سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کا منصوبہ

 آیئے جناب مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے کئی بار کہا ہے کہ وہ ترقی کا عمل وہاں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا تھا۔ تو پھر انہوں نے اپنی اس بات پر عمل کرنے کا آغاز بھی کردیا ہے۔ اس نے اپنے سابقہ دور حکومت میں بھی سرکاری اداروں کی نجکاری کی تھی۔ اب بھی اس نے وہی کام پھر سے شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ جس میں اکتیس سرکاری اداروں کی نجکاری کی منظوری دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جن اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیاان میں پی آئی اے، ریلوے، پاکستان سٹیل ملز، یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن، پاکستان پوسٹ، پی ایس او، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، یو بی ایل، او جی ڈی سی ایل، ایس ایم ای بینک، نیشنل انشورنس کارپوریشن، پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن، حبیب بینک، این آئی سی ایل، سوئی سدرن، سوئی نادرن، پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، ٹریڈنگ کارپوریشن ، سول ایوی ایشن ، این ایچ اے، پاکستان پٹرلیم لمیٹڈ، لاکھڑا پاور، جام شورو پاور، اور دیگر شامل ہیں۔ اجلاس میں یوبی ایل اور ایم سی بی کے مزید چھبیس فیصد حکومتی حصص فروخت کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ کمیٹی نے عالمی مالیاتی فنڈکی ایک اور شرط پوری کرنے کا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا۔ اجلاس میں نجکاری کمیشن نے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق قومی اداروں کی نجکاری کی فہرست کابینہ کمیٹی کو پیش کی۔نجکاری کمیٹی نے سرکاری اداروں کی نجکاری کے عمل کے فوری آغاز کی منظوری بھی دے دی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف، وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی، وزیر منصوبہ بندی وترقیات احسن اقبال، وزیر مملکت خرم دستگیر، وزارتوں کے وفاقی سیکرٹریز، نجکاری کمیشن کے حکام کے علاوہ گورنر سٹیٹ بینک نے بھی شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے 65کے قریب اداروں کا نجکاری کیلئے انتخاب کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا نجکاری کے عمل کا فوری آغازآئی ایم ایف کی شرائط کے باعث حکومت کی مجبوری ہے۔وزیر خزانہ اور کمیٹی نے پرائیوٹائزیشن کمیشن کو ہدایت جاری کی کہ نجکاری کے عمل میں ملازمین کے حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بنایا جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ نجکاری کا عمل صاف، شفاف، اور تیزبنیادوں پر ہوگا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت حکومت نے جن اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ خسارے میں چلنے والے وہ ادارے ہیں جن پر پانچ سوارب تک سالانہ خرچ آتا ہے۔

ایک فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ اداروں کی نجکاری سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ اور اکانومی بہتر ہوگی۔ ایسا تاثر غلط ہے نجکاری کرنے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا جب حکومتی ادارے کم ہوں گے ۔ تو سبسڈی بھی کم کردی جائے گی۔ اس سے خسارہ بھی کم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا پرائیویٹ سیکٹر میں ادارے کو مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ جب کہ حکومتی سیکٹر میں سبسڈی کے نام پر مراعات دی جاتی ہیں۔ جس سے خسارہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسا کہنا غلط ہے جب کسی ادارے کی نجکاری کی جاتی ہے تو لوگوں کو ملازمت سے فارغ کیا جاتا ہے۔ جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرتاج عزیز کاکہنا تھا ماضی میں بھی جب ہم نے 1991ء اور1993ء میں نجکاری کی تھی اور جن ملازمین کو فارغب کیا گیا تھا ان کو گولڈن ہینڈ شیک دیا گیا تھا جو عام روٹین سے ریٹائر منٹ سے زیادہ تھا۔ انہوں نے کہا بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جب کسی ادارے کو پرائیوٹائز کیا جاتا ہے۔ تو اس کی پیداوار بڑھ جاتی ہے پروڈکشن بڑھنے سے لیبر کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے اس لیے ایسا کہنا غلط ہے نجکاری سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اس کے برعکس پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ کہتے ہیں حکومت نے اداروں میں کی نجکاری کا جو فیصلہ کیا ہے۔ اس پر پاکستان کے مزدور اورسیاسی جماعتیں احتجاج کریں گی۔وہ کہتے ہیں اگر ادارے خسارے میں چل رہے تھے۔ تو ا ن کو پرائیوٹائز کرنے کے بجائے ان کے شیئرز کو ٹرانسفر کیا جاتاتو بات بھی بنتی تھی۔ نجکاری کا قانون صرف اور صرف بند ر بانٹ ہے۔ اور ہم اس قانون کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا ہے ن لیگ کے انتخابی منشور میں تھا ہم خسارے میں چلنے والے اداروں میں گڈ گورننس لائیں گے۔ لیکن اب یہ اداروں کو پرائیوٹائز کررہے ہیں جو کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے انہوں نے کہا منافع بخش اداروں کو بیچنا ظلم ہوگا۔ معروف معیشت دان سلمان شاہ کا کہنا ہے ۔ نجکاری کا عمل صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں کیا گیا ہے ۔ اگر پاکستان میں شفاف طریقے سے نجکاری کی جاتی ہے تو نجکاری کرنے کا فائدہ ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا نجکاری کے عمل میں صرف دوستوں کو نوازا گیا تو اس سے ملک کو نقصان ہوگا۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کچھ لوگ ملک بیچنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں ایسا کرنا پازیٹو ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں پی آئی اے میں ایک ہی خرابی ہے یہ اوور سٹاف ہے ۔ جب اس کی نجکاری کی گئی تو اس سے سٹاف کو نکالا جائے گا ۔جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ انہوں نے مشورہ دیا پی آئی اے جہازوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ وہ کہتے ہیں پرائیویٹ سیکٹر کو کہا جائے نئے ادارے کھولیں اس سے بے روزگاری میں بھی کمی ہوگی او ر معیشت بھی بہتر ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے لیے ہوتو تب ہی بہتر ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں کہتی ہیں سرکاری اداروں کی نجکاری ملکی مفاد میں نہیں۔

حکومت نے اکتیس سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں نہ تو اس کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اس سے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں تصویر کے دونوں رخ دیکھنے ہوں گے۔ ہماری اس بات سے آپ بھی اتفاق کریں گے کہ جب کوئی دکان منافع دے رہی ہو تو اس دکان کو نہ تو کوئی بیچتا ہے اور نہ ہی کسی اور کے حوالے کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دکان مسلسل خسارے میں جارہی ہو تو اس کو منافع بخش بنانے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں اگر تما م کوششیں ناکام ہوجائیں تو پھر اس دکان کو یا تو ختم کر دیا جاتا ہے یا کسی کے ہاتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ان سرکاری اداروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اس کی ایک جھلک ہم آپ کو ایک مثال دے کر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مثال کسی سرکاری ادارے کی تو نہیں ہے تاہم اس سے یہ بات واضح ہو اجائے گی کہ سرکاری اداروں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جو شہر میں سڑک کنارے بیٹھ کر اپنا چھوٹا سا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ روزانہ ایک مقررہ تعداد میں پیسے جمع کرتے رہتے ہیں ۔ جب سال ہوجاتا ہے تو وہ ان جمع شدہ پیسوں سے میلاد شریف مناتے ہیں۔ اس طرح اس نے ایک سال میلاد شریف کی محفل منعقد کرائی ۔ اس میں ہمیں بھی مدعو کیا۔ اس نے اس بابرکت پروگرام میں شہر کے نامور علماء کو بلایا ۔ اسٹیج سیکرٹری بھی اچھا تھا۔ اس نے شہر کے اچھے اچھے نعت خوانوں کو بھی مدعو کررکھا تھا۔ پنڈال بھی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔ ساؤنڈ سسٹم بھی معیاری تھا۔ عوام سے پنڈال بھرا ہوا تھا ۔ وہ اس بابرکت محفل کے انعقاد کے سلسلہ میں جو بہتر سے بہتر کرسکتا تھا ۔ وہ کیا۔ اس کی طرف سے کوئی کمی نہ تھی۔ ہم نے اس کے پروگرام اور اس کے انتظامات کا جائزہ لیا اور محفل کا رنگ دیکھا تو ہمیں اس میں بہت بڑا فرق نظر آیا۔ ہم اس سوچ میں پڑگئے کہ میزبان کی طرف سے تو کوئی کمی نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ محفل کا جو خاص ماحول ہوتا ہے یاد رہے یہ ماحول نظر نہیں آتا دل اور روح کو محسوس ہوتا ہے ۔ جو نظر آنے والا ماحول تھا وہ تو بہت اچھا تھا اور جو محفل میلاد میں محسوس ہونے والا ماحول تھا وہ نہ ہونے کے برابر تھا ۔ اس محفل میں ہم نے بھی نعت شریف پڑھنا تھی ۔ ہم نے ماحول کی کمی کی وجہ سے نعت شریف نہ پڑھی ۔ کیونکہ اس کے لیے ظاہری ماحول سے باطنی اور روحانی ماحول کا ہونا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ محفل میلاد کے اس پروگرام میں شرکت کرنے کے بعد ہم گھر واپس آگئے۔ پھر یہ سوچتے رہے کہ ظاہری ماحول بہترہونے کے باوجود باطنی ماحول کیوں نہیں تھا ۔ حالانکہ یہ تو میلاد شریف کی محفل تھی۔ اس میں تو روحانیت ہر صورت میں ہوتی ہے۔ مگر یہاں یہ صورتحال کیوں رہی۔ جب ہمیں اس کی وجوہات سمجھ نہ آئیں تو ہم نے ایک دن جس نے میلاد کی محفل منعقد کرائی تھی پوچھ ہی لیا کہ آپ کی طرف سے تو کسی بھی حوالے سے کوئی کمی نہیں تھی۔ تو پھر ایسا کیوں۔ اس نے کہا یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ہم نے کہا کہ انتظامات تو آپ نے ہی کیے تھے اب سوچ کر بتاؤ ایسا کیوں ہوا۔ اس نے کہا اور تو کوئی بات نہیں ۔ میں نے ا س بابرکت محفل میلاد کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اس کے انتظامات اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دیے تھے۔ انہوں نے اس کو اپنا گھر سمجھا ان سے جو ہوسکا وہ کیا۔ سب نے اپنے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازا۔ میرا کچھ سامان بھی غائب ہوگیا ہے۔ ہم نے کہا یہی وجہ تھی کہ محفل میں روحانیت نہیں تھی تاہم آ پ کی نیت اچھی تھی اس لیے آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا۔ اب پڑھ لیا آپ نے بندربانٹ نے میلاد شریف جیسی محفل کی روحانیت بھی ظاہر نہ ہونے دی۔ ایسا ہی سرکاری ادروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین ایک جیسے نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اداروں اور حکومت کے وفادار بھی ہوتے ہیں اور اپنے اداروں کی بہتری کے لیے کوششیں بھی جاری رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے ملازمین بھی پائے جاتے ہیں جو سرکاری اداروں کو بلھے شاہ کا لنگر سمجھ کر ان اداروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔ ان کاکام جیسے بھی ہو اپنی جیبیں گرم کرنا اور بینک بیلنس میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے معمول کے اخراجات بھی اوپراوپر سے پورے کرتے ہیں اپنی تنخواہ میں سے خرچ کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ اب ایسے ملازمین کی موجودگی میں ادارے کس طرف جائیں گے ۔ اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔ پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے یہاں آئے روزتجربات کیے جاتے ہیں۔ کبھی کوئی تجربہ تو کبھی کوئی تجربہ۔ سرکاری اداروں کو بھی تجربات سے گزارا جاتا ہے۔ کبھی ان کو نجی شعبہ سے سرکاری تحویل میں دیا جاتا ہے۔ پھر یہ اعتراف بھی کیا جاتا ہے کہ اداروں کو قومیانے کی پالیسی غلط تھی۔ کبھی پھر ان اداروں کی نجکاری کرکے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ سابقہ ادوار میں ان اداروں کی بہتری کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کرنے کی پہلے بھی کوشش کی گئی تاہم ریزورو پرائس کم ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے ا ز خود نوٹس لے کر اس کی نجکاری روک دی تھی۔ اب پھر اس ادارے کو نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

ریلوے جو منافع بخش ادارہ تھا وہ خسارے کا ادارہ بن گیا۔ اس کے انجنوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ہوا۔ نہ تو ان کی اوورہالنگ درست ہوئی اور نہ ہی ان کو معیاری تیل فراہم کیا گیا۔ استعمال شدہ اور غیر معیاری تیل فراہم کرنے کی اطلاعات بھی آئی ہیں۔ جس سے ریلوے کے انجن ناکارہ ہوگئے۔ ریلوے کے تمام اخراجات مال بردار گاڑیوں سے پورے ہوجاتے تھے۔ مسافر ٹرینین منافع میں کام کررہی تھیں۔ انجنوں کی کمی کی وجہ سے مال بردار گاڑیوں کو بند کردیا۔ پچاس فیصد کے لگ بھگ مسافر ٹرینیں بھی بند ہوگئیں۔ اب جو مسافر ٹرینیں روٹس پر رواں دواں ہیں۔ ان کی بوگیوں کی تعداد بھی کم کر دی گئی۔ اب ان بوگیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اب ریلوے کے انتظامی اخراجات تو وہی رہے۔ عملہ بھی کام کرتا رہا۔ ان کو تنخواہیں بھی دی گئیں۔ ادارے کی آمدنی کم ہوگئی۔ خسارہ کم کرنے کا جواز بنا کر کرائے باربار بڑھائے گئے۔ جس سے مسافروں نے ریلوے میں سفر کرنے کو خیرباد کہنا شروع کردیا۔ ریلوے کے کرائے اتنے بڑھائے گئے کہ جس فاصلہ کا کرایہ عام ٹرانسپورٹ والے پندرہ روپے لیتے اسی فاصلہ کا ٹرین کا کرایہ پچاس روپے سے بھی زیادہ کردیا گیا۔ اب کیا کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا کہ وہ پندرہ روپے کا سفر میں پچاس روپے اداکرکے کرے۔ اب خواجہ سعد رفیق نے کرائیوں میں کمی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرائے کم کرنے کی وجہ سے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ جس سے ادارے کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ وہ کہتے ہیں ساڑھے چار کروڑ آمدن ہوئی ۔ ابھی ان کی وزارت کو چارہ ماہ ہی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محکمہ کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے میرٹ پر تعیناتیاں جاری ہیں۔ کہتے ہیں کمیشن مافیا، دونمبری، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کا خاتمہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے وزارت سنبھالنے کے بعد ایک سو دس دنوں میں دوارب اٹھارہ کروڑ ترانوے لاکھ منافع کمایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریلوے کو مالی بے ضابطگیوں نے تباہ کردیا ہے۔ اس کی نجکاری کی گئی تو استعفیٰ دے دوں گا۔ اور بھی کوئی وزارت قبول نہیں کروں گا۔ ریلوے کا نظام ہمارے لیے قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ریلوے کی نجکاری کی گئی تو وہ مستعفی ہوجائیں گے اور بھی کوئی وزارت قبول نہیں کریں گے ۔ یہ ان کی ادارے کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کی واقعی مخالفت ہے یا ان کا یہ سیاسی بیان ہے یہ نجکاری کے وقت واضح ہو جائے گا۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ وہ محکمہ کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب جس محکمہ کا وزیر کہتا ہے کہ ریلوے منافع بخش ادارہ میں تبدیل ہورہا ہے ۔اب اس کو بھی نجکاری کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

اب ذرا مالیاتی اداروں کی بات ہوجائے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے جن اکتیس اداروں کی نجکاری کرنی ہے۔ ان میں مسلم کمرشل بینک اور یونائیٹڈ بینک بھی شامل ہیں۔ مسلم کمرشل بینک کے چھبیس فیصد حصص 1991ء جبکہ یو بی ایل کے اتنے ہی حصص 2002ء میں منیجمنٹ کے حوالے کیے گئے۔ مسلم کمرشل بینک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2012ء کے دوران بینک کا ٹیکس کی ادائیگی سے قبل منافع بتیس ارب روپے تھا۔ بنک کا طویل مدتی بنیادوں پر آؤٹ لک ٹرپل اے اور قلیل مدتی بنیادوں پر اس کا آؤٹ لک اے ون پلس ہے۔ جو اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ یہ ادارہ قلیل مدتی اور طویل مدتی بنیادوں پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اور مستقبل میں اس کو کسی قسمی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور سرمایہ کاروں کا اس ادارے پر بہترین اعتماد ہے۔ یہ بنک سٹاک مارکیٹ میں ایک لسٹڈ ادارہ ہے جس کے ایک حصص کی موجودہ قیمت 251.74روپے ہے ۔جو کسی بھی دوسرے بنک کے حصص کی نسبت اچھی خاصی قیمت کاحامل ہے۔ اس کے برعکس یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ کے حصص کی قیمت 122.65روپے ہے۔ یوبی ایل بھی ایک بہترین منافع بخش ادارہ ہے۔ جس سے اربوں روپے کا منافع حکومت کو مل رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود حکومت نے اس ادارے کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بنک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال2012ء کے دوران یونائیٹڈ بنک کا ٹیکس کی ادائیگی سے قبل منافع ستائیس ارب دو کروڑ نوے لاکھ روپے ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نقصان میں جانے والے اداروں کی آڑ میں منافع بخش ادارے بھی اپنے ہی خاص کا رندوں کو فروخت کرنے کا تقریباً تہیہ کرچکی ہے۔

پاکستان ایئر لائن کے بارے میں ایک ماہر معیشت کی بات آپ پڑھ آئے ہیں کہ اس میں ایک ہی خرابی ہے کہ اس میں سٹاف زیادہ ہے۔ اس کے متعدد طیاروں کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہے۔ اسی وجہ سے کئی طیارے گراؤنڈ بھی کیے جاچکے ہیں۔ جہاں اﷲ پاک کے گھر جانے والوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور اس ادارے میں خسارہ آئے یہ بات حیرت انگیز بھی ہے اور قابل غور بھی۔

یہ تو تھے چند ادارے جن کی صورتحال سے ہم نے آپ کو آگاہ کیا۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ کچھ ادارے واقعی خسارے میں جارہے ہیں۔ ابھی تو حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے چار ماہ ہی ہوئے ہیں کہ اس نے اداروں کی نجکاری کا اعلان کر دیا ہے۔ کیا اس دوران اس نے یہ تسلی کر لی ہے کہ یہ ادارے سرکاری تحویل میں رہے تو یوں ہی بیمار رہیں گے۔ نجی شعبہ کے ہاتھ میں جاتے ہی ان کی جان میں جان آجائے گی۔ اس کو ان اداروں کی بحالی کی کوشش تو کرنی چاہیے تھی۔ یہ کوشش ناکام ہوجاتی تو پھر بھلے نجکاری کردی جاتی۔ ان اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین جو اداروں کی پرائیوٹائزیشن پر پریشان ہیں۔ ممکن ہے یہ اپنی ملازمتیں بچانے کے لیے سڑکوں پر آجائیں۔ یہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی ۔ یہ ادارے کچھ سرکاری ملازمین اور افسران کی منفی سرگرمیوں، کرپشن ، اقرباپروری اور بد انتظامی ، بے ضابطگی کی وجہ سے ہی خسارے میں آئے۔ ان کے تو علم میں ہوتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے ۔ کہاں غلطی یا جرم ہورہا ہے۔ سب کے علم میں ایسا نہ ہو ۔ کچھ کے علم میں ضرور ہوتا ہے۔ یہ اس وقت نشاندہی کردیتے تو یہ خسارے تباہی سے بچ جاتے۔ اس وقت تو یہ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ پھرجب نتیجہ سامنے آتا ہے تو پریشان ہوجاتے ہیں۔ اتنی جلدی تو کوئی اپنی دکان بھی فروخت نہیں کرتا۔ جتنی جلدی حکومت کو یہ ادارے پرائیویٹ کرنے کی ہے۔ نجکاری کرنے کی وجہ ان اداروں کا خسارے میں ہونا ہے تو منافع بخش ادارے بھی تو پرائیویٹ کیے جارہے ہیں۔ یہ درست ہے یہ ادارے خسارے میں ہیں تاہم ان کی نجکاری کرنے سے پہلے اس کے ذمہ داروں کا تعین تو کرلیا جاتا تو بہتر تھا۔ منافع بخش ادارے خسارے میں چلے گئے۔ ان کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ چند ذمہ داروں کی غلطیوں یا جرائم کی سزا پورے پورے اداروں کو دینا مناسب نہیں ہے۔ کہیں یہ اس پالیسی کا حصہ تو نہیں کہ جو تم نے کھایا وہ تمہیں معاف اب ہمیں کھانے دو۔ بھلے حکومت خسارے میں جانے والے اداروں کی نجکاری کرے ۔ اس سے پہلے خسارے کے ذمہ داروں کا تعین ضرور کرے۔ پھر ان سے بازپرس بھی کی جائے کہ وہ اپنی تقرری کے دوران کیا کرتے رہے کہ منافع بخش ادارے خسارے میں چلے گئے۔ ہر ذمہ دار کی تقرری کے دوران جتنا نقصان ہوا ہے اس سے پورا کیا جائے۔ چیئر مین نیب کیاتقررہوگیا ہے۔ یہ ادارے نیب کے حوالے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ کہ اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ عدالت عظمیٰ سے بھی استدعا ہے کہ وہ ذمہ داروں کا تعین اور ان سے بازپرس کیے بغیر اداروں کی نجکاری کرنے کا نوٹس لے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.