شاعری کیا ہے۔۔۔۔٢(نظم و اقسام،قافیہ و ردیف)

نظم:
الفاظ اور خیالات کو کسی مقصد اور پیغام کے ساتھ ایک لڑی میں پرونا نظم کہلاتا ہے۔۔۔ اردو میں نظم کی کئی اقسام ہیں۔۔

غزل:
غزل کا لفظ غزال سے نکلا ہے یعنہ کہ وہ ہرن جسے زخمی کر دیا گیا ہو اور وہ درد سے کراہ رہا ہو۔۔۔دوسرے معانی میں صنف نازک سے باتیں کرنے کو بھی غزل کہا جا تا ہے۔۔۔غزل شاعری کی مقبول تریں صنف ہے اور اس پے تفصیلا گفتگو آگے چل کر ہو گی۔۔

قصیدہ:
وہ اشعار جن میں کسی کی توصیف و تعریف کی گئی ہو،،اس میں بھی غزل کی طرح لے کا خیال رکھا جاتا ہے البتہ یہ غزل سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔۔

مثنوی:
اس میں ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیہ آتا ہے اور اسکی مخصوص بحریں ہوتی ہیں۔۔۔ فارسی میں مثنوی مولانا روم اور اردو میں مثنوی سحر البیان۔مثنوی گلزار نسیم اسکی مشہور مثالیں ہیں۔۔

مسمط؛
اس میں متعدع بند اور ہر بند میں چار مصرعے ہوتے ہیں۔اسکی ذیلی اقسام میں مثلث،مربع،مخمس،اور مسدس وغیرہ ہیں۔۔

مولانا حالی کی مشہور نظم “مدو جزر اسلام“ مسدس کی ترتیب میں لکھی گئی ہے اور عام طور پر اسے “مسدس حالی“ ہی کہا جاتا ہے۔۔۔ اقبال کی نظم شکوہ جواب شکوہ بھی مسدس ہی کی ایک قسم ہے۔۔

رباعی:

رباعی کا لفظ ربع سے نکلا ہے یعنی کہ چار۔۔اسمیں چار مصرعے ہوتے ہیں اور خاص بحروں میں ہی رباعی لکھی جا سکتی ہے۔

قطعہ؛
اس میں بعض اوقات چار شعر بھی ہوتے ہیں لیکن رباعی کی طرح نہ اسمیں چار کی حد مقرر ہے اور نہ ہی مخصوص بحریں۔۔یہ کسی بھی بحر میں لکھا جا سکتا ہے۔۔

مرثیہ:
اس نظم میں کسی وفات پا جانے والے کے حالات زندگی اور عادات و خصائل کا بیان ہوتا ہے۔۔واقعی کربلا کو زیادہ تر مرثیہ میں ہی بیان کیا جاتا ہے اور میر انیس،امیر مینائی۔ وغیرہ نے اسی صنف میں باکمال شاعری کی ہے۔۔

آزاد نظم:
اسمیں ردیف قافئے کی کوئی بندش نہیں ہوتی نہ ہی وزن کی پابندی ہوتی ہے۔۔یہ نظم کی جدید شکل ہے جو مغربی شاعری کی طرح لکھی جاتی ہے۔۔ن م راشد،میرا جی،اور مجید امجد اسکے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جدید دور میں کشور ناہید،وزیر آغا، اور تقریبا ہر شاعر روایتی شاعری کے ساتھ ساتھ اسمیں بھی طبع آزمائی کر رہا ہے۔۔

ان اقسام کے علاوہ موضوع کے حساب سے بھی نظم کی اقسام بیان کی جا سکتی ہیں جیسا کہ نعت، حمد، تذکرہ۔ مناجات،قوالی وغیرہ۔۔۔

قافیہ کیا ہے؟
ہم وزن الفاظ جو شعر کے دوسرے مصرعے میں ردیف سے پہلے آتے ہیں

ردیف کیا ہے؟
وہ لفظ یا الفاظ جو قافیے کے بعد میں بار بار آتا ہے یا آتے ہیں۔۔

مثال کے طور پر اقبال کا یہ کلام

اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں کھو گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

اس کلام میں “ اسماں،جہاں،عناں،بیکراں “ یہ ہم قافیہ الفاظ ہیں یعنی قوافی ہیں “ سمجھا تھا میں“ ہر قافیے کے بعد میں بار بار آ رہا ہے اسلئے یہ ردیف ہے۔۔

قافیے کے حروف ،حرکات اور صورتوں پر بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں مضمون کا ابتدائی مقصد ان دوستوں کی راہنمائی ہے جو ابھی ان مشکل باریکیوں میں نہیں پڑے اور لکھنے کا شوق رکھتے ہیں اور عموما پرانے لکھنے والے جن کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرے ہیں۔۔ انشااللہ ان باریک باتوں تک بھی جائیں گے لیکن بتدریج ۔۔

اگلی نشست میں انشااللہ وزن،بحور ، عروض وغیرہ پہ گفتگو ہو گی۔