ایک سو پچپن ارب اثاثوں کے مالک
آصف زرداری کی کرپشن کے پانچ ریفرنسز
احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف5کرپشن ریفرنسز دوبارہ
کھول دیئے ہیں اور پراسیکیو ٹر جنرل نیب اور ملزم آصف زرداری سے14 کتوبر کو
جواب طلب کر لیا ہے ۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر خان نے جمعہ کو ملزم کو
ایس جی ایس، اے آر وائی گولڈ، ارسس ٹریکٹر’’عوامی ٹریکٹر سکیم‘‘، پولو
گراؤنڈ، اثاثہ جات اورکوٹیکنا ریفرنسز میں 14اکتوبر کے لئے نوٹس جاری کئے
اور مذکورہ تاریخ کو نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کوملزم کو حاصل صدارتی استثنی
اور اس کے خلاف بد عنوانی کے ریفرنسز پر کارروائی شروع کرنے کے حوالے سے
موقف سے آگاہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ سابق صدر کو پاکستان مسلم لیگ نواز
اور جنرل پرویز مشرف کے ادوارِ ِ حکومت میں مختلف معاہدوں ، منصوبوں اور
سکیموں کی مد میں کروڑوں روپوں کی بد عنوانی اور بین الاقوامی کمپنیوں سے
کک بیکس لینے جیسے الزامات کا سامنا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اب تک یہ
کہتی آرہی ہے کہ یہ ریفرنسز سیاسی مخالفت کی بنا پر درج کئے گئے اور اب تک
ان مقدمات کے ملزمان کی فہرست میں شامل ایک شخص پر بھی یہ الزامات ثابت
نہیں ہو سکے ۔ ایس جی ایس مقدمے میں آصف علی زرداری کو سوئٹزر لینڈ کی ایک
کمپنی سوسائٹی جنرال سرویلنس’’ایس جی ایس‘‘ کو قواعد سے ہٹ کر ایک ٹھیکہ
دلوانے کا الزام ہے ۔ نیب نے 1998ء میں یہ ریفرنس فائل کیا تھا جس کے مطابق
آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو اور سی بی آر موجودہ ایف بی آرکے سابق چیئر
مین اے آر صدیقی نے مذکورہ ٹھیکہ دئیے جانے کے عوض 6فی صد کمیشن وصول کیا ۔
ایس جی ایس ریفرنس میں اس وقت کی احتساب عدالت نے 1999ء میں سابق وزیرِ
اعظم بینظیر بھٹو کو تین برس کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے
کالعدم قرار دیا تھا اوربعد ازاں اے آر صدیقی بھی اس ریفرنس میں بے قصور
قرار دئیے گئے ۔ اے آر وائی گولڈ ریفرنس میں سابق صدر پر ایک خاص کمپنی کی
گولڈ مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کرنے میں مدد دینے اور اس کے عوض بھاری
معاوضہ لینے کا الزام ہے ۔ اس ریفرنس میں نیب نے دعوی کیا ہے کہ مذکورہ
کمپنی کو سونے کی درآمد کا لائسنس جاری کروا کر ملکی خزانے کو 1ارب 82کروڑ
کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔
چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان نے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور اس
عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے تمام ذمہ داریاں بخوبی
انجام دیں گے۔کرپشن کا خاتمہ اولین ترجیح ہے، سپریم کورٹ کے احکامات پر من
و عن عمل ہو گا۔ ہمیں قوم کے اعتماد پر پورا اترنا اور کرپشن کا مکمل طور
پر خاتمہ کرنا ہے۔ چیئرمین نیب کی حیثیت سے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر
کام کیا جائے گا اور کسی کا سیاسی اثرو رسوخ برداشت نہیں کرینگے۔ان کا بجا
طور پر کہنا تھا کہ ہم کرپشن کے ناسور میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں،نیب کو
سیاسی انتقام کے لیے استعمال نہیں کیا جائیگا۔وہ اپنا کام متوازن طریقے سے
آگے بڑھائینگے اور میرے کام میں کسی ایک طرف جھکاو نظر نہیں آئیگا۔ ان کا
یہ کہنا بھی درست ہے اور ہر شخص کے دل کی آواز ہے کہ ملک سے غربت کا خاتمہ
کرنا ہے تو پہلے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
سابق صدر کی دولت کے حوالے سے اثاثہ جات ریفرنس میں نیب 2009ء میں سپریم
کورٹ کے سامنے ایک رپورٹ پیش کر چکا ہے جس کے مطابق آصف علی زرداری کے ملک
سے باہر اثاثوں کی تعداد 1.5ارب ڈالر یا 130ارب روپے ہے جبکہ ملک کے اندر
ان کے کل اثاثوں کی تعداد 25ارب روپے سے زیادہ ہے ۔ نیب کے ریفرنس کے مطابق
آصف زرداری کے اثاثہ جات ان کی بظاہر آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ ارسس ٹریکٹرز
یا عوامی ٹریکٹر سکیم ریفرنس میں سابق صدر پر 1997ء میں پولینڈ سے
5900ٹریکٹر درآمد کرنے اور انہیں مہنگے داموں کسانوں کو فروخت کرنے کے عوض
کک بیکس لینے کا الزام ہے ۔ اس ریفرنس کے مطابق ان ٹریکٹرز کی اصل مالیت
3لاکھ روپے تھی مگر مذکورہ کمپنی سے ایک ٹریکٹر 15لاکھ روپے کا خریدا گیا
جس سے ملکی خزانے کو 26کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ پولوگراؤنڈ ریفرنس 2000ء
میں دائر ہوا، اس کے مطابق آصف علی زرداری نے وزیرِ اعظم ہاؤس میں پولو
گراؤنڈ تعمیر کروایا جس پر 5کروڑ23لاکھ روپے لاگت آئی ۔اس مقدمے میں سابق
وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو، سی ڈی اے کے سابق چیئرمین سعید مہدی اور افسرشفیع
سہوانی بھی کو بھی فریق بنایا گیا تاہم سعید مہدی کو عدالت نے بری کر دیا
جبکہ بینظیر بھٹو اور شفیع ایم سہوانی کے وفات پا جانے کے باعث کارروائی نہ
ہو سکی۔مذکورہ ریفرنسز سپریم کورٹ کی جانب سے 2009ء میں این آر او کالعدم
قرار دئیے جانے کے بعد دوبارہ کھولے گئے تھے ۔ ان پانچوں ریفرنسز کو 16
ستمبر 2008 ء کو اس وقت زیر التو ڈال دیا گیا تھا جب آصف علی زرداری ملک کے
صدر منتخب ہوئے تھے جبکہ ان ریفرنسز میں شریک ملزموں کو عدالت پہلے ہی
باعزت بری کر چکی ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر کمال کو زوال ہے اورعروج دیکھنے والے زوال سے بھی آشنا ہو
ہی جایا کرتے ہیں ۔دنیا میں ارب پتی افراد کی کمی نہیں لیکن سابق صدر ایسی
کون سا بزنس کرتے رہے ہیں کہ چند ہی سال میں وہ اتنی بڑی رقم کے مالک بن
گئے ۔پہلے سابق صدر کو استثنیٰ کی چگتری حاصل تھی اب نہیں رہی اب انہیں پھر
عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑے گی اور اس کے لئے وہ ذہنی طور پر
تیار ہیں انہیں ملک کے چوٹی کی وکلاء کی خدمات بھی حاصل ہیں اور گہرا اثر و
رسوخ بھی،اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ۔ان کی سوئس
کیسوں سے تو ایک وزیر اعظم کی قربانی دے کر تو جان چھوٹ چکی ہے ۔اب وہ کس
کس کو اپنی انا کی قربان گاہ پر چڑھائیں گے۔شورزغل کے لئے ان کے پاس افرادی
قوٹ بھی ہے اور وسائل بھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام نے انہیں خرابیوں کے پیش
نظر ہر شخص کے پاس دولت کی ایک حد مقرر کردی ہے اور کہا گیا ہے کہ ارتکاز
دولت کی صورت میں ایک حد سے زیادہ دولت کو تقسیم کر دیا جائے اور اس حد سے
زیادہ دولت نہ رکھی جائے کہ یہ وبال جان ہے ۔انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنی
پڑے گی اور عدالت ان سے انصاف کے تقاضے پورے کرے گی۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے
تو دوسری طرف بھی تماشہ دیکھیں کہغربت ، مہنگائی اور بیروزگاری سے بیزار
عوام کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ’’ نیپرا‘‘کی جانب سے کوئی
ریلیف نہ مل سکااور بجلی مہنگی ہوگئی ہے، نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں
اضافے کا نو ٹیفکیشن جاری کردیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 50 یونٹ تک استعمال
کرنے والوں کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 2 روپے فی یونٹ جبکہ 301 سے 700
یونٹ تک بجلی کی قیمت 16 روپے اور 700 سے زائد یونٹ بجلی استعمال کرنے والے
صارفین کو 18 روپے فی یونٹ ادا کرنا ہوں گے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ
بجلی نہ استعمال کرنے کی صورت میں بھی صارفین کو 75 روپے بل ادا کرنا
ہوگا۔قبل ازیں نیپرا نے اعدادوشمار کے ہیرپھیر کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی
میں بجلی کی قیمتوں کا وہی فارمولا پیش کیا جس کا اطلاق وفاقی حکومت نے یکم
اکتوبرسے کیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اسے معطل کرتے ہوئے معاملہ نیپرا کو
بھجواتے ہوئے قیمتوں پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔نیپرا کے مطابق صارفین کو
نومبر میں ریلیف دیں گے۔قبل ازیں نیپرا نے اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے بعد
سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں بجلی کی قیمتوں کا وہی فارمولا پیش کیا جس کا
اطلاق وفاقی حکومت نے یکم اکتوبر سے کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملہ نیپرا
کو بھیجتے ہوئے قیمتوں پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں
سے متعلق حکومتی اپیل پر نظرثانی مکمل کر لی اور نئے نرخ 2 روپے سے 18 روپے
فی یونٹ مقرر کر دئیے۔
دوسری طرف سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس کے دوران وزیر
مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی اور چیئرمین کمیٹی زاہد خان کے درمیان تلخ
کلامی ہوئی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی نے بجلی کے نرخوں میں
اضافہ مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ غریبوں پر بوجھ ڈالنے کی
بجائے پرانے نرخ بحال کئے جائیں۔ عابد شیر علی نے کہا کہ سب سے زیادہ بجلی
چوری خیبر پی کے میں ہو رہی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر زاہد خان برہم
ہو گئے اور کہا کہ آپ پختونوں کو گالی دے رہے ہیں آپ نے پہلے مولا بخش
چانڈیو سے بدتمیزی کی اب مجھ سے بھی اسی لہجے میں بات کر رہے ہیں اگر جواب
اسی طرح دینے ہیں تو اجلاس میں نہ آئیں جس پر عابد شیر علی نے کہا کہ میں
آپ کا پابند نہیں ہوں اجلاس میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا یہاں ایجنڈا پر
بات ہونی چاہئے۔ زاہد خان نے کہا کہ آپ لوگ خیبر پی کے سے سستی بجلی لے کر
کئی گنا مہنگی فروخت کرتے ہیں جس پر عابد شیر علی نے ایک بار پھر کہا کہ
سیاست نہ چمکائیں ایجنڈا پر بات کریں تاہم دیگر ارکان نے بیچ بچاؤ کرا کے
معاملہ ٹھنڈا کرا دیا۔اجلاس میں تو ارکان نے بیچ بچاؤ کراکے معاملہ ٹھنڈا
کودیا لیکن عوم پر ڈالے جانے والے اس بدترین معاشی بوجھ کا معاملہ کون
ٹھنڈا کرے گا ۔؟
پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے
حکومت کے اس فیصلے کے خلاف دوبارہ سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا ہے۔
پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل قمر زمان کائرہ نے کہاکہ بجلی کی قیمتوں میں
اضافے کے حوالے سے اعلی عدالتوں کے فیصلے پر عملدرآمد کو نظر انداز کرنا
اور اس پر عدالتیں کس حد تک مطمئن ہیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا ۔ پیپلزپارٹی
پوری قوم کے ساتھ سراپا احتجاج ہے اور ایک بار پھر عوام کے ساتھ مل کر
سڑکوں پر آئیں گے،سپریم کورٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور نئی حلقہ بندیوں
کے خلاف ازخود نوٹس لے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے
رہنما میاں محمود الرشید نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اتنا بڑا اضافہ غریب
عوام کے ساتھ ظلم ہے،تحریک انصاف بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہفتہ کو
پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کرائے گی جس میں پنجاب حکومت پر زور دیا جائے
گا کہ وہ وفاقی حکومت کو بجلی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے پر مجبور کرے۔
انہوں نے کہاکہ ہم ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہیں تاہم حتمی
فیصلہ ہفتہ کو اسلام آباد میں ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے
گا۔
حکومت چاہتی ہے کہ وہ ایک بار پھر ڈھیلی ڈھالی اپوزیشن کے مزے لوٹے ۔لگتا
یوں ہے کہ اس کا ایوان اقتدار میں دل نہیں لگتا اور وہ چاہتی ہے کہ انٹ شنٹ
فیصلوں پر اس کی بساط لپیٹ دی جائے مگر شاید میں نواز شریف ایسا نہیں چاہتے
۔ یوں محصوس ہو رہا ہے کہ حکومت میں شامل بااثر وزراء اور کچن کیبنٹ کے
ہارڈ لائنرز نہیں چاہتے کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں اسی لئے ایک طرف تو
عدالت سے سابق حکمرانوں کی طرح کی آنکھ مچولی شروع کردی گئی ہے تو دوسری
طرف ایسے ناپندیدہ اوع عوام دشمن فیصلے کرائے جارہے ہیں جن سے عوام کو شیر
سے متنفر کیا جارہا ہے اور لوگ اب سڑکوں پر آنا شروع ہو رہے ہیں جبکہ شامل
اقتدار نیرو چین کی بانسر ی بجا رہے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ناقابل
برداشت ہے اور عوام کو اب اس ظلم کے نظام کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا
ہوگی۔ |