محمد قُلی قطب شاہ--- بحیثیتِ شاعراورسیکولر حکمران

بابائے اردو مولوی عبدالحق ان کے کلام پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محمد قُلی قطب شاہ کا کلام چار سو برس پہلے کا ہے لیکن موجودہ زمانے کی عشقیہ شاعری کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ صرف زبان میں تھوڑا سا فرق ہے ورنہ وہی باتیں، وہی بحریں، وہی مضمون اور وہی طرزِ ادا۔

دکن کے جن مسلم حکمرانوں نے سیکولرزم اور قومی یکجہتی کی تائید کی ہے اور جنہوں نے مساوات کی بنیاد پر مشترک تہذیب کا سنگِ بنیاد رکھا ہے ان میں محمد قُلی قطب شاہ کا نام سرِ فہرست ہے۔

دکن میں گولکنڈہ پر قطب شاہی خاندان حکمراں تھا۔اردو ادب پر اس خاندان کے بڑے احسانا ت ہیں۔تاریخ شاہد ہے جس عہد میں علم کی عزّت کی گئی اُس عہد نے اونچائیوں کو چوما ہے اور یہاں بھی بالکل ایسے ہی ہوا قطب شاہی حکمرانوں نے شاعروں اور عالموں کی بڑی قدر کی اس لئے یہاں اردو ادب کے سرمایے میں بہت اضافہ ہوا۔

دکن میں قطب شاہی حکمرانو ں کے سلسلے میں پانچویں حکمران محمد قُلی قطب شاہ تھے جو ابراہیم قطب شاہ کے فرزند تھے۔ان کی پیدائش گولکنڈے میں ہوئی۔ ان کو اس اعتبار سے تاریخ ساز شخصیت کہا جا سکتا ہے کہ ۱۵۸۰ء سے ۱۶۱۱ء تک اپنے اکتیس ۳۱ سالہ دورِ حکومت میں انھوں نے اردو کو ایک مشترک زبان کی حیثیت سے اور حیدرآباد کو ایک سیکولر شہر کی صورت میں تعمیر کیا اور ان کے ذہن و فکر کی یہ دونوں تعمیریں اپنی اپنی جگہ گنگا جمنی تہذیب کا نمایا ں اور جلی عنوان ثابت ہوئیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ محمد قُلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ انھوں نے جملہ اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ۔ غزل ، رباعی ، نظمیں ، مثنویا ں ، مرثیے ، قصیدے اور تقریباً پچاس ہزار شعر کہے۔ اردو کے علاوہ انھوں نے تلگو (Telgu) زبان میں بھی شعر کہے۔ ان کی شاعری کا سب سے اہم اور روشن پہلو یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو ایک ضخیم سرمایے سے سرفراز کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے تمام اصناف ِ سُخن میں طبع آزمائی کی اور مختلیف میلوں ، تہواروں اور تقریبوں کے سلسلے میں بہت سی نظمیں لکھیں۔ اس کے آئینہ میں دکن کی مقامی تہذیب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ان کی بہت سی نظموں میں عام انسانوں کے جذبات بیان ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے گیت آج بھی اس علاقے میں گائے جاتے ہیں۔ان کے کلام کو دیکھنے کے بعد اردو کے خلاف عائد کئے جانے والے اس الزام کی تردید مہیا ہوتی ہے کہ اردو نظم میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب فارسی اور عربی سے مستعار لیا گیا ہے۔صرف نظم ہی نہیں ان کے زیرِ سر پرستی اردو نثر نے بھی اپنے ابتدائی شکل کے قدوخال ابھارے۔وجیہہ الدین وجہیؔ ان کے دربار میں ملک الشعراء تھے جنھوں نے ۱۶۰۱ء میں محمد قُلی قطب شاہ کی فرمائش پر عشق کی داستان مثنوی قطب مشتری لکھی اور ان کا نثری کارنامہ سب رس ہے جو اردو نثر کی پہلی مبسوط کتاب ہے۔

محمد قُلی قطب شاہ سرورِ کائنات محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و سلم کے فدائی اور ائمہ اہلِ بیت کے شیدائی تھے۔صرف منقبت ہی نہیں انھوں نے اپنی غزلوں میں بھی اپنے مذہبی جذبات اور دینی عقائد کا بڑے زور سے اظہار کیا ہے ایک غزل کے مقطع میں وہ کہتے ہیں کہ۔۔۔
نبیؐ صدقے قطب شہ کو نہیں آدھار کی حاجت
کہ دونوں جگ منے آدھار ہے خیرالبشرؐمجھ کو
ــ( نبیؐ کے صدقے محمد قُلی قطب شاہ کو کسی پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دونوں جہانوں میں اس کا انحصار ہے صرف خیرالبشرؐ پر )

محمد قُلی قطب شاہ کے پسندیدہ موضوعات مذہب اور عشق ہیں۔عشق کے تعلق سے یہ مشہور ہے کہ ان کے محل میں بہت سی حسین بیگمیں تھیں لیکن ان میں سے وہ بارہ کو بہت عزیز رکھتے تھے جن کا ذکر وہ بارہ پیاریوں کے نام سے بار بار کرتے ہیں۔بابائے اردو مولوی عبدالحق ان کے کلام پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محمد قُلی قطب شاہ کا کلام چار سو برس پہلے کا ہے لیکن موجودہ زمانے کی عشقیہ شاعری کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ صرف زبان میں تھوڑا سا فرق ہے ورنہ وہی باتیں، وہی بحریں، وہی مضمون اور وہی طرزِ ادا۔ اسکے علاوہ ایک روایت کے مطابق محمد قُلی قطب شاہ کو ایک خوبصورت اور انتہائی ذہین خاتون سے عشق ہوا جس کا نا م بھاگ متی تھا۔یہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ رقص وموسیقی میں بھی کمال رکھتی تھی۔محمد قُلی قطب شاہ زمانہ شہزادگی میں ہی اس پر فریفتہ ہوگئے تھے اور چھپ چھپ کراس سے ملاقا تیں کیا کرتے تھے والد صاحب نے پہلے تو انہیں باز رہنے کی صلاح دی مگر ایک بار جب اپنی محبوبہ سے ملاقات کے لئے شہزادے نے طوفانی دریا میں گھوڑا ڈال دیا تو باپ کی محبت جوش میں آئی اور انہوں نے دریا پر پُل بنوادیا تاکہ شہزادہ آسانی سے اُس پار جا کر بھا گ متی سے ملاقات کر سکے۔تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعد محمد قُلی قطب شاہ نے بھاگ متی کو حرم میں داخل کر لیا۔جب یہ خاتون بادشاہ کے حرم میں داخل ہوئی تو انھیں حیدرمحل کا لقب یا خطاب دیا گیا اور محمد قُلی قطب شاہ نے اپنی محبوب ملِکہ کے لئے پہلے بھاگیہ نگر نام کا ایک شہر آباد کیا جو آگے چل کر حیدرآباد کے نام سے مشہور ہوا۔

مقامی تہذیب نے محمد قُلی قطب شاہ کو بہت متاثر کیا۔ ہندو کلچر کے اثرات ان کی زندگی اور شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ہندو تہواروں کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے جیسے ہولی کا تہوار،علاقائی تہوار وغیرہ۔دکن کے جن مسلم حکمرانوں نے سیکولرزم اور قومی یکجہتی کی تائید کی ہے اور جنہوں نے مساوات کی بنیاد پر مشترک تہذیب کا سنگِ بنیاد رکھا ہے ان میں محمد قُلی قطب شاہ کا نام سرِ فہرست ہے۔محمد قُلی قطب شاہ نے قومی یکجہتی کے تصور کو ایک طاقت ور فلسفہ بنا دیا۔اپنے کلام کے ذریعہ لوگوں میں بھائی چارگی کی عظمت کو اُبھارا اور دوسرے مذہب کے بھا ئیوں کا ہمدرد بن کر رہنے کا درس دیا۔
IMRAN YADGERI
About the Author: IMRAN YADGERI Read More Articles by IMRAN YADGERI: 26 Articles with 34045 views My Life Motto " Simple Living High Thinking ".. View More