائدہ ہے۔ جب ہم اسے اس تناظر میں دیکھتے ہیں توپھر رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی واقعی منطق سمجھ آتی ہے جو وہ فرماتے تھے کی، ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘ (قرۃ عیني في الصلاۃ)
’آنکھوں کی ٹھنڈک ‘سے کیا مراد ہے؟ یہ قرآن، دعاؤں، اور احادیث میں ہے۔ اس کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ کسی بھی طرزِ کلام کو سمجھنے کیلئے کہ اس کا مطلب کیا ہےا ور یہ کس جانب اشارہ کر رہا ہے، آپ کو اپنا آپ اس طرزِ خیال میں رکھنا ہوتا ہے اور ان لوگوں کے نکتہ نظر سے اس کو سمجھنا ہوتا ہے جنہوں نے اس طرزِ کلام کو استعمال کیا ہوتا ہے، ورنہ اس (طرزِ کلام)کا کوئی (قابلِ فہم) مطلب نہیں بنے گا۔ قدیم عرب ’’قرۃ عین‘‘ کا محاورہ استعمال کرتے تھے۔ تصور کیجیے کہ ایک ایسے صحرا میں ہوں جہاں 120+ ڈگری درجہ حرارت ہو۔ جلتی ہوئی شدید گرم تپش ہو۔ گرم ہوائیں گرم ریت اُڑا کر آپ کی آنکھوں میں ڈال رہی ہوں۔ تصور کیجیے کہ آپ کی آنکھیں کتنی خشک ہو جائیں گی اورکس قدر جلیں گی۔ آنکھوں پر پہننے کیلئے کوئی چشمہ نہیں اور نہ ہی آنکھوں میں ڈالنے کیلئے کوئی دوا ہے۔ آنکھوں میں اس حد تک جلن اور خارش ہو کہ محسوس ہو جیسے آگ میں ہیں۔ آپ وہاں چل رہے ہیں اور (تکلیف کی وجہ سے )آپ کا دل چاہ رہا ہے کہ اپنی آنکھوں کو باہر نکال دیں، کہ ایسے میں آپ کو کچھ ٹھنڈا اور صاف پانی مل جاتا ہے۔ جب آپ اس ٹھنڈے اور صاف پانی کو لے کر آنکھوں پر چھینٹا مارتے ہیں تو یہ کیسا ٹھنڈک اورطراوت کا احساس دیتا ہے؟ یہ کتنا بھلا اور شاندار معلوم ہوتا ہے؟ اس محاورے کا بھی یہی مطلب ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب وہ نماز ادا کرتے ہیں تو انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے!
کچھ بھی ہو رہا ہو اور آپ کے ارد گرد ساری دنیا ملیا میٹ ہو رہی ہو، مگر جب آپ کھڑے ہو کر ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں تو آپ تازگی اور شفا یابی اور بھرپور توانائی محسوس کرتے ہیں۔ یہ آپ کی پریشانیوں، غموں، دکھوں اور تکلیفوں کو دور کر دیتا ہے۔ یہ آپ کے زخموں کو بھر دیتا ہے۔ یہ ہے نماز کا اثر۔ یہ ہے نماز کا اثر جس کو ہم سب پانا چاہتے ہیں اور جس کو بے قراری سے تلاش کر رہے ہیں۔
اس سے یہ سوال اٹھتا ہے: میں دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتا ہوں اور کئی سالوں سے ایسا کر رہا ہوں، مگر مجھے ابھی بھی وہ تجربہ حاصل نہیں ہوا جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میری نماز ویسی محسوس نہیں ہوتی۔ کس چیز کی کمی ہے؟ نماز کے ان ثمرات اور فوائد کو حاصل کرنے کیلئے اور اسے آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کیلئے سب سے اہم جزو جس کی کمی ہے وہ ’’خشوع‘‘ ہے۔ قرآن اور اللہ کے رسول ﷺ اسے خشوع کہتے ہیں۔
خشوع کا معنی بیان کرنے کیلئے ایک مفصل گفتگو کی ضرورت ہے۔ میں یہاں ایک لفظ میں خشوع کےمعنی خلاصہ کرتا ہوں: معیار۔ آپ کی نماز میں معیار ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اپنی نمازوں میں معیار نہیں لائیں گے تب تک ہم نماز کے مکمل فوائدحاصل کرنے اورانہیں پہچاننے سے قاصر رہیں گے۔
یہ بات ایک انتہائی بیش قیمت سوال کی جانب لے جاتی ہے، اور وہ سوال ایسا ہے جسے ہم سب کبھی نہ کبھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی نماز میں معیار کیسے لائیں؟ ہم اپنی نمازوں میں خشوع کیسے لائیں؟ ہم نے خشوع کی اہمیت کے بارے میں ہزاروں لیکچر سنے ہیں مگر ہم ابھی بھی یہاں یہ تلاش کرنے کیلئے موجود ہیں کہ خشوع کیسے حاصل کریں؟ ہم اپنی نمازوں میں یہ معیار کیسے لائیں؟
اپنی نمازوں میں معیار کیسے لائیں؟!
اس کیلئے ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ علماء کی جانب سے کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں درجنوں ایسی چیزوں کی فہرستیں دی گئی ہیں جنہیں ہم اپنی نماز میں اعلیٰ معیار اور خشوع لانے کیلئے عمل میں لا سکتے ہیں۔ گفتگو کو متواصل، مختصر اور جامع رکھنے کیلئےجن چیزوں پر ہم عمل کر سکتے ہیں، میں ان چیزوں کی بہتری کے تین مقامات میں گروہ بندی کرنا چاہوں گا:
1- زندگی کزارنے کے طریقے میں تبدیلی
اس سے جو مراد ہے وہ واقعی بہت آسان اور سادہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جیسے چاہیں اپنی زندگی بسر کریں (جھوٹ بولیں، دھوکہ دہی کریں، غیبت کریں، بد زبانی کریں) اور پھر توقع کریں کہ کہ جب ہم نماز ادا کرنے کیلئے کھڑے ہوں اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہیں تو ایک جادو کی طرح اس میں خشوع آ جائے۔ ایسا کوئی فوری خشوع نہیں ہوتا۔ جس طریقے سے میں عام طور پر نماز کے باہر زندگی گزارتا ہوں اور عام طور پر دن بھر میں جس طرح کا رویہ رکھتا ہوں وہ میری نماز کےمعیار پر اثر انداز ہو گا ۔ اگر مجھے اپنی نمازوں میں زیادہ بہتر معیار چاہیے تومجھے ایک بہتر زندگی کزارنی پڑے گی، زیادہ سچی اور ایماندارانہ زندگی۔ اپنی نماز کا معیار بہتر بنانے کیلئے مجھے اپنی زندگی میں سے کچھ گناہ ختم کرنے ہوں گے۔
2- نماز کو ایک موقع بنائیں
نماز کو اپنے دن کا ایک اہم حصہ بنائیں۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
آپ کو دفتر یا اسکول 8 بجے پہنچنا ہے اور آپ وہاں سے10 منٹ کے فاصلے پر رہتے ہیں، تو آپ کوشش کرتے ہیں کہ گھر سے 7:45 پر نکل جائیں تا کہ آپ وہاں تک ڈرائیو کر سکیں، گاڑی پارک کر لیں اور اپنی میز پر 7:59 پر پہنچ کر حاضری لگانے کیلئے تیار ہوں۔ اگر آپ صبح 7:45 پر اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو کیا آپ 7:40 پر جاگتے ہیں اور بستر سے نکل کر تیار ہوتے ہیں؟ نہیں – آپ ایسا نہیں کرتے! عام طور پر اگر آپ کو گھر سے صبح 7:45 پر نکلنا ہو تو آپ کتنا پہلے جاگیں گے؟ اوسط جواب 45 منٹ ہے۔ کچھ لوگ اس سے ذرا کم اور کچھ ذرا زیادہ وقت لیتے ہیں۔ آپ 45 منٹ پہلے کیوں جاگتے ہیں؟ آپ کہیں گے کیونکہ یہ آپ کی نوکری ہےکا معاملہ ہے اور یہ اہم ہے۔ آپ نے جاگنا ہوتا ہے اور دانت صاف کرنے ، نہانا، صفائی، کنگھا، کچھ کھانا ، (دفتر کیلئے) سامان کی تیاری ، اور اچھے کپڑے پہننے ہوتے ہیں۔ آپ کو اسے سنجیدگی سے لینا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ کو(اس پر) وقت لگانا ہوتا ہے اور اسے اہمیت دینی ہوتی ہے اور اسے کسی اہم کام کے طور پر نبھانا ہوتا ہے۔
آپ جس طرح اس کیلئے تیار ہو رہے ہیں وہ اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک موقع ہے اور آپ اس کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ اب اس کا موازنہ فجر کی نماز کے ساتھ کریں۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ انتہائی سخت موازنہ ہے۔ میں آپ کے سامنے نماز فجر سے پہلے کی صورتحال وضاحت سے پیش کرتا ہوں۔ اولاً، جب آپ سوتے ہیں تو آپ کے پاس اپنے بستر سے بیسن تک کے راستے کا نقشہ مکمل طور پرذہن نشین ہوتا ہے تا کہ آپ بند آنکھوں کے ساتھ بھی وہاں پہنچ جائیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ جب آپ فجر کیلئے جاگتے ہیں تو آپ ساری بتیاں جلانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے سے نیند کا خمار ختم ہو جاتا ہے جبکہ آپ فجر پڑھ کر(دوبارہ) سونا چاہتے ہیں۔ آپ بیسن تک پہنچتے ہیں اور 15 سیکنڈ میں وضو کے فن میں مہارت حاصل کر چکے ہیں – یہ کسی جادوئی کرتب کی طرح ہے۔ آپ واپس اپنے بستر کی جانب ہو لیتے ہیں اور بستر کے پاس ہی نماز ادا کرتے ہیں اور پھر ایک ایسے طریقے پر عمل کرتے ہیں جسے میں یہ کہنا پسند کرتا ہوں: رکو، گرو اور واپس پلٹ جاؤ(stop, drop and roll over) اگر ممکن ہوتا تو آپ اپنے بستر پر ہی نماز ادا کر لیتے!
یہ کتنا افسوسناک ہے! یہ ہے ہماری نمازوں کی حالت۔ میں کھیلوں کی نسبت سے ایک اور مثال دیتا ہوں۔ جب ہم کوئی کھیل دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ہماری نماز کا کیا معیار ہوتا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ ہی بڑی نعمت ہے کہ کھیل کے دوران کوئی واقعی نماز ادا کر لے۔ اور اگر کوئی کھیل کے دوران واقعی نماز پڑھ بھی لے تو اس نماز کا معیار کیسا ہوتا ہے؟ ہم اشتہار چلنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر جلدی سے نماز کیلئے بھاگتے ہیں۔ ہم آواز ذرا اتنی اونچی رہنے دیتے ہیں تا کہ کھیل کے دوران اگر کوئی اہم پیش رفت ہو تو ہمیں معلوم ہوتی رہے۔ بد قسمتی سے یہ ہے وہ انداز جس میں ہم نماز ادا کرتے ہیں!
میں صرف بات کو ہلکا پھلکا رکھنے کیلئے مزاح کرتا ہوں لیکن ہمیں اس بات کا شعور حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اس طرح نماز ادا کرنا کتنا بڑا المیہ ہے، خاص طور پر جب ہم اس کا موازنہ اس بات سے کریں کہ ہم اس کے علاوہ ہر چیز کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ (چنانچہ)نماز میں معیار حاصل کرنے کیلئے بہتری لانے کا دوسرا مقام یہ ہے کہ نماز کے ساتھ کسی اہم چیز کی طرح برتا ؤ کیاجائے۔ نمازکو اپنے دن کا ایک اہم حصہ بنائیے۔
اس میں جو چیز شامل ہے وہ استعداد اور تیاری ہے۔ وضو صحیح طریقے سے کریں – یہ ایک عبادت کا عمل ہے جو آپ کو نماز کی جانب لے چلتا ہے اور آپ کو درست طرزِ فکر پر ڈال دیتا ہے۔ نماز کو اس واقت ادا کریں جب اس کا صحیح وقت ہو۔ اس کو مؤخر نہ کرتے رہیں۔سلیقے سے کپڑے پہنیں۔ اپنے پاجاموں (گھر کے بے تکلفانہ لباس) میں نماز ادا نہ کریں۔ جیسے ہمارے پاس دفتر کیلئے لباس ہوتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد کیلئے لباس ہوتا تھا۔ جب وہ گھر تشریف لاتے تو وہ لباس اتار دیتے اور اچھے طریقے سے لٹکا دیتے۔ پھر جب نماز کا وقت ہوتا تو زیب تن کر لیتے۔
سنن ابو داود میں ایک باب ہے جو نماز کیلئے رسول اللہ ﷺ کی تیاری کوبیان کرتا ہے۔ نماز کیلئے رسول اللہ ﷺ کے اہتمام کا باب۔ رسول اللہ ﷺ گھر میں بہت بے تکلف، دوستانہ اور محبت بھرا رویہ رکھتے تھے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ جب نماز کا وقت ہو جاتا اور اذان ہو جاتی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے اہل و عیال کیلئے کس طرح (ایک دم) اجنبی ہو جاتے۔
میں آپ سے ایمانداری سے بات کروں گا کیونکہ اس قسم کی گفتگو ہوتیں ہی ایماندارانہ اور دل سے دل تک ہونے والی باتوں کیلئے ہیں۔جب میں نے پہلی مرتبہ یہ پڑھا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے کس طرح سمجھوں۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ اجنبی ہو جاتے؟ یہ تو تلخ سا لگتا ہے۔ پھر جب آپ کسی چیز کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو تب آپ کو سمجھ آتی ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ جب آپ کو صبح 7:45 پر کام پر جانا ہوتا ہے اور آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں جو ابھی اتنی بڑی عمر کے نہیں ہوتے کہ جب وہ چاہیں کہ آپ کام پر جائیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس عمر کے ہوتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کام پر جا رہے ہیں مگر وہ نہیں چاہتے کہ آپ جائیں۔ جب آپ جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ اشاروں سے سمجھنے لگتے ہیں – بریف کیس کااٹھایا جانا اور چابیوں کی چھنکار – اور وہ دروازے پر ہی آپ کا راستہ روک لیتے ہیں۔ جب آپ جانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہ کسی طویل فلم کے کسی سین کی طرح ہوتا ہے اور زمانے بھر کی طویل ترین پکار ہوتی ہے، ’’نہیں بابا! مت جائیں!‘‘ وہ ایسے روتے اور چلاتے ہیں جیسے تاریخِ انسانیت کا دردناک ترین لمحہ ہو! اب میں یہاں ایک انتہائی سنجیدہ سوال پوچھنے جا رہا ہوں۔ آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ انہیں ایک طرف کر کے اپنی بیوی سے کہتے ہیں کہ آکر انہیں پکڑے اور پھر خود دروازے سے نکل جاتے ہیں؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے بچے سے محبت نہیں ہے؟ آپ یہ سب اپنے بچے کے فائدے کیلئے ہی تو کر رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتا مگر آپ یہ اسی کے بھلے کیلئے کر رہے ہیں۔
بالکل جس طرح ہم اس کام کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، کیونکہ ہم اپنی ملازمتوں اور کاموں کے فائدے کو جانتے ہیں، رسول اللہ ﷺ بھی، جب نماز کا وقت ہو جاتا، اپنے اہل و عیال کیلئے اجنبی ہو جاتے۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر وہی گھرانہ جس کی خاطر میں نماز چھوڑ دوں گا آخر کار شایدٹوٹ پھوٹ کو بکھر جائے گا۔ مجھے اپنی نماز کا خیال کرنا ہے اور یہ میرے اور میرے گھرانے کے اپنے فائدے میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے گھرانے کیلئے اجنبی ہو جاتے۔ (نماز کے علاوہ)دیگر ہر چیز ثانوی تھی۔ کام کو انتظار کرنا ہے، فون کال کو انتظار کرنا ہے (یعنی نماز کا وقت ہو جانے پر اب ہر چیز اب اپنی باری کا انتظارکرے گی)۔ رسول اللہ ﷺ ٹھیک طریقے سے وضو کرتے اور اچھے کپڑے زیب تن کرتےاور مسجد جلد چلے جاتے۔ اپنی نمازوں میں خشوع لانے کیلئے ہمیں نماز کو ایک موقع کی طرح اور اپنے دن کے ایک اہم حصے کی طرح نبھانا ہو گا۔ ہمیں ایسا کرنا سیکھنا ہو گا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خشوع وہ شخص حاصل کر سکے گا جو نماز کیلئے اپنا دل خالی کر دیتا ہے۔‘‘ ایک طریقہ اور مشورہ جو علماء اس سلسلے میں دیتے ہیں اور جس پر خود بھی عمل کرتے ہیں – جو ہمارے دور کے لحاظ سے خاص طور پربہت اہم ہے، جو کہ خلل اور ہنگامے کا ایک ایسا دور ہے کہ جس میں آپ کے ایک فون کے اندر 18 مختلف قسم کی ٹونز ہوتی ہیں؛ ٹیکسٹ میسج کی گھنٹی فون کال اور ای میل کی گھنٹیوں، ٹویٹر الرٹ، اور فیس بک اپ ڈیٹ سے مختلف ہوتی ہے – جب آپ نماز ادا کرنے کیلئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں تو اپنی تمام توجہ ہٹانے والی چیزوں کو ایک طرف کر دیں۔ ٹیلی ویژن بند کر دیں اور اپنے کمپیوٹر کی اسکرین بھی بند کر دیں۔ اپنا فون سائلنٹ (silent) پرکر دیں اور اسے دور رکھ دیں۔ ہر چیز کو 60 سیکنڈ یا صرف 30 سیکنڈ ہی کیلئے دور رکھ دیں اور خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو اپنا ذہن شفاف محسوس ہوتا ہے اور پراگندہ نہیں لگتا۔ پھر کہیں، ’’اللہ اکبر‘‘ اور پھر اپنی نماز کا معیار دیکھیں۔ ہر چیز ایک طرف کر کے اپنا ذہن بالکل خالی کر لیں۔
بہتری لانے کی تیسری جہت، اور یہ تبدیلی اور اثر کے لحاظ سے سب سے اہم اور زبردست ترین ہے، وہ یہ ہے:
3- نماز کی فقہ (بنیادی ڈھانچے اور تکنیکیات) کو سمجھیں، جو آپ کو نماز کا خاکہ بتائے گا ۔ سب سے اہم چیز جو دراصل نماز کی حیات اور روح ہے، تب حاصل ہوتی ہے جب آپ ان چیزوں کو سمجھ رہے ہوتے ہیں جو آپ اپنی نماز میں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
نماز غور و فکر اور تدبر کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔یہ سمجھ اور شعور حاصل کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا تعلق اس چیز سے ہے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کو محسوس بھی کر رہے ہیں اور اس پر گہری تحقیق کر رہے ہیں اور نماز کے احساس اور تجربے میں پوری طرح جذب ہیں۔ یہ صرف اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب آپ واقعتاً اس چیز کی قدر کریں اور اسے سمجھیں جو آپ نماز میں کہہ رہے ہیں۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ میں ایک گھنٹے سے بول رہا ہوں۔ آپ میں سے زیادہ تر سن رہے ہیں اور توجہ دے رہے ہیں۔ آپ کیوں سن رہے ہیں اور توجہ دے رہے ہیں، اور میں کیوں ایک گھنٹے سے اتنی زیادہ توانائی کے ساتھ بولنے کا تسلسل قائم رکھنے کے قابل ہوں – اس کی ایک بہت آسان وجہ ہے۔ میں تھکاوٹ یا خستگی محسوس نہیں کر رہا، اور آپ ایک گھنٹے سے سن رہے ہیں۔ اس کی ایک آسان سی وضاحت ہے: میں اس بارے میں بات کرنے سے لطف حاصل کر رہا ہوں کیونکہ میں جو بات کر رہا ہوں اسے سمجھتا ہوں، اسے محسوس کر رہا ہوں اوراس پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ میرے اندر سے ہے اور مجھے اس پر یقین ہے۔ میں ایک گھنٹے سے جو بول رہا ہوں آپ اسے سن رہے ہیں کیونکہ آپ کو میرے منہ سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کی سمجھ آ رہی ہے۔ آپ اس پر عبور حاصل کر رہے ہیں، اسے سمجھ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور ان باتوں کوپورےفہم و ادراک کے ساتھ مکمل طور پر ہضم کرنے کے قابل ہیں۔
تصور کیجیے کہ ایک ایسی زبان میں بولنے کی بجائے جو میں بھی سمجھ سکتا ہوں اور آپ بھی سمجھ سکتے ہیں، میں کسی کاغذ کے ٹکڑے سے یا اپنی یادداشت سے کچھ ایسا پڑھ رہا ہوتا جو کسی غیر زبان میں ہوتا، فرض کرتے ہیں چائنیز زبان میں۔ تصور کریں اگر میں ایک گھنٹے سے آپ کیلئے چائنیز شاعری پڑھ رہا ہوتا تو آپ کتنا پہلے سے توجہ دینی چھوڑ چکے ہوتے؟ 10، 20، 30، 60 سیکنڈ؟ بہت زیادہ با مروت لوگ بھی 60 سیکنڈ ہی سنتے۔ آپ یقیناً توجہ نہ دے پاتے، اس کے نظریے کو سمجھنا، اس پر غور و فکر کرنا تو بہت دور کی بات ٹھہری، جو میں کہہ رہا ہوتا آپ اس کو سنتے ہی نہ۔
اگر میں آپ کیلئے ایسی کوئی چیز پڑھ رہا ہوتا اور کئی مہینے لگا کر 30 منٹ جتنی چائنیزشاعری یاد کر کے آیا ہوتا، میں آپ کیلئے پڑھنے لگتا لیکن اگر مجھے اس کے مطلب کی سمجھ نہ ہوتی تو صرف 3-4 منٹوں میں مجھے محسوس ہونے لگتا کہ میں نے اپنی زندگی کا بے کار ترین کام کیا ہے۔
جو کچھ میں اب کہنے جا رہا ہوں، اگر اس سے کسی کی ہتک ہو تو میں پیشگی معذرت کرتا ہوں۔ یہ وہ حصہ ہے جو کاٹتا ہے۔ جتنی کہ اس مثال میں بتائی گئی صورتحال احمقانہ اور غیر منطقی اوربے سروپا تھی، ہماری نماز اس سے کتنی مختلف ہے؟ ہم روزانہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں ، اور ایک کے بعد دوسری نماز ادا کرتے ہیں اوراپنی نماز میں سب کچھ پڑھ جاتے ہیں جبکہ ایک لفظ تک کو نہیں سمجھتے، اس کی قدر نہیں کرتے، اس پر غور و فکرنہیں کرتے اور نہ اس پر تدبرکرتے ہیں۔ اس قسم کی نماز میں ہم کیسے غور و توجہ قائم رکھ سکتے ہیں؟ غور و توجہ کسی جادو کی طرح کہاں سے آئے گا؟ یہ نہیں آئے گا!
اپنی نمازوں میں کچھ معیار لانے کیلئے جوسب سے اہم کام ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اورکہتے ہیں اسے سمجھنا شروع کریں۔ میرا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کا ترجمہ پڑھیں بلکہ اس پر غور و فکر اور تدبر کریں۔ نماز میں جو کچھ پڑھ رہے یں، جو کہہ رہے ہیں، اور جو تلاوت کر رہے ہیں اسے اچھی طرح سمجھیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو نماز کا سارا تجربہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل ہی مختلف معاملہ ہو جاتا ہے۔
نمازمیں جملوں کو سمجھنے کی مثالیں
میں اس چیز کی کم از کم ایک مثال دے کر کہ یہ کیسے تبدیل ہوتا ہے، یہاں اختتام کروں گا۔
اللہ اکبر
’’اللہ اکبر‘‘ عام طور پر ایسے ترجمہ کیا جاتا ہےکہ ’’اللہ سب سےبڑا ہے۔ ‘‘ ہم اس کی ذرا سی بال کی کھال اتاریں گے۔ ’’اکبر‘‘ موازنے کا لفظ ہے نہ کہ کسی چیز کے بہترین (تفضیلِ کُل کے) درجےکو ظاہر کرنے والا۔ یہ گرامر(قواعد) کی تکنیکی اصطلاحات ہیں۔ میں اسے اس سے زیادہ آسان شکل میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کہنا ہو ، ’’زید خالد سے تیز ہے، مگر احمد تیز ترین ہے۔‘‘، تو ’تیز ‘ موازنہ ہےاور’تیز ترین‘ تفضیلِ کُل کا درجہ ہے۔ ’’اکبر‘‘ موازنہ کی شکل ہے تفضیلِ کُل کے درجے کی نہیں۔ لہٰذا ’’اللہ اکبر‘‘ کا ترجمہ ’’اللہ سب سے بڑا ہے‘‘ نہیں ہوتا، اس کا ترجمہ ’’اللہ زیادہ بڑا ہے‘‘ بنتا ہے۔
اس کو پوری طرح سمجھنے کیلئے یہ مثال ہے، اگر میں کہتا ’’زید زیادہ تیز ہے ...... (سے)‘‘، توآپ میری بات کے جاری اور مکمل ہونے کا انتظار کرتے (یعنی کس سے زیادہ تیز ہے؟!) جب ہم ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں تو ہم کہہ رہے ہوتے ہیں، ’’اللہ زیادہ بڑا ہے......‘‘ اس خالی جگہ کا مقصد اندازِ خطابت ہے اور یہ معیاری عربی میں بلاغت کا ایک حصہ ہے۔ قرآن کریم میں یہ عموماً کئی مقامات پر دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی ایسا بیان ہوتا ہے جس میں مفعول بہ کی ضرورت ہوتی ہے اور مفعول بہ جان بوجھ کر نہیں دیا گیا ہوتا اور آپ کیلئے ایک خالی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس خالی جگہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ اسے اپنے لحاظ سے خود پُر کریں اور اِس میں اُس چیز کا نام ڈال دیں جو چیز بھی اس وقت نماز سے آپ کی توجہ ہٹا رہی ہے۔
اللہ ہر چیز سے بڑا ہے، مگر اس وقت جو غور و فکر کرنےاور سوچنے کا عمل ہے وہ یہ ہے: اللہ ہر اس چیز سے زیادہ بڑا اور زیادہ اہم ہے جو اس لمحے میری نماز سے میری توجہ ہٹا رہی ہے۔ اگر میرا فون بج رہا ہے تو اللہ اس فون کال سے زیادہ بڑا ہے۔ اگر میرا دوست باہر گاڑی میں میرا انتظار کر رہا ہے تو اللہ میرے دوست سے زیادہ بڑا اور زیادہ اہم ہے جو گاڑی میں بیٹھا میرا منتظر ہے۔ اگر ریسٹورنٹ 20 منٹ میں بند ہونے والا ہے تو اللہ ریسٹورنٹ میں ملنے والے کھانے سے زیادہ بڑا ہے۔ اگر ٹیلی ویژن پر کوئی کھیل چل رہا ہے تو اللہ ٹیلی ویژن پر چلنے والے اس کھیل سے زیادہ بڑا اور زیادہ اہم ہے۔ ہر وہ چیز جو اس لمحے ممکنہ طور پر نماز سے میری توجہ ہٹا رہی ہے، اللہ اس چیز سے زیادہ بڑا اور زیادہ اہم ہے۔
اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ ’’اللہ اکبر‘‘ پر غور و فکرکرنا کیا ہے؟ تو ہو سکتا ہے کہ وہ جواباً کہیں کہ اس سے وہ اپنی نماز کا آغاز کرتے ہیں۔ ہم اس بات کا شعور حاصل کر رہے ہیں کہ خود’’اللہ اکبر ‘‘ کے اندر بھی غور و فکر کا تانا بانا ہے۔ جب آپ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے ہیں اس وقت بھی آپ کو کچھ سوچنا ہوتا ہے۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کے ساتھ بھی غور و فکر اور خشوع منسلک ہے۔ اگلی مرتبہ جب آپ نماز کیلئے کھڑے ہوں گے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہیں گے اور سوچ و فکر کے اس عمل سے گزریں گے کہ اللہ ان تمام چیزوں سے زیادہ بڑا اور زیادہ اہم ہے جوآپ کی توجہ ہٹا رہی ہیں، تو پھر ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے کا معیار دیکھیے گااور صرف ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا آپ کا کتنا وقت لے گا۔ یہ آپ کی زندگی بدل ڈالے گا۔
کیونکہ آپ لوگ میرے ساتھ بہت اچھے رہے ہیں، لہٰذا میں آپ کیلئے جلدی سے ایک چھوٹی سی مثال دوں گا۔
سبحان ربّی الاعلیٰ
یہ ہم کس حالت میں کہتے ہیں؟ سجود۔ میرا رب ، میرا مالک کس قدر مکمل ہے، جو الاعلیٰ ہے۔ الاعلیٰ ، ’ال‘ کی موجودگی کی وجہ سے تفضیلِ کُل کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’اعلیٰ ترین، بلند و بالا ترین۔‘‘ اس حقیقت پر غور و فکر کریں۔ عام طور پر جب ہم سجدہ کرتے ہیں تو ہم ان الفاظ کو جلدی سے ادا کر دیتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کتنا مکمل ہےمیرا رب جو اعلیٰ ترین اور بلند و بالا ترین ہے۔
اس میں کیا غور و فکرہے؟ آپ یہ الفاظ کس حالت میں کہتے ہیں؟ سجود، جب آپ اپنے جسم کا سب سے عزت و شرف والا حصہ (چہرہ، پیشانی) زمین پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں جہاں کوئی (کسی وقت) اپنے قدموں کے ساتھ کھڑا تھا! یہ کسی انسان کیلئے ممکن ترین ادنیٰ حالت ہے۔ ہم اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ادنیٰ ترین حالت میں رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’اللہ اعلیٰ ترین اور بلند و بالا ترین ہے۔‘‘ اگلی مرتبہ جب آپ سجدہ کریں تو اس پر غور و فکر کریں اور پھر اپنے سجدے کا معیار دیکھیں۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اپنی نمازوں میں جو کچھ ہم پڑھتے ہیں، جب اس کا مطلب سمجھیں اور اس کی قدر کریں تو کیا ہوتا ہے۔

اختتامی نوٹ
اختتامی نوٹ کے طور پر میں سب کو ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس سوال کا جواب آپ کو بتائے گا کہ آیا آپ کو اپنی نمازوں کے معیار اور ان میں غور و توجہ کوبہتر بنانے کیلئے کسی قسم کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اپنے آپ سے پوچھیے: وہ آخری مرتبہ کب تھی جب آپ نے نماز کو محسوس کیا؟ یعنی جب آپ نے نماز پڑھی اور آپ کو محسوس ہوا کہ اس نے آپ کی زندگی بدل ڈالی اور آپ کا مسئلہ حل کر دیا اور آپ کے سوال کا جواب دے دیا۔ آخری مرتبہ ایسا کب ہوا تھا؟ اگر جواب ایسا نہیں ہے جو بہت اچھا ہو یا ایسا جو آپ کو پسند ہو، تو پھر کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اب یہ وقت ہے کہ ہم اپنی نمازوں میں کچھ بہت بڑی بہتری لائیں؟
 
عبد الناصر
About the Author: عبد الناصر Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.