جلتی عمارتیں،پھٹی کھوپڑیوں سے
نکلے دماغ،جوان بیٹوں کی موت پر نوحہ کناں مائیں،خون آلود گلیاں،رولر سے
کچلے جانے والے لوگ ،پردہ دار خواتین کی عباٗ حیا کے بکھرے چیتھڑے،منتخب
جمہوری حکومت کو گھر بھیج کر ان کے کارکنان کی بلاجواز گرفتاریں،انسانی
حقوق کی علمبردار لوگوں کی معنی خیز خاموشی یہ سب باتیں کہنے کو تو بہت
آسان اور لکھنے کو انتہائی سادہ معلوم ہوتی ہیں مگر اسمیں جمہوریت کی بات
کرنے والوں کی کلغی کھول دی ہے۔یورپ اور امریکہ سمیت دوسرے بہت سے ممالک کی
اصلیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔عربستان جو کبھی امت مسلمہ کے لیے ایک پلیٹ
فارم ہوا کرتا تھا اب اس نے اپنی حمیت ایمانی کو چند کوڑیوں کے عوض بیج
ڈالا ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے؟؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امت محمدیہ کا
اتحاد اوریکجہتی پارہ پارہ ہو کر رہ گئی ہے۔
مشہور اور غلط العام تصور ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دین ہے اور مسلمان دہشت
گردہیں۔کیا اسلامی نظام حیات کو اپنے آپ اور اپنے معاشرے میں عام کرنا دہشت
گردی ہے؟کیا اسلامی سیاسی نظام کو جمہوری انداز میں دنیا کے سامنے پیشں
کرنا دہشت گردی ہے؟کیا اکثریت کی رائے کے عین مطابق عوام سے منتخب ہو کران
کے حقوق کی بات کرنا دہشت گردی ہے؟کیا اپنی خواتین کو پردہ دار اور حیا کی
چادر سے ڈھاپنا دہشت گردی ہے؟کیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جراٗت
ودلیری سے اپنی نبی پا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی بات کرنا
دہشت گردی ہے؟؟کیا دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک اسرائیل کےنرغے میں
موجود مسلمانوں کو راہ داری دینا دہشت گردی ہے؟؟کیا مسلمان اور اسلام کے
نظام کو دنیا میں عام کرنا دہشت گردی ہے؟؟اگر یہ دہشت گردی ہے تو مسلمان
پھر دہشت گرد ہے اور دہشت گردی اسکے ایمان کا حصہ ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے
چنداں یہ فکر نہیں کہ صدر مرسی کی حکومت کو جنرل عبدالفتح السیسی جسیے کپوت
سے چند ڈالروں کی عوض فتح کروانا ہی اصل میں دہشت گردی ہے ۔مٹھی بھر سیکولر
لوگ جو امریکن ڈالروں پر پلنے کے شوقین ہیں کو جمع کر کے امت کے سپوتوں کا
اسطرح سے قتل عام ایک معمہ ہی نہیں بلکہ کسی المیہ سے کم نہیں۔
ایک اسلامسٹ حکومت کے وجو د نے پوری دنیا کی سیکولر اور لادین عناصر کو ہلا
کر رکھ دیا ۔اور یہ اسلام کی خاصیت ہے کہ جب حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے دین کی بات کی تو ان کو اپنوں نے ہی شعب ابی طالب میں محصور
کر دیا کیوں کہ اسلام سے ہر دور میں سیکولر طاقتوں کو خطرہ رہا ہے ۔اور وہ
خطرہ ہے کہ چور کو چوری سے روک دیا جا تا ہے۔زانی کو زناچھوڑنا پڑھ جاتا ہے
۔کئی ایک خداوٗں کو چھو ڑ کر خداے واحد ویکتا کی عبادت کرنی پڑتی ہے ۔پھر
کھلے عام لوگوں کی عزتوں سے کھیلنا حرام ہو جاتا ہے ۔قتل وغارت گری ایک
ناسور ٹھہرتی ہے۔پھر ایک عورت کو جنسی خواہشات پورا کرنے اور بچے جننے والی
مشین نہیں سمجھا جا تا عورت پھر ماں کے روپ میں آ کر اپنے بیٹوں کو دین حق
پر قربان کرنے والی ایک مجاہدہ قرار پاتی ہے۔اور اسکے پاوٗں تلے جنت آجاتی
ہے۔پھر بیٹی کی تربیت کرکے اسے عقد میں دینے والا جنتی قرار پاتا ہے۔پھر
ایک بیوی کو اپنےشوہر کی فرمانبردار بن کر اعلی علیین میں پہجانے کے وعدے
ہوتے ہیں ۔پھر ایک بہن کی شکل میں عورت عزت کا نشان بن جاتی ہے ۔ان تمام
حقائق کے ساتھ ساتھ عالمی دوسرے غیر اسلامی اور غیر شرعی طرق کو چھوڑنا
پڑتا ہے۔یہی وہ نقطہ ہے جس پر امت مسلمہ کو امت نہیں بنے دیا جا تا اور ان
اسلامی نظام کے نفاذسے روکا جا تا ہے ۔شراب خور اوری قبحہ گری کے عادی
لوگوں پر یہ اتنا گراں گزرتا ہے کہ وہ اپنی طاقت سے اس کو کچلنے کی بات
کرتے ہیں۔
مصر میں ہونے والی سانحہ اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے جہاں پر ایک منتخب عوامی
حکومت کو عوام کے ووٹوں سے اکثریت لے کے ایوانوں میں آئی اور انہوں نے آئین
میں اسلامی شقیں ڈالی کی ٹھان لو تو اس کو مختلف حیلے بہانے کر کے پورے
عالم کے سامنے کچل کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جمہوری اندازسے بھی اگر
مسلمان اور اسلام پسند اگر حکومت میں آئیں تو انہیں کچل دیا جائے گا۔طالبان
تو خلافت کی بات کرتے ہیں اور سرحدوں کے قائل نہیں اور جمہوریت کو نہیں
مانتے لیکن یہ تو پی ایچ ڈیز کی حکومت تھی اسے کیوں روندا گیا ؟اور انسانیت
کا قتل عام کر دیا گیا ۔مظاہر یں پر دن دھیاڑے گولیاں کیوں برسائی
گئی۔سامراجی اور کٹھ پتلیوں کی انہی چیر ہ دستیوں کی وجہ سے القاعدہ جسیسی
تنظیم وجود عمل میں آئی ۔اس وقت نہ صرف عالمی صیہونی طاقتیں اس پر کچھ
بولتی نظر آرہی ہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں کرایے کے ٹٹو حکمران اور این
جی اوز انسان انسان کرتے نہیں تھکتیں کا ناطقہ بھی بند ہے۔ان حالات میں
تمام مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں ۔شاید
الطاف حسین حالی نے انہی حالات کے لیے کہا تھا اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا
ہے ۔۔۔۔۔۔امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے ۔۔۔۔۔ |