ایک غیر پارلیمانی لطیفہ

لطیفہ غیر پارلیمانی ہے۔ اکثر سننے سنانے کے قابل لطائف غیر پارلیمانی ہی ہوتے ہیں لیکن اساتذہ یاـ" استاد" کالم نگار انہیں اپنے کالم میں یوں سموتے ہیں کہ سمجھ والوں کو بات سمجھ میں آ جاتی ہے اور نا سمجھوں کو سمجھانے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔محترم عطاء الحق قاسمی اس فن کے بانی اساتذہ میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ لطیفے کی حد تک انہی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے آج ایک غیر اخلاقی لطیفہ اخلاقیات کے چاندی ورق میں لپیٹ کے آپ کی خدمت میں پیش ہے۔لطیفے کی حد تک اس لئے کہ استاد محترم گھر سے مسجد کے لئے نکلیں تو بھی قدم ان کے رائے ونڈ ہی کی کسی مسجد کی جانب ہوتے ہیں ۔مزے کی بات ۔۔۔۔۔۔۔خیر چھوڑئیے جس گلی جانا نہیں اس کا نام کیا لینا۔

لطیفہ سنئیے اور اگر سر ہے تو اسے دھنئیے۔ پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا جو بڑا ظالم تھا جیسا کہ پرانے زمانوں کے بادشاہ ہوا کرتے تھے۔آجکل تو بادشاہت ختم ہو کے رہ گئی ہے۔اب تو لوگ اپنے حکمران خود ہیں۔جمہوریت کا دور دورہ ہے جو کہ بہترین انتقام ہے ۔ پاکستانی عوام چونکہ بنیادی طورپہ منتقم مزاج واقع ہوئے ہیں اس لئے خود ہی بجلی مہنگے کرتے ہیں ۔خود ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں ۔اپنے بچے اپنے ہی ہاتھوں بیچ کے خود کشیاں بھی خود ہی کرتے ہیں۔ خیر انہیں بھی چھوڑیں۔ذکر تھا پرانے زمانے کے بادشاہ کا جو بڑا ظالم تھااور جیسا کہ بادشاہ اس زمانے میں ہوا کرتے تھے۔اس کا دستور تھا کہ مردوں کے کفن اتروا لیا کرتا۔آجکل یہ گندا اور اخلاق سے گرا ہوا کام کوئی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔انسانی حقوق کی تنظیمیں آسمان سر پہ اٹھا لیتی ہیں۔اس سے پاکستان کے حکمرانی عوام میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ کہیں ورلڈ بینک قرضے کی اگلی قسط ہی نہ روک لے۔ اس کا حل انہوں نے یوں نکالا ہے کہ حالات ایسے پیدا کر دئیے ہیں کہ لوگوں نے مرتے وقت کفن پہننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ خیر کفن کو بھی چھوڑیں اور ملالہ کو بھی اور لطیفہ سنیں۔پرانے زمانے کا بادشاہ جو بڑا ظالم تھا۔مردوں کے کفن اتارا کرتا تھا۔ پھر وہ مر گیا۔کمال یہ کہ آجکل کے بادشاہ مرتے نہیں بس دفن ہو جاتے ہیں۔جیسے حالیہ الیکشن کے بعد ایک پارٹی دفن ہو گئی ہے۔دفن تو دوسری بھی ہو گئی تھی لیکن اسے گورکنوں نے مل کے دفن کرنے کی بجائے تخت پہ لٹا دیا ہے۔خیر اس پارٹی اور اس کے تخت کو بھی چھوڑئیے۔لطیفہ سنئیے۔

بادشاہ تھا ظالم تھامردوں کے کفن اتار لیتا تھا۔مر گیا تو اس کا بھتیجابادشاہ بن گیا۔ویسے بھتیجے ،بھانجے بنتے تو ہمارے ہاں بھی ہیں لیکن بادشاہ نہیں۔جو بنتے ہیں وہ آپ بھی جانتے ہیں اس لئے اسے بھی چھوڑیں اور لطیفہ سنیں۔بادشاہ تھا ظالم تھا مردوں کا کفن اتارتا تھا۔مر گیا تو اس کا بھتیجا بادشاہ بن گیا۔اس نے اعلان کیا۔ویسے اعلان تو ہمارے ہاں بھی لوگ کرتے ہیں لیکن جب لوگ ان کے اعلانوں میں پھنس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بھائی انتخابی نعروں کو سیریس لیں گے تو مایوسی بڑھے گی۔ خیر ان نعروں اور انہیں لگانے والوں دونوں پہ لعنت بھیجیں اور لطیفہ سنیں۔ظالم بادشاہ۔مردوں کا کفن چراتا۔مر گیا اور اس کا بھتیجا بادشاہ بنا ۔اس نے اعلان کیا کہ میں کچھ ایسا کروں گا کہ لوگ چاچا جی کو بھول جائیں گے۔کہتے ہمارے ہاں بھی ہر نئے آنے والے یہی ہیں کہ ہم ایسا نظام حکومت لائیں گے کہ لوگ پچھلی حکومتوں کو بھول جائیں گے۔پھر واقعی وہ ایسا نظام لاتے ہیں کہ لوگ پچھلی حکومتوں کو بھول جاتے ہیں۔نئی حکومت جتنے نوٹ صرف چار مہینوں میں چھاپتی ہے اتنے سابقہ حکومتیں اپنے پورے دور میں نہیں چھاپ پائی تھیں۔بجلی گیس کی قیمتیں جتنی اس حکومت نے بڑھائیں پچھلی تین حکومتیں ملا کے بھی نہیں بڑھا پائیں تھیں۔روپے کو جتنا بے قدرا اس عوامی حکومت نے کیا کوئی اور نہ کر سکا۔خیر اسے بھی چھوڑئیے اور لطیفہ سنئیے۔ایک بادشاہ تھا بڑا ظالم مردوں کے کفن اتارا کرتا۔پھر وہ مر گیا اس کا بھتیجا بادشاہ بنا اس نے اعلان کیا کہ میں کچھ ایسا کروں گا کہ لوگ چاچا جی کو بھول جائیں گے۔اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے اپنے سمدھی کو مشورے کے لئے بھی طلب کیا۔بادشاہوں کے ہاں مشورے خاندان کے اندر ہی ہوتے تھے۔ بھائی کسی صوبے کا صوبیدار تو بھتیجا کسی علاقے کاکوتوال،سمدھی خزانے کا سانپ تو بھانجا فوج کا سالار،اور تو اور بادشاہوں کے داماد اور ان کی بیویوں کے رشتہ دار بھی ان کی بادشاہت کے مزے لوٹا کرتے تھے۔مشورے آج بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔سمدھی آج بھی مشورے کے لئے طلب کئے جاتے ہیں۔اور مشورے بھی وہ وہی دیتے ہیں جو اس وقت کے سمدھی نے دیا تھا۔

مجھے پتہ ہے اب آپ نے مجھے اور میرے لطیفے دونوں پہ تبرا شروع کر دیا ہے۔آپ میں صبر نہیں اسی لئے آپ کے حالات نہیں بدل سکتے۔ حکومت بھی تو آپ کے ساتھ یہی کر رہی ہے۔وہ بھی آپ کو انتخاب سے پہلے سبز باغ دکھاتی ہے۔یہی سبز باغ جب تک کالا باغ نہیں ہو جاتاآپ اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور پھر مایوس ہو کے دوبارہ اس کفن چور کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ ان سے تو وہی اچھے تھے اور اس طرح اگلے الیکشن میں پھر انہی چوروں کی لاٹری نکل آتی ہے۔میں نہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح ظالم ہوں نہ نئے زمانے کے جموروں کی طرح سفاک ۔آئیے آپ کو لطیفہ سنا ہی دوں۔بادشاہ تھا ظالم تھا۔مردوں کے کفن اتارا کرتا۔مر گیا بھتیجا بادشاہ بنا اعلان کیا کہ کچھ ایسا کروں گا کہ لوگ چاچا جی کو بھول جائیں گے۔سمدھی سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ آپ مردے کے کفن کے ساتھ اس کی آنکھیں بھی نکال لیا کریں ۔یہی تو آج کا سمدھی بھی کر رہا ہے۔کیا کہا اس لطیفے میں کہیں ڈنڈے کا بھی ذکر تھا۔ہاں تھا پر وہ اب مردوں کے لئے نہیں زندوں کے لئے مختص ہے۔آپ اسے محسوس تو کریں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291803 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More