قربانی ہر صاحب نصاب بالغ مرد و عورت پر فرض ہے۔ زکوٰۃ کی
فرضیت کے لیے کم از کم نصاب پر پورا قمری سال یا سال کا اکثر حصہ گزرنا شرط
ہے، جب کہ قربانی اور فطرے کے وجوب کے لیے بالترتیب عیدالاضحیٰ اور عید
الفطر کی صبح صادق کو محض کم از کم نصاب کا مالک ہونا کافی ہے، سال گزرنا
شرط نہیں ہے۔
قربانی کے جانور کم از کم حسب ذیل عمر کے
ہونے چاہئیں
اونٹ، اونٹنی پانچ سال گائے و بیل دو سال بھینس و بھینسا ، دو سال بکرا و
بکری، بھیڑ و دنبہ،ایک سال البتہ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنے فربہ ہوں کہ
دیکھنے میں ایک سال کے نظر آئیں تو ان کی قربانی جائز ہے۔
|
|
اگر صاحب نصاب مال دار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ گم ہوگیا یا
قربانی سے پہلے مر گیا تو اس پر لازم ہے کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی دے
یا قربانی کے جانور میں حصہ ڈالے۔ اگر قربانی سے پہلے گم شدہ جانور مل جائے
تو مالدار شخص کو اختیار ہے کہ جس جانور کی چاہے قربانی دے، دونوں کی
قربانی لازمی نہیں ہے۔
اگر نادار شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے گم ہوگیا یا
مر گیا، تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں ہے۔ اگر اس نے دوسرا
جانور خرید لیا تو اس پر دونوں کی قربانی لازم ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی
طرف سے تو اُس پر ایک بھی واجب نہیں ہے، جب اُس نے قربانی کی نیت سے جانور
خرید لیا تو وہ قربانی کے لیے متعین ہوگیا اور اس کی قربانی واجب ہوگی، اسی
طرح دوسرے جانور کا حکم ہے۔
قربانی کے جانوروں کی عمر پورا ہونے کی ظاہری علامت ثَنِّی (دو دانت کا)
ہونا ہے، لہٰذا کھیرا جانور یعنی جس کے سامنے کے دو دانت ابھی نہیں گرے،
اسے قربانی کے لیے نہیں خریدنا چاہیے۔ البتہ جانور گھر کا پلا ہوا ہے یا
کسی دیانت دار، قابل اعتماد شخص کے پاس ہے اور اس کی مطلوبہ عمر پوری ہوگئی
ہے تو اس کی قربانی شرعاً جائز ہے، خواہ سامنے کے دو دانت ابھی نہ گرے ہوں،
عام کاروباری لوگوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
قربانی کا جانور تمام ظاہری عیوب سے سلامت ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں فقہائے
کرام نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ ہر وہ عیب جو کسی منفعت اور جمال کو بالکل
ضائع کردے، اس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہے اور جو عیب اس سے کم تر درجے
کا ہو، اس کی وجہ سے قربانی ناجائز نہیں ہوتی۔
جو جانور اندھا کانا یا لنگڑا ہو، بہت بیمار اور لاغر، جس کا کوئی کان، دم
یا چکتی تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، پیدائشی کان نہ ہوں، ناک کٹی ہو،
دانت نہ ہوں، بکری کا ایک تھن یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں، ان سب
جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔
جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں، یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہے، کان، چکتی
یا دم ایک تہائی یا اس سے کم کٹے ہوئے ہیں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز
ہے۔
قربانی کے جانور کے سینگ جانور میں حسن پیدا کرنے کے لیے سر کے اوپر سے توڑ
دیے ہیں اور ان کا بڑا ہونا رک گیا ہے، لیکن سر یا دماغ کے اندر تک جڑ کو
نہیں نکالا، نہ ہی اس سے جانور کے دماغ پر کوئی اثر ہوا ہے اور پوری طرح
صحت مند ہے تو اس کی قربانی جائز ہے۔
صاحب نصاب نے عیب دار جانور خریدا یا خریدتے وقت بے عیب تھا بعد میں عیب
دار ہوگیا تو ان دونوں صورتوں میں اس کے لیے ایسے جانور کی قربانی جائز
نہیں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرا بے عیب جانور خریدے اور قربانی کرے
اور اگر خدانخواستہ ایسا شخص صاحب نصاب نہیں ہے تو دونوں صورتوں میں اس
جانور کی قربانی کرسکتا ہے۔
خصی جانور کی قربانی آنڈو کے بہ نسبت افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ
ہوتا ہے، اگر گائے کے ساتویں حصے کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو وہ افضل ہے
اور اگر قیمتیں برابر ہوں تو بکری کی قربانی افضل ہے، کیونکہ بکری کا گوشت
زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
|
|
بکرا بکری، بھیڑ دنبے کی قربانی صرف ایک فرد کی طرف سے ہوسکتی ہے۔ اونٹ
گائے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہوسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سب
کی نیت تقریب یعنی عبادت اور حصول اجر و ثواب کی ہو۔ سات سے کم افراد بھی
ایک گائے کی قربانی میں برابر کے حصے دار ہوسکتے ہیں، مثلاً چھ یا پانچ یا
چار یا تین یا دو حتیٰ کہ ایک آدمی بھی پوری گائے کی قربانی کرسکتا ہے، سات
حصے داروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
سات افراد نے مل کر قربانی کا جانور خریدا، بعد ازاں قربانی سے پہلے ایک
حصے دار کا انتقال ہوگیا اگر مرحوم کے سب ورثاء باہمی رضا مندی سے یا کوئی
ایک وارث یا چند ورثاء اپنے حصۂ وراثت میں سے اجازت دے دیں تو استحساناً اس
کی قربانی کی جاسکتی ہے، اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد اللہ توفیق دے
تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ایصالِ ثواب کی نیت سے
قربانی کرنا افضل ہے اور کرنے والے کو نہ صرف پورا اجر و ثواب ملے گا بلکہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس کی قبولیت کا بھی یقین ہے۔
شریعت مطہرہ کی رو سے ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت اللہ تعالیٰ کی
بارگاہ میں اپنے اعمال کا جواب دہ ہے، لہٰذا اگر کسی مشترکہ خاندا ن میں
ایک سے زیادہ افراد صاحب نصاب ہیں تو سب پر فرداً فرداً قربانی واجب ہے،
محض ایک کی قربانی سب کے لیے کافی نہیں ہوگی، بلکہ تعین کے بغیر ادا ہی
نہیں ہوگی۔
گائے کی قربانی میں ’’عقیقہ‘‘ کا حصہ بھی ڈال سکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ لڑکے
کے لیے دو حصے ہوں اور لڑکی کے لیے ایک حصہ، اگر دو حصوں کی استطاعت نہ ہو
تو لڑکے کے لیے ایک حصہ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
قربانی کے جانور نے ذبح سے پہلے بچہ دے دیا یا ذبح کرنے کے بعد پیٹ سے زندہ
بچہ نکلا تو دونوں صورتوں میں یا تو اسے بھی قربان کردیں یا زندہ صدقہ
کردیں یا فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردیں، اگر بچہ مردہ نکلے تو اسے
پھینک دیں قربانی ہر صورت میں صحیح ہے۔
ذبح کرتے وقت قربانی کا جانور اچھلا کودا اور اس میں کوئی عیب پیدا ہوگیا،
یا ذبح ہوتے ہوئے اُٹھ کر بھاگا اور وہ عیب دار ہوگیا تو اسے اُسی حالت میں
ذبح کردیں قربانی ہوجائے گی۔
افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ ذاتی استعمال
کے لیے، ایک حصہ اعزاء و اقرباء اور احباب کے لیے اور ایک حصہ فقراء اور
ناداروں پر صرف کیا جائے۔ سارا گوشت رضائے الٰہی کے لیے مستحقین کو دے دینا
عزیمت اور اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ اور بصورت ضرورت شدیدہ کل یا اکثر گوشت
ذاتی استعمال میں لانے کی بھی رخصت و اجازت ہے، لیکن یہ روح قربانی کے
منافی ہے۔
نوٹ: شریعت کے مطابق ذبح کیے ہوئے حلال جانور کے مندرجہ ذیل اعضاء کھانے
منع ہیں۔ دم مسفوخ (ذبح کے وقت بہنے والا خون)، ذکر (نر جانور کا آلۂ تناسل)
گائے، بکری کے پیشاب کی جگہ (فرج)، خصیتین (کپورے)، مثانہ، دبر(جانور کے
پاخانے کی جگہ)، حرام مغرز، اوجھڑی اور آنتیں ان میں دمِ مسفوح حرام قطعی
اور باقی مکروہِ تحریمی ہیں۔
قربانی کا وقت 10 ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذی الحجہ کے غروب آفتاب
تک ہے۔ گیارہویں اور بارہویں شب میں بھی قربانی ہوسکتی ہے، مگر رات کو ذبح
کرنا مکروہ ہے۔ ایسے دیہات اور قصبات جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں
نمازِ عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔
(ذبح کا طریقہ)
قربانی کرتے وقت جانور بائیں پہلو پر قبلہ رُخ لٹائیں اور خود ذبح کریں یا
کسی سے ذبح کرائیں، چھری تیز ہو اور کم از کم تین رگیں کاٹنی چاہئیں۔
ذبح سے پہلے کی دعا
اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلیٰ
مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ
صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
o لَا شَرِیْکَ لَہ وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo
اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ (
فُلَانٍ اور فُلَانَۃٍ۔
(جس کی قربانی ہے، اس کا نام لیں اور گائے کی قربانی ہو تو سب شرکاء کا نام
لیں) پھر بلند آواز سے بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اَکْبَرُ پڑھ کر ذبح کردیں اور
ذبح میں چاروں یا کم از کم تین رگیں کٹنی چاہئیں۔
ذبح کے بعد کی دعا
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ
اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ
وسلم
اگر دوسرے کی طرف سے ہو تو ’’مِنِّی ‘‘ کی جگہ ’’مِنْ فُلَانٍ‘‘ (اس شخص کا
نام ) لیں، اگر گائے و اونٹ وغیرہ ہو تو تمام شرکاء قربانی کے نام لیں۔
9 ذو الحجہ کی نمازِ فجر سے 13 ذو الحجہ کی نماز عصر تک ہر باجماعت نماز کے
بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے یہ تکبیر کہنا واجب ہے اور تین مرتبہ کہنا افضل
ہے۔ عیدگاہ آتے اور جاتے بھی بہ آوازِ بلند یہ تکبیر کہنا چاہیے۔ اَللہُ
اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ
اَکْبَرُ وَلِلہِ الْحَمْدُ
O
قربانی کی کھال
قربانی کے جانور کی کھال قصاب کو اجرت میں دینا جائز نہیں ہے، کھال بیچ کر
اس کی قیمت صدقہ کردیں یا کسی نادار مستحق کو شخصی طور پر بھی دی جاسکتی ہے،
لیکن دینی اداروں کو دینا افضل ہے، کیونکہ یہ تبلیغ و اشاعت دین کے کام میں
اعانت بھی ہے اور صدقۂ جاریہ بھی ہے۔
پروفیسر مفتی منیب الرحمن مہتمم دارالعلوم نعیمیہ |